فتنوں کے اس دور میں

 متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن
مرکزی ناظم اعلیٰ :اتحاد اہل السنت والجماعت پاکستان

جدیدیت کا دور دورہ ہے، سائنسی اور مادی ترقی کی محیر العقول ایجادات آئے روز بڑھ رہی ہیں، دنیا گلوبلائزیشن کا روپ دھار چکی ہے۔انسان مصروف سے مصروف تر بنتا چلا جا رہا ہے، اس کا اٹھنے والا ہر قدم زندگی کی محدود سلطنت سے نکل کر موت کی منزل کی طرف مسلسل بڑھ رہا ہے ۔

اس کو وہ وقت یاد ہی نہیں ہے کہ جب اس کے خالق اور مالک نے اس کو وجود بخشا ،گِل و آب کو انسانی سانچے میں ڈھالا ، عقل و خرد کو اس کے خمیر میں گوندا، نفع و نقصان کی پہچان دی ، کامیابی اور ناکامی کے رستوں کی نشاندہی بھی کردی، وھدینٰہ النجدین ۔

معاملہ یہاں ختم نہیں ہوتا۔ اس کی فطرت میں ذہول و نسیان کا عنصر بھی تھا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے انبیاء کرام علیہم السلام کی بعثت کا سلسلہ جاری کیا تاکہ ”عہد الست“ ذہن نشین رہے۔ یہاں تک کہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی بابرکت آمد ہو ئی ۔ قصرِ نبوت کی تکمیل سے اتمامِ نعمت کا عظیم احسان بھی ہوا ۔

اسلام آیا……… ہدایت کے چراغ جگمگانےلگے،کفروشرک کے اندھیرے چھٹنے لگے ، معاشرتی بدتہذیبی کافور ہونے لگی ، ادیانِ عالم میں اسلام کی ہمہ جہتی اور عالمگیریت کا سِکَّہ چلنے لگا ۔

خالقِ دوجہاں کی طرف سے محبوبِ دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا دستور عطا کیا گیا کہ جس میں امیر غریب ، کالے گورے ، عربی عجمی ، شہری دیہاتی ، نسب نسل، قوم قبیلہ ، برادری و خاندان کی کمتری و برتری کا تصور مٹ گیا ۔ امن و سکون ، عدل و انصاف، چین و راحت ، فرحت و سرور صرف عرب میں ہی نہیں بلکہ کائنات کے چپے چپے میں عام و تام ہوگیا ۔یعنی اسلام نے عرب کی حدود سے تجاوز کرکر کے ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ، پھیلا اور پھیلتا ہی چلا گیا ۔

چونکہ اسلام ایک جامع مذہب کی حیثیت سے اپناتعارف کراتا ہے، اس لیے دنیا بھر کے انسانوں کی قبل از پیدائش تا بعد از وفات تک ساری رہنمائی کی ذمہ داری لیتا ہے ۔جو لوگ اس کو محض عبادات کے خود ساختہ خول میں قید کرتے ہیں وہ غلطی پر ہیں ۔ یہ بھی ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ اسلام کے مسلَّمات، بنیادی نظریات اور اساسی عقائد میں زمانے کے بدلنے سے کوئی تبدیلی نہیں آسکتی ۔

توحید کل بھی لازمی تھی ، رسالت پر ایمان کل بھی ضروری تھا ،ختمِ رسالت پر ایقان کل بھی فرض تھا ،آخرت پر اعتقادکل بھی ابدی نجات کا ایک ذریعہ تھا اور یہ ساری باتیں آج بھی ہیں اور ہمیشہ ہی رہیں گی ۔

ایک طرف اسلام ہے تو دوسری طرف کفربھی موجود ہے ۔یہودیت ، عیسائیت ،مورتیوں اور بتوں کے سامنے جبین نیاز جھکانے والے ، قبروں اور آستانوں پر ناک رگڑنے والے ،آگ اور ستاروں کی پرستش کرنے والے ، درختوں اور پتھروں کو معبود ماننے والے ،سورج و چاند کو الٰہ سمجھنے والے اور دیگر اہل باطل اپنی اپنی کاوشوں میں مگن ہیں ۔

ہمارے زمانے میں اہل اسلام کوراہ راست سے ہٹانے اور ورغلانے کے لیے کئی طرح کے حربے استعمال کیے جارہے ہیں، ٹی وی کی روشنی سے لے کر موبائل کی اسکرین تک ، کتاب کی تحریر سے لے کر منبر ومحراب کی تقریر تک؛ہرطرف سے دشمن دین چوُمکھی لڑائی لڑ رہا ہے ، ذہنی غلامی سے لے کر جسمانی تشدد تک ، اہل اسلام کوہر طرح کے شکنجوں میں کسا جارہا ہے۔

اسی میں دشمنانِ دین کی پیداوار مخلوق بھی نمودار ہو رہی ہے ، نت نئے فتنے جنم لے رہے ہیں ،ہرروز کوئی ”اسکالر“ اور ”پروفیسر“اٹھ کر احکامِ اسلام اور عقائد اہل السنت کو تختۂ مشق بنائے ہوئے ہیں ۔مسلم قوم کو کفارکے کچوکے پہلے ہی زخمی کر چکے ہیں، پھر اہل الحاد وبدعت کے ہاتھوں ان پر نمک پاشی کا ستم ۔ الٰہی ! اس قوم کا کیا ہوگا!!!

لیکن اے مسلمان !تجھے تیرے خالق و مالک نے فطرتِ سلیم اورعقل مستقیم عطا فرمائی، ایمان کی عظیم نعمت سےنوازا ۔تجھے قرآن دیا ، اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان دیا ،اپنے برگزیدہ بندوں کا کردار دیا ۔ اپنے اسلاف اور اکابرکے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے باطل کو چاروں شانے چت کردیں ۔

میدان ،کارزار بنے ہوئے ہیں،رزم گاہیں گرم ہیں،مختلف تقاضوں کے پیشِ نظر کئی ایک محاذ سجے ہوئے ہیں،ہراِک دامن پھیلا پھیلا کر اپنے طرف بلا رہا ہے، سب سے پہلا میدان عقیدے کا ہے ۔ اس کے لیے دینی مدارس میں وہ تعلیم دی جا رہی ہے جو مکہ مکرمہ میں کوہ صفا پر،غارِ حراء ،میں مدینہ منورہ کی سرزمین پراور طائف و حجاز کے تپتے صحراؤں سے لے کر بیت المقدس تک اور وہاں سے عرش معلیٰ تک نبی علیہ السلام کو ملی ۔ وحی الٰہی اور احادیثِ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ رہنما اصول پڑھائے اور سکھلائے جار ہے ہیں جس کی معاشرے کو اشد ضرورت ہے ۔

دنیا بھر میں علماء کرام وحی کی روشنی بانٹ رہے ہیں علوم نبوت کی ضو فشانی سے کرہ ارضی کو منور کر رہے ہیں ، اصلاح معاشرہ میں سب سے اہم کردار ادا کر رہے ہیں بھولی بھٹکی انسانیت کو وہی درس دے رہے ہیں جس سے خود انسان میں اور جس معاشرے میں وہ سانس لے رہا ہے دونوں میں سکون نصیب ہوگا ۔

علماء کی مجالس میں شرکت کرنے والے اس سے بخوبی آگاہ ہوں گے کہ ان کی زبان پر خدائے لم یزل کا وہ فرمان جاری رہتا ہے : واعتصموا بحبل اللہ جمعیا ولا تفرقوا۔اور ہادی عالم سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ عن ثوبان قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انما اخاف علی امتی ائمۃً مضلین قال وقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لا تزال طائفۃ من امتی علی الحق ظاہرین لا یضرھم من خذلھم حتی یاتی امر اللہ ۔
سنن ترمذی ج 2 ص 494

آج دیکھا جائے تو ہم اسی دور میں ہی ہیں ۔ہر طرف فتنوں کی یلغار ہے ، وہی لوگ دین دشمنی کر رہے ہیں جن کو لسان نبوت نے ائمۃ مضلین یعنی گمراہ گروں کے سردار قرار دیا ہے ۔ان سے بچائو کی صورت وہی ہے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمائی ۔ اہل السنت والجماعت ہی قیامت کے دن کامیاب ہوں گے ۔جوراہزن ؛راہبروں کے روپ میں عوام کے ایمان و عمل برباد کررہے ہیں ہم ایسے لوگوں کی نشاندہی کر کے عقائد و نظریات اور مسائل کا تحفظ کر رہے ہیں ، ان کے بارے میں ہمارے ہاں مرکز اہل السنۃ والجماعۃ میں علماء کرام کے لیے ایک سال کے کورس کا انعقاد کیا جاتا ہے جس میں درج ذیل علوم و فنون پڑھائے جاتے ہیں :
تجوید و قرأت ،اصولِ تفسیر، تفسیر ،اصولِ حدیث ، حدیث،اصولِ فقہ ، فقہ ، اصولِ مناظرہ ، مناظرہ ، تقابلِ ادیان ،حفظ ِاحادیث،اجراء صرف و نحو، تحریر و تقریر ، مقالہ نگاری، فلکیات، کمپیوٹر وغیرہ ۔اس کے ساتھ ساتھ تربیتی مزاج کو ملحوظ رکھتے ہوئےخانقاہی ماحول بھی میسر کیا جاتا ہےتاکہ تصوف و سلوک ، تزکیہ و احسان، طریقت و معرفت کے اس ماحول میں ان کی اصلاح نفس ممکن ہو ۔اس کا اہتمام اس لیے کیا جاتا ہے تاکہ یہی سربراہانِ قوم کل کو قیادت وسیادت کریں گے تو صحیح عقیدہ اور صحیح مسائل بتائیں گے ۔ اس کے لیے پوری ”سنی “ قوم سے التماس ہے کہ ہم سب کے لیے دعا فرمائیں اللہ کریم دین کی خدمت کے لیے قبول فرمائے اور پھر اس خدمت کو اپنی بارگاہ میں بھی قبول فرمائے ۔آمین بجاہ النبی الامی الکریم ۔
والسلام
muhammad kaleem ullah
About the Author: muhammad kaleem ullah Read More Articles by muhammad kaleem ullah: 107 Articles with 109651 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.