پروفیسر شاہد اقبال اور ایک چھپکلی

پروفیسر شاہد اقبال اور ایک چھپکلی کی کہانی

تحریر : ڈاکٹر مجیب ظفر انوار حمیدی
آج جو میں نے دیکھا ۔۔ جو دیکھا اُس پر یقین آہی جائے گا ۔۔ بات یہ ہوئی کہ آج مجھے پانچ بجے پروفیسر شاہد اقبال کا میسج ملا کہ ’’مجیب میں تمہارے ساتھ ہی واک کروں گا ، پلیز مجھے لے لینا ۔‘‘ حسبِ معمول میں نے اُن کو محتاط ہنے کی تاکید کی :) اور پھر معاہدے کی رُو سے میں اُن کو لینے اُن کے گھر گیا جو ہمارے بنگلوز سے بیس منٹ کی واک پر ہے۔وہاں جا کر میں نے موبائل فون سے ٹیکسٹ کردیا کہ باہر تشریف لائیے۔۔خاصی دیر گزر گئی ، پروفیسر صاحب کا نام و نشان نہ تھا۔زمیں جنبد زماں جنبد، نہ جنبد گل محمد ۔۔۔ الٰہی پروفیسر صاحب کہاں گئے ؟ اُفو۔۔۔۔ پانچویں ٹیکسٹ پر دوسرے فلور سے شاہد اقبال کی گھبراہٹ میں غوطے کھاتی آواز اُبھری ۔۔۔۔۔’’مجیب ابھی آتا ہوں ، ایک منٹ ۔۔۔ ‘‘
بارے خدا خدا کرکے پروفیسر صاحب برامد ہوئے ، علی گڑھ کٹ پاجامے ، سفید بُراق کُرتے میں گلابی رنگت دمک رہی تھی۔
’’کیا ہوا۔۔۔۔ بخار تیز ہوگیا ؟‘‘
’’اوہو ۔۔۔۔ نھیں بھئی ! ‘‘ جھلّا کر بولے۔
’’پھر ۔۔۔۔ ہوا کیا ؟ گھر میں ٹارگٹ کلرز گھُس آیا ہے ؟ ‘‘
’’ارے بھائی وہ تو پچیس سال پہلے گھُسا تھا ، کوئی نئی بات کرو ۔۔۔ ‘‘ ڈائریکٹ خاتونِ تھانہ ۔۔۔معاف کیجئے گا ۔۔ خاتونِ خانہ پر طنز تھا ۔۔۔۔۔
’’اوہو بھائی ۔۔۔۔ تو ہوا کیا ہے ؟ ‘‘ میں بنگلے کے سامنے تیز ہوا میں ورزش کرتے کرتے اوب گیا ۔
’’وہ ایک چھپکلی کو ڈھونڈ رہا تھا ۔۔۔۔‘‘
’’ہائیں ‘‘ میرے سامنے کا منظر بھک سے اُڑ گیا ۔۔۔’’ہاں یار پلیز پانچ منٹ بیٹھو ، ابھی چلتے ہیں !,‘‘ اب جو میں اُن کی دعوت پر اُن کے گھر میں گیا تو وہ اپنے خوبصورت بیڈ روم میں اس حال میں تھے کہ پورے بیڈ پر جنگ کا سا منظر تھا ، ۱۸ گریڈ کی اُن کی بیگم محترمہ پروفیسر ثمینہ اقبال باقاعدہ مورچہ بند فوجی کی طرح اُس نابکار چھپلی کو تلاش رہی تھیں جس نے آج کی واک کا بیڑا غرق کیا تھا۔کمرے میں ہر طرح کے کیمیکلز کی ناگوار بُو پھیلی تھی، میرے خیال میں ہر وہ اسپرے استعمال میں لایا گیا تھا جس پر گُمان بھی تھا کہ وہ مردود چھپکلی کو عالمِ آب وگِل سے عالمِ ارواح میں پہنچا سکتا ہے۔۔۔ ’’افوہ ۔۔۔ حضت ۔۔۔آپ کی واک تو ہوگئی !‘‘ میں نے اُن کو پسینے پسینے دیکھ کر چوٹ کی۔ہنسے اور بولے :’’تو پھر بیٹھو۔۔چائے ٹھنڈا چلے گا۔۔‘‘ وہ باتیں کرتے جارہے تھے اور ساتھ ساتھ بیگم صاحبہ کے احکامات کے مطابق اُس عظیم الجثہ چھپکلی کو ڈھونڈے جارہے تھے جو بقول اُن کی بیگم کے کالی اور خاصی بڑی تھی اور بیڈ رُوم مکمل طور پر سِیل کرنے کے باوجود کہیں سے ٹہلتی ٹہلاتی آنکلی تھی۔۔۔۔ مجھے ایک ۱۹ اور ۱۸ گریڈ کے گزیٹڈ پروفیسرز کو دیکھ کر شدید ہنسی کا دورہ پڑنے کو ہوا۔۔۔۔۔ مگر اُن کی بیگم کی وجہ سے خاموش رہا۔۔۔۔ اُسی میدانِ کارزار میں میرے لیے کُرسی لائی گئی ۔۔ دس منٹ بعد میں نے فتویٰ دیا:’’ شاہد۔۔۔۔میرے خیال میں چھپکلی مرچکی ہے، جبھی تو کہیں مل نہیں رہی ہے !‘‘
اس پر وہ مردِ خوش خُو بولا:’’ہاں یار ۔۔۔ لگتا ہے تم ٹھیک کہہ رہے ہو۔،،کیونکہ اُس پر دوائیں تو ٹھیک ٹھاک پڑ چکی تھیں۔‘‘ اتنا کہہ کر وہ از سرنو چھپکلی تلاشنے لگے۔۔۔’’ہاہاہا۔۔۔ہاہاہاہا۔۔۔ہاہاہا!‘‘ اب میں بے اختیار تھا ۔۔۔اُس مرحومہ چھپکلی کی لاش تلاشنے کا مجھے کوئی شوق نہ تھا ، مغرب کی اذان الگ ہونے کو تھی۔۔۔۔میں نے اُن سے مصافحہ کیا۔۔۔واک کی مبارک باد دی اور ایک چھلانگ مار کر اُس حسرت کدہ سے باہر نکلا جہاں پروفیسر ثمینہ اقبال صاحبہ محض ایک نابکار چھپکلی کی لاش کے دیدار کو اپنے شوہرِ نامدار کو ہلکان کرچکی تھیں ۔ہاہاہا۔۔۔۔۔۔
کیجئے ہائے ہائے کیا ، روئیے زار زار کیوں ؟؟؟
لیجے صاحب ، چھپکلی بھی خُوب نکلی ، بالکل دُبئی فرار ہوجانے والے سیاست دانوں کی طرح ، پروفیسر شاہد اقبال کو ناکوں چنے چبوا دئے :)
 

پروفیسر ڈاکٹر مجیب ظفر انوار حمیدی
About the Author: پروفیسر ڈاکٹر مجیب ظفر انوار حمیدی Read More Articles by پروفیسر ڈاکٹر مجیب ظفر انوار حمیدی: 10 Articles with 35409 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.