زندہ دیواریں

شروع سے سنتے چلے آرہے ہیں کہ "دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں"، اب اُن کے کان ہوں نہ ہوں مگر فی زمانہ سائنس کی ترقی کو دیکھیں تو کچھ بھی مکمن ہے۔ زندہ دیواریں یعنی لیونگ والز یہ اصطلاح میری طرح آپ کے لئے بھی شاید نئی ہو مگر یہ حقیقت ہے۔ دنیا کی بڑھتی ہوئی آبادی، پکی عمارات کی تعمیر یعنی اربنائزیشن اورگنجان آباد علاقوں میں کاشت کاری یا باغبانی کے لئے گھٹتی ہوئی زرخیز زمین اُن افراد کے لئے بہت بڑامسئلہ ہے جو باغبانی کا شوق رکھتے ہیں مگر اُن کی رہائش ایسے علاقوں میں جہاں اُن کو اپنے شوق کی تکمیل کے لئے مناسب قطعہ زمین میسر ہیں۔ کچھ مہینے پہلے لاہور شہر بغرض کچھ کام اور ایک عزیز کی تیمارداری جانا ہوا، بہار کے موسم کے آخری دن چل رہے تھے مگر جاتے موسم کی رعنائیاں ابھی بھی فضاء میں موجود تھیں۔ اس دفعہ پرانے شہر کی نسبت زیادہ تر وقت لاہور شہر کی نئی آبادیوں میں گزرا۔ مختلف چوراہوں، سڑک و شاہراہوں کے کناروں کے ساتھ ساتھ درمیان کے سنٹرل میڈیا میں بہت سلیقے سے سجے ہوئے پھول بوٹے دیکھے تو دل باغ باغ ہوگیا۔ اندرون شہر کی تنگ و تاریک گلیوں کی گھٹن کو ختم کرنے کے لئے نئی آبادیوں کی منصوبہ بندی کرتے ہوئے شجرکاری کے بہت اچھے اقدامات کئے گئے ہیں۔ دم توڑتی بہار اور موسم گرماں کے سنگم پر لاہور شہر کا موسم تو تھا ہی گرم مگر سبزے کی بہتات نے اچھا سما باندھے رکھا۔ شہر کے مختلف جگہوں پر خوبصورت آرائشی پودوں کی بہترین انداز میں نمائش سے دل خوش ہوجاتا ہے۔ اسی طرح ایک موڑ مڑتے ہوئے ایک چوک میں ایک دیوار پر نظر پڑی جو سرتاپا خوبصورت قسم کی بیلوں سے بھری ہوئی تھی، ایک دوسری جگہ دوسری دیوار دیکھی جو رنگ بکھیرتے ہوئے پھولوں سے لدی کھڑی تھی۔ دیوار کے اُوپر یا نیچے یا دائیں بائیں پھولوں کی کیاریاں اوربیلیں تو دیکھیں تھیں مگر یہ میرے لئے ایک انوکھی چیز تھی۔ پہلے کبھی بھی اس قسم کی دیوار نہیں دیکھی تھی جس کے اندر ایک نئی تکنیک سے پودوں کو اُگایا گیا ہو اور پوری دیوار یوں دکھائی دیتی ہے جیسے پھول بوٹوں کے ایک قطعے کو زمین سے اُکاڑ کر عمودی کھڑا کردیا ہو۔ نہایت ہی خوشنما دکھنے والی یہ دیواریں اب کافی جگہوں پر تعمیر ہوتی نظر آرہی ہیں۔ کچھ دن پہلے پشاور صدر کے سی ایم ایچ کے پاس کمپنی باغ میں بھی یہ دیوار نصب ہوتے دیکھی مگر پھر اُس طرف جانے کا اتفاق نہیں ہواکہ کس حد تک اس پر کام کیا گیا۔

میرے خیال میں پاکستان بھر میں اس قسم کی دیواروں کی تعمیر"قادربخش فارمز" کے مالک طارق تنویرصاحب نے شروع کی اوراپنی نوعیت کی پہلی زندہ دیواریں اُنہوں نے متعارف کروائیں۔ ان دیواروں کی خاصیت یہ ہے کہ ان میں اس طرح چھوٹے چھوٹے خانے بنائے گئے ہیں کہ جن میں آسانی سے پودے آگائے جا سکتے ہیں۔ ان خانوں کو اس انداز سے ڈیزائن کی گیا ہے کہ زائد پانی کا نکاس آسانی سے ہو۔ یہ خانے ایک خاص زاویے سے ڈیزائن کئے گئے ہیں تاکہ ایک دوسرے کے اوپر آنے والے پودے خوشنما لگیں اور اُن کے درمیاں ایک مناسب فاصلہ بھی ہو۔ ان دیواروں میں بہ آسانی پودوں کو اُگایا جاسکتا ہے جو کہ نہ صرف خوشنما لگتے ہیں بلکہ بڑھتی ہوئی آبادی اور پختہ تعمیرات کی وجہ سے باغبانی کے لئے نامناسب زمین کا ایک بہترین نعم البدل ہے۔

پھول دار پودوں کے ساتھ ساتھ پودینہ، ہرہ دھنیا، سلاد کے پتے اور دوسرے ایسے پودے ان دیواروں میں اُگائے جاسکتے ہیں جو کہ کچن میں بھی کام آتے ہیں۔ جن گھروں، دفاتر یا دوسرے مقامات پر کھلی جگہوں کی کمی ہو وہاں پر اس قسم کی دیواریں لگا کر ماحول کی کثافت کو سرسبز پودوں کی بہار سے بہ آسانی ختم کیا جاسکتا ہے۔ آج کل دنیا میں ویسے بھی عمودی باغبانی کی طرف رجحان بڑھ رہا ہے کیوںکہ شہروں اور گنجان آباد علاقوں میں زمین کی کمی کی وجہ سے باغبانی کا شوق پورا کرنا بہت مشکل ہوتا جا رہا ہے اور خاص کر بڑے شہروں کی فلیٹس میں رہائش پذیر افراد کے لئے۔ میرے خیال میں عمودی دیواروں میں پودوں کی کاشت ایسے علاقوں میں ایک بہت بڑی سہولت ہے جہاں قابل کاشت زمین میسر نہ ہو۔ آج کل زراعت سے وابستہ سائنسدانوں نے ایسے سبزیوں اور پھولوں کے ایسے پودے دریافت کئے ہیں یاموجودہ پودوں کی ساخت میں اسی تبدیلیاں کیں ہیں کہ وہ مخصوص موسم کے بجائے سال کے بیشتر دنوں میں باردیتے ہیں اور کم سے کم جگہوں میں اُن کی افزائش بخوبی ہوسکتی ہے۔ اسی طرح ایک اشتہار نظر سے گزرا تھا جس میں پشاور کی ایک پودوں کی نرسری نے یہ اعلان کیا تھا کہ اُن کے پاس ایسے ٹماٹر کے پودے موجودہیں جو سال کے گیارہ مہینے پھل دیتے ہیں اور اُن کو عمودی تاروں/رسیوں کے ذریعے کھڑا کرکے کم جگہ میں کافی تعداد میں ٹماٹر حاصل کئے جاتے ہیں۔ اسی طرح اور بھی بہت سارے پودے موجود ہیں جو کہ اس طریقہ کار کے تحت اُگائے جا سکتے ہیں۔ گوگل میں ورٹیکل گارڈنز یا فارمنگ سرچ کرنے پر بہت سارا مواد مل جاتا ہے۔

Naeem Khan
About the Author: Naeem Khan Read More Articles by Naeem Khan: 15 Articles with 19218 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.