شاہ زیب قتل کیس-انصاف پھر ہار گیا

پاکستان کے شہر کراچی میں گزشتہ برس قتل کیے جانے والے نوجوان شاہ زیب خان کے ورثاء نے اس مقدمے میں تمام سزا یافتہ مجرموں کو معاف کر دیا ہے۔

شاہ زیب خان کو گزشتہ برس دسمبر میں ڈیفنس کے علاقے میں شاہ رخ جتوئی اور اس کے دوستوں نے معمولی جھگڑے کے بعد گولیاں مار کر ہلاک کر دیا تھا۔

ان کی ہلاکت کے بعد سماجی رابطے کی ویب سائٹوں ٹوئٹر اور فیس بک پر اس قتل کی مذمت کے لیے مہم کا آغاز ہوا اور اس کے علاوہ کراچی پریس کلب کے باہر بھی احتجاج کیا گیا تھا۔

اس پر چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری نے تیس دسمبر کو معاملے کا از خود نوٹس لیتے ہوئے مقدمہ انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت میں چلانے کا حکم دیا تھا۔

اسی دوران مقدمے کا مرکزی ملزم شاہ رخ جتوئی ملک سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا تھا اور بعدازاں سپریم کورٹ کے احکامات پر اسے دبئی سے گرفتار کر کے واپس پاکستان لایا گیا تھا۔

رواں سال جون میں کراچی کی انسداد دہشت گردی کی ایک عدالت نے شاہ زیب قتل کیس میں مرکزی ملزم بیس سالہ شاہ رخ جتوئی اور سراج تالپور کو موت جبکہ سراج کے بھائی سجاد تالپور اور ملازم غلام مرتضیٰ لاشاری کو عمر قید کی سزا سنائی تھی۔

شاہ زیب کے والدین نے09- 13-09 قاتلوں کو معاف کردیا


شاہ زیب کے اہل خانہ نے قتل میں ملوث مرکزی ملزم شاہ رخ جتوئی سمیت چاروں ملزمان کو اللہ کے نام پر معاف کرتے ہوئے عدالت سے تمام ملزما ن کو رہا کرنے کی درخواست کی ہے۔

جب میں نے پاکستانی نیوز کی ویب سائٹ اوپن کی تو یہ خبر پڑھی کہ مقتول شاہ زیب کے ورثاء نے شاہ زیب کے قاتلوں کو معاف کردیا ہے تو ایسا لگا جیسےکلیجہ باہر آگیا ہے کیونکہ شاہ زیب کی بہن کی رونے کی آواز آج بھی میرے کانوں میں گونج رہی ہے اور اس نے روتے ہوئے جو کچھ کہا، وہ الفاظ آج بھی کانوں میں گونج رہے ہیں۔

جب شاہ زیب کو قتل کیا گیا تو اسکو انصاف دلانےکیلئے سڑکوں پر جنون آگیا تھا جن کا بس یہی مطالبہ تھا
"جسٹس فار شاہ زیب"

جب شاہ زیب کے قاتلوں کو سزا ہوئی تو ہمیں بہت خوشی تھی کہ ہماری آواز سن لی گئی لیکن آج دل ٹوٹ گیا ہے کیونکہ پیسہ جیت گیا اور جوش اور جذبہ ہارگیا۔

نیوز چینل کئ رپوٹ کہ مطابق شاہ زیب کے والدین کو 15 کروڑ کیش ادا کیے گئے ہیں مقتول شاہ زیب کی فیملی کو ، اس کے علاوہ آسٹریلیا کا رہائشی ویزا دیا گیا ہے اور ان کو آسٹریلیا میں ایک فلیٹ بھی مہیا کیا گیا ہے ، ویزا کی تمام دستاویزات اور بینک سٹیٹمنٹ ، شاہ رخ کے گھر والوں نے مہیا کی ، اس کے اہل خانہ ابھی تک اس بات سے انکاری ہیں یہ ڈیل بہت پہلے ہو جانی تھی اور چند لاکھوں میں ہو جانی تھی لیکن میڈیا پر آ جانے سے یہ بات دب گئی-

میں شاہزیب کے والدین کو یہ میسج دینا چاہو گا آپ کے بیٹے کے لئے پوری قوم ایک ہوکر انصاف کے لئے کھڑی تھی اور آپ نے قاتلوں کو معاف کردیا اگر کوئی پریشر تھا یا کچھ اور تھا میڈیا میں آکر بتانا تھا

شاہ زیب کے قاتلوں کو معاف کردینے پر سوشل میڈیا پر مایوسی
شاہ زیب کے قتل کا معاملہ سب سے زیادہ سوشل میڈیا پر اٹھایاگیا تھا، سوشل میڈیا پر نوجوانوں نے شاہ زیب کے والدین کی بھرپور اخلاقی حمایت کی اور یہ معاملہ سپریم کورٹ تک پہنچا لیکن اب جب شاہ زیب کے والدین نے شاہ زیب کے قاتلوں کو معاف کردیا ہے تو سوشل میڈیا پر نوجوان مایوس نظرآرہے ہیں ۔بعض کا کہنا ہے کہ اگر معاف ہی کرناتھا تو بہت پہلے کردیتے۔

کیسی معافی صاحب...؟؟ سب "سائیں " کی گیم ہے - قانون اندھا ہوتا ہے ، یہ اک محاورہ ہے لیکن پاکستان میں آپ کو قدم قدم پر اس قانون کی عملی مثالیں ملیں گی - یہاں "قانون " کو "دیت " تو نظر آ جاتی ہے لیکن وہ دیت لی کیسے گئی یہ نظر نہیں آتا - اک بار پھر سائیں کا بیٹا جیت گیا اور شاہزیب کے خاندان سمیت کڑوروں غریب پاکستانی ہار گئے - خیر یہ تو سائیں کا بیٹا تھا ، سائیں کا کتا بھی ہوتا تو وہ بھی جیت جاتا - کیونکہ جب تک ہم سب سیاسی و مذہبی وابستگیوں سے بالا ہو کر ہر ظلم کے خلاف اٹھ کھرے نہیں ہوں گے تب تک یہ نہ تیرا پاکستان ہے نہ میرا پاکستان ہے یہ "سائیں " کا پاکستان ہے
ایک بار پھر وڈیرے جاگیردار جیت گے

مجھے افسوس اس بات کا نہیں کہ شارخ جتوئی کو معاف کر دیا گیا بلکہ افسوس اس بات کا ہے کہ آئندہ کوئی بھی پاکستانی کسی شاہزیب کے لیئے آواز نہیں اُٹھائے گا۔ آج کے بعد ہر وڈیرے کے بیٹا کسی غریب کے بچے کو مارنے سے پہلے صرف یہی سوچے گا کہ چلو مار دو کوئی بات نہیں چند لاکھ یا کروڑ دے کر جان چھوٹ جاۓ گی

خدا کی قسم ہے اگر اس ملک کی عدالت صرف پانچ یا دس لوگوں کو سر عام سزا دے انھیں چوک میں پھانسی لٹکا دے یا سنگ سار کر دیا جاۓ تو یقین کرو اس ملک میں جرم ختم ہو جاۓ گا اور ہر ملزم کوئی جرم کرنے سے پہلے لاکھ بار سوچے گا

لیکن آج کے واقعے کے بعد ل مجرم یہی سوچے گا ؛؛؛؛؛ بس چند کروڑ کی بات ہے قصہ ختم کرو اسکا ''''''

شاہ رخ جتوئ ہو ' ریمنڈ ڈیوس ہو یا وہ مجرم جنھوں نے ' سیالکوٹ میں دو بھائیوں کو بے دردیسے قتل کردیا۔ ۔ ۔ پاکستانی عوام ان کو دیکھ کر ' جزباتی ہوجاتی ہے ۔ اس چیز کے لیے احتجاج کیا جاتا ہے' جس کو کبھی دیکھا ہی نہ ہو 'یعنی انصاف کے لیے ۔۔۔۔۔۔ ۔ ۔ پاکستان میں ' جنگل کا قانون ہے، گدھا گاڑی کے نیچے امیر کا بچہ آجائے تو ' گدھا اور گدھا گاڑی والا دونوں قتل ہوجائیں گے، امیر کی بی ایم ڈبلیو کے نیچے غریب کا بچہ آجائے تو' سب سے پہلے بی ایم ڈبلیو کو دیکھا جائے گا' کہ اس کو کہیں نقصان تو نہیں ہوا' غریبکی خیر ہے ' غریب کا خون سستا ہے' وہ تو خرید ہی لیں گے ۔ ۔ ۔

سزایافتہ قاتل پیسے اور بندوق کے زور پرکلف لگے کپڑوں میں، انگلیوں سے وکٹری کا نشان بنائے، کھلی باچھوں کے ساتھ جیل سے باہر آیا ہے۔ شاہ زیب پھر مر گیا ہے۔ خوف اور سمجھوتوں میں جکڑے شاہ زیب کے پڑھے لکھے مہذب گھر والے اطلاعات کے مطابق آسٹریلیا سدھاریں گے، جہاں سے قاتل آیا تھا ۔۔۔۔ اور قاتل اب آسٹریلیا نہیں جا سکے گا کہ وہ ریاست قاتلوں کو قبول نہیں کرتی۔۔ تو قاتل جتوئی کا کیا بنے گا؟ فکر نہ کیجیے پوری ریاست اس کی ہے۔۔۔ اس کی اگلی منزل ملکی پارلیمنٹ یا ٹی وی چینل کی سربراہی۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ ہمارا سیاسی یا فکری راہنما ہو گا۔۔۔ آسٹریلیا کو مہذب شہری مبارک۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ہمیں ہمارے قاتل وکٹری کے نشان کی شکل میں منہ پر جوتے مارتے ہوئے آزاد گھومتے رہیں گے
۔
پچھلے سال میں ٹی وی پر ایک عدالت کا فیصلہ دیکھ رھا تھآ
امریکہ کی ایک عدالت میں ایک نوجوان لڑکی کسی چھوٹے موٹے جرم میں ۔۔ پیش تھی ۔۔ جج نے اس کو تقریبا 100 ڈالر جرمانہ سنا دیا ۔۔۔ لڑکی آپنا پرس اٹھا کر طنزیہ مسکرا چلتی بنی ۔۔۔ جج نے پیچھے سے آواز لگا کر اس کو پھر واپس بنچ پر بلا لیا ۔۔۔ جج نے کہا تم کو کوئی ندامت نہیں ۔۔ اور تم الٹآ مسکرا رہی ہو ۔۔۔ جج نے جرمانہ ڈبل کر دیا ۔۔۔۔ لڑکی پھر غصے سے اٹھی اوربڑبڑاتی چلنے لگی جج نے پھر بلا لیا ۔۔۔ کیونکہ جج نے اس کے ھونٹوں کی حرکات کو پڑھ لیا تھا کہ اس نے جج کو گالی دی ھے ۔۔۔ جج نے جرمانہ 1000 ھزار ڈالر کر دیا ۔۔۔ لڑکی بڑے آرام سے اٹھ کر ۔۔ خاموشی سے چلی گئی ۔۔۔۔ اب اس چھوٹے سے واقعہ کا پاکستان کےاس وڈیرے والے معاملہ سے کیا تعلق ھے ۔۔۔۔ وہ اس طرح جس دن اس غنڈے کو سزائے موت سنائی گئی تھی ۔۔ اس دن یہ عدالت سے بھڑکیں مارتا اور وکٹری کا نشان بناتا ھوا گیا تھا ۔۔۔۔ کاش کوئی غیرت مند انسان کا بچہ جج ھوتا تو اس کو اگلے دن ہی پھانسی پر لٹکانے کا حکم دے دیتا ۔۔۔

سوری جناب میں ۔۔ خواب دیکھ رھا تھآ یہ پاکستان جیسے غلام ملک میں ممکن نہیں ھے ۔

مجھے اس بات پر کوئی حیرانی نہیں ہوئی . شاہ رخ کے باپ کے پاس اتنا پیسا ہے کہ اسکا بیٹا اگر ١٠٠ خون بھی کرے تب بھی پیسے دے کر جان چھڑوا سکتا ہے .

دیت تب لی جاتی ہے جب انجانے میں قتل ہوگیا ہو یا پھر قصور دونوں طرف کا ہو .. پھر امریکن کو بھی گالیاں نہ دیا کرو جب وہ ڈرون حملہ کرتے ہیں کیوں کہ ہماری حکومت کو اچھی خاصی " دیت " مل جاتی ہے ..

بات تو صحیح ہے کہ یہ ورثا کاحق ہے وە چاہیں تو معاف کریں یا نہ کریں لیکن ورثا کو یہ جنگ اکیلے لڑنا چاہیے تھی .عوام ٬عدلیہ اور گواھوں کو خوار کیوں کیا لوگوں کی جانیں کیوں خطرے میں ڈالیں پہلے ہی رقم کا مطالبہ کرتے کہ اتنی رقم دیں اور معافی ملے گی

جس قاتل کے چہرے پر ندامت نہ ھو احساس جرم نہ ھو شرمندگی نہ ھو اسے معاف کرنا درندگی ھے۔ قاتل بجاے شکرانے کے نفل صدقہ خیرات اور عاجزی کرنے کے تکبر سے وکڑی کا نشان بنا کر جیل سے رھا ھو رھا ھے اللہ سے دعا ھے اللہ اسے تو خود سزا دے یہ اس کرپٹ عدالتی اور حکومتی نظام سے بچ نکلا ھے.

اس کیس میں عدلیہ کا کردار بھئ کچھ خاص نہی چار ماہ پہلے سزا سنائ اور ب تک سزا کا دن مکرر نہی کیا تھا-

شاہ رخ جتوئی کیس میں مقتول کے والدین کے پاس قتل کی معافی کا اختیار تھا لیکن ملزم پر لگے دوسرے الزامات مثلاً جعلی پاسپورٹ پر بیرون ملک روانگی، غیر قانونی اسلحہ کی نمائش، لڑکی کے ساتھ چھیڑ چھاڑ اور اسکے بھائی کو دھمکیاں، وغیرہ وغیرہ - ان تمام جرائم کی معافی کا اختیار کسی کو نہیں تھا اورریاست کو ان سب جرائم کا ٹرائل دہشت گردی کی دفعات کے تحت کرنا چاہیئے تھا۔

کہاں ہین چیف جسٹس اور انسانی حقوق کی تنظیمیں اور ان کے علمبردار؟

جی بلکل بتا سکتا ہوں - سنو جیل میں ایسے قیدی بھی پڑے ہیں جنکو دس سال سے بھی زیادہ عرصہ ہو گیا ہے لیکن عمل نہیں ہوا . سربجیت کتنے سال سزاے موت کا انتظار کرتا رہا وہ تھا بھی انڈین جاسوس کوئی پاکستانی یا مسلمان بھی نہیں ، کراچی میں رنجرز نے سرفراز نامی لڑکے کو قتل کیا تھا ابھی تک انکو بھی پھانسی نہیں ہوئی پاکستان کی جیلوں میں سیکڑوں قیدی سزاے موت سن چکے ہیں لیکن زرداری کے پانچ سال میں ایک بھی قیدی کی سزاے موت پر عمل درآمد نہیں ہوا . اب وجہ بھی جان لو ، آئی ایم ایف اور یورپی یونین پاکستان میں سزاے موت کے خلاف ہیں اور اس کو ختم کرنا چاہتے ہیں ایسا نہ کرنے کی صورت میں وہ پاکستان کی امداد پر کٹ لگانے کی دھمکی بھی دے چکے ہیں لیکن حکومت پاکستان ایسا کر بھی نہیں پا رہی کیونکہ تہتر کے آئیں میں واضح لکھا ہے کہ پاکستان میں کوئی بھی قانون قرآن اور اسلام کے منافی نہیں بن سکتا . اسلام میں چونکہ سزاے موت ہے اس لیے پاکستان میں قانونی طور پر سزاے موت کو ختم نہیں کیا جا سکتا ایسا کرنے کی صورت میں حکومت پاکستان کو مذہبی جماعتوں اور دوسرے دینی طبقوں کی سخت مخالفت کا سامنا ہو سکتا ہے اس لیے کوئی بھی حکومت یہ رسک لینے کو تیار نہیں لہٰذا اسکا حکومت نے حل یہی نکالا ہوا ہے کہ پھانسی دو بھی نہیں اور قانون میں رہے بھی - یہی وجہ ہے کہ شاہ رخ کی پھانسی پر بھی عمل نہیں ہو سکا چار مہینے تو بہت کم ہیں یہ چار سال بھی معاف نہ کرتے تو پھانسی نہیں ہونی تھی -

شاہ رخ کو سزا موت کے بعد شاید ایک مثال قائم ہو جاتی کہ پاکستان میں اب امیروں کے بچوں کو کسی کو ناحق قتل کرنے کا لائسنس نہیں - اور جیسے غریب قاتل کو سزا ملتی ویسے ہی امیر قاتلوں کو بھی سزا ملتی ہے - لیکن شاید ابھی ایسا ہونے کو مزید کئی دہایاں لگیں گی -
 
Abdul Rehman
About the Author: Abdul Rehman Read More Articles by Abdul Rehman: 216 Articles with 274542 views I like to focus my energy on collecting experiences as opposed to 'things

The friend in my adversity I shall always cherish most. I can better trus
.. View More