انسان کی اصل قدر وقیمت اس کا کمال فن ہے

حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو اللہ تعالی نے استثنائی طور پر بہت سی وہبی صلاحیتوں سے نوازا تھا، انھیں میں ایک خصوصیت آپ کا فصیح وبلیغ اور پرحکمت کلام بھی ہے، ادبِ عربی کے مؤرخین کا اس پر اتفاق ہے کہ آپ مسلمانوں کے سب سے بڑے خطیب اور انشا پردازوں کے امام تھے، اور آپ سے زیادہ فصیح البیان، قادر الکلام اور زبان آور شخص نظر نہیں آتا، حکمت کے سوتے ان کی زبان سے پھوٹتے تھے، بلاغت کا دریا ان کی زبان سے رواں دواں تھا، کلام وبیان پر اس درجہ قدرت تھی کہ جس بات کو چاہتے اور جس طرح چاہتے ادا کرتے، رواں اور شاداب قلم کے مالک تھے۔

آپ کی طرف بہت سے حکمت آموز اقوال منسوب ہیں جو ضرب المثل بن گئے ہیں، اور کی نظیر دوسری زبانوں میں بھی ملنا مشکل ہے، ان پر حکمت کلمات واقوال زریں کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ بہت ہی واضح اور روشن طریقہ پر بتاتے ہیں کہ یہ سب سلامت فکر، قوت مشاہدہ، باریک بینی، زندگی کے گہرے مطالعہ ،اور لوگوں کی فطرت شناسی کا اعلی ترین نمونہ ہیں، گہرے اور طویل تجربات کا نچوڑ ہیں، نفسیات انسانی کے عمیق مطالعہ، اسرار حیات سے واقفیت، اور قوموں کی صحیح نبض شناسی کا نتیجہ ہیں۔

انہی اقوال زریں اور حکیمانہ جملوں میں سے ایک مشہور جملہ یہ بھی ہے کہ قِيمَةُ كُلِّ امْرِئٍ مَا يُحْسِنُهُ یعنی "انسان کی قیمت اس کے خاص ہنر سے لگائی جاتی ہے"۔ ایک انسان بہت سے کام جانتا ہے، بہت سے ہنر سے واقف ہے، کئی علوم سے اس کو واقفیت ہے، لیکن کمال جس فن میں ہوگا، جس شعبہ میں ہوگا، جس علم میں اس کو عبور حاصل ہوگا، اور جس قدر ہوگا، اس کی قیمت اسی کے حساب سے لگائی جائے گی، اس کی اہمیت ہوگی، قدر ومنزلت ہوگی، حضرت علی نے صحیح فرمایا ہے کہ ہر انسان کی قیمت اس کام سے لگائی جاتی ہے جس کو وہ دوسروں کے مقابلہ میں اور اور خود اپنے دوسرے کاموں کے مقابلہ میں بہتر طریقہ پر انجام دیتا ہے۔

کمال اور اختصاص وامتیاز دوسروں کو جھکنے پر اور احترام پر مجبور کردیتاہے،کمال جس فن میں ہو، جس علم میں ہو، جس میدان میں ہو، جس شعبہ میں ہو، غرضیکہ زندگی کے کسی بھی شعبہ میں ہو، اگر اس کے بارے میں لوگوں کو علم ہوجائے کہ فلاں کو فلاں فن میں کمال وامتیاز حاصل ہے، اور اسے وہ دوسروں کے مقابلہ بہتر سے بہتر طریقہ سے، اچھے سے اچھے ڈھنگ سے کام انجام دیتا ہے تو اس کی قدردانی کرتے ہیں، اس کی عزت کرتے ہیں، اس کے پیچھے پیچھے پھرتے ہیں، ناز برداری اور خوشامد کرتے ہیں:
کمی نہیں قدرداں کی اکبر ؔ کرے تو کوئی کمال پیدا

اگرکوئی شخص کسی فن میں باکمال اور ماہر ہے، اور سننے یا دیکھنے میں آتا ہے کہ وہ گوشۂ گمنامی میں زندگی بسر رہا ہے، کس مپرسی میں ہے، عسرت وناداری کی زندگی بسر کررہا ہے، اس کی قدروقیمت نہیں، کوئی اہمیت نہیں، تو اس کا مطلب صرف یہی ہوتا ہے کہ اس کے اندر کوئی ایسی کمی ضرور ہے جو اس کے کمالات سے فائدہ اٹھانے میں مانع ہے، مثلاً کاہلی ہے، سستی ہے، محنت وجہد سے جی چراتا ہے، وقت اور ضابطہ کا پابند نہیں، مزاج میں سنک ہے، بداخلاق ہے، غرضیکہ کوئی نہ کوئی خامی یا کمی اس کے اندر ضرور ہوتی ہے جو اس کے کمال سے فائدہ اٹھانے میں رکاوٹ بنتی ہے۔صاحب کمال کی قدردانی کا قانون ہمیشہ سے چلا آرہا ہے، اور آج بھی ہے، آج بھی جو جتنا باکمال اور ماہر فن ہوتا ہے اس کی اسی قدر اہمیت ہوتی ہے، اس کی قیمت اسی کے بقدر ہوتی ہے۔
Abdul Hadi
About the Author: Abdul Hadi Read More Articles by Abdul Hadi: 2 Articles with 8040 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.