ملک کی تاریخ میں 13ستمبر کی تاریخ خاص ہے۔ اس تاریخ کو
جہاں تاریخی انصاف کے لئے یاد رکھا جائے گا وہیں گجرات قتل عام کے ذمہ دار
نریندر مودی کو وزیر اعظم کے عہدے کے امیدوار بنانے کے لئے بھی یاد رکھا
جائے گا۔ وحشیانہ جرم کا ارتکاب کرنے والے مجرموں کو پھانسی کی سزا دی گئی
ہے وہیں گجرات قتل عام کے ماسٹر مائنڈ ، سیکڑوں مسلم خواتین کی اجتماعی
آبروریزی کے ذمہ دارجن کی پاداش امریکہ، یوروپ اور برطانیہ نے ان پر پابندی
لگارکھی تھی، کو اس گھناؤنا جرائم کے عوض وزارت عظمی کا امیدوار بنایا
گیاہے۔ 16دسمبر کے روح فرسا سانحے کے چاروں مجرموں کو عدالت نے پھانسی کی
سزا سنائی ہے تاکہ اس طرح کے وحشیانہ جرائم کو انجام دینے والوں کو سخت
پیغام جائے ۔کہاں تک سخت پیغام جائے گا یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا
تاہم دہلی سمیت پورے ملک میں آبروریزی کے واقعات میں زبردست اضافہ ہوا ہے
اس کی دو وجہیں ہوسکتی ہیں ایک تو یہ لوگوں میں بیداری آئی ہے اور لوگ
رپورٹ درج کرانے کے لئے تھانے پہنچ رہے ہیں دوسری وجہ سماجی اور رہن سہن ہے
جس کی وجہ سے عصمت دری کے واقعات پیش آرہے ہیں جو یہ ظاہر کرتے ہیں کہ
مجرموں کو قانون کا کوئی خوف نہیں ہے۔ اس فیصلے سے ایک طبقہ کے ذہن میں یہ
سوچ بھی پیدا ہوئی کہ کیا پھانسی جیسی سزا صرف غریبوں اور کمزور طبقوں کے
لئے ہے۔ پریہ درشنی مٹو اور دیگر آبروریزی اور قتل کے کیس کے مجرموں کو
پھانسی نہیں ہوئی۔اس کے علاوہ یہ بات بھی ابھر کر سامنے آئی کہ اگر میڈیا
میں نہ اچھالا جائے تو کیا سزا نہیں ملے گی؟ جیساکہ جیسکا لال
منوشرمااورکٹارا وکاس یادو کیس کے کیس میں ہوا تھا پہلے انہیں بری کردیا
گیا لیکن جب میڈیا کا دباؤ پڑا تو پھر دوبارہ ٹرائل شروع ہوا اور دونوں کو
عمر قید کی سزا ملی۔ 16دسمبر کے کیس میں بھی یہی بات کہی جارہی ہے اگر
میڈیا اور لوگوں نے اتنا ہنگامہ نہ کیا ہوتا تو شائد اس قدر جلد اور سخت
سزا نہیں ملتی۔ یہ صرف ایک پہلو ہے ۔ یہ پہلو جتنا روشن ہے دوسرا پہلو اتنا
ہی تاریک ہے۔ دوسرے پہلو میں کمزور طبقہ ، دلت اور مسلمان ہیں اس لئے ان کے
لوگوں کے ساتھ کئے گئے جرائم کو جرم میں شمار نہیں کیا جاتا۔ گولڈن ٹمپل
اور سکھ فسادات کے بیشتر مجرموں سکھوں نے خود سزا دے کر انجام تک پہنچایاجو
باقی رہ گئے ہیں انہیں پارٹی ٹکٹ نہیں دے رہی ہے اور تمام پارٹیوں ایسے
لیڈروں کو راندے درگاہ کردیا ہے۔اس کے برعکس مسلمانوں کے قاتلوں کو نہ صرف
ہیرو بناکر پیش کیا جاتاہے بلکہ بڑے بڑے عہدے گئے ہیں خواہ وہ سیاسی لیڈران
ہوں یا افسران۔ نریندر مودی کو بی جے پی نے نہ صرف اتنے طویل عرصہ تک وزیر
اعلی بنائے رکھا بلکہ اسی کارکردگی (مسلمانوں کا قتل عام) کے سبب انہیں
وزیر اعظم کا امیدوار بنایا ہے۔ 2014میں پارٹی کو مرکز میں برسراقتدار لانے
کی ذمہ داری اب نریندر مودی کے فرقہ پرست کاندھے پر ہے۔ اس کے لئے انہوں نے
تمام اسلحے جمع کرنے شروع کردئے ہیں جس کا ثبوت مظفر نگر فساد ہے جس میں
سیکڑوں مسلمانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹا گیاہے۔ مودی اس وقت وہ سوشل
میڈیا کے ہیرو ہیں۔ بی جے پی کے آئی ٹی شعبہ نے اپنے تمام کارکنوں کو
نریندر مودی کو ہیرو کی شکل میں پیش کرنے کا فرمان جاری کردیا ہے اور گجرات
قتل عام کا داغ دھونے کے لئے انہیں وکاس پرٌش کے طور پر پیش کرنا شروع
کردیا ہے۔ تمام جھوٹی باتوں کا سہارا لیا جارہا ہے یہاں تک امریکہ، انگلینڈ
سوئزر لیند کی خوبصورت سڑکوں کی تصاویر کو اپلوڈ کرکے گجرات کی سڑکیں بتائی
جارہی ہیں۔ بی جے پی کا آئی ٹی شعبہ کس قدر متحرک اس کا اندازہ اس اعداد و
شمار سے لگایا جاسکتاہے جس میں مودی سوشل نیٹ ورکنگ سائٹ پر ہندوستان کے سب
سے مشہور لیڈروں میں سے ہیں۔ ٹوئٹر پر ان کے 22 لاکھ سے زیادہ فلوور ہیں
اور ان کے فیس بک پیج کو لائک کرنے والوں کی تعداد 33 لاکھ سے زائد ہے۔
مودی کا جو بھی بیان آتاہے اسے سوشل نیٹ ورک پر پھیلانے کیلئے یہ شعبہ اپنی
جان لگادیتاہے۔مودی نے گجرات کو کتنی ترقی دی ہے اس کا اندازہ اعداد و شمار
سے لگایا جاسکتاہے۔ البتہ کارپوریٹ سیکٹر وں کو انہوں نے جم کر نواز ا ہے
یہی وجہ ہے کارپوریٹ کے بڑے گھرانے مودی کے پس پشت کھڑے ہیں اور یہ لوگ
مودی کو وزیر اعظم کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں تاکہ وہ دونوں ہاتھوں سے
ہندوستان کو لوٹ سکیں۔
نریندر مودی کو وزیر اعظم کے عہدے کا امیدواربننا اسی دن طے ہوگیا تھا جس
دن گوا میں انہیں مرکزی انتخابی مہم کمیٹی کا چیرمین بنایاگیا
تھا۔13ستمبر2013 کا اعلان کا محض رسمی ہے۔ ان کی زندگی زبردست اتارچڑھاؤ سے
پر رہی ہے۔ بچپن سے ہی غربت میں زندگی بسر کی ہے۔گجرات کے انتہائی انتہائی
سادہ خاندان میں 17 ستمبر1950 کو پیدا ہونے والے مودی طالب علمی کے دور سے
ہی آر ایس ایس سے وابستہ ہوگئے تھے۔ چھوٹی عمر میں ہی وہ ایک آئل کمپنی میں
تیل کے پیپے اٹھایا کرتے تھے، ہر پیپے پر انہیں پانچ پیسے کی مزدوری ملتی
تھی۔چھ بھائی بہنوں میں تیسرے نمبر کے نریندر بھائی مودی آر ایس ایس کا کل
وقتی پرچارک بننے سے پہلے گجرات سڑک ٹرانسپورٹ کارپوریشن کے عملے کے کینٹین
میں کام کرتے تھے۔ریلوے اسٹیشن پر وہ اپنے والد کی چائے کی دکان پر ہاتھ
بھی بٹاتے تھے۔ ان کی خاص بات یہ ہے کہ ان کی یادداشت ہمیشہ سے ہی بہت اچھی
رہی ہے۔ ایک بار وہ کسی سے ملاقات کر لیں تو پھر اس کا نام کبھی نہیں
بھولتے۔ ناگپور میں آر ایس ایس کی تربیت حاصل کرنے کے بعد گجرات میں اکھل
بھارتیہ ودیارتھی پریشد کا چارج سنبھالا۔ 1987 میںآر ایس ایس نے بی جے پی
میں بھیجا۔ اس وقت شنکر سنگھ واگھیلا اور کیشوبھائی پٹیل جیسے قد آور لیڈر
تھے۔ مرلی منوہر جوشی کی ایکتایاتراکا کامیاب انعقاد کرکے مودی سرخیوں میں
آئے۔ 1995 کے گجرات اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کی جیت میں ان کی حکمت
عملی کا مرکزی کردار رہا۔ بی جے پی کے جنرل سکریٹری بنا کر دہلی منتقل کئے
گئے۔ 1998 میں قومی جنرل سکریٹری بنے۔سیاست میں آنے سے پہلے مودی کئی سال
تک آر ایس ایس کے پرچارک رہے۔ بچپن سے ان کی آر ایس ایس کی طرف جھکاؤ رہا
ہے۔گجرات میں آر ایس ایس کی مضبوط بنیاد ہے اور 1980 کی دہائی میں جب مودی
گجرات کی بی جے پی اکائی میں شامل ہوئے تو یہ سمجھاگیا کہ پارٹی کو آر ایس
ایس کے اثرات کا براہ راست فائدہ ہوگا اور ہوا بھی۔ نریندر مودی نے لال
کرشن اڈوانی کی سومناتھ اور ایودھیا رتھ یاترا کے انعقاد میں اہم کردار ادا
کیا تھا۔1998 کے گجرات اسمبلی انتخابات میں پارٹی کی فتح اور کیشوبھائی
پٹیل کو وزیر اعلی بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ بعد میں بدعنوانی کے
الزامات ، اقتدار کا غلط استعمال اور 2001 کے بھج کے زلزلے کے بعد نازک
حالات سے صحیح طریقے سے نہیں نمٹنے کا الزام پٹیل پر لگا۔ ضمنی انتخابات
میں پارٹی کی کراری شکست سے فکر مند قومی قیادت نے متبادل کے طور پر نریندر
مودی کو وزیر اعلی کے عہدے پر بٹھادیا۔
مشن 2014 کی کمان نریندر مودی کے ہاتھوں میں سونپنے کے ساتھ ہی بی جے پی
میں نئے دور کا آغاز ہو گیا جہاں انہیں بی جے پی میں اندرونی رسہ کشی سے
نمٹنا ہے وہیں انہیں این ڈی اے چھوڑکرچلے جانے والے اتحادیوں کو بھی واپس
لانا ہوگا۔ بی جے پی کے سینئر لیڈر لال کرشن اڈوانی اب تک ناراض ہیں۔ وہ
دونوں موقع پر میٹنگ میں شریک نہیں ہوئے۔ مودی کے سامنے زبردست چیلنج ہے
مردہ تنظیم میں جان ڈالنا ، اتحاد کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے اسے مضبوط کرنا
اور دوسری پارٹیوں کے لئے کشش پیدا کرنا ہے۔ 1999میں این ڈی اے میں
24پارٹیوں کا کنبہ تھا۔ 2004میں این ڈی اے جو بھگدڑ مچی تو 2009آتے آتے اس
کی تعداد میں چار تک رہی لیکن جنتا دل متحدہ کے جدا ہوتے ہی بی جے پی کی
قیادت والی این ڈی اے میں شیو سینا اور اکالی دل جیسی پارٹی رہ گئی ہے۔
2004کے انتخابات میں جے للتا کی پارٹی، چندرا بابو کی پارٹی اور نوین
پٹنائک کی پارٹی سے بی جے پی کی دوستی تھی لیکن 2004 کے انتخابات میں شکست
کے بعد یہ پارٹیاں بی جے پی سے ناطہ توڑ چکی ہیں۔ان پارٹیوں کی وجہ سے بی
جے پی کو آندھر پردیش ، تمل ناڈو اور اڑیسہ میں سیٹیں بھی ملی تھی۔1999 میں
آندھراپردیش میں بی جے پی کو 7 نشستیں، اڑیسہ میں 9 نشستیں اور تمل ناڈو
میں 4 سیٹیں ملی تھی ساتھ ہی ساتھ جے للتا ، چندر بابو نائیڈو اور نوین
پٹنائک کو بھی زبردست فائدہ ہوا تھا۔ جب 1990 میں رام مندر تحریک بلندیوں
پر تھی اور نفرت کا کاروبار جم کر جاری تھا اس وقت اترپردیش اسمبلی کے
انتخابات میں بی جے پی کو 45ء31 فیصد ووٹ اور 221 سیٹیں ملی تھیں جب کہ اسی
سال لوک سبھا انتخابات میں ووٹ کا تناسب بڑھ کر 28ء32 فیصد اور 85 میں سے
51 سیٹیں ملی تھیں۔ 1996 کے لوک سبھا انتخابات میں 44ء33فیصد ووٹ اور سیٹیں
بھی بڑھ کر 52 ہوگئی تھیں۔ لیکن بابری مسجد کی شہادت کے بعد بی جے پی ووٹوں
کی شرح اور سیٹوں کی تعداد میں کمی آئی تھی۔1998 میں بی جے پی کو اس ریاست
میں سب سے زیادہ ووٹ ملے تھے۔ اس وقت پارٹی کو لوک سبھا کی 85 میں سے 57
سیٹیں ملی تھیں اور ووٹ کا تناسب بڑھ کر 49ء36 فیصد ہوگیا تھا۔ 1999 کے لوک
سبھا انتخابات میں سیٹیں گھٹ کر 29 ہوگئی اور ووٹ 64ء27 فیصد پر آگیا
تھا۔لوک سبھا کے 2004 اور 2009 میں پارٹی کو 80 میں سے 10،10 سیٹیں ملی
لیکن ووٹ کا تناسب بالترتیب 17ء22 اور 54ء17 پرٹھہرگیا۔ اترپردیش ایسی
ریاست ہے جہاں لوک سبھا کی نشست سب سے زیادہ یعنی 80 ہے۔ جن ریاستوں میں
پارٹی کی حالت مستحکم سمجھی جاتی ہے اس میں تقریباً 40 فیصد سیٹیں اترپردیش
میں ہیں۔ اس لئے مسٹر مودی کے سامنے اترپردیش میں سب سے زیادہ چیلنج ہے۔بی
جے پی کی موجودگی 543 لوک سبھا سیٹوں میں سے تقریبا 387 سیٹوں پر ہے۔ 1989
کے لوک سبھا انتخابات کے بعد سے ملک کی سیاست بدل چکی ہے۔کوئی بھی پارٹی
اپنے بل بوتے پر حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ 1999 کے لوک سبھا
انتخابات میں بی جے پی کو 182 سیٹیں ملی تب تھی جب چھوٹی اور بڑی پارٹیوں
کو ملا کر این ڈی اے میں 24 پارٹیاں شامل تھیں لیکن آج کی تاریخ میں بی جے
پی کی کشتی پر صرف دو پارٹیاں ہی سوار ہیں۔ایسی حالت میں بی جے پی کو 182
سیٹیں بھی ملنا مشکل ہو سکتا ہے اگر منموہن سنگھ سے لوگ ناراض ہیں۔ حالیہ
سروے اور انتخابات تجزیہ کی بات مانیں تو بی جے پی کو 165 سیٹیں مل سکتی
ہیں جبکہ این ڈی اے کے اتحادی پارٹی کو 25 سیٹیں مل سکتی ہیںیعنی یہ تعداد
190 تک سمٹ سکتا ہے۔ایسا نہیں ہے کہ نریندر مودی کے لئے صرف اندیشے ہی ہیں
بلکہ امکانات کا دروازہ بھی کھلا ہوا ہے۔ جے للتا سے مودی کی پرانی دوستی
ہے ایسے میں وہ مودی سے اتحاد کر سکتی ہیں وہیں چندر بابو نائیڈو کی حالت
بھی آندھراپردیش میں ٹھیک نہیں ہے ۔نائیڈو بھی بی جے پی سے اتحاد کرسکتے
ہیں۔ اڑیسہ میں نوین پٹنائک کو بھی پرانی دوستی کی دہائی دیکر این ڈی اے
اتحادی میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ اترپردیش میں تقریبا 37 فیصد
اور بہار میں تقریبا 47 فیصد آبادی پسماندہ طبقے کی ہے کیونکہ مودی گجرات
کے اسی انتہائی پسماندہ طبقہ سے آتے ہیں مگر مودی نے کبھی اس کا اظہار نہیں
کیا، لیکن اتر پردیش اور بہار میں ان کے حامی انہیں پسماندہ طبقے کے قدآور
رہنما کے طور پر پیش کر سکتے ہیں۔اس کے علاوہ بی جے پی کاایک طبقہ ہندو
ووٹوں کو نریندر مودی کے حق کرنے کیلئے مودی کومسلمانوں کا دشمن اور ہندو
ؤں کا ہیرو کے طور پر بھی پیش کرسکتاہے۔ جس کی شروعات ہوچکی ہے اور
اترپردیش میں امت شاہ کو کمان اسی عندیہ کا اظہار ہے۔
ملک کے جنوبی علاقوں میں بی جے پی کی حالت اچھی نہیں ہے۔ آندھرا پردیش،
کیرالہ، اوڈیشا، تمل ناڈو اور شمال مشرق کی ریاستوں میں لوک سبھا کی تقریباً
185 سیٹیں ہیں اور ان ریاستوں میں پارٹی کی دگرگوں حالت ہے۔کرناٹک کے گزشتہ
دنوں ہونے والے اسمبلی انتخابات نے بی جے پی کو ہواس باختہ کردیا ہے اور
نریندر مودی نے جن جن علاقوں میں ریلیاں کی تھیں وہاں بی جے پی کو ہزیمت کا
سامنا کرنا پڑا تھا۔ بی جے پی کا اثر پورے ملک پر نہیں ہے بلکہ کچھ خاص خطے
ہیں جہاں اس کا اثر ہے۔جہاں تک نریندر مودی کی بات ہے گجرات اور پورے
ہندوستان میں بہت فرق ہے۔ گجرات کو فتح کرنے کا مطلب ہرگز نہیں ہے کہ وہ
پورے ملک کو فتح کرلیں گے۔ نریندر مودی نے گجرات فسادات کے حوالے سے کبھی
اظہار افسوس نہیں کیا بلکہ گجرات کے فسادات کے خاطیوں کو بڑے بڑے عہدے دینے
میں نہایت فراخدلی سے کام لیا۔ فسادات میں بدنماکردار کی وجہ سے ہی مودی نے
کوڈنانی کو وزیر کے عہدے سے نوازا تھا۔مودی جیسے فرقہ پرست اور نفرت کے
سوداگر کو روکنا صرف مسلمانوں کی ذمہ داری نہیں ہے بلکہ مسلمانوں سے کہیں
زیادہ ہندوؤں کی ہے ۔یہ ہندوستان کی شبیہ کامعاملہ ہے۔ یہاں کی اکثریت پر
منحصر کرسکتاہے کہ وہ ملک کو سیکولر رکھنا چاہتے ہیںیا نہیں۔ مسلمان اب تک
ملک کو سیکولر رکھنے کیلئے آزادی کے بعدسے مسلسل قربانیاں دیتے آرہے ہیں۔
مودی اگر آج اس مقام پر پہنچا ہے تو اس کا ذمہ دار وہ ووٹر ہیں جنہوں نے
انہیں ووٹ دیا اور ان کا گناہ بھی مودی سے کسی طرح کم نہیں۔ ویسے آئندہ
ہونے والے لوک سبھا کے عام انتخابات میں نریندر مودی کی امید کم ہے لیکن
اگر ایسا ہوگیا تویہ ہندوستان کی بہت بڑی بد نصیبی ہوگی اور ہندوستان کو
متحد رکھنا ان کے لئے بہت مشکل ہوجائے گا۔ |