پرانی کتابوں کا اتوار بازار,کراچی۔11 اگست، 2013

عیدالفطر کا تیسرا دن ، صبح سویرے کا وقت۔۔۔۔۔ کتابوں کے اتوار بازار کی ویرانی دیدنی تھی۔ گنتی کے کتب فروش, فروکش تھے اور گاہک ناپید۔ ایسے میں ایک کتب فروش ’ہر مال بیس روپیہ‘ کی آواز لگاتا پایا گیا۔ کچھ ایسے خزانے لیے بیٹھا تھا کہ وہ دے اور بندہ لیتا جائے۔ہر کتاب بیس روپے میں۔۔۔۔ یوں تو اس کے پاس سے ملنے والی تمام کتابیں ہی قابل ذکر رہیں لیکن اس وقت خصوصیت سے تذکرہ ہے سجاد حیدر زیدی کی کتاب ’’عارض گیتی‘‘ کا جو بیک وقت ’’خودنوشت، مضامین سیر ِعالم، مطالعہ اور مشاہدہ ‘‘ کا مرکب ہے۔ عارض گیتی کے نام سے آج بہت کم لوگ واقف ہوں گے۔ آج کی دنیا میں جسے مارکیٹنگ و پبلسٹی کہا جاتا ہے، یہ کتاب ان ‘نعمتوں‘ سے سرفراز نہ ہوسکی۔ بقول خامہ بگوش آج کل سو گرام کے کاغذ ہر دس گرام کی بات کہی جارہی ہے۔ عارض گیتی کے معاملے میں اس مثال کو ہر لحاظ سے الٹ کر دیکھا جانا چاہیے۔ مصنف کہ تحریر ہی سے ایک ذہین شخص کے طور پر سامنے آتے ہیں، شاید نمود و نمائش سے دور تھے، اسی لیے آج ان کے نام سے شاید ہی کوئی واقف ہو۔

مذکورہ کتاب کا 75 فیصد دلچسپ حصہ (متفرق مضامین کو چھوڑ کر) اس پی ڈی ایف فائل کا حصہ بنا دیا گیا ہے جس کا لنک ذیل میں پیش کیا جارہا ہے جبکہ مذکورہ فائل میں دیگر کتابوں سے بھی منتخب اوراق شامل کیے گئے ہیں۔

مذکورہ فائل میں عارض گیتی سے قبل ذکیہ حمید کے سفرنامے "سورج کے ساتھ ساتھ" کا ڈاکٹر جالبی کا تحریر کردہ مقدمہ شامل کیا گیا ہے اور اسپین و ارون کی سیاحت پر مبنی باب پڑھا جاسکتا ہے۔
سافٹ لنک جس کی مدد سے فائل کو پڑھا اور ڈاؤن لوڈ کیا جاسکتا ہے:
https://www.scribd.com/doc/159515347/Sunday-Old-Book-Bazar-August-11-2013-Rashid-Ashraf

عارض گیتی کے مصنف سجاد حیدر زیدی 1935 میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے پاؤں میں چکر تھا، ملکوں ملکوں گھومتے رہے اور پھر کتاب کی شکل میں زندگی کے تجربات کو قارئین کے سامنے پیش کردیا۔ بقول مصنف، ان کے روزگار کا سلسلہ 1952 سے شروع ہوا تھا۔۔۔۔۔۔۔ صحرائے عرب اور برطانیہ میں پڑاؤ رہا۔ ان کی زندگی کا زائچہ لکھنؤ، کراچی اور لندن کے گرد بنتا ہے۔ 1984 میں ان کی نظموں کا غزلوں کا مجموعہ "ریزہ ریزہ خواب" کے نام سے شائع ہوا تھا۔ مصنف لکھنو کے قصبے نگرام سے تعلق رکھتے تھے جہاں ان کا بچپن گزرا۔ واضح رہے کہ برطانیہ میں قیام پذیر افسانہ نگار صفیہ صدیقی مرحومہ کا آبائی تعلق بھی نگرام ہی کی مٹی سے تھا۔

عارض گیتی میں پاک و ہند کے کئی شہروں کا مختصر احوال بھی شامل ہے۔ مصنف کراچی کے باب میں لکھتے ہیں کہ
" ایک روز میں لیاقت آباد سپر مارکیٹ پلازہ کی دہلیز پر تھا کہ خیال آیا کہ اس علاقے کی لائبریری بھی ملاحظہ کرتا چلوں کہ فخر روزگار شہروں میں ہمارا مشاہدہ رہا ہے کہ جتنا عمدہ ڈیپارٹمنٹل اسٹور اتنی ہی اعلی اس کی لائبریری۔ چنانچہ میں نے ان سیڑھیوں پر ایک سوٹ کیس فروش سے جو اس بارے میں دریافت کیا تو اس مسخرے نے کیا برجستہ جواب دیا ‘ آگرے میں ہوا کرتی تھی‘۔

اس نے میرے تحت لاشعور کو جھنجھوڑتے زماں و مکاں کی وہ ایڑ لگائی کہ کہ میں اسے دور تک دیکھتا چلا گیا۔ "

صد سالہ دور چرخ تھا ساغر کا ایک دور
نکلے جو میکدے سے تو دنیا بدل گئی

سن 61ء میں سجاد حیدر نے لکھنؤ کا قصد کیا۔ ایک ہرانے دوست رفعت کمال پاشا سلجوقی روشن دولہ میں اچانک انہیں مل گئے۔ طے ہوا کہ لکھنؤ کی سیر کی جائے گی۔ لکھتے ہیں:
"دوسری صبح ہم لوگ ایک رکشہ پر سوار شہر کے قلابے ملاتے رہے اور جب تحسین والی مسجد سے گزر کر فالودہ کھانے کے لیے ایک ریسٹوران میں بیٹھے تو رکشہ والا بھی سستانے کی خاطر ایک کرسی گھسیٹ کر بیٹھ گیا۔ جب میں نے اس مہابلی سے مسلمان فالودہ کھانے کو کہا تو وہ سر جھٹک، چٹیا نیچی کرکے راضی ہوگیا۔ اس پر پاشا سے نہ رہا گیا، بولے ‘ سر تو جن سنگھی ہے لیکن پیٹ سالے کا مسلمان ہے‘۔۔۔ ۔ اسی طرح لندن میں ایک ویک اینڈ پر ڈاکٹر لچھمن سری واستو ، جمال خان ملیح آبادی سے ملنے آئے۔ گھر میں عمدہ قورمے کی خوشبو مہک رہی تھی۔ ان کی موجودگی میں ہم نے طعام میں توقف کیا تو ڈاکٹر صاحب نے خود اشتہا ظاہر کی۔ جمال صاحب نے کہا ?سری واستو صاحب! آج صرف بے زبان کی زبان بنی ہے‘ تو واستو بولے ‘ پیٹ کے لیے ایندھن ضروری ہے۔ پہلے آتما پھر پرماتما۔"

"لولو و مرجان"، "سید محمد باقر یاس بلگرامی"، "سید خاور حسین رضوی نگرامی" اور "جوش ملیح آبادی" عارض گیتی کے آخری دلچسپ ابواب ہیں جو احباب کے ذوق مطالعہ کی خاطر پی ڈی ایف فائل کی زینت بنائے گئے ہیں۔ مصنف کی چند تصاویر بھی دیکھی جاسکتی ہیں۔

مرزا ظفر الحسن کی "ذکر یار چلے" سے مقدمہ اور پہلا باب شامل کیے گئے ہیں۔ اسی طرح کلیم عاجز کی "وہ جو شاعری کا سبب ہوا" سے چند اوراق پیش خدمت ہیں۔ کلیم عاجز ہندوستان کے معروف شاعر ہیں۔ "وہ جو شاعری کا سبب ہوا" میں فراق گورکھپوری کا تبصرہ بھی پڑھا جاسکتا ہے جو انہوں نے 16 نومبر 1975 کو شدید علالت کی حالت میں لکھوایا تھا۔ آخری سطر میں فراق کہتے ہیں: " میں کلیم عاجز کی شاعری پر کچھ بھی کہتے ہوئے اپنے آنسو مشکل سے روک پاتا ہوں۔ اس سے زیادہ میں کچھ بھی نہیں کہہ سکتا"

’’وہ جو شاعری کا سبب ہوا" کے مطالعے کے بعد راقم پر رقت طاری ہوگئی اور وہ بھی فراق مرحوم کا ہم خیال ہوگیا تھا۔ یہ کیفیت اس وقت ماند پڑی جب کلیم صاحب کی وہ غزل دوبارہ پڑھی جو مذکورہ کتاب میں شامل نہیں ہے:

میرے ہی لہو پر گزر اوقات کرو ہو
مجھ سے ہی امیروں کی طرح بات کرو ہو
دن ایک ستم، ایک ستم رات کرو ہو
وہ دوست ہو، دشمن کو بھی تم مات کرو ہو
ہم خاک نشیں، تم سخن آرائے سرِ بام
پاس آ کے ملو، دْور سے کیا بات کرو ہو
ہم کو جو ملا ہے وہ تمھیں سے تو ملا ہے
ہم اور بھْلا دیں تمھیں، کیا بات کرو ہو
یوں تو ہمیں منہ پھیر کے دیکھو بھی نہیں ہو
جب وقت پڑے ہے تو مدارات کرو ہو
دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
بکنے بھی دو عاجز کو جو بولے ہے، بکے ہے
دیوانہ ہے، دیوانے سے کیا بات کرو ہو

اتوار بازار سے ملنے والی تمام کتابوں کی مختصر اشاعتی تفصیل یہ ہے
۔عارض گیتی۔سجاد حیدر زیدی۔ اشاعت: جولائی 1988، کراچی
-۔سورج کے ساتھ ساتھ۔ذکیہ ارشد حمید ( جمیلہ ہاشمی کی دوست
)۔سفرنامہ۔ اشاعت: اگست 1988،کراچی
۔ذکر یار چلے۔یادداشتیں۔مرزا ظفر الحسن۔نفیس اکیڈمی، کراچی۔اشاعت: 1977
۔وہ جو شاعری کا سبب ہوا۔خودنوشت و مجموعہ کلام۔ کلیم عاجز (ہندوستانی شاعر)۔اشاعت: دسمبر 1981،کراچی
۔تخلیقی ادب۔پانچواں اور آخری شمارہ، مدیر: مشفق خواجہ۔اشاعت: اکتوبر 1985
Rashid Ashraf
About the Author: Rashid Ashraf Read More Articles by Rashid Ashraf: 107 Articles with 300450 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.