امن آساں نہیں

امریکہ پاکستان طالبان کیساتھ پاکستانی حکومت کے مذاکراتی عمل پر خوش نہیں ، اسلئے مغربی ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ پاک فوج کے تیسرے جنرل کی شہادت کے بعد مذاکراتی عمل میں کامیابی کا امکان کم ہوگیا ہے۔طالبان پاکستان سے بات چیت نہایت پیچیدہ مرحلے میں ہے ، کیونکہ کسی ایک گروپ سے بات چیت کے عمل سے امن قائم نہیں ہوسکتا۔ملاکنڈ ڈویژن سے خیبر پختونخوا سے فوج کے انخلا ء کے روٹ میپ سے ملاکنڈ دویژن کے سات اضلاع میں بے یقینی پائی جاتی ہے کیونکہ دیر بالا میں پاک فوج کے اعلی افسران کی شہادت اُس وقت عمل میں آئی جب صوبائی حکومت کیجانب سے فوج کی بتدریج واپسی کی اصولی طور پر منظوری دی گئی اور اسلام آباد میں منعقد کل جماعتی کانفرنس میں طالبان کیساتھ سیاسی و عسکری قیادت نے متفقہ طور پر مذاکرات پر اتفاق رائے پایا گیا۔اس وقت پاکستان مذہبی وسیاسی جماعتیں دیر بالا کے اس واقعے کے بعد طالبان کیجانب سے ذمے داری قبول کئے جانے کے باوجود یہ کہنے پر مصر ہیں کہ بیرونی عناصر ، طالبان اور حکومت کے درمیان مذاکرات کا عمل نہیں چاہتے ،لیکن نہ سمجھنے والی بات ہے کہ جب ستمبر2011ء میں دیر بالا کی تحصیل برول کے علاقے میں جنرل آفسیر کمانڈنگ میجر جنرل جاوید اقبال کے ہیلی کاپٹر پر فائرنگ کی گئی تھی جس میں میجر جنرل زخمی ہوئے تھے تو اس وقت بھی تحریک طالبان پاکستان نے اُسی طرح ذمے داری قبول کی تھی جس طرح حالیہ واقعے کیلئے کی ہے۔ملاکنڈ ڈویژن سے فوجی انخلا ء سے پیشتر اتنے بڑے واقعے کے بعد ظاہر یہی ہو رہا ہے کہ مولانا فضل اﷲ کا طالبان گروپ ابھی تک ملاکنڈڈویژن میں متحرک اورعملی طور پر کاروائیوں کیلئے فعال ہے۔ طالبان کی جانب سے فاٹا سے فوج واپس بلانے اور اپنے ہزاروں قیدیوں کی رہائی کیلئے حکومتی اخلاص کا مظاہرہ کرنے کا مطالبہ آنے والے دنوں میں خطرناک صورتحال اختیار کرسکتے ہیں ۔اگر چہ فاٹا میں سینکڑوں ڈرون حملوں اور کئی بار کی زمینی کاروائی کے بعد آنے والے وقتوں کیلئے کسی خوش فہمی کی گنجائش نہیں رہتی کہ مستقبل میں کسی بھی فریق کیجانب سے معائدے کی خلاف ورزی کا الزام عائد کرکے مزید سنگین صورتحال ہوسکتی ہے۔دوسری جانب امریکہ یقینی طور پر ان مذاکرات کے حوالے سے خوش نہیں ہے کیونکہ امریکہ کی جانب سے ابھی تک اس کا خیر مقدم نہیں کیا گیا۔ دنیا کی واحد سپر پاور کہلانے والے ملک اپنے مفادات کو مقدم رکھتا ہے اور انہیں بروئے کار لانے کیلئے ہر حد سے گزر سکتا ہے۔ایسی موقعوں پر دوستی یا اسٹرٹیجک پارٹنر شپ جیسی باتیں بے معنی ہوجاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاک امریکہ تعلقات "پیچیدگی"کے عمل سے گذر رہے ہیں ۔ دونوں ممالک کی سیاسی اور فوجی طاقتیں افغانستان کے مستقبل کے حوالے سے اپنی پالیسیوں کیساتھ میدان میں ہیں ۔امریکہ قبائلی علاقوں میں بھرپور اور منطقی کاروائی چاہتا ہے تو دوسری جانب پاکستانی عسکریت پسند ، حکومت کو کوئی موقع دینے کو تیار نہیں ہیں اور ان کے عوامل کی وجہ سے اندرونِ اور بیرون ملک یہ تاثر کامیاب نہیں جارہا ہے کہ پاکستان کے عسکریت پسند ، آئندہ افغانستان و پاکستان میں دخل اندازی نہیں کریں گے۔پاکستان کیلئے مغرب کی یہ بات ماننا بھی مشکل ہے کہ افغانستان سے ملحق مغربی فوجوں کی تعداد بڑھانے کیلئے بھارت سے ملنے والی مشرقی سرحدوں کی نگہبانی میں کمی کردے ۔ جبکہ طالبان کے مطالبہ مان کر فوج کا مکمل انخلا ء، عسکریت پسندوں کو تمام علاقوں کا بلا شرکت غیرے مالک بنا دے۔ جہاں وہ اپنی مرضی سے حکومت کرسکیں۔کچھ عرصہ قبل امریکی کانگریس میں ایک رپورٹ پیش کی گئی تھی جس میں پاکستانی فوج کی دہشت گردوں سے نمٹنے کی صلاحیوں پر شہبے پر اظہار کرتے ہوئے یہ تک کہہ دیا گیا تھا کہ ان کے پاس دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے کوئی منصوبہ بندی ہی نہیں ہے۔پاکستانی حکومت کی جانب سے جب دہشت گردی کے خلاف قومی پالیسی مرتب کرنے کیلئے کل جماعتی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا تو نواز حکومت کا بھی یہی کہنا نکلاکہ ابھی تک کسی نے بھی دہشت گردی کے خلاف قومی پالیسی نہیں بنائی ہے۔جبکہ عسکری قیادت کی جانب سے اپنی اسٹریجک پالیسی میں اندرونی دشمنوں کو بھارت سے بھی پہلے سر فہر ست رکھنے کے بعد اظہر من الشمس عیاں ہوگیا تھا کہ پاکستانی فوج اپنا مورال نیچے نہیں گرنے دیگی اس لئے وہ اندرونی خطرات کے مقابلہ کرنے کیلئے مربوط پالیسی پر گامزن ہے۔حالیہ کل جماعتی کانفرنس کے بعد طالبان پاکستان کی پوزیشن ، حکومت سے بہتر اور جارحانہ ہے ، جبکہ سیاسی و مذہبی جماعتوں کی وجہ سے حکومت دفاعی اور پسپائی کا شکار ہے ، اس لئے کالعدم تحریک کی جانب سے مطالبات کی جو شرط پیش کی گئی وہ مذاکرات کیلئے ڈیڈ لاک ہے کیونکہ جب نیک نیتی و اخلاص کے ساتھ ، حکومتی اختیار جانچنے کے یہ مطالبات ہیں تو پھر عملی طور پر دونوں فریقین مذاکرات کی میز پر بیٹھیں گے تو پاکستانی حکومت کے پاس ، طالبان سے مطالبات منوانے کیلئے کوئی ہتھیار نہیں ، جب کہ پہاڑی کے اونچے مورچے پر صرف طالبان پاکستان ہیں جو پسپائی اختیار کرنے والوں سے اپنے مطالبات تسلیم کرانے کیلئے بہتر پوزیشن میں دکھائی دیتے ہیں۔سیاسی جماعتیں ، سیاسی قوتوں سے ہی مذاکرات کرسکتیں ہیں، لیکن سیاسی جماعتوں کی جانب سے عسکری قوتوں سے ہتھیار کے بجائے بات چیت کے مینڈیٹ میں کامیابی کا امکان کم ہی ہوتا ہے۔ملاکنڈ ڈویژن میں آنے والا وقت ثابت کرے گا کہ پچیس لاکھ افراد کی اپنے ملک میں نقل مکانی اور ہزاروں افراد کی جانی قربانیوں کے بعد کیا حقیقی معنوں میں امن قائم ہوچکا ہے ؟․بادی النظر سابقہ صوبائی اور وفاق کی جانب سے ملاکنڈ ڈویژن سے فوج کے انخلا ء کے حوالے سے تحمل کا مظاہرہ کیا جارہا تھا ۔ گو کہ اس وقت فوج کی چھاؤنیاں قائم ہوچکی ہیں اور کسی خراب حالات کی صورت میں دوبارہ فوج آسکتی ہے ، لیکن کیا یہ اسی طرح چلتا رہے گا ؟۔پاک فوج کے میجر جنرل کی دیر بالا میں شہادت کے بعد تو یہ نتیجہ سامنے آیا ہے کہ صوبائی حکومت جلد بازی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ فی الوقت ابھی حالات حتمی طور پر سازگار نہیں ہوئے ہیں ۔ سوات میں امن اسی وقت تک ہے جب تک افغانستان اورامریکہ کا معاملہ پاکستان کے ساتھ حقیقی معنوں میں طے نہیں ہوجاتا۔سابق طالبان کاکراچی جیسے شہر وں میں محفوظ رہنے کے بعد با آسانی واپس اپنے علاقوں میں جاکر اپنے احکامات کی عملدراری قائم کرنے کیلئے کوشش خارج ازامکان نہیں ہے۔کراچی سمیت ملک کے دیگر حصوں میں خاموشی سے بیٹھ جانے والے طالبان فوج کے انخلا ء کے ساتھ فوری طور پر واپس ملاکنڈ ڈویژن واپس آجائیں گے۔ چونکہ قانون نافذ کرنے والے ادارے سیاسی اثر ونفوذ کے سبب متاثر ہوچکے ہیں نیز سوات میں طالبان اور فوج کے درمیان محاذ آرائی میں ایسے افراد بھی مخالفین کی فہرست میں ہیں جنھوں نے فوج کیلئے طالبان کیخلاف ، یا پھر طالبان کیلئے فوج کے خلاف مخبریاں کیں اور کسی نہ کسی صورت میں جانی و مالی نقصان پہنچایا ۔ اس لئے فوج کے انخلا ء کے بعد ایک انتقامی روایتی جنگ کا آغاز بھی شروع ہوجائے گا ۔ جس کا نتیجہ یقینی طور پر پورے ملک پر پڑے گاکیونکہ امن آساں نہیں اور جنگ ابھی باقی ہے!!

Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 746633 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.