کراچی کی روز بروز بگڑتی ہوئی صورتحال کو دیکھتے ہوئے کراچی کی سب سے بڑی
جماعت متحدہ قومی موومنٹ نے کراچی کو فوج کے حوالے کرنے کا بیان جاری کر کے
ملکی سیاست میں ایک ہلچل مچا دی ہے جس کے بعد بعض حلقوں کی جانب سے تائید
اور تنقید بھی سامنے آئی ہے کراچی جو کہ پاکستان کا معاشی حب ہے اور ایک
اندازے کے مطابق ملکی برامدات اور درامدات کا نوئے فیصد حصہ یہیں سے بیرون
ملک آتا اور جاتا ہے اور ملکی معاشی سرگرمیوں کے حوالے سے سب سے زیادہ
ایکٹوٹی یہاں ہی ہوتی ہے اس لئے اگر کسی وجہ سے یہاں امن ومان کی صورتحال
خراب ہو تو پورے ملک پر اثر پڑتا ہے جس کی وجہ سے ملکی معیشت سست روی کا
شکار ہو جاتی ہے کراچی میں ہر قوم ،قبیلے اور علاقے کے لوگ بستے ہیں اور دو
ڈھائی کروڑ کی آبادی ہونے کی وجہ سے سیاسی جماعتیں یہاں اپنا اپنا ہولڈ
چاہتی ہیں اس لئے ان سیاسی جماعتوں کی آپس کی کشمکش کی وجہ سے وہ کراچی جو
کھبی امن کا گہواہ ہوتا تھا اب نتہائی ابترصورت حال کا شکار ہے جہان امن و
امان کی صورتحال انتہائی مخدوش ہے اس کے علاوہ بھتہ مافیا اور ٹارگٹ کلنگ
نے رہی سہی کثر بھی پوری کر دی ہے گزشتہ چند سالوں سے کراچی کی صورت حال
بہت خراب ہو چکی ہے اس خرابی کے پیچھے بہت سے عناصرکارفرما ہیں ۔ملکی سیاسی
جماعتیں یہاں کی خراب صورتحال کا ذمہ دار ایک دوسرے کو ٹہراتی ہیں جبکہ کچھ
جماعتیں اس شہرکو فوج کے حوالے کرنے کی باتیں بھی کرتی نظر آتی ہیں لیکن
مسلئے کے حل کی طرف کوئی بھی نہیں آتا ماضی میں یہاں کیے گئے آپریشنوں کے
سنگین نتائج ہو دیکھتے ہوئے حکومت بھی یہاں ویسے آپریشن کرنے سے کترا رہی
ہے جبکہ یہاں کی مقامی سیاسی جماعتیں اس مجوزہ آپریشن کو اپنے خلاف کریک
ڈاون سمجھ رہی ہے یہ تلخ حقیقت ہے کہ کراچی میں جو بھی جرائم پیشہ عناصر جن
میں بھتہ خور ٹارگٹ کلر شامل ہیں اگرکھبی پکڑے گئے ہیں ان کا تعلق کسی نہ
کسی سیاسی جماعت سے ہے اس حقیقت سے پردہ موجودہ ڈی جی رینجر نے یہ بتا کر
اٹھا دیا کہ کراچی میں جتنی بھی سیاسی جماعتیں کام کر رہی ہیں ان کے کارکن
کسی نہ کسی طور پر ان کاروائیوں میں شامل ہیں جن میں بھتہ خوری تارگٹ کلنگ
اور دیگر چھوٹے برے جرائم شامل ہیں شاید یہی وجہ ہے کہ حکومت ان کیخلاف
کریک ڈاون کرنے سے پہلے سوچ بچار میں دیکھائی دیتی ہے کہ کہیں ان پر ہاتھ
ڈالا تو کراچی کا امن اور زیادہ خراب نہ ہوجائے لیکن یہ حقیقت واضح ہے کہ
اگر کراچی میں مکمل طور پر امن ومان قائم کرنا ہے تو حکومت کو ان عناصر کے
خلاف کروائی کرنی ہوگی جو ان جرائم پیشہ افراد کی پشت پناہی کر رہے ہیں اور
اس کے لئے ضروری ہے کہ کسی قسم کی سیاسی مداخلت سیاسی بلیک میلنگ کو خاطر
میں نہ لایا جائے اور غیر جانبدار اور ٹارگیٹیڈآپریشن کیا جائے اور اس کے
لئے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو فری ہینڈ دیا جانا چاہیے اور ان پر ایک
ایسا کمیشن بھی تشکیل دیا جانا چاہیے جو اس سارے آپریشن کی نگرانی کرئے تب
جا کر کراچی کو امن کا گہوارہ بنایا جا سکتا ہے کیونکہ ملک میں پر امن
انتقال کے با وجودکراچی دہشت گردی کے مسلسل حصار میں ہے ایک کے بعد ایک
حولناق واقعات کے باعث ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاری کو خطرات لاحق ہیں جو
کہ پہلے سے تباہ حال معیشت کے لئے نقصان دہ ہیں کراچی میں جرائم کے سدباب
کے لئے سیکیو رٹی کے انتظامات پر عوامی شکوک وشباہت بہت زیادہ ہیں آئے دن
ہم سنتے ہی رہتے ہیں کرا چی میں روز کم و بیش دس(کبھی اس سے بھی زیادہ)
افراد ٹارگٹ کلنگ کی نظر ہو گئے اور پولیس اور رینجرز ،پولیس اور دیگر
قانون نافذ کرنے والے ادارے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ پھر ہم یہ خبر بھی
سنتے رہتے ہیں کہ آج پولیس اور رینجرز کی مشترکہ کاروائی ہوئی کبھی بیس
افراد ازیر حراست تو کبھی چالیس افراد تو کبھی بلکل وسوک سے کہ تین ٹارگٹ
کلر پکڑ لئے گئے جن کو نقاب پہنا کر میڈا کے سامنے بھی پیش کیا جاتا ہے مگر
پھر بھی ٹارگٹ کلنگ میں کوئی کمی یا نما یاں فرق نظر نہیں آتا ٹارگٹ کلنگ
اسی زور و شور سے جاری ہے اس کیوجہ کیا ہے؟ اس کی بنیادی وجہ ان جرائم پیشہ
افراد کی سیاسی پشت پناہی ہے جس کی وجہ سے یہ دوسرے ہی دن جیلوں سے باہر
اور زیادہ آزادی سے گھومتے پھرتے نظر آتے ہیں ۔کراچی کا کوئی بھی علاقہ
سیکیورٹی کے حوالے سے محفوظ قرار نہیں دیا جا سکتا چند شر پسند عناثر کی
وجہ سے معصوم اور بے گناہ افراد اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں اور ان
چند افراد نے پورے شہر کا امن و سکون برباد کیا ہوا ہے۔ آئے روز کسی نہ کسی
علاقے میں قانون کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں اور پولیس اور رینجرز جوکے عوام
کے رکھوالے ہوتے ہیں خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتے نظر آتے ہیں اس ساری
صورتحال کو دیکھتے ہوئے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہمارے حکمرانوں میں
اتنی صلاحیت ہے کہ وہ لوگوں کا ناحق خون ہونے سے بچا سکیں کیا ان میں اتنی
سکت ہے کہ وہ اپنے اپنے سیاسی مفادات سے بلا تر ہو کر عوامی مفادات کی بات
کر سکیں اور کچھ نہ سہی عوام کو امن اور سکون سے جینے کا حق تو دے سکیں
لیکن اس کا جواب بڑا تلخ ہے کہ ان کومظلوم عوام اور مظلوم پاکستان سے نہیں
صرف اقتدار سے پیار ہے اپنے لوگوں کو بچانے کے لیے پورے پورے ادارے داؤ پر
لگا دے جاتے ہیں لیکن جہاں عوام کی بات ہو تو ان مطلب پرست لوگوں کو سانپ
سونگھ جاتا ہے کیا اس لیے قائد نے پاکستان بنایا تھا آج اس بات پر ہم لوگوں
نے نا سوچا تو یقینا ہم اور زیادہ پستی میں چلے جائیں گے سوچیے اور فیصلہ
کیجیے کیوں کہ یہ وقت ہے فیصلے کا یہ نا ہو کے پانی سر سے گزر جائے اور ہم
دیکھتے رہ جائیں ۔ |