سیاسی کارکنوں کی تربیت کی ضرورت

قوموں پرکڑے امتحان آتے ہیں اورگزرجاتے ہیں۔امتحان کے بعدہر ذی فہم بیٹھ کر اپنا حساب ضرورکرتا ہے کہ کتنے نمبر کا پرچہ کیا۔ غلطی کہاں ہوئی۔ سوال کیا تھا۔جواب کیا دیا۔ خود احتسابی انفرادی، اجتماعی سطح پر کئے جاتے رہنا از بس ناگزیر ہے۔ امتحان کتنا اچانک ہی کیوں نہ ہو۔سوال مشکل ترین بھی ہو جب بھی دلیلوں، تاویلوں کے پردوں میں منہ چھپانے کی بجائے بے لاگ احتساب ہی آئندہ امتحانوں میں بہتر کار امتحانوں میں بہتر کارکردگی کی ضمانت بن سکتا ہے۔ ہمارے پاس تو یوں بھی غلطیاں کرتے کراتے اب زیادہ غلطیوں کی گنجائش باقی نہیں ہے۔ہم اپنی قومی تاریخ کے مشکل ترین دورا ہے پر کھڑے ہیں۔جہاں ہر لحظہ پھونک پھونک کرقدم رکھنے کی ضرورت ہے۔ پہلا سوال تو یہ ہے کہ ہم فرد اور قوم کی حیثیت سے مسلمان ہیں؟ یقینا یہ شناخت ہی ہوگی تو شہادت کا لیبل چسپاں کیا گیا وگرنہ سیکولر یا بے دین تو شہید نہیں ہوا کرتاجو عملی زندگی میں اﷲ کے عمل دخل کا قائل نہیں ہے۔وہاں تو بس ایک گھڑی کی طرح جو چلتے چلتے بند ہوگئی، انسان بھی خاموش ہوجایا کرتا ہے۔ اگر ہماری شناخت مسلمان کی ہے تو ہم محبت، وارفتگی میں حدسے نہیں گزرتے۔ نبی ﷺسے بڑھ کر محبوب و مطلوب اس روئے زمین پر کون آیا؟ لیکن غزوہ احد میں آپ ﷺکی شہادت کی افواہ پر مسلمانوں کی سراسیمگی کا اﷲ نے نوٹس لیا اور یاد دلایا:
’’محمدﷺاس کے سوا کچھ نہیں کہ بس ایک رسول ﷺہیں۔ان سے پہلے اور رسول بھی گزر چکے ہیں ۔پھر کیا اگر وہ مرجائیں یا قتل کردئیے جائیں تو تم لوگ الٹے پاؤں پھرجاؤگے ؟ (آل عمران۔۱۴۴)

دوام تو نبی کریمﷺ کو حاصل نہ تھا۔توحید کامل ایمان والے تو اﷲ سے شدیدمحبت کرنے کاتقاضا کرتے ہیں۔ محبت کی وارفتگی دیوانگی اﷲ کے رسول کے لئے بھی جائز حدود کا تعین کرتی ہے۔غلو سے منع فرمایا۔ ہمیں بھی اور حضرت عیسٰیؑ کو خدا بنانے والوں کو بھی۔ یعنی محبت و تائید و حمایت میں حد سے گزر جانا تو آج یہ ہمیں کیونکر زیبا ہے کہ ایک فانی انسان کی رحلت قوم کے ہوش گم کردے۔عقل و خرد سر پیٹ کر رہ جائے۔ انصاف اور دیانت بغلیں جھانکنے لگے۔ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ اگربے نظیرقتل نہ ہوتیں توزرداری حکومت کا وجودتک نہ ہوتالیکن بے نظیرکے قتل پرملکی املاک کااربوں روپے کاجونقصان ہوا اس کی اب تک تلافی نہیں ہوسکی۔تین دن میں اربوں کا نقصان،اتنی قیمتی جانوں کااتلاف، مسافروں کی دربدری، دیہاڑی دار غرباء کے فاقوں میں اضافہ۔

یہ سب کیا ہواتھا؟ قومی اموال کو سر چھپانے، جان بچانے کو جائے پناہ نہیں مل رہی تھی۔ کسی نے آگے بڑھ کرنہیں سمجھایاکہ خدارا ہوش کے ناخن لیجئے۔ قوم کا رد عمل اتنا اجڈ،اتنا جذباتی ، اتنا انصاف اور دیانت سے تہی دامن ہوگیاتھا؟کراچی کے حالات درست کرنے کیلئے سب ہی کے دل میں درداٹھ رہاتھااورسب ہی قوم کے سامنے اس بات کا اقرار کر رہے تھے کہ اگرآپ ہماری جماعت سے یہ آپریشن شروع کریں گے توہمیں کوئی اعتراض نہ ہوگامگریہ قول وفعل میں کیساتضادکہ سارے کراچی کے ساتھ ساتھ حیدرآبادمیں بھی کاروبارِ زندگی بندکرکے اپنی قوت کامظاہرہ کرناشروع کردیااورملک کوایک مرتبہ پھراربوں روپے کے نقصان سے دوچارکردیا۔

ہم نے خود اپنا ہی منہ نوچ ڈالاتھا۔ ہم دین اور دنیا دونوں کے علم سے بے بہرہ ثابت ہوئے،دین کا علم توپہلے ہی واجبی ہے ۔دنیا کی چمکتی دمکتی ڈگریاں بھی ہمارا کچھ نہیں سنوارتی۔ امتحان کے مواقع پر ہم وہی ہندو اجداد کی بت پرستی، جنونی جذباتیت کے مرتکب ہوتے ہیں۔ مہذب اسلامی رویے کہیں نظر نہیں آتے۔موت پر کیا اﷲ نے ہمیں انا ﷲ وانا الیہ راجعونکہنا نہیں سکھایا؟زندگی امتحان ہے،یہ دنیا ہماراگھرنہیں ہے۔ ہم اﷲ کے ہیں اور ہمیں واپس اسی کی طرف لوٹ کرجانا ہے۔اپنا نامہ اعمال ہاتھ میں لے کر۔ دنیا کی تلخ ترین حقیقت اپنی پوری سفاکی اور ناگہانی پن کے ساتھ جب سامنے آتی ہے تو یہی کہہ کر صبر کے بند باندھے دیے جاتے ہیں۔غم تو ہوگا۔اہل خانہ اور اہل پارٹی کے لئے بدرجہ اولیٰ لیکن وہاں بھی توسب کلمہ گو ہیں۔اسی قرآن کو پڑھنے والے ہیں جو سمجھاتا ہے کہ:
کوئی ذی روح مر نہیں سکتا۔اﷲ کے اذن کے بغیر، موت کا وقت تو لکھا ہوا ہے۔ جوشخص ثواب دنیا کے ارادے سے کام کریگا اس کو،ہم دنیا ہی میں دیدیں گے اور جو ثواب آخرت کے ارادے سے کام کریگا، وہ آخرت کا ثواب پائے گا۔(آل عمران۔۱۴۵) بلاشبہ جس نے قتل کیا وہ بری الذمہ نہیں ہوتا ۔تعین کیا جائیگا۔ تفتیش ہوگی لیکن طیش میں خوف خدا کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا جائیگا۔ تحقیق تو ہو گی لیکن عقیدہ کی بنیاد متزلزل نہیں ہوسکتی کہ ، رہی موت تو جہاں بھی تم ہو بہرحال تمہیں آکر رہے گی خواہ تم کیسی ہی مضبوط عمارتوں میں ہو۔ (النساء:۷۸)یعنی اﷲ کا حکم آجائے تو ہر قسم کی سیکورٹی جواب دے جاتی ہے۔پھر غلط رویوں پر اﷲ نے یہ کہہ کر گرفت فرمائی:
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، کافروں کی سی باتیں نہ کرو جن کے عزیز واقارب اگر کبھی سفر پر جاتے ہیں یا جنگ میں شریک ہوتے ہیں(اور وہ وہاں کسی حادثے سے دوچارہوجاتے ہیں)تو وہ کہتے ہیں کہ اگر وہ ہمارے پاس ہوتے تو نہ مارے جاتے اور نہ قتل ہوتے۔اﷲ اس قسم کی باتوں کو ان کے دلوں میں حسرت و اندوہ کا سبب بنا دیتا ہے۔(آل عمران ۔ ۱۵۶ )

ہم جیتے جی کنفیوژن(Confusion)کے سوا کچھ نہیں بانٹتے۔ ہم مرے ہاتھیوں کے سودا گر ہیں۔پھر وہ سوا لاکھ کا ہو جاتا ہے اور اپنی بدعنوانی اورلوٹی ہوئی ملکی دولت کوواپس لانے کیلئے اعلیٰ عدلیہ کے فیصلے کوبے نظیرکی قبرکاٹرائل کہہ کراس پرعملدرآمدسے صاف انکارکردیتے ہیں، قوم کواک عجب سولی پرچڑھارکھاہے۔قوم یہ پوچھنے میں حق بجانب ہے کہ آئے روز یہ جو قومی املاک کو اجاڑ دیا جاتاہے تو اتنی بڑی بڑی جماعتیں جوملکی سلامتی اوروطن سے محبت کادعویٰ کرتی ہیں آخر یہ اپنے کارکنان اور عوام الناس کی کوئی تربیت کاانتظام کیوں نہیں کرتیں؟کیا صرف نعرے لگوانے اوروہ بھی حسد، بغض، کینہ، نفرت، انتقام سے بھرے ہوئے ،اس سے قوم کی قیادت کریں گے؟ خدارا دین کی تعلیم ہی دے دیجئے۔ زندگی بعد موت کی ایک جھلک قرآن و حدیث سے دکھا دیجئے جس نے سیدنا عمر فاروقؓ جیسی ہستی کو شہادت کی دہلیز پر جان دیتے ہوئے زارو قطار رلایا۔

اے عمرؓ تیری ماں تجھے روئے،اگر اﷲ نے تجھے معاف نہ کیا تو یہ تنکا تجھ سے بہتر ہے،کہتے تھے اور اﷲ کے خوف سے لرزتے تھے۔ آپﷺ سے ایک مرتبہ جب حضرت عمرؓ نے عرض کیا کہ یارسول اﷲ ﷺ فلاں شخص شہید ہوگیا، تو نبیﷺ نے ارشاد فرمایا ہر گز نہیں۔میں نے اسے مال غنیمت کی ایک چادر چوری کرنے کے گناہ میں آگ میں دیکھا ہے۔ (ترمذی) آخرت کا امتحان گویا کھیل تماشا نہیں ہے۔میرٹ بہت اونچا ہے جس کا خوف سیدنا عمرؓ کو بے قرار کئے دے رہا تھا۔قومی املاک برباد کرنے والے سوچیں کہ وہاں اتنی سخت پکڑ اس لئے دکھائی گئی کہ مال غنیمت یا سرکاری اموال بے شمارمسلمانوں کی امانت ہوتی ہے۔(آج اٹھارہ کروڑ)یہ گناہ اﷲ معاف نہیں کرتا۔ اٹھارہ کروڑ کا حق غصب ہوگا۔ جس قرآن کو روتے ہوئے مرنے والوں پر پڑھنے کے لئے اٹھاتے ہیں۔ خدارا یہ کتاب زندگی کتاب عمل ہے۔ خدائے زندہ ،زندوں کا خدا ہے۔اسے تعلیم و تربیت کا ذریعہ بنائیے۔ اسی کتاب نے ایک منتشر اجڈ قوم کو دنیا کی قیادت کا اہل بنایا تھا۔ آج بھی تریاق اسی میں ہے ۔مولوی سے بیر (جو فرنگی نے آپ کو دیا)چھوڑئیے۔ جیتے جی اس کتاب سے رہنمائی(معذرت خواہانہ نہیں)لیجئے کیونکہ…… ؂
وہ زمانے میں معزز تھے مسلمان ہو کر اور تم خوار ہوئے تارک قرآن ہو کر

Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 531 Articles with 390093 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.