وسیم نے جھک کر اسے اٹھانا چاہا، لیکن یکایک بٹوے کی طرف
بڑھتے ہوئے ہاتھ رک گئے۔ اُسی وقت دل نے کہا: ’’ارے، رک کیوں گئے، اٹھائو
بٹوے کو‘‘ ***** وسیم گھر پہنچا تو پریشانی اس کے چہرے سے عیاں تھی۔ امّی
نے اس کا اُترا ہوا چہرہ دیکھا تو پوچھ ہی بیٹھیں۔ ’’کیا بات ہے؟ میرے چاند
کا چہرہ کیوں اُترا ہوا ہے؟‘‘ وسیم اپنا چھوٹا سا مسئلہ بتا کر امّی کو
پریشان نہیں کرنا چاہتا تھا۔ اسے علم تھا کہ وہ کس طرح تنگ دستی سے اس کی
تعلیم کا خرچہ اُٹھا رہی ہیں۔ اس نے امّی جان کی بات کے جواب میں کہا۔
’’امّی جان، سر میں کچھ درد سا ہے اس لیے طبیعت بوجھل سی ہورہی ہے۔‘‘ وسیم
کی یہ بات سن کر امّی نے پان دان میں سے درد کی ٹِکیا نکالی اور اس کے ہاتھ
پر رکھ کر بولیں: ’’کھانا کھانے کے بعد اسے کھا لینا۔ سر کا درد بالکل ٹھیک
ہوجائے گا، مگر خالی پیٹ نہ کھانا۔‘‘ ’’بہت بہتر!‘‘ وسیم نے تابع داری کے
ساتھ امّی کی بات کا جواب دیا۔ اس کے سر میں واقعی شدید درد ہورہا تھا۔ سوچ
سوچ کر دماغ پھٹا جارہا تھا، لیکن ندیم کو تحفہ دینے کی کوئی سبیل اس کی
سمجھ میں نہیں آرہی تھی۔ رات بھر اسے نیند نہ آئی۔ فجر کی نماز پڑھ کر وہ
گھر آیا تو امّی نے کہا ’’بیٹا دودھ لے آئو!‘‘ ’’جی بہت بہتر!‘‘ وسیم نے
امّی سے دودھ کے پیسے لیے اور گھر سے باہر نکل آیا۔ سورج نے ابھی اپنی آنکھ
نہیں کھولی تھی، البتہ درختوں پر پرندوں کا شور گونج رہا تھا۔ وہ صبح ہی
صبح باری تعالیٰ کی حمد و ثنا میں مصروف تھے، جب کہ اکثریت اپنے گھروں میں
ابھی تک محو خواب تھی۔ نسیم صبح اس کے چہرے سے آکر ٹکرائی تو اسے تازگی کا
احساس ہوا۔ وہ گلی میں تھوڑا سا آگے بڑھا ہی تھا کہ اچانک ٹھٹھک کر رک گیا۔
اس کے قدموں کے قریب کالے رنگ کا چھوٹا سا بٹوا پڑا ہوا تھا، جس کی زِپ
آدھی کھلی ہوئی تھی اور اس میں سے ہزار ہزار کے نوٹ جھانک رہے تھے۔ وسیم نے
جھک کر اسے اٹھانا چاہا، لیکن یکایک بٹوے کی طرف بڑھتے ہوئے ہاتھ رک گئے۔
اُسی وقت دل نے کہا: ’’ارے، رک کیوں گئے، اٹھائو بٹوے کو، اس سے پہلے کہ
کوئی اور اُٹھالے، تم اس رقم ندیم کے لیے اچھا سا تحفہ بھی خرید سکتے ہو۔‘‘
لیکن دماغ نے کہا: ’’یہ بٹوا تمہارا ہے، نہ ہی اس میں موجود رقم تمہاری ہے،
بل کہ یہ کسی کی امانت ہے، اس میں خیانت نہ کرنا۔ ہوسکتا ہے یہ کسی ضرورت
مند کا بٹوا ہو۔‘‘ پھر کچھ سوچ کر وسیم نے بٹوا اٹھا لیا۔ جب دودھ لے کر وہ
گلی میں واپس آرہا تو ایک عمر رسیدہ بڑے میاں گلی میں اِدھر اُدھر نیچے
دیکھتے، کچھ تلاش کرتے نظر آئے۔ وسیم سمجھ گیا کہ وہ بٹوا تلاش کررہے ہیں۔
یقیناً بٹوا ان ہی کی ملکیت ہوگا۔ وہ ان کے قریب گیا اور بڑے ادب سے پوچھا:
’’بڑے صاحب، آپ کیا تلاش کررہے ہیں؟‘‘ بڑے میاںنے گردن اٹھا کر اس کی طرف
دیکھا۔ ان کی بوڑھی آنکھوں میں آنسو تیر رہے تھے۔ انہوں نے آواز بھرّائی
ہوئی آواز میں کہا: ’’بیٹا صبح میں فجر کی نماز پڑھنے یہیں سے مسجد گیا تھا،
واپسی میں میرا بٹوا کہیں گر گیا۔ پتا نہیں مسجد میں گرا یا اس گلی میں۔
دونوں ہی جگہ دیکھ لیا ہے، کہیں نہیں ملا۔‘‘ ’’کتنے پیسے تھے اس میں، کیا
رنگ تھاآپ کے بٹوے کا؟‘‘ وسیم نے بڑے ادب سے پوچھا۔ بڑے میاں بے تابی سے
بولے: ’’کالے رنگ کا تھا، دس ہزار تھے اُس میں!‘‘ وسیم نے اپنی جیب سے بٹوا
نکال کر چیک کیا، پھر ان کے ہاتھ پر رکھتے ہوئے کہا: ’’یہ رہی آپ کی امانت،
جس طرح اٹھائی تھی، اسی طرح رکھی ہے۔ اطمینان سے اپنی رقم گِن لیجیے۔‘‘ بڑے
میاں نے جھٹ سے بٹوا لے کر اس میں موجود نوٹ گِنے، ان کے ہاتھ کپکپارہے تھے،
پھر جب انہوں نے نوٹ گِننے کے بعد وسیم کی طرف دیکھا تو ان کی آنکھوں میں
خوشی کے آنسو تھے۔ ’’بہت شکریہ میرے بچّے، میرا بٹوا مجھے مل گیا، پورے
پیسے ہیں اس میں۔‘‘ بڑے میاں ایک لمحے کو خاموش ہوئے، پھر دوسرے ہی لمحے
کہنے لگے: ’’میرا لڑکا سخت بیمار ہے، اسپتال میں داخل ہے، اس کے علاج کے
لیے میں نے یہ پیسے اُدھار لیے تھے۔ اگر یہ مجھے نہ ملتے تو میرا بیٹا مر
جاتا۔ آج اس کا آپریشن ہے۔‘‘ بڑے میاں کی سانس پھول رہی تھی۔ انہیں یقین
نہیں آرہا تھا کہ ان کا گم شدہ بٹوا اتنی آسانی سے واپس مل گیا ہے۔ وسیم نے
کہا: ’’بڑے صاحب! اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیجیے اور جلدی سے اسپتال جائیے۔‘‘
’’آں… ہاں… ہاں! تمہارا بہت بہت شکریہ بیٹے! اللہ تمہیں لمبی زندگی دے۔ بڑا
آدمی بنائے تمہیں۔‘‘ جاتے جاتے بڑے میاں نے اسے بہت ساری دعائیں دے ڈالیں۔
گھر آکر پورا واقعہ وسیم نے امّی جان کو سنایا، تو وہ بھی اس کی ایمان داری
سے بے حد خوش ہوئیں۔ پھر جیسے ہی وہ ناشتا کرنے بیٹھا، ویسے ہی ندیم کی سال
گرہ کا خیال اس کے ذہن پر سوار ہوگیا۔ وہ اداس ہوکر صحن میں کھلے گلاب کے
پھولوں کی طرف دیکھنے لگا۔ کیاری میں گلاب کے پودےمیں تازہ پھول مہک رہے
تھے۔ پھولوں کی بھینی بھینی خوش بُو اس کے دماغ میں گھسنے لگی۔ اچانک اس کے
دماغ میں ندیم کو اس کی سال گرہ پر تحفہ دینے کی ترکیب آہی گئی۔ ندیم کو
گلاب کے پھول بہت پسند تھے اور وسیم کے خیال میں گلاب کے پھولوں سے بڑھ کر
کوئی دوسرا تحفہ اس کے لیے اچھا ہو ہی نہ سکتا تھا، چناں چہ اس نے بہت سارے
گلاب کے پھول توڑے اور ان کا گل دستہ بنانے لگا۔ جب گل دستہ تیار ہوگیا
تواسے خوب صورت پیکٹ میں لپیٹ دیا۔ پھر شام ہوتے ہی نہا دھو کر صاف ستھرے
کپڑے بدل کر اپنا تحفہ سنبھالے ندیم کے گھر روانہ ہوگیا۔ جب وہ وہاں پہنچا
تو کافی لوگ آچکے تھے۔ ندیم کی کوٹھی کے باہر کاریں ہی کاریں کھڑی تھیں، جب
کہ کوٹھی کے اندر رنگ و نُور کا سیلاب اُمنڈ آیا تھا۔ ندیم کوٹھی کے اندر
مصروف تھا، جب کہ اس کے بڑے بھائی مہمانوں کو خوش آمدید کہہ رہے تھے اور
مہمانوں کی تواضع ٹھنڈے مشروبات سے کی جارہی تھی۔ لان میں کرسیاں لگا کر
مہمانوں کے بیٹھنے کا انتظام کیا گیا تھا اور کرسیاں مہمانوں کی آمد کے
ساتھ ساتھ پُر ہوتی جارہی تھیں۔ ندیم کے بہت سارے دوست بھی سال گرہ میں آئے
ہوئے تھے۔ وہ سب ایک طرف بیٹھے تھے اور اپنے اپنے تحفوں کے بارے میں بتا
رہے تھے۔ وسیم ان لوگوں کے قریب ہی پڑی کرسی پر بیٹھ گیا۔ اسے ایک لڑکے کی
آواز سنائی دی۔ وہ کہہ رہاتھا: ’’آج کل جاپانی کیمروں کا بڑا زور ہے، یہ
منہگے تو ہوتے ہیں، لیکن کوالٹی بڑی اچھی ہوتی ہے، میں نے اپنے دوست ندیم
کو اسی طرح جاپانی کیمرا دینے کا فیصلہ کیا ہے۔‘‘ وہ لڑکا دوسرے لڑکوں کو
ایک بڑھیا جاپانی کیمرا دکھانے لگا۔ اب دوسرا لڑکا بولا: ’’ایک بار ندیم نے
کہا تھا، مجھے راڈو گھڑی پسند ہے، چناں چہ میں اس کے لیے ایک راڈو لایا ہوں۔‘‘
تمام لڑکے اپنے اپنے تحفوں کی بڑائی جتا رہے تھے اور وسیم سرجھکائے ان کی
بناوٹی اور تصنّع بھری گفتگو چُپ چاپ سن رہا تھا۔ اسے چُپ چاپ دیکھ کر ایک
لڑکے سے صبر نہ ہوسکا۔ وہ اس سے پوچھ ہی بیٹھا، ’’تم کیا تحفہ لائے ہو؟‘‘
’’مم… مم… میں… میں… وسیم کا گلا جیسے خشک سا ہوگیا۔ اس کے منہ سے الفاظ
نہیں نکل رہے تھے۔ لان میں چاروں طرف گلاب کے بے شمار پودے لگے تھے اور ان
میں لگے سیکڑوں گلاب کے پھول اپنی بھینی بھینی مہک سے فضا کو معطّر بنا رہے
تھے۔ وسیم سوچنے لگا۔ ’’ندیم کے لان میں بے شمار گلاب کھلے ہیں، اسے بھلا
میرا سچّے پھولوں کا تحفہ کیا خاک پسند آئے گا۔‘‘ اسے اپنا دل ڈوبتا ہوا
محسوس ہوا۔ ’’کیا تم ندیم کے لیے کوئی تحفہ نہیں لائے؟‘‘ لڑکوں نے پوچھا تو
اٹک اٹک کر وسیم نے کہا: ’’ندیم کو گلاب کے پھول بہت پسند ہیں، میں اس کے
لیے… گلاب کے پھول لایا ہوں۔‘‘ ایک لڑکے نے مزاحیہ انداز اس کا جملہ مکمل
کیا، تو سارے لڑکے کِھلکِھلا کر ہنس پڑے۔ کچھ لڑکے تو اتنا ہنسے کہ ان کی
آنکھوں سے پانی بہنے لگا۔ ان لڑکوں کے قہقہے سن کر ندیم وہاں آگیا۔ اس نے
ابھی تک وسیم کو نہیں دیکھا تھا، آتے ہی کہا: ’’ارے بھئی، اتنا کیوں ہنس
رہے ہو؟ کیا کوئی دل چسپ لطیفہ سنادیا گیا ہے؟ اگر ایسی بات ہے تو میں بھی
وہ لطیفہ سننا پسند کروں گا۔‘‘ یہ سن کر ایک لڑکے نے کرسی سے اٹھ کر کہا:
’’ہاں، بڑا دل چسپ لطیفہ ہوا ہے۔ ایک لڑکا تمہیں سال گرہ میں دینے کے لیے
گلاب کے پھولوں کا سستا سا تحفہ لایا ہے۔‘‘ اب ندیم نے وسیم کو دیکھ لیا،
جو شرمندگی سے زمین میں گڑا جارہا تھا۔ وہ لپک کر اس کے قریب آیا، پھر اس
نے وسیم کو کرسی سے اٹھا کر اپنے سینے سے لگالیا اور بھینچتے ہوئے کہا:
’’میرے ان بے وقوف دوستوں کی باتوں کا بُرا نہیں ماننا۔ ان سب پر اپنے
تحفوں کی بڑائی جتانے کا بُھوت سوار ہے۔ یہ تحفوں کو خلوص کی خوش بُو سے
نہیں، بڑائی کے پیمانے سے ناپتے ہیں۔‘‘ اتنا کہہ کر ندیم نے وسیم کے ہاتھ
سے پیکٹ لے کر پھاڑا اور گل دستے کے پھولوں کی بھینی بھینی خوش بو کو اپنی
سانسوں میں کھینچتے ہوئے بولا: ’’ان پھولوں میں خلوص و محبت کی اتنی خوش
بُو ہے، جتنی یہاں لان میں لگے ہوئے پھولوں میں بھی نہ ہوگی۔‘‘ اتنا کہہ کر
اس نے وسیم کے گل دستے کو محبت سے چُوم لیا۔ وسیم کی آنکھوں میں خوشی کے
آنسو تیرنے لگے۔ اس نے بزرگ کی امانت کی لاج رکھی تو، ندیم نے بھی اس کی
دوستی کی لاج رکھ لی تھی۔
|