اِس کینسر زدہ ملک کا علاج کیا ہے؟

مایو سی گناہ ہے ،ہمیں کبھی بھی اﷲ تعا لیٰ کی رحمتوں سے مایوس نہیں ہو نا چا ہئے۔دنیا کا نظام بندے نہیں، اﷲ تعالیٰ اپنی حکمت کے مطابق چلاتا ہے۔تاریخ ِ عالم کے مطا لعہ سے یہ بات زیا دہ واضح اور روزِ روشن کی طرح عیاں ہو تی ہے کہ انسان کچھ بھی کرے ہوتا وہی ہے جو منظورِ خدا ہوتا ہے۔مگر جو شخص یا جو قوم زمینی حقائق سے آنکھیں چرا کر زندگی بسر کرنے کا عادی ہو جائے ۔اس کا انجام ، اس کا حشر برا ہو تا ہے ۔او ر جو قو میں یا افراد اپنے عمل کا جائزہ لیتی رہتی ہیں ۔وہ اپنے لائحہ عمل کو بدل کر صراطِ مستقیم پر گامزن ہوکر انجام ِ بد سے اپنے آپ کو بچا سکتی ہیں۔ہم اپنے پیارے ملک پاکستان کے بارے میں لاکھ حسنِ ظن رکھیں اور اپنے کسی بھی سیاسی جماعت یا فوجی حکمران سے یہ امید رکھیں کہ وہ اس ملک کو ٹھیک کر لے گا اور مصیبت ذدہ عوام کی حالت سدھر جا ئیگی،ایک خام خیالی کے سوا کچھ نہیں ، یہ ایک حسین خواب ہو سکتا ہے جس کی عملی تعبیر شاید ممکن نہ ہو۔ پھر کیا یہ ملک ہمیشہ ایسا ہی رہے گا؟ نہیں،تو پھر اس کا علاج کیا ہے؟ آئیے ! آج اس کا جواب ڈھو نڈتے ہیں !!!

اس وقت وطنِ عزیز کی مثال اس شخص جیسی ہے جس کو ایک عرصہ دراز سے کینسر کی بیماری لگی ہو، اس کے پورے جسم میں کینسر کے جرا ثیم پھیل چکے ہوں ۔ایسی صورت میں ڈاکٹر لاکھ کو شش کریں کہ مر یض ٹھیک ہو جائے مگر ان کی کو ششوں کا با رآور ہو نا یقینی نہیں ہوتا۔کچھ ایسی ہی صورتِ حال سے پاکستان بھی اس وقت دوچار ہے۔یہاں صرف لیڈر شِپ ہی نہیں پورا معاشرہ کینسر زدہ ہو چکا ہے۔ہم  دیکھ رہے ہیں اور چند سالوں سے نہیں ،جب سے پاکستان معرضِ وجود میں آیا ہے، تب سے دیکھ رہے ہیں کہ اقتدار اور اختیار کے متمنی اور ہوسِ زر کے متوالے بڑے بڑے دعوے ضرور کرتے چلے آئے ہیں کہ ہم یہ کر لینگے، وہ کر لینگے مگر جب کرنے کا وقت آتا ہے ،اقتدار و اختیار ان کو مل جا تا ہے تو وہی بڑے دعوے دار اپنی اپنی جھو لیاں بھرنے لگ جاتے ہیں۔سیاسی لیڈر شِپ کو بھی دیکھ لیا فوجی لیڈر شِپ کو بھی آ زما لیا،سبھی ناکام رہے۔مریض (پاکستان) کا علاج کرنے جو بھی آ یا اس نے اس مرض میں مزید اضافہ کردیا، گویا مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی،اور اب اس کی یہ حالت ہے کہ کسی اور کا سہارا لئے بغیر چلنے پھرنے کے قابل بھی نہیں رہا۔

اس مرض میں اضافہ صرف لیڈروں کی وجہ سے ہی نہیں ہوا، بلکہ عوام بھی اس میں برابر کے ذمہ دار ہیں۔وہ اس مرض کے علاج کے لئے ایسے ڈاکٹر کو چنتے ہیں ،جو نہیں جانتا کہ اس مرض کا علاج کیا ہے ؟ اس کی تا زہ مثال حالیہ ۱۱ مئی کے عام انتخابات ہیں۔عوام نے اس مرض کے علاج کے لئے ایک ایسے ڈاکٹر (نواز شریف ) کو چنا جو اس سے سے قبل دو مرتبہ اس مرض پر اپنا نسخہ آ زما چکے ہیں، جو کارگر ثابت نہیں ہوا، اب سہ بارہ اسی کے پاس جانا سادگی نہیں تو اور کیا ہے ؟

مگر سوال یہ بھی پیدا ہو تا ہے کہ کیا ڈاکٹر بدلنے سے مریض ٹھیک ہو جائیگا ؟ یقینا جواب نفی میں ہے کیو نکہ پچھلے پینسٹھ سالوں میں ڈ اکٹر تبدیل کر کے بھی دیکھ لیا ، مگر نتیجہ وہی صفر ہی رہا ۔ صوبہ خیبر پختو نخواہ میں ڈاکٹر کو تبدیل کر لیا گیا ہے ۔کیا وہ اس مریض (پاکستان) کے اس ایک حصہ کو ٹھیک کر لے گا؟ جواب پھر بھی نفی میں ہے ۔ اگلا سوال پھر یہ پیدا ہوتا ہے کہ آ خر اس کینسر زدہ مریض کا کیا بنے گا ؟کیا یہ اپنی موت آپ مر جا ئیگا ؟ کیا یہ لا علاج ہے ؟ نہیں ، با لکل نہیں۔ نہ تو یہ لا علا ج ہے اور نہ ہی اس کے مرنے کا کوئی خطرہ ہے ۔ صرف ضرورت اس امر کی ہے کہ مر ض کی تشخیص درست طریقے سے کی جائے کیو نکہ کوئی بھی ڈاکٹر بیماری کی مکمل تشخیص کئے بغیر بیما ری کا علاج نہیں کر سکتا۔اس ملک کی بیماری کی بڑی وجہ وہ جھونک ہیں جو اس کے جسم کے ساتھ چمٹی ہیں اور اس کا خون چوس رہی ہیں،سب سے پہلے اس کا نکا لنا اور مارنا ضروری ہے جب تک ان جھونکوں/ جووں کو نکال باہر نہیں کیا جاتا تب تک اس کی صحت یابی کی امید نہیں کی جا سکتی۔اور وہ جھو نکیں وہ ایلیٹ طبقہ ہے جو پچھلے 65 سالوں سے اقتدار سے چمٹا ہوا ہے۔جو پاکستان کا خون چوس چوس کر اپنی صحت تو بنا رہا ہے مگر پاکستان کو روز بہ روز لاغر اور کمزور کر رہا ہے۔میری دعا ہے اور آپ بھی دعا کریں کہ اﷲ تعالیٰ ہمارے اس پاک دھرتی پر کو ئی ایسا مسیحا پیدا کر دے جو اس کینسر زدہ ملک کی صحت یا بی کے لئے وہ کام کرے جو آج سے دو سو انیس سال پہلے سر زمینِ فرانس پر کیا گیا تھا،جہاں ہمارے جیسے حالات پیدا ہو گئے تھے اور پھر اسکی درستگی کے لئے وہ دوائی استعمال کی گئی جس کے استعمال سے فرانس کے جسم سے لگی جھو نکیں یعنی بادشاہ، ملکہ، شہزادے، شہزادیاں، امراء اور وہ سب اشخاص جو سیاسی زندگی سے متعلق تھے یا اس کے آ ئینہ دار تھے، کچل دئیے گئے ۔جس کی وجہ سے نہ صرف فرانس بلکہ دنیا کا نقشہ بدل گیا۔

اگر ہم آج کے پاکستان اور18صدی کے فرانس کا موازنہ کریں تو ہمیں پاکستان کے حالات ماضی کے فرانس سے ملتے جلتے نظر آتے ہیں پاکستان کے اند ر لا وہ تو ابلتا ہوا دکھائی دے رہا ہے جو با ہر نکلنے کا راستہ تلا ش کر رہا ہے مگر جب تک یہ لاوہ ابل کر باہر نہیں آتا اور موروثی سیاستدانون، سرمایہ داروں، جاگیرداروں اور وڈیروں کو خس و خا شاک کی طرح بہا کر لے نہیں جاتا،تب تک اس ملک کو کوئی بھی سیاستدان یا فوجی حکمران ،خواہ وہ عمران خان ہو، نواز شریف ہو ،یا کوئی اور تیس مار خان ، ٹھیک نہیں کرسکتا۔۔۔۔۔۔۔
roshan khattak
About the Author: roshan khattak Read More Articles by roshan khattak: 300 Articles with 315840 views I was born in distt Karak KPk village Deli Mela on 05 Apr 1949.Passed Matric from GHS Sabirabad Karak.then passed M A (Urdu) and B.Ed from University.. View More