ناصر ملک اور ان کی ’’سامعہ‘‘

ناصر ملک ایک محبت کرنے والے اور مسکراہٹ بکھیرنے والے انسان ہیں میرا اور ناصر ملک صاحب کا تعلق اتنا پرانا بھی نہیں اور اتنا نیا بھی نہیں کیونکہ کسی کو سمجھنے کے لئے جو عرصہ درکارہوتا ہے اس سے کافی زیادہ گذر چکا ہے ویسے تو ہم میں کئی قدریں مشترک ہیں جن میں سے بڑی وجہ تو یہ ہے کہ وہ بھی لکھاری ہیں اور میں بھی لکھنے کی کوشش کرتا رہتا ہوں ،ناصرملک صاحب ایک اچھے انسان بھی نہیں ایک خوبصورت استاد بھی ہیں جو محبت اور خندہ پیشانی سے مجھ خاکسار کی رہنمائی فرماتے رہتے ہیں وہ ایک خوبصورت انسان ہونے کے ساتھ ساتھ ادیب،فکشن رائٹر اور افسانہ نگار بھی ہیں ان کی پر تاثیر تحریریں قاری پر سحر طاری کر دیتی ہیں ،حالات پر کڑی نظر رکھنے والے بہترین کالم نگار بھی ہیں اور ایک خوبصورت لب و لہجے کے شاعر بھی ہیں ان کا ایک شاعری مجموعہ ’’سامعہ‘‘ان دنوں میرے زیر مطالعہ ہے۔

شاعری کے میدان میں میری حیثیت طفل مکتب کی سی ہے اس لئے اس کتاب پر ایک شاعر کی نظرسے تبصرہ تو نہیں کر سکتا البتہ اپنی ناقص رائے ضرور دوں گا ،شاعری کا یہ مجموعہ مجھے بہت ہی عجیب نظر آیا کیونکہ اس میں عام کتابوں کی طرح کوئی لمبی چوڑی تمہیدیں ہیں نہ اس کے شروع کے صفحے پر کوئی دیگر تفصیل ہے ،نہ ہی غزلوں ،نظموں یا نثروں کی کوئی فہرست ہے نہ ہی کوئی دیباچہ ہے اور نہ ہی کوئی سرورق پر ڈیزائین کی رنگوں کی بھرمار ہے بلکہ سادہ اور خوبصورت سا سرورق ہے،اس کتاب کا انتساب بھی انوکھا ہے جس میں سامعہ کو مخاطب کرتے ہوئے اک نظم لکھی گئی ہے،یہ شاعری مجموعہ اک حیرتوں کا جہاں ہے جسے روایات سے ہٹ کر شائع کیا گیا ہے اور یقینا یہ ایک نرالا اور انوکھا تجربہ ہے جو کبھی اس پہلے دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوا۔

اس کتاب کا نام ’’سامعہ‘‘رکھا گیا ہے یہ حقیقت میں کوئی ’’سامعہ ‘‘ہے یا پھر ملک صاحب کی تخیلاتی ’’سامعہ‘‘ ہے کتاب پڑھتے ہوئے مجھے ایسے محسوس ہوا کہ جیسے ملک صاحب اپنی سامعہ کو دیکھ کر سناتے گئے اور کہیں ان باتوں نے غزلوں کا لبادہ اوڑھ لیا ،کہیں پر نظم کا روپ اختیار کر لیا اور کہیں پر نثریہ بن کر اوراق میں لکھا جاتا رہا اور اچانک ایک کتاب بن گئی ،کیونکہ اس مجموعہ کلام میں جہاں کہیں اک درد کی لہر جھلکتی ہے وہیں امیدوں کے دیئے اور خوشی کے پھول بھی کھلتے نظر آتے ہیں ،جہاں اس کتاب میں امیدو یاس کی کیفیات نظر آتی ہے ،وہیں بے بسی اور رنج والم کو بھی محسوس کیا جا سکتا ہے ،’’سامعہ ‘‘میں جہاں محبت کا تذکرہ ہے وہیں جدائی کاخوف بھی دکھتا ہے اور شکوؤں و شکایتوں کے انبار بھی نظر آتے ہیں ،اس کی ہر غزل ،ہر نظم ،ہر نثریے میں ہجرکا کرب بھی دکھتا ہے ۔

ناصر ملک صاحب کو پڑھنے والے بخوبی آگاہ ہیں کہ جیسے وہ افسانہ نگاری میں عبور رکھتے ہیں،اورجن کے ہر ناول کی ہر تحریر اچھوتی اور دل گداز ہوتی ہے وہیں شاعری کے میدان میں بھی ایک اہم مقام رکھتے ہیں جہاں تک ’’سامعہ‘‘کی بات ہے تو اس میں انہوں نے منفرد انداز اپنایا ہے اور اپنے قارئین تک ایک دلوں کو چھو لینے والی شاعری کو مختلف انداز میں پیش کیا ہے میں اس کی اشاعت پر انہیں مبارکباد پیش کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ جیسے ان کے الفاظ میں قدرت نے تاثیر رکھی ہے وہیں ان کی تخیلاتی پرواز بھی بہت اونچی ہے اس لئے ہم منتظر ہے کہ اس طرح ہمیں بھی نت نئے تجربات سے روشناس کرواتے رہیں گے ۔
میری سامعہ!سنو۔۔۔۔۔
بس!اب اور کچھ لکھنا باقی نہیں۔
میں جو لکھ چکا ہوں ،یہی میرے لیے جان لیوا ثابت ہونے والا ہے ۔لفظ لفظ عذاب گیں ،شعر شعر تکلیف رساں۔۔۔ہاں!
مختلف ایک بھی نہیں مجھ سے
کوئی مجھ سا مگر نہیں بھی ہے
اور یہاں ’کوئی‘سے مراد تمہی ہو۔۔۔بس تمہی!
اور۔۔۔
اب میں تھک گیا ہوں ۔لفظ دائرے بننے لگے ہیں ،کاغذ جھیلیں۔اب تم مجھے اکیلا چھوڑ دو ۔الوداع کہ دو۔
فی امان اﷲ!
زیر مطالعہ کتاب ’’سامعہ‘‘کی غزل کا ہر شعر بے مثال ہے آپ بھی پڑھئے اور انجوائے کیجئے۔
․․․․․․․․․
جو گھڑی تیرے نام ہوتی ہے
وہ بڑی تشنہ کام ہوتی ہے
کیوں مری سامعہ کی آنکھوں میں
خواہشِ ناتمام ہوتی ہے
․․․․․․․․․․․
منظر پہ کوئی،زیر ِزمیں اور کوئی ہے
اس دیس میں اب تخت نشیں اور کوئی ہے
آئینہ کبھی غور سے دیکھوتو بتا دو
اس شہر میں کیا زہرہ جبیں اور کوئی ہے
․․․․․․․․․․․․․․․․
بے خودی میں قدم ڈگمگانے لگے ہیں مرے تھام لو
میں بکھرتا چلا جا رہا ہوں خدارا مجھے تھام لو
سامعہ!زندگی ایک ہی سانس ہے اور مختصر
اور یہ پھول بھی سانس ہے مسکرا کر اسے تھام لو

AbdulMajid Malik
About the Author: AbdulMajid Malik Read More Articles by AbdulMajid Malik: 171 Articles with 186586 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.