مصر کی صورت حال ……لمحہ فکریہ

بسم اﷲ الرحمان الرحیم

مولانامحمد حنیف جالندھری جنرل سیکرٹری وفاق المدارس العربیہ پاکستان

مصرمیں اس وقت جو افسوس ناک ،الم ناک اور شرمناک صورتحال ہے اس پر ہر درد دل رکھنے والاانسان پریشان اور فکرمند دکھائی دیتاہے لیکن اس صورتحال سے سبق سیکھنے اور اسے مدنظر رکھتے ہوئے مستقبل کے اہداف کی تعیین اور راستوں کے انتخاب کاطرز عمل دیکھنے میں نہیں آرہا۔اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ اس صورتحال کاگہرائی سے جائزہ لیا جائے ،اس پر خو ب غور وخوض کر کے اس کے پس منظر اور پیش منظر کو سامنے رکھا جائے اور اس بات کی فکر کی جائے کہ باقی دنیااور بالخصوص عالم اسلام کے دیگر ممالک کواس قسم کی صورتحا ل سے کیونکر بچایاجاسکتاہے ۔

مصرمیں ظلم وستم کاجو بازا رگرم ہے وہ تو اپنی جگہ لیکن اس صورتحال میں اسلامی دنیاکے حکمرانوں کاطرزعمل سب سے زیادہ افسوس ناک ہے۔ صرف ایک ترکی کے رہنماؤں کی طرف سے جرأت مندی کامظاہرہ سامنے آیالیکن باقی اسلامی دنیاکے حکمران گومگو اور تذبذب کی کیفیت میں ہیں یہ صرف مصرہی کامعاملہ نہیں بلکہ شام میں جس انداز سے مظلوموں کے خون سے ہولی کھیلی جارہی ہے،برمامیں مسلمانوں پر جس انداز سے عرصہ حیات تنگ کیاجارہاہے اور فلسطین کے مسلمان عرصے سے جس جبروتشدد کی چکی میں پس رہے ہیں ان تمام مسائل میں عالم اسلام کے ارباب اختیار وا قتدار کاطرزعمل سب سے زیادہ افسوس ناک بلکہ شرمناک ہے اگر ترکی کی طرح صرف دو چار اسلامی ممالک کے حکمران ہی درست طرز عمل اپنا لیں ،جرات مندی اور ثابت قدمی کا مظاہر ہ کریں تو دنیا کا نقشہ بدل سکتا ہے ۔لیکن المیہ یہ ہے کہ حکمرانوں کو بارہاآزمانے کے باوجود آج بھی ہم ایک مرتبہ پھر او آئی سی جیسے اداروں اور ان بے ثمر حکمرانوں سے توقعات وابستہ کیے بیٹھے ہیں اور خود امت کے نوجوانوں کو کو ئی لائحہ عمل دینے سے قاصر ہیں۔ اس صورتحال میں ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومتی سطح پر نہیں بلکہ کسی فورم،کسی پلیٹ فارم یاکسی ادارے کی سطح پر عالمِ اسلام کے عالی دماغوں ،اہلِ علم اور اربابِ فضل وکمال کو جمع کیاجائے اور اس صورتحال کا کوئی حل پیش کیاجائے ،عالمِ اسلام کے نوجوانوں کو کوئی راستہ دکھایاجائے کیونکہ نوجوان اور عوام اس وقت ہر کوشش ،ہر جدوجہد اور ہر قربانی کے لئے تیار ہیں ۔اس کی ایک جھلک سوشل میڈیاپر دکھائی دی ۔ مصری شہداء سے اظہار یکجہتی اور مسجد رابعہ العدویۃ میں جام شہادت نو ش کرجانے والوں سے منسوب علامتی نشان کی کروڑوں کی تعداد میں لوگوں نے جس طرح پزیرائی کی اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ابھی اس خاکستر میں بہت سی چنگاریاں موجود ہیں انہیں کو ئی رخ دینے اور منزل کا پتہ بتانے کی ضرورت ہے ۔

مصر میں ہونے والے قتل عام اور شام میں ڈھائے جانے والے مظالم پر اقوام متحدہ اور دیگر مغربی ممالک کی خاموشی بلکہ جانبداری نے ایک مرتبہ پھر ان کے دوہرے معیار کا بھانڈہ بیچ چوراہے پھوڑڈالا ہے ۔اگر سوڈان کے عیسائیوں کو کوئی کانٹاچبھتاہے تووہ سب یکجا ہو جاتے ہیں ،مشرقی تیمور میں ایڑی چوٹی کا زور لگادیتے ہیں،افغانستان پر سب متحد ہو کر یلغار کر دیتے ہیں لیکن مصر،شام،فلسطین اور برماسمیت دیگر اسلامی ممالک میں کوئی بھی قیامت ٹوٹ پڑے ان کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی ،انسانی حقوق کے علمبردار ٹس سے مس نہیں ہوتے،جمہوریت، جمہوریت کا راگ الاپنے والوں کو سانپ سونگھ جاتاہے ۔مصرمیں ہونے والے حادثا ت واضح کرتے ہیں کہ انسانی حقوق ،جمہوریت ،آزادئی اظہار جیسے تمام نعرے محض فریب ہیں ،یہ مفاد پرستی اور خود غرضی پر چڑھائے گئے ایسے لبادے ہیں جن کو طاقت ور اور طاغوتی قوتیں ہمیشہ اپنے مفادات اور مقاصد کے لئے استعمال کرتی ہیں ۔اس لیے اس صورتحال میں ہماری آنکھیں بھی کھل جانی چاہیں اور اگر کسی سطح پر کسی قسم کی غلط فہمی ہے تو وہ بھی دور ہو جانی چاہیے۔

مصر اور شام کی صورتحال کا سب سے زیادہ افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ ان دونوں ممالک میں دونوں طرف کلمہ گو موجود ہیں ۔مصر میں اسلام پسندوں اور روشن خیالوں کے مابین جبکہ شام میں جبرومظلومیت کی جنگ کو فرقہ واریت کا رنگ دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔اس صورتحال سے بھی نجات کے لئے فکر کرنی چاہئے،امت مسلمہ کے رہنماؤں کو رہنمائی کا فریضہ سر انجام دینا چاہئے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنے ملک اور اپنے معاشرے کی بھی فکر کرنی چاہئے کیونکہ یہ دوریاں اور خلیج راتوں رات نہیں پیداہوتی ،بلکہ قتل وغارت گری کے یہ بیج برسوں عشروں پہلے بوئے جاتے ہیں ،ان کی آبیاری کی جاتی ، انہیں بتدریج پروان چڑہایاجاتاہے اور بالآخر اس طرح کے حادثات رونماہوتے ہیں ۔ہم اگر اپنے حالات کاجائزہ لیں تو اندازہ ہوتاہے کہ یہاں بھی پرویز مشرف کی شکل میں ایک حسنی مبارک مسلط کیاگیاجس نے پاکستانی معاشرے کو اسلام پسندی اور سیکولر ازم کے دو کیمپوں میں تقسیم کرنے کی کوشش کی، اس نے فوج اور عوام کو ایک دوسرے کے مقابلے میں صف آرا کیا،اس نے لال مسجد میں معصوم طلباء و طالبات پر فوج کشی کر کے اس خلیج کو اپنی آخری حدوں تک پہنچانے کی کوشش کی۔اﷲ کا شکر ہے کہ ہمیں پر ویز مشرف سے تو نجات مل گئی لیکن اس نے ہمارے معاشرے میں جو کانٹے بوئے ، نفرتوں کی جو فصل کاشت کی ان کانٹو ں کو شائد ہمیں صدیوں چننا پڑے ۔آج پرویز مشرف تو اگرچہ حفاظتی حصار میں ہے لیکن اس ملک کے سیکولر فاشسٹ اور دانش فروش معاشرے میں تفریق کو ہوادے رہے ہیں اور بتدریج اس معاشرے کو بھی اسی پٹڑی پر چڑھانے کی کوشش ہو رہی ہے جس پر چلتے چلتے مصر اس صورتحال سے دوچار ہوا ۔اسلام اور دو قومی نظریے کی بنیاد پر معرضِ وجود میں آنے والی اس اسلامی ریاست کو پٹڑی سے اتارنے،اس ریاست کے باسیوں کا عقیدہ اور نظریہ تبدیل کرنے اور ان کو مصرکی طرح باہم دست وگریبان کرنے کے لئے ہر حربہ آزمایاجارہاہے،فحاشی کو ہوادی جارہی ہے،کہیں بے دینی کاسیلاب ہے ،کہیں اسلام دشمن پالیسیاں ہیں،کہیں آئینی ،قانونی اور جمہوری طریقے سے اس ملک میں بہتری لانے کی کوشش کرنے والوں کا راستہ روکا جا رہا ہے ،کہیں دینی مدارس کے لیے مسائل ومشکلات میں اضافہ کیا جا رہا ہے ،کہیں علماء کرام پر چھاپوں اور گرفتاریوں کا سلسلہ جاری ہے ۔ایسے میں پاکستان سے محبت رکھنے والوں اور اسلام سے وابستگی رکھنے والوں کو اس بات کی فکر کرنی چاہئے کہ کہیں یہاں بھی خاکم بدہن کبھی مصر جیسی صورتحال نہ پیدا ہوجائے اور اس فکر کے ساتھ ساتھ اپنے وطن اور امت مسلمہ کے لیے دعاؤں کا اہتمام کرنا چاہیے ۔
Abdul Quddus Muhammadi
About the Author: Abdul Quddus Muhammadi Read More Articles by Abdul Quddus Muhammadi : 120 Articles with 130197 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.