سرخ ۔۔۔۔۔۔بتی

دنیا ئے ادب میں شاعری اور نثرنگاری دونوں کی اپنی اپنی اہمیت وانفردیت ہے۔۔۔۔ یہ بھی سچ ہے کہ شاعری کے مقابلے میں نثر نگاری کا رجحان کم ہے ۔۔ مگر ا س کی اہمیت وانفردیت کا منکر دائرہ ء ادب سے خارج تصور کیا جاتا ہے ۔۔۔ادب شناسی ،الفاظ شناسی ، شعور و آگہی سے لبریز ، لطیف جذبات سے بھر پور، الفاظ کو ادب سے مزین کر کے با مقصد، بطریقِ احسن صفحہء قرطاس پر بکھیرنا ایک فطرتی ، قدرتی اور اچھے قلم کار کی نشانیاں ہیں۔۔۔اصناف ادب میں افسانہ ایک خوبصورت ،منفرد صنفِ ادب ہے شاعر ی کی طرح افسانے کے قارئین کی بھی بڑی تعداد موجود ہے ۔۔۔۔ مگر شومئی قسمت کہ یہ خوبصورت ،منفرد صنفِ ادب دم توڑتی جارہی ہے ۔۔۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ فروغ افسانہ کے لئے اچھی اور معیاری افسانہ نگاری پابندِ سلاسل ہے ۔۔شاعری کی طرح نثر نگاری کے میدان میں بھی رموز و قوانین سے عاری ، بے ادب و اناڑی کے قسم کے لو گوں کی اکثریت کود پڑی ہے ۔۔ بیہودگی ، ناتجربہ کاری ، کم علمی،ہر ہفتے ہرمہینے منصہ شہود پر آنے والی غیر معیاری کتابیں ادب کے فروغ کے بجائے ادب کے زوال اور توہین کا سبب بن رہی ہیں ۔۔۔ناول ، افسانہ کے فرو غ کے لئے فطرتی ، معیاری قلم کاروں کو پسِ منظر سے منظر عام پر لانا ہو گا ۔۔بزرگ قلم کاروں نے ہمیشہ فروغ ادب کے سلسلے میں بھر پو ر جد جہد کی ۔اپنے خون پسنے کی کمائی ،جمع پونجی لگا کر معیاری اور بامقصد کتابوں کو قارئین تک پہنچانے کا اہم فریضہ سر انجام دیا ۔کبھی بھی ادبی خیانت کا تصور تک نہیں کیا ۔۔ جتنی محنت ۔۔ اُتنا پھل ۔۔۔ یہی وجہ ہے کہ ماضی میں قا ری اور کتاب کے درمیان پیار و محبت کا رشتہ قائم تھا ۔۔۔مگر عصر حاضر میں چوری چکاری، محنت ، نالج اور معیار کا فقدان شدت اختیار کر چکاہے ۔۔ جو نہ صرف قا ری اور کتاب کے درمیان بڑے فاصلے کا سبب بن رہا ہے بلکہ قلم کاروں کے لئے سوالیہ نشان اور لمحہء فکریہ ہے۔ ۔۔۔ ایسی صورت حال کے باوجود دنیائے ادب میں ( قلیل ہی سہی ) کچھ قلم کار خلوص،محنت اور معیار کو ترجیح دے کر فروغ ادب کے لئے برسر پیکار ہیں ۔۔۔ اگر میانوالی ادب کی بات کی جائے ۔۔ تو شاعری اور نثر کے حوالے سے اچھے ادیبوں ، دانشوروں ،شاعروں ، قلم کاروں کی معیاری کتابیں موجود ہیں ۔۔ مگر معیاری قلم کاروں کے مقابلے میں نام نہاد ، غیر معیاری لوگوں کی تعداد بہت زیادہ ہے ۔۔۔۔موجودہ ،حیات ، معیاری قلم کاروں میں جناب حامد سراج صاحب( اللہ تعالیٰ اُن کی زندگی لمبی کرے) کا نام ناول ، افسانہ ،کہانی، نثر نگاری کے میدان میں مثال سمجھ کر لیا جاتا ہے ۔۔۔ ان کے ساتھ ساتھ پروفیسر وقار آحمد ملک صاحب نے افسانوں پر مشتمل مجموعہ : سُر خ بتی :حال ہی میں منصہ شہود پر لا کر فروغ افسانہ کے سلسلہ میں خلوص ، محنت سے لبریز ادبی خدمات کا عملی ثبوت فراہم کیا ہے ۔۔۔۔ پروفیسر وقار آحمد ملک کا افسانوں پر مشتمل مجموعہ : سُر خ بتی :کا بغور مطالعہ کر نے بعد نالج میں ااضافہ ، معیاری اور با مقصد کتابیں پڑھنے والے قارئین کو سو فیصد نہ سہی ۔۔ کافی حد حوصلہ ضرور ملتا ہے کہ ابھی افسانے کے میدان میں مخلص اور محنت کر نے والے قلمکار موجود ہیں ۔۔۔112صفحات پر مشتمل افسانوں کا مجموعہ : سُر خ بتی :کو علم و عرفان پبلشرز لاہور نے دیدہ زیب ٹائٹل ،اہتمام کیساتھ شائع کیا ہے ۔۔ وقار ملک کی ( سپنوں کی دہلیز)پروفیسر علی اعظم بخاری، منور علی ملک ،اسلم کولسری کی خوبصورت آرا اور تبصرے شاملِ کتاب ہیں ۔۔مجموعہ : سُر خ بتی : "پیش لفظ " میں پروفیسر علی اعظم بخاری نے وقار ملک کی اچھی شاعری کا اعتراف کر تے ہوئے مشورہ دیا۔۔۔کہ۔ اچھا شاعر ہو نے کے باوجود وہ شاعری ترک کرکے افسانے کی زمین پر فصلیں اگاناشرو ع کر دے۔ کیوں میانوالی میں شاعری کرنے والوں کی کمی نہیں ہے۔۔۔محترم جناب پروفیسر علی اعظم بخاری ہمارے سینئر شاعر ہیں ۔۔ اللہ جانے انھوں نے وقار ملک صاحب کو یہ مشورہ کس زمرے میں دیا؟ بخاری صاحب کا کہنا ہے کہ انھوں نے مجموعہ : سُر خ بتی :کا پیش لفظ 9ہاڑ23جون2012 ؁ء کو لکھا۔۔شاہد شدید گرمی کی وجہ سے ایسا کہہ دیا ہو ۔۔۔ورنہ دنیائے ادب میں ایسے کئی قلم کار وں کی مثالیں موجود ہیں جو بیک وقت شاعری اور نثری میدان میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منواء چکے ہیں ،منوارہے ہیں اور منواتے رہیں گے ۔۔ میں جناب پروفیسر علی اعظم بخاری کے اس مشورے سے اتفاق نہیں کرتا ۔۔فنِ شاعری ،قلم کاری عطیہء خداوندی ہے ۔یہ الہامی چیزیں ہیں ۔۔۔اگر وقار ملک کے اندر ایک اچھا شاعر موجود ہے تو اُس کو ہر صور ت میں منظر عام پر آنا چاہیے۔۔۔ علاوہ ازیں مجموعہ :
سُر خ بتی :میں 12افسانے( آم کا بور ،گلابی جاڑا اور چائے کا رومانس،کالے توت ، لکیریں، مہرو، نقوش، رچھیاں، سُر خ بتی،سوجی والے بسکٹ،گیارہ قبریں،خاموش حویلی، لائلپُور) شامل کئے گئے ہیں ۔۔ ۔۔۔۔ افسانوں کے اس مجموعے کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں صر ف روایات اور فرضیات سے کا م نہیں لیا گیا ۔۔۔ بلکہ مقصد اور حقائق کو حرف بہ حرف ، صفحہء قرطاس پر بکھیرا گیا ہے ۔۔۔ابہام سے کام لینے کی بجائے ۔ سلیس ۔ آسان کھل کر قلم کار ی کی گئی ہے تاکہ قاری کو پڑھنے ،سمجھنے اور رائے قائم کرنے کے لئے کسی قسم کی کو ئی مشکل پیش نہ آئے۔۔جیسا کہ صاحبِ کتاب افسانہ : سُر خ بتی :کے تمہیدی پیرے میں لکھتے ہیں" چھوٹا سا قصباتی ریلوے اسٹیشن شام ہو تے ہی ویران ہو گیاشدید سردی کے عالم میں ہر طرف ہو کا عالم ہے ۔ دور شاہراہ پر سے گزرتی ہو ئی کوئی لاری یا ٹرک کبھی کبھی اس خاموشی کو رفع کرنے کا باعث بن جاتے ہیں اسٹیشن ماسٹر جو ٹکٹ بھی خود فروخت کرتا ہے اپنے چھو ٹے سے دفتر نما ٹکٹ گھر میں موٹا سا اونی کوٹ لپیٹے ایک خالی کاغذ پر کچی پنسل سے لائنیں کھنچ رہا ہے ریلوے کے دو ملازم اسٹیشن سے ملحقہ اپنے کھنڈر نما کوارٹروں میں جا چکے ہیں دسمبر کی یخ بستہ ہوائیں خزاں رسیدہ خشک پتوں کو اِدھر اُدھر دوڑا رہی ہیں چاروں طرف گھپ اندھیرا ہے دور سامنے سکیسر کی پہاڑیوں پر روشنی کا ایک ننھا سا دائرہ ٹمٹما رہا ہے جیسے سینکڑوں جگنو ایک ہی مقام پر جمع ہوں یہ روشنی تیس چالیس کلومیٹر دور چھوٹی سی آبادی کے گھروں میں جلنے والی بتیوں کی ہے " ۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی کہ اس قدر سادہ اور عام الفاظ کا استعمال کر کے حقائق پر مبنی اپنے اردگرد کے ماحول ، معاشرے کی ترجمانی کر نا ۔۔ وقار احمد ملک صاحب کی قابلِ ستائش کاوش ہے ۔۔میں افسانوں پر مشتمل مجموعہ : سُر خ بتی : کی کامیاب اشاعت پر وقار احمد ملک کو مبارک باد و خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں ۔۔۔ شاعر ،فنکار، قلم کار کبھی بھی مکمل نہیں ہو تا ۔ قلم کاری کی کوئی منزل نہیں ہے
چل رہے ہیں کہیں قیام نہیں

اصلاح اور ارتقائی عمل کا سلسلہ ہمیشہ جاری وساری رہتا ہے اس لئے مصنف کو مکمل قلم کار ہونے کی خوش فہمی میں مبتلا ہر گز نہیں کرو ں گا ۔۔۔ بلکہ ہمیشہ مشق سخن، مشقِ قلم کار ی جاری رکھنے کا مشورہ ضرور دوں گا ۔۔۔ کیوں اسی میں قلم کار کی بقا ء اور انفرادیت ہے۔۔۔ وقار احمد ملک مجموعہ : سُر خ بتی : کی اشاعت کے بعدہر گز سوکھ کا سانس نہ لیں ۔۔ راہِ افسانہ۔۔۔ : سُر خ بتی : ۔۔۔ یہ اُن کا پہلا قدم ہے ۔۔امیدِ واثق ہے کہ وہ اپنا ادبی ، قلمی سفر اسی آب و تاب کے ساتھ جاری رکھیں گے اور فروغ ادب کے سلسلہ میں ہمیشہ عملی ، مثبت کردار کا ثبوت فراہم کرتے رہیں گے ۔۔ وقار احمد ملک کے روشن ادبی مستقبل کے لئے دعا گو ہیں

 ناصر عبا س ناصر
About the Author: ناصر عبا س ناصر Read More Articles by ناصر عبا س ناصر: 18 Articles with 18845 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.