پرانی کتابوں کا اتوار بازار، کراچی، 7 جولائی 2013

اتوار بازار سے ملنے والی کتابوں سے منتخب کردہ کل 207 اوراق پر مشتمل پی ڈی ایف کا لنک یہ ہے۔ مذکورہ فائل میں سن 33ء میں علی گڑھ سے شائع ہونے والی خودنوشت "کارنامہ سروری" سے 100 صفحات بھی فائل کے آغاز میں شامل کیے گئے ہیں:

https://www.scribd.com/doc/149460069/Sunday-Old-Book-Bazar-Karachi-23-June-2013-Pagses-207-Rashid-Ashraf

اس مرتبہ ملنے والی کتابوں میں ریڈیو سے وابستہ رہے مظفر حسین کی خودنوشت "عرض و سماع" بھی شامل تھی۔ 384 صفحات پر مشتمل یہ تاریخی خودنوشت 1990 میں کراچی سے شائع ہوئی تھی۔ "عرض و سماع" کو ہم ایک "فراموش کردہ داستان حیات" کہیں تو بے جا نہ ہوگا۔ اس کتاب کے بارے میں امریکہ میں مقیم بزرگ ادیب اور میرے کرم فرما جناب ابو الحسن نغمی نے فون پر مجھ سے کہا: ’’ کچھ کتابیں کم نصیب ہوتی ہیں، ان کے بارے میں کوئی نہیں جانتا اور وہ وقت کی دھول میں کہیں گم ہوجاتی ہیں،میرے دوست مظفر حسین کی خودنوشت ’عرض و سماع ‘بھی ایسی ہی ایک کتاب ہے۔لیکن یہ آپ کو کہاں سے مل گئی؟ ‘‘

منفرد عنوان کی حامل یہ خودنوشت ریڈیو کے ادارے سے وابستہ رہے دونوں پیروں سے معذور ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جو اتنا تو غیر معروف نہ تھا کہ اس کی دلچسپ داستان حیات شہر کراچی کے اس نابغہ روزگار شخص کے پاس بھی نہ پہنچی ہو جسے خودنوشتوں سے ازحد لگاو? تھا اور جو شہر میں خودنوشتوں کے سب سے بڑے ذخیرے کا مالک تھا۔ یہ ذکر مشفق خواجہ مرحوم کا ہے۔خواجہ صاحب کے کتب خانے میں عرض و سماع موجود نہیں ہے۔ اسی طرح شہر کی چند معروف لائبریروں میں بھی اس کتاب کی کوئی جلد موجود نہیں ہے۔اردو خونوشتوں پر کیے گئے ایم فل اور پی ایچ ڈی کے بیشتر مقالوں میں اس کا نام کہیں نہیں آیا،آپ بیتیوں پر لکھے گئے تحقیقی مقالے بھی اس بارے میں خاموش ہیں۔ سید مظفر حسین نے بچوں کے لیے تین ناول بھی لکھے تھے، کامران اور بھارتی جاسوس، کامران اور شاہی خنجر اور کامران اور شاہی خزانہ نامی تینوں مشہور ناول، فیروز سنز لاہور نے شائع کیے تھے۔ اس کے علاوہ تراجم میں ربیکا اور حکایات از شیکسپیئر شامل ہیں۔

عرض و سماع برصغیر پاک و ہند کے ایک سابق ریڈیو اور ٹی وی نیوز ریڈر و براڈ کاسٹر کی سرگزشت ہے جو 1942 سے 1982 تک کے ان ا ہم حالات و واقعات کا احاطہ کرتی ہے جن کے چشم دید گواہ نے 19 ستمبر 1943 کو ا?ل انڈیا ریڈیو دہلی سے باقاعدہ ملازمت کا آغاز کیا۔ یہ نصف صدی کا قصہ ہے، دو چار برس کی بات نہیں۔عرض و سماع، نصف صدی کے آل انڈیا ریڈیو، ریڈیو پاکستان اور لاہور ٹی وی کے پروڈیوسروں، ڈرامہ نگاروں و فنکاروں،شاعروں، ادیبوں اور دیگر مشاہیر ادب کی باتوں سے لبریز ہے۔ یہ خودنوشت کسی صورت ریڈیو کے ذوالفقار علی بخاری کی داستان حیات ’سرگزشت‘ سے کم نہیں۔ہاں یہ ضرور ہے کہ اس میں چھوٹے بخاری کا ذکر کچھ اچھے الفاظ میں نہیں ملتا۔مصنف نے ان کو جس حال میں دیکھا، من و عن بیان کردیا، یوں کہا جائے کہ عرض و سماع میں وہ ’ غلط بخاری ‘ ہی کے طور پر سامنے آتے ہیں، بیجا نہ ہوگا۔

مولانا شبیر احمد عثمانی کے انتقال کا دن مظفر حسین کو بہت عرصے تک یاد رہا۔ کراچی سے شکیل احمد نے مولانا کے انتقال کی خبر ان الفاظ میں نشر کی تھی:
’ آج سہ پہر کو مولانا شبیر احمد عثمانی کو گولی مار کے قبرستان میں سپرد خاک کردیا گیا۔‘

گولی مار، کراچی کا ایک گنجان آباد علاقہ ہے۔

عرض و سماع کے آخری صفحات میں مظفر حسین لکھتے ہیں: ’’ ایک روز میں نے صدر مملکت ضیاء الحق کو اپنی حالت سے مطلع کیا، خط کی رسید تو ملی لیکن جواب نہ آیا۔ ایک زمانے میں بیگم عطیہ عنایت اﷲ میرے ساتھ لاہور میں انگریز ی کا پروگرام کرتی تھیں۔وہ معاشرتی فلاح و بہبود کی مشیر تھیں، ان کو خط لکھا لیکن ان کی طرف سے نہ کوئی عطیہ ملا، نہ کوئی عنایت ہوئی۔ ہوسکتا ہے وہ معاشرے کی فلاح و بہبود کے لیے معاشرہ تلاش کرتی رہی ہوں اور فلاح و بہبود کا موقع ہی نہ ملتا ہو البتہ ان کے بیانات ان کی موجودگی کا پتہ دیتے ہیں۔ میں معذور بھی تھا، سفید پوش بھی اور غیرت مند بھی۔آج میں پہلی بار اپنے آپ کو بے حد بے بس ، بے کس اور مجبور محسوس کررہا ہوں۔ میری بیوی اپنی ضروری خرید و فروخت کے لیے میری طرف دیکھتی ہے میں آسمان کی طرف دیکھنے لگتا ہوں کہ اوس سے کر لے فرشتے تک اوپر سے ہی اترتے ہیں۔‘‘
عرض و سماع کے ذریعے ایک معذور شخص اپنے قاری کو جینا سکھا گیا۔
حاصل عمرم سہ سخن بیش نیست
خام بدم، پختہ شدم، سوختم

راقم الحروف نے احباب کے لیے یہ دلچسپ خودنوشت انٹرنیٹ پر پیش کی ہے۔ اسے درج ذیل لنک پر پڑھا اور ڈاؤن لوڈ کیا جاسکتا ہے

https://www.scribd.com/doc/131969328/Arz-O-Sama-Part-Muzaffar-Hussain-Karachi-1990

"کارنامہ سروری" ایک خودنوشت ہے۔ کون جانتا تھا کہ علی گڑھ سے 1933 میں شائع ہونے والی اس کتاب کا اصلی نسخہ ہمیں پورے 80 برس بعد کراچی کے فٹ پاتھ سے ملے گا۔ کتاب کے ایک کونے میں کسی صاحب کے دستخط ہیں جو 19 نومبر 1944 کو کتاب پر ثبت کیے گئے تھے۔

کتاب کی پیشانی پر لکھا مصنف کا نام تو ملاحظہ ہو:
’’عالی جناب سرور الملک سرور الدولہ نواب آغا مرزا بیگ خان ہہادر سرور جنگ مرحوم و مغفور" سابق معتمد پیشی و استاد خاص اعلی حضرت غفران مکان میر محبوب علی خاں آصف جاہ سادس۔‘‘
اس قدر طویل اور شاہانہ القابات کے ساتھ انسان مرحوم تو ہوسکتا ہے لیکن اس کا مغفور ہونا اپنی رعایا کے ساتھ کیے گئے حسن سلوک کے ساتھ مشروط ہے۔
یقینا مصنف ایک درمند دل رکھنے والے انسان تھے۔
یہ خودنوشت سرور جنگ کے فرزند نواب ذوالفقار جنگ بہادر نے طبع کراکے شائع کروائی۔
سرور جنگ کی مرزا غالب سے رشتہ داری تھی۔ ان کا بچپن دلی میں گزرا جہاں انہوں نے ایک تہذیب کے عروج و زوال کو بغور دیکھا۔ ایک جگہ مرزا غالب کے بھائی کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’ مرزا یوسف برادر حقیقی کلاں مرزا اسد اﷲ خاں غالب افواج قاہرہ دولت آصفیہ میں نہایت مقتدر عہدے پر سرفراز تھے۔ کسی دشمن نے ایسا جادو کیا یا ایسی دوا کھلائی کہ وہ مجنون ہوگئے اور تاوقت انتقال مجنون رہے۔‘‘
راقم الحروف نے کارنامہ سروری سے 100 سے زائد اوراق کو مذکورہ پی ڈی ایف فائل میں شامل کیا ہے۔ ان میں مصنف کے ابتدائی حالات، سفر حیدرآباد دکن، سفر اورنگ آباد، میرا پہلا تجربہ دربار انگریزی اور میری خدمت کے آخری ایام نامی ابواب شامل ہیں۔

مصنف غدر کے بعد ہانپتے کاپنتے مئی 1872 میں لکھنؤ سے چلے تو اگلے برس کے اوائل میں دکن پہنچے۔ سفر کی صعوبتوں کا احوال مذکورہ بالا باب میں موجود ہے۔ تحریر کی سلاست کے کیا کہنے، ذرا ایک ٹکڑا ملاحظہ تو کیجیے, کہ ڈیڑھ سو برس پہلے بھی حالات ویسے ہی تھے جیسے آج ہیں۔

مقامات منزل مقرر تھے۔ ہر مقام پر سرائیں بنی ہوئی تھیں جن میں بھٹیارے بسے ہوئے تھے۔ ہر روز بھٹیارے اپنی سرائے سے دور تر جا کر مسافروں کو استقبال کرکے لاتے تھھے، آپس میں خوب لڑائیاں ہوتی تھیں۔ ہر بھٹیارا اپنی صفات بیان کرکے مسافروں کو اپنی طرف راغب کرتا تھا۔ مسافر بیچارا ان کی باہم کشمکش میں حیران و پریشان ہوجاتا تھا۔ سرائے کے دروازے مین داخل ہوتے ہی عجیب سماں نظر آتا تھا۔ جدھر دیکھیئے گاڑیاں، بیل، گھوڑے، اونٹ وغیرہ سواریوں کا جھمگٹ ہے۔ درختوں پر جانوروں کا شور و غل، بسیرے کا وقت، بھٹیاروں کی مسافروں کے ساتھ چھین جھپٹ۔ مسافروں کے غول کے غول پکانے ریندھنے کی فکر میں ادھر ادھر دوڑ دھوپ اور غل غپاڑا، گھوڑوں کا ہنہنانا، بیلوں کا ڈکارنا، اونٹوں کا بلبلانا، شام کا رفتہ رفتہ رات ہوجانا، ایک خاص سماں بندھ جاتا تھا۔ بی بھٹیاری کی پکائی ہوئی موٹی موٹی روٹیاں اور کھڑی چھلکوں کی ماش کی دال اس میں بڑا لوندا گھی کا رکھا ہوا۔ روٹیاں بھی گھی سے چپڑی ہوئی۔ تھکے ماندے مسافروں کو وہ مزہ دیتی تھیں کہ بادشاہوں کی اغذیہ لطیفہ بھی ان پر صدقہ کردی جائیں۔"

مصنف حیدرآباد پہنچے تو نظام کے دربار میں ملازمت کی سبیل کی فکر لاحق ہوئی، مراد پوری ہوتے پورے تین برس لگے۔ ان کا پہلا تقرر نظام کے انگریز اتالیق کے مددگار کے طور پر ہوا۔ نظام کے حضور پہلی پیشی کے احوال میں لکھتے ہیں:
’’ کچھ عرصے بعد حضور پرنور برآمد ہوئے تو انہوں نے مجھے طلب کیا۔ چھوٹا سا دلان، چھوٹی سی انگنائی۔ دلان میں مسند بچھی ہوئی۔ اس پر حضور کلاہ زرنگار برسر، انگرکھا دکنی دربر، لمبی لمبی چوٹیاں تا بہ کمر۔ عمر شریف کوئی آٹھ برس کی، جلوہ افروز تھے۔ دو تین مامائیں سفید مثل برف دوپٹوں میں لپٹی ہوئی پس پشت استادہ بڑے میاں اور ان کے بیٹے دست بستہ رو بروئے مسند بیٹھے ہوئے۔ اول لفظ جو حضور نے ارشاد فرمایا یہ تھا کہ "انگریزی بولی کیسی ہوتی ہے۔سناؤ"
میں نے انگریزی میں عرض کیا:
I pray for your highness 's life and prosperity
اس کے بعد فورا برخاست ہوگئے۔

نواب سرور جنگ کی خودنوشت "کارنامہ سروری" شہر حیدرآباد اور نظام حیدرآباد کے دربار کی درست عکاسی کرتی ہے۔

دیگر کتابوں کی تفصیل کچھ یوں ہے:
کارنامہ سروری۔خودنوشت
نواب سرور جنگ۔ناشر: مسلم یونیورسٹی علی گڑھ
اشاعت: 1933

عرض و سماع۔خودنوشت
مظفر حسین ۔صفحات: 384 ۔اشاعت: 1990

ذہنی کوفت کا سفر
خودنوشت۔کریم الدین احمد۔ناشر: آئینہ ادب لاہور
اشاعت: 1988

تخلیقی ادب۔اول شمارہ
زیر ادارت: مشفق خواجہ ۔اشاعت: 1980

شاکر علی-فن اور شخصیت
صفحات: 235۔اشاعت: 1982
ناشر: شعبہ تحقیق و مططوعات، پاکستان۔ اسلام آباد

جریدہ کتاب نما، دہلی۔مئی 1990
گوشہ مشیر الحق بسلسلہ شہادت
آپ ببتا۔خودنوشت
قمر یوسف زئی۔اشاعت: 2002

میری زندگی کے 75 سال۔خودنوشت
اعجاز الحق قدوسی۔اشاعت: 1988
ناشر: مکتبہ اسلوب، کراچی

یاد خزانہ۔خودنوشت
جمیل زبیری۔اشاعت: 1993
ناشر: مکتبہ دانیال، کراچی
Rashid Ashraf
About the Author: Rashid Ashraf Read More Articles by Rashid Ashraf: 107 Articles with 277358 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.