شا دی کرنی ہے تو گیسٹ ہاؤس چلو

فروری 1997 کا تیسرا ہفتہ تھا کہ میری شادی کا دن طے ہوا۔رشتہ بھی اسی ماہ ہوا تھا لیکن میرے ہونے والے سسر صاحب کو ایک مسلۂ درپیش تھا کہ ان کی چھٹی ختم ہو رہی تھی۔وہ سعو دی عرب کی ایک کمپنی میں نوکری کرتے تھے جہاں قواعد وضوابط کچھ زیادہ سخت تھے۔طے یہ ہوا کہ تیسرے ہفتے میں ہی شادی کر دی جائے۔گھر مٹی سے بنا ہو ،سڑک بھی ناہموار یعنی (مٹی کی)کی ہو ،سردی بھی طوفان ہو،بارش کا بھی امکان ہو تو یہ خطرہ کیسے مول لیا جائے کہ شادی گھر میں ہی کی جائے ۔چناچہ دل میں یہ فیصلہ کیا کہ شادی گھر کی بجائے کسی گیسٹ ہاؤس میں کی جائے۔اس وقت پرائیویٹ گیسٹ ہاؤس تھے نہ اس طرح کا کوئی ہوٹل جہاں فنکشن کیا جاسکے۔پی ڈی اے کے پاس ایک گیسٹ ہاؤس تھا جہاں یہ سہولت میسر تھی لیکن سٹاف کو اس طرح کا فنکشن کروانے کا کوئی تجربہ نہ تھا۔سیکرٹری پی ڈی اے ہی اس وقت سب کچھ تھے کیونکہ چیرمین چھٹی پر تھے ۔انہوں نے کمال مہربانی کی کہ کچھ میری شرائط مانیں اور کچھ اپنی منوائیں ،یوں میرے سسرال والوں نے بھی نیم رضامندی دی تو مجھے یہ اعزازحاصل ہوا کہ کم از کم میری معلومات کے مطابق وہ پہلی شادی تھی جو گھر سے باہر کسی گیسٹ ہاؤس میں ہوئی۔محلے کی کئی خواتین کو سخت اعتراض تھا کہ ’’ڈولی‘‘گھر میں ہی جانی چائیے بلکہ قریبی رشتے داروں کو اکسایا گیا کہ آپ ڈٹ جائیں کہ شادی گیسٹ ہاؤس میں نہ ہو۔کچھ سنجیدہ لوگ بھی معترض تھے کہ یہ دیکھاوا ہے جو ہمارے رسم ورواج پر کاری ضرب ہے۔لیکن انہیں شاید ان مجبوریوں کا علم نہ تھا یا علم ہونے کے باوجود لاعلمی ظاہر کر رہے تھے جو میں نے اوپر بیان کی ہیں۔شادی کے تین دن ان سب لوگوں کے اچھے گذرے جو کسی نہ کسی طور اس شادی سے جڑے ہوئے تھے۔انہیں ایک اچھا موضوع مل گیا تھا جس پر وہ کئی گھنٹوں بحث کر سکتے تھے۔شادی میں شرکت کرنے والوں کی اکثریت یہ ’’فتویٰ‘‘ دے کر رخصت ہوئی کہ ’’ اللہ خیر کرے شادی چل جائے پتہ نہیں گیسٹ ہاوس والی شادیاں چلتی بھی ہیں کہ نہیں‘‘خیر وہ تو چل گئی لیکن پھر کیا ہوا کہ جیسے رسم ورواج ہی بدل گئے۔گویا اب کوئی شادی گھر میں کرے تو اسے ’’نیم ماڈرن‘‘ سمجھا جاتا ہے۔2012-13 کے اعداد وشمار کے مطابق راولاکوٹ اور نواحی علاقہ جات میں ہونے والی80 فیصد شادیاں کسی بڑے ہوٹل یا گیسٹ ہاؤس میں ہوئی ہیں ۔رواں سال کے آخر تک شاید یہ اعداد وشمار سو فیصد تک پہنچ جائیں جو ایک خطرناک حد ہے۔

گیسٹ ہاؤس یا شادی ہالوں میں شادی کرنے کا رواج شہروں میں تو عام ہے اور کئی عرصے سے چلا آرہا ہے لیکن ہمارے ہاں آنے میں اسے دیر لگی ہے،اس بدلتے رسم ورواج کے فائدے ضرور ہوئے لیکن ہمارے اپنے رسم ورواج کو سخت دھچکا پہنچا۔مثال کے طور پر ’’مانی‘‘ کی رسم ،ڈھول باجے،تاش کا رات گئے تک کھیل،’’کڑوللی‘‘ خواتین کے لوک گیت وغیرہ،اب تو شادی میں آنے والوں کی ترجیحات بدل گئی ہیں۔مخصوص وقت کے لیے شادی میں آنے والوں کی پہلی نظر کھانے پر اور دوسری سویٹ پر لگی رہتی ہے۔پچاس فیصد مہمان تو محض اس لیے آتے ہیں کہ نہ گئے تو ناراضگی ہو جائے گی،لیکن جب شادیاں گھروں میں ہوتی تھیں تو کئی دنوں تک دولہا دولہن کہ ہاں مہمانوں کے ڈھرے لگے رہتے تھے۔لکڑیاں کاٹنے سے لے کر چاولوں کی صفائی تک کے کام باہر کے لوگ کرتے تھے۔دولہن کی سہیلیاں کئی دن پہلے پہلے آجاتی تھیں۔لیکن اب سب کچھ بدل گیا حتیٰ کہ رشتہ مانگنے کا طریقہکار تک تبدیل ہو گیا ۔پہلے زمانے میں تو ’’بند اور باقر خانیاں ‘‘اہم جزو ہوتے تھے لڑکے والوں کے رشتے دار لڑکی والوں کے ہاں لے کر جاتے تھے۔اب پہلی بات تو یہ ہے کہ نوبت ہی نہیں آتی اور اگر آبھی جائے تو ’’رس گلوں‘‘ نے ’’بند اور باقر خانی‘‘ کی جگہ لے لی ہے۔ہر گاوں میں ایک دو ایسے لوگ ہوتے تھے جو رشتے کے پراسس کے دوران پیغام رسانی کا کام کرتے تھے۔اب ایس ایم ایس پر کام چل جاتا ہے۔بات گیسٹ ہاوس یا شادی ہالوں میں شادی کی چل رہی تھی لیکن آگے نکل گئی۔اس میں قطعا کوئی قباعت نہیں کہ شادیاں گیسٹ ہاوس یا شادی ہالوں میں کیوں ہو رہی ہیں ،زمانہ بدل گیا اور ہر کوئی اس تبدیلی کو محسوس کر رہا ہے،لیکن محض دکھاوے کو ضرورت بنانے سے ہمارا دیہاتی کلچر ختم ہو جائے گا جسے زندہ رکھنا ضروری ہے اور اس کے لیے حکومت کچھ نہیں کرے گی ہر گاؤں کے لوگوں کو خود ہی کچھ کرنا ہے۔امیر اور غریب کی تمیز مٹانے کے لیے اورگھر سے باہر شادی کرنے کا شوق پورا کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ ہر گاؤں میں ایک کمیونٹی سنٹر ہو جو سب کا مشترکہ ہو اور جہاں ایک ہی طرح کی شادیا ں ہوں ۔اس کمیونٹی ہال کی فیس بھی ہو جو کمیٹی کے پاس جمع ہو۔اس سے ایک تو کسی حد تک یہ شادیاں دیہاتی کلچر کی عکاس ہوں گی۔اجتماعیت نظر آئے گی اور گاؤں کے لوگ امیر ہوں یا غریب ایک ہی طرح کی شادیاں کریں گے،ورنہ اگر سلسلہ یہی جاری رہا تو مستقبل میں شادی کی رسم کو ادا کرنا ہی مشکل ہو جائے گا ۔ممکن ہے دولہا یا دولہن والے دعوت نامے میں یہ بھی لکھیں کہ ’’کہ شادی میں شرکت کرنے والے کو کھانے کے علاوہ نقد رقم اور قرعہ اندازی کے ذریعے انعام بھی دیاجائے گا‘‘۔ممکن ہے کہ اب شادی کارڈ ز سمیت ہر چیز کمرشل ہو جائے اور اسے کوکوکولا اور پپسی جیسے یا پھر باسمتی چاول فروخت کرنے والے ٹریڈرز سپانسر کریں ۔دولہن کو دیے جانے والے عروسی لباس کی قیمت مرغ فروش یونین اس شرط پر ادا کر دے کہ دولہا اور دولہن کے خاندان آپس کے معاملات طے کرتے وقت یہ بھی طے کریں گے کہ مرغ روسٹ بطور ڈش کھانے میں ضروری ہو گی ۔ویسے بھی اب مرغ روسٹ نے بسکٹ کی جگہ تو لے ہی لی ہے۔
Abid Siddique
About the Author: Abid Siddique Read More Articles by Abid Siddique: 34 Articles with 38346 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.