حضرت حذیفہ بن یمانؓ مشہور جلیل
القدرصحابہ کرام ؓ میں سے ہیں۔آپ ؓ قبیلہ بنو عبس سے تعلق رکھتے تھے اور
اپنے وطن ہی میں اپنے والد ماجد’’حضرت حسل‘‘(جن کا لقب یمان تھا) کے ساتھ
اسلام لے آئے تھے ۔اسلام لانے کے بعدیہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں
حاضرہونے کے لیے روانہ ہوئے ۔اتفاق سے یہ ٹھیک وہ وقت تھا جب آپ صلی اﷲ
علیہ وسلم غزوہ بدر کی تیاری فرمارہے تھے اور آپ کے مقابلہ کے لیے ابوجہل
کا لشکر مکہ مکرمہ سے روانہ ہوچکا تھا ۔حضرت حذیفہ بن یمان اور آپ کے
والدکی راستے میں ابوجہل کے لشکر سے مڈبھیڑ ہوگئی ۔انہوں نے دونوں کو
گرفتار کرلیا اور کہا کہ تم محمد(صلی اﷲ علیہ وسلم)کے پاس جارہے ہو‘‘۔انہوں
نے جواب دیا کہ ’’ہم تو مدینہ جارہے ہیں‘‘۔اس پر ابوجہل کے لشکر والوں نے
ان سے کہاکہ’’ ہم تمہیں اس وقت تک آزاد نہیں کریں گے جب تک تم ہمارے ساتھ
یہ معاہدہ نہ کرو کہ تم صرف مدینہ جاؤ گے ،لیکن ہمارے خلاف جنگ میں ان کا
ساتھ نہیں دو گے ۔مجبوراً ان حضرات نے یہ معاہد ہ کرلیا ،اور اس کے بعد
حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچ کر یہ سار اواقعہ ذکر کیا ۔اُس
وقت حق وباطل کا سب سے پہلا معرکہ درپیش تھا ۔مقابلہ ان کفار ِ قریش سے تھا
جو اسلحہ میں غرق ہوکر آئے تھے ،اور جن کی تعدا د مسلمانوں کے مقابلہ میں
تین گنا سے بھی زائد تھی ۔ادھر مسلمانوں کے لیے ایک ایک آدمی بڑا قیمتی
تھا،لیکن حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اتنے سنگین اور مشکل حالات میں بھی
معاہدے کی خلاف ورزی کو برداشت نہ کیا اور ارشاد فرمایاکہ ’’ہم اُ ن کے عہد
کو پورا کریں گے اور کفار کے خلاف اﷲ عزوجل سے مد د مانگیں گے ‘‘(صحیح مسلم
)۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت حذیفہ بن یمان ؓ کو اس بنا پرپہلے اسلامی
معرکے (غزوہ بدر) میں شرکت کی اجازت بھی نہیں دی۔
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی امانت اور ایفاء عہدکا ایک دوسرا واقعہ بھی ملاحظہ
فرمائیں۔عبداﷲ بن ابی الحمساء ؓایک صحابی ہیں ان کا بیان ہے کہ’’ بعثت سے
پہلے میں نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے خرید وفروخت کا کوئی معاملہ کیا ،(پھرجوکچھ
میں نے دینا تھا اس کا کچھ حصہ تو میں نے وہیں دے دیا)اور کچھ ادا کرنا
باقی رہ گیا ،تو میں نے آپ سے وعدہ کرلیا کہ میں اسی جگہ لے کر
آتاہوں۔اتفاق سے تین دن تک مجھ کو اپنا وعدہ یا د نہ آیا ،تیسرے دن جب وعدہ
گاہ پر پہنچا توآپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو اسی جگہ منتظر پایا ،لیکن اس وعدہ
خلافی سے آپ کی پیشانی پر بل تک نہ آیا ،صرف اس قدر فرمایا کہ’’ تم نے مجھے
مشکل میں ڈالا اور زحمت دی ، تین دن سے میں اسی مقام پر موجود ہوں‘‘ ۔(ابوداؤد)
ہمارے آقائے نامدار حضرت محمد صلی ٰ اﷲ علیہ وسلم کی امانت ،دیانت اور
ایفائے عہد کے واقعات بے شمار ہیں ۔آپ عہد اور وعدے کے اس قدر پکے تھے کہ
بعثت سے قبل ہی کفار مکہ آپ کو ’’صادق وامین ‘‘کہہ کر پکارتے اورآپ کے پاس
امانتیں رکھواتے ۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے ایفائے عہد کے ان عظیم الشان
واقعات سے سبق سیکھنے کے بجائے آج ہمارا معاشرہ بالکل مخالف سمت میں چل
رہاہے ۔اس وقت پورے معاشرے میں دھوکہ دہی ،جھوٹ ،بددیانتی ،خیانت جیسی موذی
بیماریاں انتہائی تیز رفتاری سے بڑھتی جارہی ہیں۔بات با ت پر جھوٹ بولنا
اورمعاملات میں بد دیانتی کرنا لوگوں کا شعار بنتی جارہی ہے۔ایک دوسرے سے
قرض لے کرقرض خواہ کوزندگی بھر دربدر کرنا رواج بنتاجارہاہے ۔لوگوں کے عہد
وپیمان کی یہ حالت ہوچکی ہے کہ آپ اگر کسی دوکان پرکوئی چیز خریدنے جائیں
تو صاحب ِدوکان آپ کو مطمئن کرنے کے لیے انتہائی یقین کے ساتھ وعدہ دیتاہے
کہ یہ چیز آپ کے معیار کے مطابق ہے ،اس میں ذرا بھی خرابی نہیں،لیکن جب آپ
اسے استعمال کرنے لگتے ہیں تو اپنے مسلمان بھائی کی اس بد دیانتی پر
متحیرہوجاتے ہیں ۔ یہ بد عہدی نہ صر ف عام لوگوں میں بڑھتی جارہی ہے بلکہ
اچھے خاصے سمجھداراور پڑھے لکھے لوگ بھی اس میں ملوث ہوتے جارہے ہیں۔
ہرطبقے اور ہر شعبے کے لوگوں تک اس کے خطرناک جراثیم پہنچتے جارہے
ہیں،سرکاری اداروں سے لے کر نجی اداروں تک ،سکولوں ،کالجوں سے لے کر
ہسپتالوں تک ہر جگہ بد عہدی کی وباء پھیل چکی ہے۔چنانچہ سرکاری اداروں میں
کام کرنے والے لوگ سرکار سے امانت اور سچائی کا عہد لے کر نوکری کرتے ہیں
لیکن اپنے اس عہد کا ایفاء نہیں کرتے اور کام چوری جیسی مذموم حرکات کاسر
عام ارتکاب کرتے رہتے ہیں۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ لوگ دانستہ اس بد عہدی کا ارتکاب کر تے ہیں اور
اسے گناہ تک نہیں سمجھتے۔حالاں کہ اسلام میں وعدہ کا ایفاء کرنانہایت ضروری
ہے اور بد عہدی، بد دیانتی اور جھوٹ وغیرہ سب ناجائز ہیں ۔اﷲ عزوجل ایفائے
عہد کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ’’عہد کو پور ا کرو ،عہد کے بارے میں (تمہاری
) باز پُرس ہونے والی ہے ‘‘(آیت : 34بنی اسرائیل)۔اس کے علاوہ آپ صلی اﷲ
علیہ وسلم نے وعدہ خلافی کو نفاق کی علامتوں میں سے ایک خاص علامت قرار
دیا۔ان ارشادات کی روشنی میں ہمیں اپنا محاسبہ کرنا چاہیے کہ ہم کہاں کھڑے
ہیں؟۔رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے عقیدت اور محبت کا تقاضا تو یہ ہے کہ ہم
اپنے پیارے محبوب صلی اﷲ علیہ وسلم کے ہر طریقے پر عمل کریں اور آپ کے منع
کیے ہوئے کاموں سے احتراز کریں ۔بحثیت مسلمان ہونے کے یہ ہماری ذمہ داری
بھی ہے اور ہمارافریضہ بھی کہ ہم آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے اس عمل کو دوسروں
تک پہنچائیں۔کیوں کہ اسی میں ہماری اور ہمارے معاشرے کی بھلائی ہے ۔معاشرے
سے بدعہدی ،دھوکہ دہی ،اور بددیانتی کو ختم کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ
ہم ان برائیوں کی بیخ کنی کے لیے کمربستہ ہوجائیں ۔ اس کام کے لیے سب سے
پہلے ہمیں اپنے آپ سے آغاز کرنا ہوگا،کیوں کہ جب تک ہم اپنا آئینہ صاف نہیں
کریں گے اس وقت تک دوسروں کو ہمارے آئینہ سے فائدہ نہیں ہوگا۔دوسرے نمبر پر
ہمیں احکام اسلام اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے طریقوں پر عمل کرنے کے لیے
دین اسلام اور سیرت طیبہ کا مطالعہ کرنا ہوگا تاکہ وقتا فوقتا ہمارے دلوں
میں دین اسلام اور آپ صلی اﷲ علیہ کی عظمت کا جذبہ اور شوق بڑھتا رہے۔ان دو
باتوں پر اگر عمل کرلیا جائے تو ان شاء اﷲ بہت جلدہمارے معاشرے میں ایفائے
عہد کی سنت زندہ ہوجائے گی اوربد دیانیتی اورجھوٹ جیسی بری عادات کا ازالہ
ہوجائے گا۔ |