مجھے یقین ہے اس کو جوبھی پڑھے گا انشاءاللہ عزوجل وہ
غریبوں سے نفرت نہیں کرے گا کیونکہ غریبی صرف اللہ عزوجل کی آزمائش ہے کہ
کون کس حال میں اللہ عزوجل کو یاد کرتا ہے۔ کہانی کچھ اس طرح سے ہے کہ کسی
زمانے میں دو کسان رہتے تھے۔ وہ دونوں سگے بھائی تھے چھوٹے بھائی کا نام
سلطان تھا اور بڑے بھائی کا نام اکرام تھا۔ چھوٹا بھائی بہت غریب اور بڑا
بھائی امیر تھا۔ لیکن بڑے بھائی نے کبھی بھی چھوٹے بھائی کی مدد نہ کی بلکہ
وہ اس سے ہمیشہ یہی کہتا تھا کہ غریبی تمہاری قسمت میں لکھی ہوئی ہے اور تم
ہمیشہ غریب ہی رہوگے اور غریب ہی مروگے۔
ایک مرتبہ چھوٹے بھائی کے دل میں خیال آیا کہ کیوںنہ کسی دوسرے شہر میں چل
کر اپنی حالت کو بہتر بنانے کی کوشش کی جائے ایک روز وہ اپنے گھر سے نکل
گیا اور چلتے چلتے وہ ایک ایسی جگہ پہنچا جہاں کسی بادشاہ کا محل تعمیر
ہورہا تھا لیکن اس بادشاہ کے ساتھ ایک عجیب بات یہ ہورہی تھی کہ جب محل ایک
طرف سے مکمل ہوجاتا اور کاریگر یعنی کام کرنے والے دوسری طرف کام کرنے لگتے
تو پہلی طرف کا حصہ خودبخود گرجاتا کسان یہ عجیب بات دیکھ کر کچھ دیر کیلئے
وہیں کھڑا ہوگیا‘ دیکھتا رہا اتنے میں وہاں بادشاہ بھی آگیا اس نے کسان سے
پوچھا کہ تم کون ہو؟ اور کہاں سے آئے ہو اور کہاںجارہے ہو؟ کسان نے کہا کہ
میں ایک غریب کسان ہوں اور قسمت آزمائی کیلئے کسی دوسرے شہر میں جارہا ہوں
اس پر بادشاہ نے کہا کہ جب تم اپنی مراد کو پہنچ جاﺅ تو مجھ کو ضرور یاد
رکھنا اور کسی سے اس کی وجہ معلوم کرکے مجھے بتانا کہ میرا محل اس طرح بننے
کے بعد آدھا کیوں گرجاتا ہے۔ کسان نے بادشاہ سے وعدہ کرلیا کہ وہ یہ بات
معلوم کرکے اسے بتائے گا‘ جب کسان وہاں سے اپنے سفر پر آگے روانہ ہوا تو
راستے میں ایک دریا آگیا ابھی وہ دریا کو پار کرنے ہی لگا تھا کہ دریا میں
سے ایک بڑا سا کچھوا باہر نکلا اور پوچھا کہ اے مسافر تم کون ہو اور کہاں
جارہے ہو؟ جب کسان نے اپنے سفر کا مقصد بتایا تو کچھوے نے کہا کہ جب تم
اپنے مقصد میں کامیاب ہوجاﺅ تو مجھے بھی یاد رکھنا میں دریا میں رہتا ہوں
اس کے باوجود اندرونی طور پر جلتا رہتا ہوں۔ میرے سینے میں ہر وقت آگ لگی
رہتی ہے کسی سے یہ دریافت کرنا کہ آخر اس کا سبب کیا ہے۔
کسان نے کچھوے سے بھی وعدہ کرلیا کہ وہ اس کے ہر وقت اندرونی طور پر جلتے
رہنے کا سبب معلوم کرکے بتائے گا کچھوے نے اس کسان کو اپنی پیٹھ پر بٹھا کر
دریا پار کروا دیا۔ چلتے چلتے کسان کو بھوک لگی۔ اس نے راستے میں ایک آلوچے
کا درخت دیکھا اور اس نے کچے پکے آلوچے توڑ لیے اور بیٹھ کر کھانے لگا سارے
کے سارے آلوچے کڑوے تھے۔ اس کسان نے سارے آلوچے پھینک دئیے اور غصے میں
درخت کی طرف لپکا کہ اسے توڑ دے تاکہ اس طرح کوئی دوسرا آدمی دھوکے میں
آلوچے نہ کھانے لگے جب وہ اس کی شاخیں توڑنے لگا تو آلوچے کا درخت فریاد
کرتے ہوئے بولا کہ میں خود پریشان ہوں کہ میرا پھل اتنا کڑوا کیوں ہے جب تم
اپنے مقصد میں کامیاب ہوجاﺅ تو پھر کسی سے یہ ضرور دریافت کرنا کہ میرا پھل
کڑوا کیوں ہوتا ہے۔ کسان نے درخت سے بھی وعدہ کرلیا کہ وہ ضرورمعلوم کرکے
اسے بتائے گا۔
ایک جنگل سے وہ گزر رہا تھا کہ اس نے درختوں کے جھنڈ میں گھاس پھوس کی ایک
جھونپڑی دیکھی وہ آرام کرنے کے خیال سے جھونپڑی میں داخل ہوا تو اس نے
دیکھا کہ ایک بوڑھا فقیر گہری نیند سورہا ہے وہ فقیر بارہ سال تک مسلسل
جاگتا تھا اور پھر بارہ سال تک سوتا رہتا تھا ابھی کسان کو وہاں چند منٹ ہی
گزرے ہوں گے کہ فقیر نیند سے جاگ پڑا اورکسان سے کہنے لگا کہ تم نے نیند کے
دوران میری حفاظت کی ہے میں تم سے بہت خوش ہوں۔ یہ بتاﺅ کہ تم کون ہو اور
کہاں جا رہے ہو۔ کسان نے اپنا مقصد بیان کیا۔ کسان کی بات سن کر فقیر نے اس
کے سر پر ہاتھ پھیرا اور کہا کہ اب تم آگے مت جاﺅ اور جس راستے سے آئے ہو
اسی راستے سے واپس چلے جاﺅ۔
کسان نے فقیر سے وہ سوالات پوچھے۔ پہلے سوال کے جواب میںفقیر نے کہا کہ
بادشاہ کی ایک جوان بیٹی ہے جو شادی کے قابل ہوچکی ہے جب تک بادشاہ اپنی
بیٹی کی شادی نہیں کرے گا۔ اس کا محل اسی طرح گرتا رہے گا۔ کچھوے کے سینے
میں ہر وقت آگ سی کیوں لگی رہتی ہے اس کا جواب دیتے ہوئے فقیر نے کہا کہ
کچھوے کو اللہ تعالیٰ نے دانش مندی کی دولت دی ہے مگر وہ خود غرض ہے۔ اسے
اپنے سینے میں دبائے بیٹھا ہے اس سے کہو کہ وہ اپنی دانش مندی دوسروں میں
تقسیم کردے۔
آلوچے کے درخت کا پھل کڑوا ہوتا ہے؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے فقیر نے کہا
کہ آلوچے کے پیڑ کے نیچے جڑوں میں خزانہ دفن ہے اگر وہ خزانہ نکال لیا جائے
تو اس میں میٹھے آلوچے لگیں گے۔ واپسی پر کسان سب سے پہلے آلوچے کے درخت کے
پاس گیا اور اسے بتایا کہ اس کا پھل کیوں کڑوا ہوتا ہے درخت نے کسان سے کہا
کہ خدا کیلئے جتنی جلدی ہوسکے یہ خزانہ کھود کر نکال لو اور اسے تم اپنے
ساتھ لے جاﺅ کسان نے ایسا ہی کیا۔
پھر وہ کچھوے کے پاس گیا اور اسے بتایا کہ وہ ہروقت اندرونی طور پر کیوں
جلتا رہتا ہے کچھوے نے اپنے جلتے رہنے کا سبب سن کر اپنی آدھی دانشمندی
کسان کو دی دی۔ آخر میں وہ بادشاہ کے پاس پہنچا اور اسے بتایا کہ اس کا محل
کیوں گرتا رہتا ہے بادشاہ نے اس کا سبب سن کر کسان سے پوچھا کہ تم میری
بیٹی سے شادی کرو گے۔ بادشاہ نے کسان کی رضامندی پاکر اس سے اپنی بیٹی کی
شادی کردی۔ شادی کے کچھ سال کے بعد کسان نے اپنے بڑے بھائی کو اپنے پاس
بلالیا جب وہ دربار میں آیا تو چھوٹے بھائی کو دیکھ کر حیران ہوگیا۔ چھوٹے
بھائی نے بڑے بھائی سے کہا کہ تم مفلسی کو میرا مقدر کہتے تھے کہ یہ کبھی
دور نہیں ہوسکتی لیکن دیکھ اللہ نے میری قسمت بدل دی ہے۔
بڑا بھائی بہت شرمندہ ہوا اور سوچ رہا تھا کہ میں نے غریبی میں کبھی اس کی
مدد نہ کی پتا نہیں میرے ساتھ کیا سلوک کرے گا۔ مگر چھوٹے بھائی نے اسے
معاف کردیا۔
بس آخر میں یہ لکھنا ہے کہ کوئی امیر کسی غریب کو حقیر نہ جانے کیونکہ اللہ
تعالیٰ ہر امیر وغریب کو آزماتا ہے۔ |