ابن بطوطہ سے لے کر ابن انشا تک طوطے جس انداز میں فکری ارتقا کے مدارج طے
کرتے آرہے ہیں وہ ہر عہد میں طوطا چشم افراد کے لیے چشم کشا بھی ہے اور قبض
کشابھی ۔ جب بھی میرا پالاکسی طوطا چشم سے پڑتا ہے مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے
کہ میری روح قیض کی جارہی ہے اہل ہنر کی خاک پر قبضہ کرنے کی ٹھان لی گئی
ہے ۔ طوطے فریب صنعت ایجاد کی انوکھی صورت ہیں ۔سبز رنگ کی وردی میں ملبوس
یہ طیور نہ صرف سبز باغ دکھانے میں ید طولی رکھتے ہیں بلکہ ساون کے اندھوں
کو خواہ کتنی ہی دور کی سوجھے یہ ہمیشہ ہر ے ہی دکھائی دیتے ہیں۔ طوطے کے
مراسم گرگٹ سے ہمیشہ کشیدہ رہے ہیں ۔ گرگٹ محض رنگ بدلتا ہے جب کہ طوطا
ڈھنگ بدلتا ہے۔گرگٹ سرعت سے چولا بدلتا رہتاہے جبکہ طوطا بڑ بولا بن کر
اپنے منہ میاں مٹھو بنا رہتا ہے اور اپنی چونچ مال مفت میں پیوست کرنے پر
ادھار کھائے بیٹھا ہر کسی کے درپئے پندار و درپئے آزار رہتا ہے ۔
شیخ چلی سے لے کر شیخ سعدی تک تمام اہل دانش کا اس امر پر اتفاق ہے کہ
طوطااپنی جسمانی ساخت اور ہیئت کذائی کے باعث طلسم ہوش ربا کا مظہر ہے ۔میرے
جاننے والوں میں بد قسمتی سے ایک ایسا شخص بھی شامل ہے جو فلسفے کی ابجد سے
یکسر نا بلد ہے مگر رواقیت کا داعی بن بیٹھاہے ۔اس کا دعویٰ ہے کہ طوطوں کا
آبائی مولد سبزوار ہے لیکن کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ طوطوں کی آنول نال سبزہ
زار میں گڑی ہے ۔طوطوں کی نسل کے ارتقا پر ابلق ایام کے سموں کی گرد اس طرح
پڑی ہے کہ تمام منظر نامہ ہی دھندلا گیا ہے ہاتھ کو ہاتھ اور طوطے کو طوطا
سجھائی نہیں دیتا۔اس کے باوجود فریب خیال نے تخیل کی شادابی سے ایسے سیکڑوں
مناظر تلاش کر لیے ہیں جن میں طوطے من موتے ہر ڈال پر نگاہ ڈال کر اپنے
وجود کا اثبات کرنے پر تل گئے ہیں اور اسی کشمکش میں وہ کوڑیوں کے بھاوء تل
رہے ہیں۔میرے فلسفی واقف حال کا دعویٰ ہے کہ ڈائنو سار کے معدوم ہونے کی
بڑی وجہ طوطے ہیں ۔وہ یہ دور کی کوڑی لائے ہیں کہ زمانہ قبل از تاریخ میں
طوطے ڈائنو سار کے مانند قوی الجثہ ہو تے تھے ۔یہ ایک ایسے جنگل میں رہتے
تھے جس میں ظاہر ہے کہ جنگل کا قانون پوری قوت اور درندگی کے جبر کے ساتھ
نافذ تھا۔اس عہد ستم میں ڈائنو سار تو یکسر معدوم ہو گئے مگر طوطے اس قدر
مغموم ہوئے کہ گھل گھل کر ان کا سائز مو سا ہو گیا ۔طوطا اپنی موجودہ شکل
میں اپنے قدیم حلیے اور جسامت کا عشر عشیر بھی نہیں۔
ماہرین حیوانات نے سالہا سال کی تحقیق کے بعد افادیت سے معرا اور تصنع سے
لبریز جو نتائج اخذ کیے ہیں وہ خفاش منش انسانوں کے اسلوب شپرانہ کی مکمل
صور ت سامنے لاتے ہیں۔بعض سفہانے طوطے کی ہجو گوئی کو وتیرہ بنا رکھا ہے ۔طوطے
کے بارے ان کے غیظ و غضب کا یہ عالم ہے کو طوطے کا نام سنتے ہی ان کی بھویں
تن جاتی ہیں اور منہ سے جھاگ کے ساتھ ساتھ عف عف کی آوازیں از خود نکلنا
شروع ہو جاتی ہیں ۔محکم انسداد بے رحمی حیوانات اس تمام صورت حال کو دیکھتے
ہوئے بھی ٹس سے مس نہیں ہوتا۔بعض کرگس زادے اس بات پر شدید اضطراب میں
مبتلا ہیں کہ کہیں طوطے کی نسل ہی عنقا نہ ہو جائے ۔اس سے پہلے ہما اور
ققنس جیسے جاہ و جلال والے طیور آوارہ اس جانکاہ صدمے سے گزر کر تاریخ
حیوانات کے طوماروں میں دب چکے ہیں ۔اس خدشے کو ملحوظ رکھتے ہوئے ایک طوطے
والے نجومی پروفیسر نے عالمی طوطا کانفرنس بلانے کی تجویز زیر و زبر کر کے
پیش کی ہے ۔اس کا خیال ہے کہ طوطوں کے ساتھ نا روا امتیازی سلوک روا رکھا
جا رہا ہے اور اس طرح انتہائی حیوانی حقوق کی گوشمالی کا سلسلہ جاری ہے ۔جب
تک طوطوں کو تمام شکوک و شبہات فارغ خطی نہیں مل جاتی طوطے بین کرتے رہیں
گے ۔نہ خود چین سے زندگی بسر کریں گے اور نہ ہی اپنی ٹیں ٹیں سے کسی کو چین
سے رہنے دیں گے ۔ اس لرزہ خیز صور حال کے با وجود کہ یہاں یہ رسم چل نکلی
ہے کہ کوئی بھی سر اٹھا کر نہ چلے طوطوں کی گوشمالی کے مطالبے مسلسل سر
اٹھا رہے رہے ہیں ۔ہر طرف وہ ہا ہا کار مچی ہے کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں
دیتی۔ آپ جس طرف بھی آنکھ اٹھائیں گے لا تعداد طوطوں کو مفت کی چوری کھاتا
پائیں گے ۔
فرزانگی ہو ،عشق ہو ،تادیب ہو کہ یاس طوطا وہی ہے وقت پہ جو کام آ گیا
طوطے کی طوطا چشمی کو دیکھ کر ضمیر فروش رشک کے مارے اسے آہ بھر کر دیکھتے
ہیں بالکل اسی طرح جیسے محبوب کی سیاہ چشمگی کو دیکھ کر سرمہ فروش حسد اس
کی آنکھو ں کو دیکھتے ہیں اور بے اختیار ان کی آہ نکل جاتی ہے ۔ماہرین
بشریات کو بہت دیر سے ہی سہی بہت دور کی سوجھی ہے ۔ان کا خیال ہے کہ طوطے
کی طوطا چشمی اور محبوب کی سیاہ چشمگی دونوں کی کیفیت بالکل ایک جیسی ہیں ۔جس
طرح قید حیات اور بند غم اپنی اصلیت کے اعتبار سے ایک ہیں اسی طرح محبوب
اور طوطے میں بہت سی چیزیں مشترک ہیں ۔ایسی مو شگافی طوطا شکنی کے مترادف
ہے ۔اس کے باوجود طوطا فکر کو لائق استرداد نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ایک میا ں
مٹھو کا کہنا ہے کہ رنگ ، مہک ،رعنائی اور حسن و خوبی کے تما م استعارے
طوطوں کے دم سے ہیں ۔جب لوگ ایسی بے پر کی اڑاتے ہیں تو میرے ہاتھوں کے
طوطے اڑ جاتے ہیں اور میں ایسے کوتاہ اندیش لوگوں کے پرزے اڑانے کے بارے
میں سوچنے لگتا ہو ں مگر کیا کروں جب سے مستری آسو خان نے میری بائیسکل کے
پرزے اڑائے ہیں مجھے کسی کل چین نہیں ۔ایسے طوطا چشم ،جو فروش گندم نما
بگلا بھگت وحشیوں نے تو لٹیا ہی ڈبو دی ہے ۔ان سے تاریخ یہ سوال کر رہی ہے
اونٹ رے اونٹ تیری کون سی کل سیدھی۔کل شام ایک طوطا اور ایک بوم راہ فنا پر
چل نکلے ان کے نہ ہونے کی ہونے دیکھنے والا کوئی نہ تھا ۔زمانے کی اس بے
حسی نے طو طوں کو منقار زیرپر رہنے پر مجبو کر رکھا ہے ۔
عالمی ادبیات میں طوطے اہم کردار ادا کرتے چلے آ رہے ہیں ۔لفظوں کے طوطا
مینا بنانے کا سلسلہ زمانہ قبل از تاریخ سے جاری ہے اور جب تک طوطوں کے دم
میں دم ہے اس کی شدت میں کمی آنے کا کوئی امکان نہیں ۔لفاظ حشرات سخن کا ان
دنوں خوب طوطی بولتا ہے ۔قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں طوطوں کی فراوانی
جہد للبقا کا اہم ترین تقاضا ہے ۔ مسلس شکست دل نے یہ دن دکھائے ہیں کہ بے
حسی کا عفریت چاروں جانب منڈلا رہا ہے ۔اس نقار خانے میں بھانت بھانت کی
آوازیں آرہی ہیں اور طوطی کی آواز پر کان دھرنے والا کوئی نہیں ۔اپنی اپنی
ڈفلی اور اپنا اپنا راگ الاپنے والے شب ہجراں کے جاگنے والے مفادات کی
شیریں چوری کھانے کے بعد لمبی تان کر اور گھوڑے بیچ کر سو چکے ہیں ۔ایسا
محسوس ہوتا ہے کہ یہ ابن الوقت طوطا چشم تمام وسائل ڈکار کر مردوں سے شرط
باندھ کر سو چکے ہیں ۔
طوطوں کی بہت سی انواع واقسام ہیں ۔ سرخ کندھوں والے طوطے ، گردن پر سرخ
پروں والی مالا رکھنے والے طوطے ، بعض لوگوں نے مبالغہ آرائی کی حد کردی ہے
وہ طوطوں کے مذہب کے بارے میں بھی درفنطنی چھوڑ دیتے ہیں ۔سرخ کندھوں والے
طوطے جو انسانوں کی طرح گفتگو کر نے پر قادر ہیں ان کو یہ لوگ اسلامی طوطا
کہتے ہیں ۔ جب کہ ٹیں ٹیں کرنے والے طوطے کووہ غیر اسلامی طوطے کے نام سے
منسوب کرتے ہیں ۔ظاہری حسن میں تو یہ یکساں ہیں مگر ان کی باطنی کیفیا ت
یکسر مختلف ہیں ۔ بولنے والے طوطے اس وقت تک اپنے آقا اور صیاد کی تعریف
میں زمین آسمان کے قلابے ملاتے ہیں جب تک وہ پنجرے میں محبوس رہیں اوراس کی
چوری کھاتے رہیں جونہی وہ پنجرے سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو وہ
چونچ پھاڑ کر اور پنجے جھاڑ کر صیادکے قبیح کردار کو ہد ف تنقید بناتے ہیں
اور اس طرح صیاد کا کچا چٹھاسامنے لاتے ہیں کہ اس کو چھٹی کے دودھ کے ساتھ
ساتھ نانی بھی یاد آجاتی ہے۔ہمارے معاشرے میں طوطوں کا جس بے دردی سے
استحصال ہورہا ہے اس پر طوطے چونچ پا احتجاج بن چکے ہیں ۔ ان کو تین تیرہ
سے خارج کردیا گیا ہے۔ فاختہ کو تو امن کاپرندہ شمار کیا جاتا ہے ۔الو کو
حماقت کانشان سمجھا جاتا ہے ، کرگس مردار خوری کی علامت ہے جب کہ اسے راجہ
گدھ قرار دیا جاتا ہے ۔ شپر کو بھی خورشید کی ضیا پاشیوں سے انحراف کا نشان
قرار دیا جاتا ہے ۔ طوطے اب بھی اجنبی اور بے نشان ہیں۔
طوطے بہ یک وقت رجائیت اور قنوطیت کے مظہر ہیں ۔ان کی فطرت میں سادیت پسندی
کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہے ۔لذت ایذا حاصل کرنا ازل سے طوطے کا وتیرہ رہا ہے
۔نرم و نازک اور خام کونپلوں، غنچوں ، شگوفوں،کچے پکے پھلوں اور فصلوں کو
نوچ کر کھاناطوطوں کا پسندیدہ مشغلہ ہے ۔جس شاخ پہ بیٹھے اسی کو نوچنا اور
جس پھل کو دیکھ لے اسی کو کھدیڑنااور درختوں کے تنے میں ایسے شگاف ڈالنا
جیسے چور کسی گھر کی دیوار میں نقب لگاتا ہے طوطے کی پہچان ہے ۔ہد ہد اور
طوطے اس فن میں ید طولیٰ رکھتے ہیں ۔بکری کی میں میں اور طوطے کی ٹیں ٹیں
نے تو اب کلاسیکی موسیقی کو بھی مات دے دی ہے ۔دیپک راگ کے اثرات سے متمتع
ان طیور آوارہ کی مست خرامی بعض لوگوں کے نزدیک نمک حرامی کی حدود کو چھو
لیتی ہے ۔جراثیم کش ادویات بھی جراثیم کا قلع قمع کرنے میں اس قدر زود اثر
نہیں جس قدر محسن کشی میں طوطے ہیں ۔اس فضیحت میں تو طوطے ہتھیلی پر سرسوں
اگا دیتے ہیں ۔بعض اوقات مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میں ایک ایسے جزیرے
میں گھر گیا ہوں جہا ں گھنا جنگل ہے ۔ اس جزیرے کے چاروں طرف ایسا سمندر ہے
جس کی ہر موج میں حلقہ صد کام نہنگ ہے ۔ اس جزیرے پر جو مخلوق ہے اس کی بے
بصری ، کور مغزی جہالت اور درندگی کا یہ ثبوت ہے کہ پورے جزیرے میں جنگل کا
قانون نافذ کریا گیا ہے کئی قسم کے طائران ِ ہرزہ سرا وہاں محو پرواز ہیں
ان میں بوم وشپر ،کرگس اور زاغ وزغن کا اس قدر شور ہے کہ کان پڑی آواز
سنائی نہیں دیتی ۔ ان سب آوازوں میں طوطے کی آواز سب سے نمایاں ہے ۔ یہ
طوطے اپنی موقع پرستی کی وجہ سے بدلتے موسموں میں بھی مغموم نہیں ہوتے بل
کہ فضا کو مسموم کر کے خوب ٹیں ٹیں کرتے ہیں۔ان کی بلا سے جنگل میں جو کچھ
بھی ہو انھیں تو کچے پھل چیرنے پھاڑنے سے فرصت نہیں ملتی ۔
دنیا بھر میں طیور آوارہ کی ہزارہا اقسام پائی جاتی ہیں لیکن طوطوں کی نسل
اور ان کی امیدوں کی فصل میں جو تنوع اور رنگا رنگی ہے وہ کسی اور پرندے کو
نصیب نہیں۔زمانہ لاکھ ترقی کرے طوطوں کے ما نند پینترے اور رنگ نہیں بدل
سکتا۔ طوطوں کی کئی قسمیں ہیں جن میں فصلی طوطے ،نسلی طوطے ، بولنے والے
طوطے ،پر تولنے والے طوطے ،بٹورنے والے طوطے ،گھورنے والے طوطے ،رجلے طوطے
،خجلے طوطے ،ادھیڑنے والے طوطے ،کھدھیڑنے والے طوطے،یک رنگ طوطے ،صد رنگ
طوطے ،وجیہہ طوطے ،وضیع طوطے ، عمو می طوطے ،نجومی طوطے ،ہر کار طوطے ،خرکار
طوطے ، باد نما طوطے اور صیاد نما طوطے قابل ذکر ہیں۔ طوطوں کی یہ سب انواع
و اقسام اسم با مسمیٰ ہیں یعنی جو نام وہی کام ۔دھپ سڑی کے نواح میں ناصو
نامی ایک چڑی مار رہتا ہے جو سادیت پسندی کے مرض میں مبتلا ہے ۔اس موذی
صیاد نے اپنے پنجروں میں سیکڑوں طیور کو قید کر رکھا ہے ۔ان میں طوطے ،گدھ
،بوم ،چغد ،شپر اور زاغ و زغن شامل ہیں ۔صبح خیزیا ناصو چڑی مار منہ
اندھیرے گھر سے نکلتا ہے کئی چور ،ٹھگ ،مسخرےء لچے ،شہدے اور کئی اچکیکے
ساتھ ہوتے ہیں ۔یہ سب مل کر بڑے بڑے جال دریائے چناب کے کنارے واقع تریموں
کے شاداب علاقے میں لگا دیتے ہیں اور ان میں دانہ پھیلا دیتے ہیں ۔دانہ
چگنے کی ہوس میں طیور ان جالوں میں پھنس جاتے ہیں اور یہ نا ہنجار مل کر ان
پرندوں کے بال و پر اس عیاری سے کاٹ دیتے ہیں کہ بہ ظاہر ان کی یہ ایذا
رسانی دکھائی نہیں دیتی ۔اس کے بعد وہ مقامی زندان کا رخ کرتے ہیں اور ان
بے پر کے پرندوں کے پنجرے ایک درخت کے نیچے رکھ کر اپنی دکان سجاتے ہیں ۔زندان
میں اسیر قیدیوں کے لواحقین یہ پرندے خریدتے ہیں اور اس آس پر ان کو رہا
کرتے ہیں کہ شاید ان کی اس نیکی کے بدلے ان کے عزیز بھی جلد رہا ہو کر ان
سے آ ملیں۔انھیں کیا پتا کہ جیسے ہی وہ ان بد قسمت پرندوں کو پنجروں سے
نکلا کر باہر کی فضا میں چھوڑتے ہیں ،وہ پھدک پر نزدیکی باڑ میں چھپ کر
پناہ لیتے ہیں جہاں سے ناصو چڑی مار کے عیار ساتا روہن انھیں اچک لیتے ہیں
اور یہ پرندے پھر سے پنجروں میں محبوس ہو جاتے ہیں۔ناصو چڑی مار کے پنجرے
کا ہر قیدی پرندہ کئی بار فروخت ہوتا ہے یہاں تک کہ قید حیات سے آزاد ہو کر
اس کے پنجرے سے باہر نکلتا ہے ۔
موسم خزاں کی ایک صبح تھی ،سمے کے سم نے پورے ماحول کو مسموم کر دیا تھا ۔ناصو
چڑی مار اور اس کے ساتا روہن جب دانہ اور دام بچھا چکے تو تھوڑی دیر کے بعد
انھوں نے دیکھا کہ جال میں کچھ بڑے بڑے الو اور ان کے بچے پھنس گئے لیکن
کوئی اور پرندہ ان کے جال میں نہ آیا۔ انھوں نے ان کے پر نوچ ڈالے اور ان
بھوکے پیاسے پرندوں کو فروخت کرنے کی غرض سے زندان کی جانب چل پڑے ۔ حسب
معمول وہ یہ بڑے اور چھوٹے الو پنجروں میں بند کر کے اپنے اڈے پر پہنچے ۔اس
دن قیدیوں کے لواحقین کا ہجوم تھا لیکن پنجرے میں پرندے کم تھے ۔طلب بڑھ
چکی تھی اور رسد بہت کم تھی ۔بڑے الو جب اپنے چھوٹے بچوں کو پنجرے میں پڑے
دانے اور پھل کھانے کا طریقہ سکھاتے تو سب لوگ بڑی حیرت اور دلچسپی سے یہ
منظر دیکھتے ۔چھوٹے الو بڑے الو کی تربیت سے پر پھیلانا ،آنکھیں مٹکانا ،چونچ
ہلانا اور دانہ و پھل کھانا سیکھ کر پنجے جھاڑ کر دیکھنے والوں کا منہ
چڑاتے اور لوگ اس خوف سے منہ چھپاتے کہ کہیں یہ الو ان کے دانت نکالنے کی
حرکت کو دیکھ کر ان کے دانت کھٹے نہ کر دیں اور انھیں دانتوں سے یکسر محروم
ہی نہ کر دیں۔جہاں مہا الو اور ان کے پروردہ چھوٹے الو کثرت سے ہوں وہاں
اپنے بچنے کی جھٹ پٹ فکر کرنی چاہیے ۔بتیس دانتوں میں زبانوں کے مانند رہنے
ہی میں عافیت ہے ۔ناصو چڑی مار لوگوں کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھانا جانتا
تھا۔وہ تو عیار جیب تراشوں کی بھی جیب کا ٹ لیتا تھا۔اس دن ایک رسہ گیر
ناصو چڑی مار کے پاس پہنچا۔اس رسہ گیر کے قریبی ساتھی چوری کے جرم میں قید
تھے اس نے چند الو رہا کرانے کا فیصلہ کیا اور پرندوں کی قیمت دریافت کی ۔
بے حسی ،بے غیرتی اور بے حیائی ناصو چڑی مار کی گھٹی میں پڑی تھی ۔وہ نہایت
ڈھٹائی سے بولا ’’یہ نایاب نسل کے الو ہیں لیکن اب معاشرے میں الو شناس
کہاں رہ گئے ہیں ۔الو شناسی ایک فن ہے جو کہ مردم شناسی سے بھی مشکل ہے ۔دنیا
جانتی ہے کہ مغرب میں الو کو ایک قسمت کے دھنی پرندے کا مقام حاصل ،میرا
چالیس سالہ تجربہ ہے کہ ان کی رہائی سے ہر امید پوری ہو تی ہے ۔ جہاں تک
قیمت کا تعلق ہے بڑے الو کی قیمت دو سو روپے ہے او رچھوٹے الو کی قیمت چار
سو روپے ہے۔اس قیمت میں تو یہ نادر و نایاب پرندے بالکل مفت ہیں ۔کہو کتنے
الو درکار ہیں ؟اب بو ہنی کا وقت ہے جلدی کرو اور اپنے عزیز مجرموں کی
رہائی کو یقینی بنانے کے لیے ان حسین طیور کی رہائی پر رقم خرچ کرو۔‘‘
’’چھوٹے اور بڑے الو کی جو قیمتیں تم نے بتائی ہے ان میں پایا جانے والا
فرق میری سمجھ سے بالا تر ہے ۔‘‘رسہ گیر نے حیرت سے کہا ’’ایک موٹے بھاری
اور مہا الو کی قیمت تو دو سو روپے ہے جب کہ الو کے ایک چھوٹے اور کم زور
سے بچے کی قیمت اس سے دو گنا ہے ۔‘‘
یہ سن کر ناصو چڑی مار نے ایک قہقہہ لگایا ،وہ بہٹ بڑا الو شناس تھا وہ
سمجھ چکا تھا کہ اب رسہ گیر اس کے دام فریب میں آ چکا ہے اس نے جواب
دیا’’یہ بڑے الو تو محض الو ہیں جب کہ چھوٹے الو ان سے اس لیے زیادہ قیمتی
ہیں کہ یہ الو کے پٹھے بھی ہیں ۔‘‘
رسہ گیر معاملے کی تہہ تک پہنچ گیا اور بو لا :’’ چڑی مار ! تم نے بہت کام
کی بات کی ہے مجھے تو تم کوئی فلسفی دکھائی دیتے ہو ۔بوڑھے طوطے اور بوڑھے
الو کسی کام کے نہیں ہوتے ۔ان کو کچھ سکھایا یا پڑھایا نہیں جا سکتا ۔اس کے
بر عکس چھوٹے طوطے اور الو کے پٹھے ہی ہم جیسے ضرورت مندوں کے بہت کا م آتے
ہیں ۔چھوٹے طوطے اور الو کے پٹھے ہی ہمارے کاروبار میں وسعت کے ضامن ہیں ۔یہی
تو ہمارے ساتھ طویل عرصے تک شریک جرم رہتے ہیں۔اگر یہ الو کے پٹھے ہمارے
اشاروں پر نہ ناچیں تو ہم جیسے لوگ تو جیتے جی مر جائیں ۔‘‘
ایک حکایت ہے کہ ایک نو عمر طوطے نے ایک طوطی سے پیمان وفا باندھا ۔رقیب
طوطے پنجے جھاڑ کے اس جوڑے کے پیچھے پڑ گئے اور چونچیں پھاڑپھاڑ کر ان کی
فضیحت کرنے لگے اور اس باغ میں محبت کرنے والے اس طوطے اور اس کی پیاری
طوطی کا رہنا دشوار ہو گیا ۔سب سے بڑھ کر المیہ یہ ہوا کہ شپر ،زنبور ،حشرات
اور زاغ و زغن بھی اس جوڑے کے مخالف ہو گئے ۔ موسم سرما کے آتے ہی حالات سے
دل برداشتہ ہو کر طوطااور طوطی ایک سہ پہر اس باغ سے اڑے اور کسی دور دراز
مقام پر جا کر گھونسلہ بنانے کا فیصلہ کیا۔راستے میں کالی آندھی ایسے آئی
کہ کچھ سجھائی نہ دیتا تھا ۔ساتھ ہی طوفانی بارش اور ژالہ باری کا سلسلہ
بھی شروع ہو گیا۔ناچار انھوں نے ایک ویران کھنڈر میں پناہ لی ۔یہ کھنڈر
گزشتہ صدیوں کی تاریخ کا ایک ورق اور عبرت کا ایک سبق تھا۔اس میں جا بہ جا
انسانی ہڈیاں اور کاسہء سر بکھرے پڑے تھے ۔اس پر اسرار کھنڈر نما محل میں
بے شمار الو رہتے تھے ۔ایک مہا الو ان کا سردار تھا۔ رات کی ہو ل ناک
تاریکی میں اس مہا الو نے جب ایک طوطے اور طوطی کو اس آندھی ،طوفان ،کڑکتی
بجلی ،مو سلا دھا ر بارش اور ژالہ باری سے نیم جاں دیکھا تو اس نے ان مصیبت
زدہ پرندوں کی خوب تواضع کی ۔ان کے لیے دانہ اور پھل مہیا کیے اور خون
منجمد کرنے والی سردی سے ان کو محفوظ رکھنے کے لیے ایک غار میں پڑی شیر کی
کھال میں چھپنے کی جگہ مہیا کی۔ مہا الو نے اپنے مہمانوں کے لیے صبح مزید
اجناس اور پھل مہیا کیے اور ان کی خاطر مدارت میں کو ئی کمی نہ آنے دی ۔وہ
سوچ رہا تھا کہ اگلے دن صبح ہوتے ہی وہ اپنے مہاں جوڑے کو پورے چغدانہ
اعزاز کے ساتھ الوداع کہے گا ۔رات آرام سے گزری صبح ہوئی تو طوطی اور طوطا
جب غار سے باہر نکلے تو طوطی نے دیکھا کہ جس طرف بھی نظر اٹھتی ہے ہر طرف
الو ہی الو دکھائی دیتے ہیں ۔ کھنڈر کی ساری فضا پر مہا الو اور اس کے
ساتھی قابض تھے یہ پر اسرار اور اعصاب شکن حالت دیکھ کر وہ ڈر گئی اور
پریشانی کے عالم میں اس نے اپنے ساتھی طوطے سے کہا :
’’یہاں سے جلد اڑ جائیں ،اس کھنڈر میں ہر طرف الو ہی الو دکھائی دے رہے
۔الو بہت منحوس ہوتے ہیں ایسا لگتا ہے ان کی وجہ سے یہ جگہ تباہ و برباد ہو
گئی ہے ۔‘‘
’’ تم نے سچ کہا ہے ۔‘‘طوطا خو ف زدہ ہو کر بولا ’ ’ اپنی نحوست اور بد
بختی سے ان بد صورت پرندوں نے تو اس پوری آبادی کو اجاڑ کر کھنڈر میں بدل
دیا ہے ۔اس سے پہلے کہ ان منحو س پرندوں کی وجہ سے ہم کسی مصیبت اور حادثے
کا شکار ہوکر تباہ و برباد ہو جائیں ،آؤ یہاں سے اڑ کر کہیں دور نکل
جائیں،جہاں نہ الو ہوں اور نہ ہی الو کے پٹھے ۔‘‘یہ کہہ کر اس نے ایک لمبی
اڑان بھری اور کھنڈر کی منڈیر پر جا بیٹھا۔مہا الو یہ سب باتیں سن چکا
تھاوہ ان پرندوں کی احسان فراموشی ،ہف وات اور بے جا الزام تراشی پر پیچ و
تاب کھاتا رہا ۔ طوطی ابھی اڑنے کے لیے پر تول رہی تھی کہ مہا الو نے اسے
دبوچ لیا اور اسے غار میں پھینک دیااور غار کے دروازے کو بند کر دیا ۔
طوطا بولا ؛’’تم نے طوطی کو کس لیے قید کر لیا ہے ؟ کیا مہمانوں کے ساتھ
ایسا سلوک کیا جاتا ہے ؟‘‘
مہا الو نے کہا ’ ’ تم مہمانوں نے ہماری میزبانی کا جس طرح مذاق اڑایا ہے
ہو مجھے معلوم ہو چکاہے ۔آج سے طوطی میری اہلیہ ہے اور اب وہ میرے ساتھ اس
کھنڈر میں راج کرے گی ۔اب وہ میرے سپنوں کی رانی بن کر اس کھنڈر کی رونق
بڑھائے گی ۔تم جہاں چاہو چلے جاؤ اب تمھیں اس طوطی کی شکل دیکھنا بھی نصیب
نہ ہو گی ۔‘‘
’’تم ہوش میں تو ہو ‘‘طوطا بولا ’’الو اور طوطی کی شادی کیسے ہو سکتی ہے
؟یہ تو فطرت کے بھی خلاف ہے ۔اور تم نے طوطی کی رضامندی کے بغیر اسے اپنے
کھنڈر میں رکھ کر ظلم کیا ہے ۔میں انصاف کے لیے کہاں جاؤں اور کس کے آگے
فریاد کروں ؟‘‘
’’زیادہ چیخ پکار کی ضرورت نہیں ‘‘مہا الو نے نفرت اور غصے سے کہا ’’ جنگل
کا بھی ایک قانون ہوتا ہے ،تم اپنی پسند کے ثالث سے فیصلہ کر ا لو ۔‘‘
’’تم مرے ساتھ اڑو ‘‘طوطا بولا ’’ابھی زاغ ،زغن اور راجہ گدھ کے سامنے پورا
واقعہ بیان کرتے ہیں ۔‘‘
اسی ویرانے میں راجہ گدھ اور زاغ و زغن بھی رہتے تھے ۔جب ان طیور نے سارا
واقعہ سنا تو راجہ گدھ نے مختصر فیصلہ سنایا:’’ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ
مہا الو کا مو قف درست ہے ۔طوطی اسی کی اہلیہ ہے ۔طوطا جھوٹ بو ل رہاہے اسے
چونچیں مار مار کر کھنڈر سے دور نکا ل دیا جائے ۔‘‘
فیصلہ سننے کے بعد مہا الو خوشی سے پھولا نہ سمایااور طوطے کے سر پر چونچ
مار کر اسے سمجھاتے ہوئے کہا’’الو کی نحوست سے آبادیاں ویرانوں میں نہیں
بدلتیں بل کہ جہاں انصاف کشی کا یہ حال ہو گا وہاں گھر بے چراغ ، بستیاں
کھنڈر ، رتیں بے ثمر ،کلیاں شرر،زندگیاں پر خطر ،عمریں مختصر اور عمارتیں
خوں میں تر ہو جاتی ہیں ۔ایسے ماحول میں جہاں ارمانوں اور انصاف کا خون
ہوتا رہے شہر سنسان ہو جاتے ہیں اور ویرانیاں مقدر کی سیاہی کا روپ دھار
لیتی ہیں ۔‘‘
زخمی طوطے نے یہ بات سنی تو اس کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں وہ خود تو
پرواز نہ کر سکا ،اس کی روح اس کے جسم سے پرواز کر گئی ۔ |