پاکستانی قوم اور حکومت اور افواج پاکستان نے دہشت گردی
کے خلاف جنگ میں جو نقصان اٹھایا ہے اور دوسروں کی جنگ جب ہم پر تھونپی گئی
تو ہماری اس وقت کی حکومت نے بھی اس جنگ میں حصہ دار بننے کا فیصلہ کیا پھر
تو کیا تھا کہ ایک دہشت گردی کا ایسا سیلاب پاکستان میں آیا کہ جو آج تک
رکنے کا نام نہیں لے رہا جس میں ہماری افواج پاکستان کو بھی بے انتہا نقصان
اٹھانا پڑا وہیں عوام پاکستان جو سکھ اور سکوں کا سانس لے رہی تھی اس کے
جسم پر ایسی ایسی ضرب کاری کی گئی جس کی کوئی مثال نہیں ملتی اور اسی عوام
نے اپنے معصوم اور ننھے بچوں کی لاشوں کو اٹھایا اور ان کئی تو ایسی لاشیں
جو اٹھانے کے لیے بچی ہی نہیں تھی ان کے چیتھڑے اٹھائے گئے اور انہیں کفن
دفن کیا گیا اور کئی ماوں کی گودیں اجڑیں اور کئی دلہنوں کے سہاگ اجڑے اور
کئی معصوم یتیم ہوئے اور کئی تو اس میں آئے بغیر اپنی ماوں کی کوکھوں میں
ختم ہو گئے اور پھر ڈرون حملوں نے جو اس ملک کے جسم پر ظلم کے پہاڑ ڈھائے
اور ہمارے وہ محب وطن لوگ جو پاکستان کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنا
خوش قسمتی سجھتے تھے ان کے خاندانوں کے خاندان تباہ کر دیئے گئے اور ان کو
بندوق اٹھانے پر مجبور کردیا گیا اور عوام پاکستان صرف اس لیے خاموش رہی کہ
یہ کوئی ایک دن یا ہفتہ یا مہینہ یا سال کا کام ہو گا تو ملک کے حالات ٹھیک
ہو جائیں گے تو ہمارے بچے بھی سکولوں کالجوں میں علم کے نور سے اپنے دلوں
کو منور کر کے دنیا کو علم کے نور سے روشن کریں گے اور ہمارے ملک کی
شاہراہوں کو کراچی سے چمن تک تباہ و برباد کر دیا گیا اور وہ سڑکیں جو ترقی
یافتہ ملکوں سے مقابلہ کرتی تھی ان کو اکھاڑ کر ایسا کردیا گیا کہ جیسے اس
جگہ پر کبھی پکی سڑکیں تھی ہی نہیں اور ہمارے ملک کی ترقی کے پہیے کو ایسا
روکا کہ ملک میں مہنگائی کا ایک نہ رکنے والا طوفان آگیا جس نے غریب کے منہ
سے نوالہ تک چھین لیا اور لوگوں کو جسم اور جان کا رشتہ برقرار رکھنا دشوار
لگنا شروع ہو گیا وہیں کاروباری حضرات کی بھی کمر توڑ دیاور ہمارے ملک کے
کارخانوں کی چمنیاں جو رات دن دھواں ثھوڑتی تھیں اور ملک کی معیشت کو سہارا
دیتی تھی ایسی ٹھنڈی پڑیں کی وہ اس ترقی کے دھوئیں کو دیکھنے کے لیے ترس
گئیں اور ملک کا بجٹ جب اس دہشت گردی کی پرائی جنگ میں پھونکا جانے لگا تو
ملک میں بجلی گیس آٹا چینی اور پتا نہیں کون کون سے بحرانوں نے سر اٹھانا
شروع کردیا اور یوں ملک ترقی سے تنزلی کی طرف بڑی تیزی سے سفر کرنے لگا اور
کراچی جو امن و امان کا گہوارہ ہوا کرتا تھا اس میں سے نیٹو کے کنٹینروں کو
گزارا گیا اور دہشت گردوں میں وہ اسلحہ تقسیم کیا جانے لگا اور آئے دن
اسلحہ کے کنٹینر ز چوری ہونے کا سلسلہ چل نکلا اور اسی اسلحہ سے پاکستانیوں
کے پاک خون سے کھیلاجانے لگا وہ کراچی جو کبھی پاکستان کی اکانومی کا حب
مانا جاتا تھا اس کی پہچان بوری بند لاشیں ٹارگٹ کلنگ اغوا برائے تاوان
دھونس دھاندلی بن گئی -
ایسی صورت میں کوئی بھی امید کی کرن نظر نہیں آتی تھی کئی سالوں بعد جب
ہماری حکومتوں اور سیاسی جماعتوں کو ملک کے حالات سدھارنے کا خیال اور اور
انہوں نے ان حالات کو سدھارنے کی ٹھا ن لی تو وہی لوگ جن کی خوشی کے لیے
ہمارے کچھ ناعاقبت اندیش لوگوں نے اپنے ملک کو آگ کے دریا میں دھکیل دیا
اور یہاں تک حالات پہنچے تو انہیں میں سے آئے روز کوئی نہ کوئی چیلا مفقود
حال اور دماغی توازن کھویا ہوا لیام فاکس جو برطانیہ کا وزیر دفاع رہ چکا
ہے نے کہا کہ یہ ملک تو خطرناک ترین ملک ہے میں اس مبحوس حال شخص (جسے اس
کی اپنی حکومت نے پاگل پن کی وجہ سے برطرف کردیا تھا )سے یہ کہوں گا کہ اب
ہماری قوم الحمدللہ اکٹھی ہو رہی ہے اور اب اس نے اپنے دشمنوں کو پہچاننا
شروع کر دیا ہے اور ان کے خلاف سینہ سپر ہو چکی ہے اور اب تم جیسے بدحواس
شخص کے حواس اور بد ہوں گے اور یہ تمہاری چالیں نہیں چلیں گی اور اب وقت
پاکستان کی ترقی کا اور ہاں یاد رکھو جب اس قوم کو کوئی لیڈر مل گیا تو یہ
قوم تمہارے اوسان خطا کر دے گی اور پھر تو تم جیسوں کو دنیا میں بھی جگہ
ملنا مشکل ہو جائے اور میری اپنے ملک کے سیاستدانوں سے بھی گزارش ہے کہ وہ
ایک ہو کر اور تمام اختلافات ہو بالائے طاق رکھ کر ملک کے دشمنوں کو
پہچانیں اللہ کریم پاکستان کو دشمنوں کی چالوں سے محفوظ رکھے آمین- |