گزشتہ ہفتے بتاریخ یکم ودویم ستمبر شامزئی
ٹرسٹ انٹرنیشنل کے زیر اہتمام اسلام آباد میں منعقدہ ’’روحانی اجتماع‘‘ میں
شرکت کا موقع ملا،کراچی سے مفتی رحمان الدین شامزئی،پیر یاسر عرفات
المعطر،ڈاکٹر ناظر حسین اور سید عامر علی رفقائے سفرتھے،اسلام آباد ایئر
پورٹ سے سیدھے ہم دس بجے اجتماع گاہ پہنچے،لاہور ،گجرانوالہ،سیالکوٹ ،مظفر
آباد،مانسہرہ،مردان ،سوات اور پشاور جیسے دور دور شہروں سے بھی مریض آئے
ہوئے تھے،تلاوت ِ کلامِ پاک اور نعت ِرسول ِمقبولﷺکے بعدشامزئی صاحب کے
روحانی علوم اور علاج کے سلسلے میں افتتاحی اور مفصل خطاب کے بعدبطورِ
مہمان خصوصی احقر کو دعوت خطاب دی گئی،ہم نے استشفاء بالقرآن،روحانی علاج
اورطب نبویﷺ کی ضرورت ،اہمیت،افادیت پر قرآن وسنت کے تناظر میں بات کی،ان
تینوں عنوانات پرکلام اﷲ،سیرت نبویﷺ اور سیر الصحابہؓ میں سے چیدہ چیدہ
مثالیں پیش کیں،ڈاکٹر ناظر حسین صاحب نے طب نبویﷺ میں اپنی اسپیشلائزیشن کی
وجہ سے صرف اسی موضوع پر اپنے تجربات اور جدید سائنس کی تحقیقات پر خاصی
دلچسپ اور مدلل گفتگو فرمائی، استغفار، درودشریف،اور دیگر ذکرواذکار میں
سائنسی تجربات سے محسوسات اور مشاہدات کی شکل میں ثابت شدہ تاثیرات کی
انگنت امثال بیان کیں، آخر میں شامزئی صاحب اور ڈاکٹر صاحب نے دیر تک
حاضرین و سامعین کے سوالات کے جوابات دئے، اس موقع پر ہم نے ڈاکٹر صاحب کے
لیے اپنی جامعہ ’’عریبک لینگویج اوپن یونیورسٹی پاکستان‘‘ کی طرف سے طب
نبویﷺ میں اعزازی ڈاکٹریٹ کی ڈگری کا اعلان بھی کیا،یوں یہ اجتماع پیر یاسر
عرفات المعطرکی پر سوز دعاؤں سے تقریبا تین بجے سہ پہر اختتام پذیر
ہوا،المعطر صاحب ایک’’درود نیٹ ورک‘‘ بھی چلاتے ہیں،جہاں روزانہ کم از کم
ایک لاکھ مرتبہ مختصر ترین درود شریف:(صلی اﷲ علیہ وسلم)پڑھاجاتاہے اور
پڑھنے والا ہر فرد نیٹ ورک کے تمام ساتھیوں کے لئے دعاء الغائب للغائب کے
طور پر 100بار درود شریف کی سعادت حاصل کر کے دعا کر تاہے،نکتے کی بات یہ
ہے کہ کوئی بھی اس نیٹ ورک کا حصہ بن سکتاہے ۔ اس کے بعد ہم سب شامزئی صاحب
کی اسلام آباد والی کوٹھی پر چلے گئے،جہاں رات گئے تک مریضوں ،ملنے ملانے
والوں اور متعلقین کا ایسا تانتا بندھا رہا کہ ہمیں یہ تک یاد نہیں رہا کہ
ساتھیوں نے دوپہر کا کھانا بھی نوش نہیں کیا ، اور اب تو رات کے کھانے میں
بھی تاخیر ہو رہی تھی،سیدعامر صاحب نے کھانے کا اہتمام خیبر حجرے میں
کررکھا تھا،فراغت کے بعد رات کا قیام،اور اگلے دن صبح ہی سے ظہر تک وہی
سلسلہ،ظہر کے بعد موسلا دھار بارش میں یہ حضرات مری کی طرف سیرو سیاحت اور
ذہنی تھکان دور کرنے نکلے، اور ہم شیخ محمود سامرائی عراقی کی وعوت پر ان
کے یہاں گئے، واپسی پر قائد اعظم یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر مسعود کے ساتھ
ایک ٹی وی چینل پر’’علماء اور دینی مدارس کا عصر حاضر میں کردار‘‘ کے موضوع
پر ایک گھنٹے گرما گرم بحث میں شرکت کی،ڈاکٹر مسعود صاحب کی حقیقت
پسندانہ،میٹھی اور منطقی گفتگوسے بہت خوشی ہوئی، اﷲ تعالیٰ انہیں جزائے خیر
نصیب فرمائے، جناب عبدالجلیل صاحب ایک منجھے ہوئے بیوروکریٹ ہیں، دینی و
عصری علوم کے ساتھ ساتھ موجودہ سیاسیات انہیں ازبرہیں، ان کا اندز تخاطب
دلوں کو موہ لیتا ہے،مذکورہ بحث میں انھوں نے بھی بہت متاثر کیا، اﷲ پاک
انہیں بھی خوب خوب نوازے۔
مغرب کی نماز کے بعد چک شہزاد ٹاؤن کی مرکزی جامع مسجد محمدی میں ہمارا ایک
عمومی وعوامی خطاب تھا، جنرل(ریٹائرڈ) مشرف کے فارم ہاؤس کے پاس سے گذرتے
ہوئے ماضی میں ان کا دوراقتداراور حال میں ان کا دورانحطاط خیالات کی سکرین
پرگردش میں آگیا،یہاں کے امام وخطیب حضرت مولانا عبدالقدوس محمدی ایک نیک
سیرت وخوبصورت، ذی استعداد اور سنجیدہ عالم دین ہیں۔ ان کے یہاں عوام الناس
اور فضلائے دینی مدارس کے لیے مختلف تعلیمی وتربیتی کورسز کا بامعنی نظم
وضبط دیکھنے میں آتاہے، یہاں ہم نے علم اور اہل علم کے فضائل اوران کی ذمہ
داریوں پر معروضات پیش کیں، اس کے بعد متصلا ًتخصص فی الادب العربی کے طلبہ
سے عربی زبان وادب کی ضرورت، فرضیت اور قرآن فہمی میں اسکے کردار کے حوالے
سے پون گھنٹہ عربی میں خطاب کیا ،معہداللغۃ العربیہ کے لیے مولانا
عبدالقدوس صاحب نے ’’کرُے روڈ‘‘ پر جو جگہ لی تھی، وہاں جا کر دعا کی،رات
اسلام آباد کلب میں نیب کے سابق ڈائریکٹر کی دعوت پر تھوڑی دیر کے لیے جانا
ہوا،وہاں اے پی سی،آپریشن یا ڈائیلاگ وغیرہ سب ہی کے نوک زبان پر تھے،
’’جہان پاکستان‘‘ اسلام آباد کے آفس جانے کا بھی پروگرام تھا مگر تاخیر کی
وجہ سے ملتوی کرنا پڑا۔اگلے ہی دن صبح کی فلائٹ سے ’’پہنچی وہیں پہ خاک
جہاں کا خمیر تھا‘‘۔ |