صرف ایک شخص نے امریکا کو خوف وہراس میں مبتلا کردیا

ایک بار پھر امریکا پر خوف کے بادل گہرے ہوگئے۔پیر کے روز امریکی وقت کے مطابق صبح 8بج کر20منٹ اور پاکستانی وقت کے مطابق شام 6بجکر 20منٹ پر واشنگٹن میں واقع امریکی نیول ہیڈ کوارٹر میں جدید اسلحہ سے مسلح شخص نے اندھا دھند فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں امریکی حکام کے مطابق 13افراد ہلاک اور کئی زخمی ہوگئے۔امریکی نیول ہیڈکوارٹر پر کئی گھنٹے فائرنگ جاری رہی۔عینی شاہدین کے مطابق حملے کے وقت ہر کوئی اپنی جان بچانے کی فکر میں تھا ، لوگ ادھر ادھر بھاگ رہے تھے۔اس واقعے کی ایک عینی شاہد پیٹریشیا وارڈ کا کہنا تھا کہ ’سب کچھ بہت تیزی سے ہوا، میں تو بھاگ کھڑی ہوئی۔امریکی بحریہ کے کمانڈر ٹم جیورس نے کہا کہ وہ عمارت کی چوتھی منزل پر تھا، جب اس نے گولیوں کی آوازیں سنی۔اس واقعے کے بعد امدادی اداروں کی درجنوں گاڑیاں عمارت کے گرد جمع ہوگئیں جبکہ ہیلی کاپٹروں نے علاقے کی نگرانی شروع کر دی۔حملے سے پورا واشنگٹن مفلوج ہوکر رہ گیاجبکہ امریکا کے شہری ایک بار پھر نائن الیون جیسی خوف کی کیفیت کا شکار ہوکر رہ گئے۔عوام کو اس خوف کی کیفیت سے نکالنے کے لیے بحریہ کے ایمرجنسی اہلکار جائے وقوعہ پر پہنچے اور پولیس نے عمارت میں داخل ہو کر حملہ آوروں کو تلاش کرنا شروع کردیا۔ لاﺅڈ سپیکرز کے ذریعے عمارت کے اندر لوگوں سے کہا گیا وہ جہاں موجود ہیں وہاں پناہ لے لیں۔فائرنگ کے بعد بوئنگ فضائی اڈے بند کردیے گئے جس سے ریگن انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر جہازو ں کی آمدورفت کا شیڈول متاثر ہوا اور ایئرپورٹ پر پروازوں کی روانگی روک دی گئی، صرف طیاروں کو اترنے کی اجازت دی گئی۔ حملہ آوروں کی گرفتاری کے لیے امریکی پولیس کے خصوصی دستے طلب کیے گئے۔پولیس کی مدد کے لیے انسداد دہشت گردی ٹیم کے علاوہ ایف بی آئی نے بھی اس کارروائی میں حصہ لیا۔بحریہ کے اڈے پر حملے کے چند گھنٹوں بعد وائٹ ہاو ¿س کو سیکورٹی خدشات کے باعث تالا لگا دیا گیا۔ سیکورٹی اہلکاروں نے وائٹ ہاؤس کے سامنے لیفیٹی پارک کو گھیرے میں لے لیا جو امریکی صدر کی رہائش گاہ دیکھنے والوں سے بھرا رہتا ہے۔

واضح رہے کہ حملہ واشنگٹن میں ”نیول سی سسٹمز کمانڈ“ کے ہیڈ کوارٹر کی عمارت میں کیا گیا ،جو امریکی کانگریس کی عمارت ”کیپٹل ہل“ سے تقریباً دو کلو میڑ کے فاصلے پر واقع ہے اور اس عمارت میں لگ بھگ تین ہزار افراد کام کرتے ہیں۔یہ ادارہ بحری جہازوں اور آبدوزوں کی خریداری، تیاری اور دیکھ بھال کرتا ہے۔اس کمپلیکس میں ایک ایسی رہائش گاہ بھی ہے جسے امریکی بحریہ کے سربراہ گھر کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔امریکی نیوی کے مطابق واشنگٹن نیوی یارڈ بحریہ کا سب سے پرانا ساحلی ٹھکانا ہے ، اسے پہلی بار 19 ویں صدی میں کھولا گیا تھا ۔صدر اوباما نے واقعے کو”بزدلانہ کارروائی“ قراردیتے ہوئے کہا ہے کہ اب امریکی فوجیوں کو اپنی ہی سرزمین پر حملوں کا سامنا ہے، وجہ کچھ بھی ہو، ایسا ہونا نہیں چاہیے۔ واشنگٹن میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے امریکی صدر اوباما نے واقعہ کی فوری تحقیقات کا حکم دیا اور کہا کہ ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔ امریکی صدر نے کہا کہ حملہ آوروں نے فوجی اور سول اداروں کو نشانہ بنایا،جو” بزدلانہ کارروائی“ ہے۔نیز امریکی صدر اوباما نے اس واقعے میں مارے جانے والے امریکیوں کے اہلِ خانہ سے اظہارِ افسوس کے لیے جمعے تک واشنگٹن ڈی سی میں سرکاری عمارات پر امریکی پرچم سرنگوں کرنے کے احکام بھی صادر کیے اور امریکی بحریہ ہیڈ کوارٹر واقعہ کا نوٹس لیتے ہوئے امریکی بحریہ، ایف بی آئی اور مقامی انتظامیہ کو وائٹ ہاﺅس سے رابطے میں رہنے کی ہدایت کی ہے۔امریکی پولیس کا کہنا ہے کہ ایف بی آئی واقعہ کی تحقیقات کرے گی۔پیر کی دوپہر واشنگٹن میں پریس کانفر نس کرتے ہوئے میئر گرے اور پولیس چیف کیتھی لینیئر نے فائرنگ کے واقعے میں 13 افراد کے ہلاک ہونے کی تصدیق کی۔میئرگرے نے صحافیوں کو بتایا کہ انتظامیہ صورتِ حال کی سنگینی کا اندازہ لگانے کی کوشش کر رہی ہے۔واشنگٹن شہر کے پولیس چیف کیتھی لینیئر نے بتایا کہ بحریہ کے اڈے پر فائرنگ کا سبب تاحال معلوم نہیں ہوسکا ہے۔ فائرنگ میں زخمی ہونے والا ایک پولیس اہلکار بھی شامل ہے۔اس سے قبل ابتدائی اطلاعات میں واشنگٹن پولیس نے بتایا تھا کہ 'نیوی یارڈ' کی عمارت میں مسلح شخص نے کئی افراد فائرنگ کرکے ماردیے ہیں۔

امریکی حکام کا حملے کے بعد ابتدائی رپورٹ میں کہنا تھا کہ حملہ آور کئی ہیں جن میں سے تین کو ماردیا گیا ہے اور باقیوں کی تلاش جاری ہے۔جبکہ بعد میں پتا چلا کہ امریکی نیول ہیڈ کوارٹر میں فائرنگ کرکے 12 افراد کو قتل کرنے والا سیاہ فام حملہ آور نیوی کا سابق ملازم تھا۔واشنگٹن میں بحریہ کے ایک اڈے پر 13 افراد کو قتل کرنے والا ”ایرن الیکسز“ بحریہ کا سابق ملازم تھا، 34 سالہ ایرن 2007 سے 2011 تک نیوی میں ملازمت کرتا رہا، جس کا تعلق امریکی ریاست ٹیکساس کے علاقے فورٹ ورتھ سے ہے۔ ابتدائی تحقیقات کے مطابق ایرن نے نیوی کی عمارت میں گھسنے کے لیے بحریہ کا سیکرٹ سیکیورٹی کلیرنس کارڈ استعمال کیا۔ اس کارڈ کی وجہ سے اسے حساس عمارت میں داخل ہونے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئی اور یہ شخص فوجی ٹھیکے دار سے وابستہ تھا اور انفارمیشن ٹیکنالوجی سے متعلق اس ملازم نے مبینہ طور پر اکیلے ہی یہ حملہ کیا۔حملہ آور نیوی کے دفاتر میں ایک آئی ٹی کمپنی کی جانب سے نئی مشینوں کی تنصیبات کا پرائیویٹ کانٹریکٹر تھا۔واشنگٹن پولیس کی سربراہ کیتھی لینیئر نے واقعے کے چند گھنٹوں بعد صحافیوں کو بتایا کہ ایسے شواہد نہیں ملے کہ ایرن الیکس نامی اس شخص کے ساتھ کوئی اور بھی اس واقعے میں ملوث تھا۔چونتیس سالہ ایرن الیکس ریاست ٹیکساس کے علاقے فورٹ ورتھ کا رہائشی تھا اور وہ حملے کے کچھ ہی دیر بعد پولیس کے ساتھ فائرنگ کے تبادلے میں مارا گیا۔ اس حملے میں 13 امریکی کافر ہلاک ہوئے۔پولیس کا کہنا ہے کہ الیکس نیوی یارڈ میں مصدقہ شناختی کارڈ کے ذریعے داخل ہوا اور اس کے پاس فوجی طرز کی خودکار رائفل ایک شاٹ گن اور ایک ہینڈ گن تھی۔ اس نے ’نیول سی سسٹم کمانڈ‘ میں داخل ہوتے ہی فائرنگ شروع کردی۔یہ واضح نہیں کہ اس نے بحریہ کیوں چھوڑی تاہم امریکی بحریہ کے ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر خبر رساں ادارے رائٹرز کو بتایا کہ اسے متعدد واقعات کے بعد نکالا گیا تھا۔

خیال رہے کہ امریکی حکومت اور امریکی عوام ان دنوں سخت پریشانی میں مبتلا ہے، ایک بار پھر حملوں کا خوف ان کا سایہ بن چکا ہے ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ نائن الیون کو بارہ سال مکمل ہونے پر القاعدہ کے امیردکتور ایمن الظواہری نے امریکا پر حملوں کا حکم دیا تھا،جس کے بعدسے امریکا میں سیکورٹی بڑھادی گئی تھی اور ہر قسم کی احتیاط کی جارہی تھی، بہت سے امریکی تجزیہ کار واشنگٹن حملے کو اسی تناظر میں دیکھ رہے ہیں اور نیول ہیڈ کوارٹر پر حملہ بھی القاعدہ امیر کے حکم کے چند روز ہی بعد ہوا ہے جس نے امریکا کو ایک بار پھر حقیقی خوف میں مبتلا کردیا ہے۔ اس حملے کے بعد امریکی میڈیا نے مزیدحملوں کاخدشہ بھی ظاہرکیاہے۔ جس کے بعد اہم عمارتوں، حساس تنصیبات اورہوائی اڈوں سمیت ملک بھرمیں سیکیورٹی الرٹ کردی گئی ہے۔امریکی حکام کا کہنا ہے کہ القاعدہ اپنے امیر کے بیان کے بعد ایک بار پھر امریکا پر کوئی بڑا حملہ کرسکتی ہے۔ اسی لیے امریکی صدر اوباما نے پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ امریکی اب اپنی سرزمین پر بھی محفوظ نہیں رہے، ان کو یہاں بھی نشانہ بنایا جارہا ہے۔

عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 632592 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.