پاکستان میں ڈرون کا گھناؤنا روپ

دنیا میں اس ٹیکنالوجی سے مفید کام لئے جار ہے ہیں۔

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر ڈرون حملوں سے نفرت کی جو فصل بوئی ہے، اس سے ساری دنیا اور پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے، ڈرون ہمارے لئے ایک تباہی ہے تو امریکہ اور اسے کے حواری ملکوں میں ڈرون ٹیکنالوجی انسانیت کی فلاح و بہبود اور نت نئے سامان راحت پیدا کر رہی ہے۔ پاکستان میں 2004ء سے ڈرون ہوائی جہازوں کے استعمال سے ہزاروں انسانوں کو جلا کر راکھ کر دیا۔ ڈرون حملوں کی یہ داستان انتہائی بے رحم ، سفاک، دہشتناک اور الم انگیز ہے۔ اکیس ویں صدی میں مہذب امریکہ کا یہ گھناونا روپ سب کے لئے قابل نفرت ہے۔ لیکن یہی ڈرون ٹیکنالوجی برطانوی فضا ء میں سماج دشمن عناصر، احتجاج کرنے والے مظاہرین اور اجناس چوروں سمیت کئی دیگر افراد کی نگرانی اور دوسرے مفید کاموں میں استعمال کی جارہی ہے۔ برطانیہ کی مشہور ہتھیار ساز کمپنی British Aeronautical Engineering ،جو جنگی مقاصد کے لئے بغیر پائلٹ کے جاسوسی طیارے بناتی ہے اب برطانیہ کے مختلف حکومتی اداروں کے لئے یہ طیارے بنائے ہیں۔پولیس کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ ڈرون کو سمندری حدود کی فضائی نگرانی کے لئے استعمال کیا جائے گا لیکن اظہار رائے کی آزادی کے قانون کے تحت گارڈین نے جو دستاویزات حاصل کئے ہیں ان میں اس ٹیکنالوجی کے کئی اور مقاصد بھی بیان کئے گئے ہیں۔ ان کے مطابق مستقبل میں ان طیاروں کوبنکوں کی کیش مشینوں سے چوری کی روک تھام، سڑکوں اور ریلوے لائنوں کی نگرانی اورامدادی کاموں کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ لیکن ناقدین کے مطابق اس ٹیکنالوجی کا قابلِ تشویش پہلو یہ ہے کہ اسے شہریوں کی جاسوسی کے لئے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔۔لیکن پاکستان میں اس ٹیکنالوجی نے صرف تباہی پھیلائی ہے۔ پاکستان میں یہ حملے جارج بش کی حکومت نے خود ساختہ دہشت جنگ کے سلسلہ میں شروع کیے۔ بارک اوبامہ کے صدر بننے کے بعد، اور پاکستان میں زرداری حکومت کے قائم ہونے کے بعد ان حملوں کے تعدد اور شدت میں اضافہ ہوتا گیا۔ یہ ڈرون حملے،پاکستان کی سالمیت اور خودمختاری کے خلاف کئے جانے والے امریکی اقدامات میں سر فہرست ہیں۔ پاکستان میں نامعلوم تعداد میں افراد ان حملوں میں ہلاک یا زخمی ہو چکے ہیں۔مبصرین کے مطابق سال 2010ء میں سب سے زیادہ حملے کیے گئے، اور حملوں کی ذمہ دار امریکی CIA ہے۔ پاکستان میں انسانی حقوق کیلئیکام کرنیوالے ایک ادارے انسانی حقوق کمیشن کے مطابق 2010ء میں امریکی ڈرون جملوں سے900افرادہلاک ہوئیہیں۔اپریل 2011ء میں پاکستانی فوجی اور سیاسی حکام نے امریکہ سے ڈرون حملے بند کرنے کے لیے کہا۔زخمیوں کا علاج کرنے والے طبیبوں نے بتایا ہے کہ امریکی ڈروں کے زریعہ کیمیائی ہتھیار استعمال کر رہے ہیں حملہ کے بعد امدادی کاروائی کرنے والوں پر امریکی ڈرون دوبارہ حملہ کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ مرنے والوں کے جنازہ پر بھی ڈرون پھر حملہ کرتے ہیں۔ ان ڈرون کو امریکی فوجی اور کارندے چلاتے ہیں۔نیویارک ٹائمز کے مطابق امریکی صدر بارک اوبامہ ہر ہفتہ قتل کے لیے افراد کا انتخاب خود کرتے ہیں۔ گزشتہ سالوں میں پاکستان میں ہونے والے کچھ امریکی ڈرون حملوں کی تفصیل کے مطابق18جون کوافغانستان سے اڑنے والے MQ-9ڈرون طیارے کے جنوبی وزیرستان کے علاقے وانا پرمیزائل حملے میں نیک محمد وزیر سمیت5افراد ہلاک ہوگئے۔2005 چودہ مئی کو شمالی وزیرستان کے علاقے میں افغان بارڈر کے قریب ڈرون حملے میں حاتم ال یمینی ہلاک ہو گیا۔30نومبر کو شمالی وزیرستان کے شہر میران شاہ کے قریب آسورے(Asoray)میں امریکی ڈرون حملے میں القاعدہ کا لیڈر ابو حمزہ ربیعہ مارا گیا۔2006 تیرہ جنوری کو باجوڑ کے علاقے ڈاماڈولا میں میزائل حملے سے8افراد ہلاک ہوگئے لیکن ایمن الزواہری اس حملے میں بچ گئے۔26اپریل کوشاملی وزیرستان کے علاقے سید گئی میں ڈرون حملے سے4افراد ہلاک ہوگئے۔19جون کو شمالی وزیرستان کے علاقے مامی روگا میں ڈرون حملے میں20افراد ہلاک ہوگئے۔2نومبرکو شمالی وزیرستان میں ایک مدرسے پر میزائل حملے میں5افراد ہلاک ہوگئے۔جنوری:2008میں میزائل حملے کا پہلا واقعہ 29 جنوری کو پیش آیا جب شمالی وزیرستان کی تحصیل میر علی کے گاؤں خوشحالی میں ستار نامی شخص کے مکان پر ایک میزائل لگا جس کے نتیجہ میں مقامی حکام کے مطابق بارہ افراد ہلاک اور دو زخمی ہوگئے۔ ہلاک ہونے والوں میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔مبینہ طورپر اس حملے میں ہلاک ہونے والوں میں القاعدہ کے رہنما ابو اللیث اللبی بھی شامل تھے۔فروری:دوسرا حملہ28 فروری کو جنوبی وزیرستان کے صدر مقام وانا سے قریباً 10 کلومیٹر مغرب کی جانب افغان سرحد کے قریب اعظم ورسک کے علاقے کالوشہ میں ہوا اور اس میں 8 طالبان ہلاک ہوگئے۔مقامی ذرائع کے مطابق ہلاک ہونے والوں میں ترکمان، عرب اور پنجابی طالبان شامل تھے۔مارچ:قریباً دو ہفتے بعد18 مارچ کو جنوبی وزیرستان کا گاؤں شاہ نواز کوٹ میزائل حملے کا نشانہ بنا۔ حملے میں18 افراد ہلاک جبکہ 7 زخمی ہوئے۔مئی:14مئی کو باجوڑ کے علاقہ ڈمہ ڈولہ کے گاؤں پوی کلی میں جاسوس طیاروں کے حملے کا تیسرا واقعہ پیش آیا۔ اس حملے میں طیاروں سے عبیداﷲ نامی شخص کے گھر پر دوگائیڈ ڈ میزائل داغے گئے جن سے 3 بچوں سمیت 7 افراد ہلاک اور 6 زخمی ہو گئے۔ جون:11جون کو امریکہ کی جانب سے پاکستانی حدود میں کارروائی کا ایک اور واقعہ پیش آیا جب امریکی طیاروں نے پاکستان کے قبائلی علاقے مہمند ایجنسی میں پاکستانی سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کے ایک ٹھکانے پر بمباری کر دی جس کے نتیجہ میں11 اہلکاروں سمیت19 افراد ہلاک ہوگئے۔جولائی:جولائی کے آخر میں28تاریخ کوجنوبی وزیرستان کے علاقے اعظم ورسک میں ایک میزائل حملے میں 7 افراد ہلاک ہوئے جن میں اطلاعات کے مطابق القاعدہ کے اہم رہنما اور بم بنانے کے ماہر مدحت مصری المعروف ابوخباب المصری بھی شامل تھے۔اگست:28 جولائی کا حملہ مبینہ طور پر امریکہ کی جانب سے سرحد پار پاکستانی علاقے میں کارروائیوں میں آنے والی حالیہ تیزی کا نقطہ آغاز ثابت ہوا اور13 اگست کو وانا سے تیس کلومیٹر دور افغان سرحد کے قریب علاقہ باغڑ میں ایک مکان پر 4 میزائل گرے جس سے ایک درجن سے زیادہ لوگ ہلاک ہوگئے۔7 دن کے بعد20 اگست کو جنوبی وزیرستان میں ہی افغانستان سے داغے گئے دو میزائل زیڑی نور میں یعقوب مغل خیل وزیر نامی قبائلی کے مکان پر گرے جس سے کم از کم 6 لوگ ہلاک ہو گئے۔ ماہِ اگست کے آخری دن شمالی وزیرستان کے صدر مقام میرانشاہ سے قریباً پندرہ کلومیٹر مشرق کی جانب علاقہ تپئی میں داوڑ قبیلے کے ایک رکن سوار خان داوڑ کے مکان پر میزائل حملہ ہوا جس کے نتیجہ میں 4 افراد ہلاک جبکہ دو زخمی ہوگئے۔ستمبر:3 ستمبر کو امریکی فوج نے جنوبی وزیرستان میں موسی نیکہ کے علاقے میں زمینی کارروائی کی جس میں قریباً بیس مقامی افراد مارے گئے۔ ہلاک ہونے والوں میں عورتیں اور بچے بھی شامل تھے۔اگلے ہی دن 4 ستمبر کو شمالی وزیرستان کے صدر مقام میران شاہ کے علاقہ چارخیل میں رحمن والی خان اور فرمان نامی افراد کے مکان پر 3 میزائل گرے، جس کے نتیجہ میں 5 افراد ہلاک اور 4 زخمی ہوگئے۔ 8 ستمبر کو جاسوس طیاروں نے شمالی وزیرستان میں ڈانڈے درپہ خیل میں واقع طالبان کمانڈر جلال الدین حقانی کے گھر اور مدرسے کو 7 میزائلوں سے نشانہ بنایا۔ اس حملے میں کم از کم 20 افراد ہلاک ہوئے۔ اسی دوران امریکہ کے چیئرمین جائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی مائیک مولن نے امریکی کانگریس کی ایک کمیٹی کے سامنے بیان دیا کہ امریکہ طالبان سے متعلق اپنی حکمتِ عملی تبدیل کر رہا ہے جس کے تحت اب سرحد پار کر کے پاکستان کے اندر طالبان پر بھی حملے ہو سکتے ہیں اور پھر امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کی یہ رپورٹ بھی منظرِ عام پر آئی جس میں کہا گیا کہ امریکی صدر بش نے جولائی میں پاکستانی حکومت کو مطلع کیے بغیر پاکستان کی حدود میں کارروائی کی خفیہ اجازت دی تھی۔تاہم ان رپورٹوں کی اشاعت اور پاکستانی حکام کی جانب سے ان پر سخت ردعمل کے باوجود میزائل حملوں کا سلسلہ تھما نہیں اور جمعہ 12 ستمبر کو پاکستان کے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں افغان سرحد کے قریب امریکی جاسوس طیاروں نے ایک مکان اور پرائمری سکول کو میزائلوں سے نشانہ بنایا ہے جس کے نتیجے میں 12 افراد ہلاک ہوگئے۔ پندرہ ستمبر کو انگور اڈہ کے قریب افغانستان کے علاقے میں امریکی گن شپ ہیلی کاپٹروں اور جہازوں کی آمد پر پاکستانی فوجیوں نے ہوائی فائرنگ کی تھی۔ انگور اڈہ باغاڑ چینا سے صرف دو کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ مقامی لوگوں کے مطابق امریکی جہازوں کے اترنے کے بعد قریبی پہاڑی سلسلوں میں موجود پاکستانی فوج کے ٹھکانوں سے بگل بجائے گئے اور فائرنگ بھی کی گئی۔17ستمبر کی شام امریکی جاسوس طیارے نے 4 میزائل داغے جس سے 5 افراد ہلاک اور 3 زخمی ہوئے۔ حکام نے بی بی سی بات کرتے ہوئے کہا کہ جنوبی وزیرستان کے باغاڑ چینا علاقے میں 4 میزائل داغے گئے جن میں سے دو ایک گھر پرگرے اور دو پہاڑیوں پر لگے۔ اگلے روز حکومتِ پاکستان نے کہا کہ امریکہ نے اسے میزائل حملے کی پیشگی اطلاع نہیں دی تھی اور اس طرح کے یک طرفہ حملوں سے حالات میں بہتری آنے میں مدد نہیں ملے گی۔اکتوبر:31اکتوبر کو وزیرستان میں 4میزائل حملوں میں20افراد ہلاک ہوگئے جن میں القاعدہ رہنما ابو آکاش اور محمد حسن خلیل ال حکیم بھی شامل تھے۔14نومبر کو میران شاہ کے قریب میزائل حملے میں12افراد ہلاک ہوگئے۔
19نومبرکو بنوں میں میزائل حملے میں عبداﷲ اعظم السعودی مارے گئے۔22نومبر کو شامی وزیرستان میں میزائل حملے میں العدہ کے اہم رہنما راشد رؤف اور ابو زبیر المصری سمیت5افراد ہلاک ہوگئے۔22دسمبر کو جنوبی وزیرستان میں میزائل حملے میں8افراد ہلاک ہوگئے۔2009ء اس سال امریکہ نے ان فضائی حملوں میں 700 سے زیادہ پاکستانی شہری قتل کیے۔14 فروری کو جنوبی وزیرستان کے لدھا سب ڈویڑن کے علاقے نصر خیل میں مبینہ امریکی جاسوس طیارے نے روشان محسود نامی ایک شخص کے مکان پر دو میزائل داغے جس سے مکان مکمل طورپر تباہ ہوگیا اور اس میں موجود اٹھائیس افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے۔یکم اپریل کو پہلی مرتبہ ڈرون طیاروں نے اورکزئی ایجنسی کو نشانہ بنایا اور اس حملے میں کم از کم 8 طالبان ہلاک ہوئے۔ یہ حملہ اپر اورکزئی کے خادیزئی علاقے میں کیا گیا۔ہلاک ہونے والے زیادہ تر افراد کا تعلق اوکزئی ایجنسی سے ہی تھا۔4 اپریل کو شمالی وزیرستان میں امریکی جاسوس طیاروں نے طالبان کے ایک مشتبہ ٹھکانے کو نشانہ بنایا۔ اس حملے میں 13 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے۔یہ حملہ رات تقریباً 3 بجے ہوا جس میں جاسوس طیاروں نے شمالی وزیرستان کی تحصیل دتہ خیل کے ڈانڈہ علاقے میں ایک مقامی شخص طارق کے مکان کو نشانہ بنایا۔ مقامی ذرائع کے مطابق اس حملے میں ہلاک ہونے والوں میں سے بعض غیر ملکی تھے تاہم سرکاری طور پر اس کی تصدیق نہیں ہو سکی۔ڈرون حملوں کے خلاف ملک میں مظاہروں کا سلسلہ بھی جاری رہا۔29اپریل کو جنوبی وزیرستان کے سب ڈویڑن لدھا سے 10 کلومیٹر دور جنوب کی جانب کانیگرم کے علاقے اسمان منزہ میں امریکی جاسوس طیارے نے ایک گاڑی کو نشانہ بنایا جس سے اس گاڑی میں سوار 6 افراد مارے گئے۔ مقامی انتظامیہ نے دعوٰی کیا کہ ہلاک ہونے والوں کا تعلق بیت اﷲ گروپ سے تھا اور وہ مقامی طالبان تھے۔16 مئی کو شمالی وزیرستان کی تحصیل میر علی سے پچیس کلومیٹر دور جنوب کی جانب خیسور کے علاقے میں امریکی جاسوس طیارے سے دو میزائل داغے گئے جس کے نتیجہ میں 25 افراد ہلاک جبکہ 6زخمی ہوگئے۔ حکام کے مطابق ایک میزائل حملے میں ایک گاڑی اور دوسرے میں ایک مدرسے کو نشانہ بنایا ہے۔ مقامی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ گاڑی بھی مدرسے کے قریب موجود تھی۔مقامی ذرائع کے مطابق اکیس افراداس حملے میں ہلاک ہوئے۔23 جون کو جنوبی وزیرستان میں امریکی جاسوس طیاروں نے ایک دن میں دو میزائل حملے کیے۔ پہلا حملہ لدھا کے علاقے میں کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان کے سربراہ بیت اﷲ محسود کے ساتھیوں کے ایک ٹھکانے پر ہوا جس میں متعدد افراد مارے گئے۔ ان افراد کی نمازِ جنازہ کے لیے جمع ہونے والے افراد پر ایک اور میزائل حملہ کیا گیا۔ مقامی انتظامیہ کے مطابق ان دونوں حملوں میں کم از کم50 افراد ہلاک ہوئے۔8 جولائی کو دو مرتبہ جنوبی وزیرستان کا علاقہ ڈرون حملوں کا نشانہ بنا۔ پہلے حملے میں ڈرون طیارے سے داغے جانے والے میزائلوں کا نشانہ جنوبی وزیرستان کے سب ڈویڑن لدھا کے پہاڑی علاقے کاروان منزہ میں واقع طالبان کا تربیتی مرکز بنا۔ بیت اﷲ گروپ کے اس ٹھکانے پر ہونے والے حملے میں 8 مقامی جنگجو مارے گئے۔ یہ جنوبی وزیرستان میں دن دو میں ہونے والا دوسرا ڈرون حملہ تھا۔ بعد ازاں اسی شام لدھا سے سراروغہ جانے والے شدت پسندوں کی 5گاڑیوں پر3 ڈرون طیاروں نے 5 میزائل داغے۔مقامی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ ان حملوں میں 50 کے قریب شدت پسند ہلاک ہوئے ہیں جبکہ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ حملے میں 40جنگجو مارے گئے۔5اگست کو جنوبی وزیرستان کے سب ڈویڑن لدھا سے پندرہ کلومیٹر دور شمال مشرق کی جانب شوبی خیل کے علاقے زنگڑہ میں ڈرون طیاروں نے بیت اﷲ محسود کے سسر ملک اکرام الدین کے گھر کو نشانہ بنایا۔ ابتدائی طور پر اس حملے میں صرف بیت اﷲ محسود کی اہلیہ کی ہلاکت کی تصدیق کی گئی تاہم دو دن بعد پاکستانی حکام نے انٹیلی جنس ذرائع کے حوالے سے اسی حملے میں خود بیت اﷲ محسود کے مارے جانے کی بھی تصدیق کر دی۔2011ء نئے سال کے آغاز پر امریکیوں کے پاکستان کے علاقہ وزیرستان پر حملہ میں 18 افراد ہلاک۔16 مارچ 2011ء کو امریکی حملے میں چالیس افراد لقمہ اجل بن گئے۔ حملے کی مذمت چیف آف آرمی اسٹاف اشفاق پرویز کیانی نے بھی کی۔8 جون 2011ء ، امریکیوں نے ڈرون حملہ سے 20 افراد قتل کر دیے۔9 اگست 2011ء ، امریکیوں نے ڈرون حملہ سے 21 افراد قتل کر دیے۔5 مئی 2012ئکو امریکیوں نے ایک ہی ہفتہ میں دوسرے حملے میں آٹھ راکٹ چلا کر دس افراد کو قتل کر دیا۔ پاکستانی دفتر خارجہ نے احتجاج کیا۔28 مئی 2012ء امریکہ نے حملہ کر کے آٹھ افراد کو قتل کر دیا۔لگاتار تین روز سے فضائی حملوں میں امریکہ نے 27 افراد ہلاک کر دیے۔6 جنوری، نئے سال کے وزیرستان پر دوسرے حملے میں اوبامہ نے 17 افراد ہلاک کر دیے۔28 مئی، میرانشاہ میں امریکی ڈرون حملے میں چار پاکستانی قتل، چار شدید زخمی۔ انتخابات کی تیاری کے دوران خاموشی کے بعد حملے دوبارہ شروع۔7 جون، انتخابات کے بعد نئی حکومت کے دور کا پہلا امریکی ڈرون حملا۔ سات پاکستانی قتل۔2 جولائی، وزیرستان پر بارک اوبامہ کی فوج کاڈرون حملہ، 16 افراد قتل-13 جولائی، شمالی وزیرستان پر امریکی ڈرون حملے میں دو پاکستانی قتل28 جولائی، بارک اوبامہ کا شمالی وزیرستان پر ڈرون حملہ، سات پاکستانی قتل کیئے۔ ڈرون حملوں کی یہ داستان انتہائی بے رحم ، سفاک، دہشتناک اور الم انگیز ہے۔ اکیس ویں صدی میں مہذب امریکہ کا یہ گھناونا روپ سب کے لئے قابل نفرت ہے۔ لیکن یہی ڈرون ٹیکنالوجی برطانوی فضا ء میں سماج دشمن عناصر، احتجاج کرنے والے مظاہرین اور اجناس چوروں سمیت کئی دیگر افراد کی نگرانی اور دوسرے مفید کاموں میں استعمال کی جارہی ہے۔ برطانیہ کی مشہور ہتھیار ساز کمپنی British Aeronautical Engineering ،جو جنگی مقاصد کے لئے بغیر پائلٹ کے جاسوسی طیارے بناتی ہے اب برطانیہ کے مختلف حکومتی اداروں کے لئے یہ طیارے بنائے ہیں۔ برطانوی روزنامے گارڈین کے مطابق ڈرون طیاروں کے اس منصوبے کو برطانوی وزارتِ داخلہ کی حمایت حاصل ہے۔ برطانیہ کے ایک کاؤنٹی Kent کی پولیس اور دوسرے سرکاری اداروں کی ایک کنسورِشیم BAA کے ساتھ مل کر اس پروجیکٹ پر کام کررہی ہے۔پولیس کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ ڈرون کو سمندری حدود کی فضائی نگرانی کے لئے استعمال کیا جائے گا لیکن اظہار رائے کی آزادی کے قانون کے تحت گارڈین نے جو دستاویزات حاصل کئے ہیں ان میں اس ٹیکنالوجی کے کئی اور مقاصد بھی بیان کئے گئے ہیں۔ ان کاغذات کے مطابق مستقبل میں ان طیاروں کوبنکوں کی کیش مشینوں سے چوری کی روک تھام، سڑکوں اور ریلوے لائنوں کی نگرانی اورامدادی کاموں کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ لیکن ناقدین کے مطابق اس ٹیکنالوجی کا قابلِ تشویش پہلو یہ ہے کہ اسے شہریوں کی جاسوسی کے لئے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔طاقتور کیمروں اور حساس آلات سے لیس اس نوعیت کا پہلا طیارہ سال گزشتہ کے آخر میں تجربے کے لئے برطانوی فضاء میں چھوڑا گیا تھا۔ اب ڈرون کے ذریعے ویٹرز کی موجودگی کے بغیر آپ کا آڈر کیا ہوا کھانا ہوا میں اڑتا ہوا آپ کی میز پر خود آئے جائے گا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ جہاز بغیر پائلیٹ کے آپ کو منزل مقصود تک پہنچا دے۔یا بغیر ڈرائیور کی کار آپ کو گھر لینے پہنچ جائے، یہ سب جدید دنیا کے تصوراتی خاکے نہیں ہیں بلکہ اب ڈرون ٹیکنالوجی نے یہ ممکن بنا دیا ہے۔ گو گل گلاس کی ٹیکنالوجی میں اب یہ بھی ممکن بنا دیا ہے کہ اڑتے ہوئے کیمرے جہاں چاہے بھیج کر اپنی ضرورت کے مطابق تصاویر اور ویڈیوز بنائیں اور چند سیکنڈ میں انھیں انٹر نیٹ پر لوڈ کردیں۔ ڈرون ٹیکنالوجی ہی کی بدولت لندن کے ایک جاپانی ریستوران نے ایسی انوکھی اڑن ٹرے تیار کرنے کا دعویٰ کیا ہے جو صارف کا کھانا اس کی میز تک خود پہنچائے گی۔یہ انوکھی ٹرے نما ڈیوائس 25 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے اڑیں گی اور انہیں آئی پیڈ کے ذریعے کنٹرول کرکے کسی تصادم سے بچا جاسکے گا۔اس ٹرے میں 2 کیمرے میں لگائے گئے ہیں تاکہ اسے کنٹرول کرنے والا راستوں کو دیکھ سکے، یعنی اب بس ٹرے کو کھانے سے بھریں اور اڑا کر مطلوبہ میز تک پہنچائیں اور صارف کے جانے کے بعد واپس بلالیں۔ اس ٹیکنالوجی کی بدولت شائد نئی نسل روبوٹ سے اڑنے والے طیاروں میں سفر کرے۔ نیو میکسیکو سٹیٹ یونیورسٹی کے بغیر پائلٹ ایئرکرافٹ پروگرام کے ڈائریکٹر ڈاگ ڈیوس کہتے ہیں، ’ہمارا یقین ہے کہ طیارے کی صنعت میں بنا پائلٹ کے ہوائی جہاز بڑی تبدیلی ہو گا۔‘بغیر پائلٹ کے طیارے فوج کے لیے نئی بات نہیں ہیں۔ کئی برسوں سے لینڈنگ کے خود کار نظام کی مدد سے ایف -18 کرافٹ اتارے جاتے ہیں۔برطانیہ میں پائلٹ بغیر مسافر طیارے کے استعمال کو اور آگے لے جانے کے مقصد سے ٹیکنالوجی کے میدان کی کمپنی نے حال ہی میں برطانیہ کے آسمان میں ایک پائلٹ کے بغیر طیارہ اڑایا۔ اس طیارے پر مسافر سوار تھے اور انتظامات کے مطابق ہنگامی صورتحال پیدا ہونے پر ایک پائلٹ طیارے کا کنٹرول سنبھال لیتا۔ تاہم اس کی ضرورت نہیں پڑی اور تجربہ کامیاب رہا۔ امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ بغیر پائلٹ طیارے میں نگراں کیمروں کا ایسا نظام نصب ہے جو نو وڈیو کیمروں کے ساتھ کام کرتا ہے۔ اس نظام سے ایک وقت میں پورے ایک قصبے پر نظر رکھی جاسکتی ہے اور اس کے کیمرے 65مختلف عکس فراہم کر سکتے ہیں۔امریکی فوج افغانستان میں ایسے جدید ڈرون استعمال کر رہی ہے۔ جو ایک وقت میں کئی کیمروں سے بنائی جانی والی وڈیو مہیا کرتے ہیں۔ نگراں کیمروں کے اس نظام کو جو نو وڈیو کیمروں کے ساتھ کام کرتا ہے۔ اس نظام کو Gorgon Stareکا نام دیا گیا ہے۔ اس نظام سے ایک وقت میں پورے ایک قصبے پر نظر رکھی جاسکتی ہے اور اس کے کیمرے 65مختلف عکس فراہم کر سکتے ہیں۔اس کے بر عکس موجودہ ڈرون ایک کیمرہ استعمال کرتے ہوئے صرف ایک یا دو عمارتوں کی نگرانی کر سکتا ہے۔ ڈرون اس وقت تک کارآمد ثابت نہیں ہو سکتا جب تک زمین پر حساس معلومات اکٹھی کرنے کے لئے انسانی ذرائع موجود نہ ہوں۔اب یہ ڈرون دنیا کی بلند ترین پہاڑی چوٹیوں کے ان گوشوں کی تصاویر کھینچنے کے لئے استعمال ہورہے ہیں جو اس سے پہلے انسانی نظروں سے چھپے رہے ہیں۔کچھ عرصے پہلے سوئس کوہ پیماؤں نے قراقرم میں ان ریموٹ کنٹرول ہیلی کاپٹرز کے ذریعے انتہائی خوبصورت تصاویر کھینچی ہیں۔اس منصوبے کے تحت سطح سمندر سے 19ہزار 685 فٹ بلند ٹرنگو ٹاور کی تصاویر کوہ پیمائی کے دوران ڈیوڈ لاما اور ان کے ساتھی پیٹر اورٹنر نے کھینچی۔اس سے قبل ہیلی کاپٹرز کے ذریعے ایسی فوٹوگرافی کی جاتی تھی مگر یہ کام بہت مہنگا اور اکثر خطرناک بھی ثابت ہوتا تھا، جبکہ ہیلی کاپٹروں کے پروں میں مٹی، برف اور ہوا سے خرابی کا امکان بھی ہوتا تھا جس سے اس پر بیٹھے افراد کی جانیں خطرے میں پڑ جاتی تھیں۔مگر اب چند کلو گرام وزنی اور انتہائی سستے ڈرونز کے ذریعے یہ کام بہت آسان اور خطرے سے پاک ہوگیا ہے۔ماہرین کی پیشگوئی ہے کہ ڈرون کیمروں کا استعمال جلد ہر کھیل میں ہونے لگے گا اور توقع ہے کہ اس سے پاکستان میں کوہ پیمائی کی صنعت کو بھی عروج ملے۔دنیا بھر میں جتنا پیسہ اور محنت ہتھیاروں کی تیاری پر خرچ کی جاتی ہے اگر اسکا کچھ حصہ بھی امن کے کاموں میں استعمال کیا جائے تو یقیناً پوری دنیا امن کا گہوارہ بن جائے گی۔ لیکن جناب کیا کیا جائے کہ دنیا کہ اکثر ممالک امن سے زیادہ جنگ کے حامی ہیں۔

نیا امریکی ڈرون ہیلی کاپٹر : 65 آنکھیں 1.8 گیگا پکزل کیمرہ لئے ہوئے ہے۔ امریکی فوج نے ایک ڈرون(بغیر انسانی پائیلیٹ) ہیلی کاپٹرتیار کیا ہے جس میں 1.8 گیگاپکزل کا کیمرہ نصب کیا گیا ہے۔اس ڈرون ہیلی کاپٹر میں نصب اس طاقت ور کیمرہ کی مدد سے زمین سے کم و بیش بیس ہزار فٹ کی بلندی سے قریباً 65 مربع میل دور تک کی ویڈیو بنائی جاسکتی ہے اس ہیلی کاپٹر کی استعداد کو مزید بڑھادیا جائے گا اور 65 کی بجائے اسکی 130 آنکھیں کر دی جائیں گی جو رات کے وقت بھی بخوبی دیکھ سکیں گی۔ یہ ڈرون اب کھیلوں میں بھی استعمال ہونے لگے ہیں۔ آئی سی سی چیمپنز ٹرافی کے لئے اسپائیڈر کیمرہ استعمال کئے گئے ہیں۔ ماہرین اسپائیڈر کیمرے کو ڈرون قرار دے رہے ہیں۔ چند سالوں سے شراب (وائن) بنانے والے بھی اس میں بہت دلچسپی لے رہے ہیں۔ پریسیڑن وٹیکلچر میں کسی وائن یارڈ (انگوروں کے باغ) کے بارے میں معلومات اکھٹی کر کے بہترین فصل اگانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ان معلومات میں باغ میں سورج کی کرنوں کے لیے موضوں ترین مقامات سے لے کر مٹی کی نمی تک شامل ہیں۔پروفیسر گرین کا کہنا ہے کہ پریسیڑن وٹیکلچر اور اس کے زیادہ تر طریقہِ کار امریکہ اور آسٹریلیا میں شروع ہوئے۔ پاکستان ایک طرف تو ڈرون ٹیکنالوجی کے ہاتھوں تباہی کا شکار ہے تو دوسری جانب یہ بھی کہا جارہا ہے کہ پاکستان ڈرون ٹیکنالوجی پر دسترس رکھتا ہے۔ غیر ملکی میڈیا کے مطابق اب ڈرون ٹیکنالوجی کو امریکا کی جامعات میں پڑھایا جائے گا، ڈرون ٹیکنالوجی پڑھنے والوں کو بتایا جائے گا کہ ڈرون کس طرح بنتے ہیں اور ان کا آپریشنل سسٹم کیسے کام کرتا ہے، طلبا کو ڈرون ساز اداروں کا دورہ کرنے کی اجازت ہوگی اور وہ آپریشنل روم میں بھی جاسکیں گے۔امریکی یونیورسٹیوں میں ڈرون ٹیکنالوجی کو بطور کورس شامل کرنے پر شدید تنقید کی جارہی ہے، تنقید نگاروں کا کہنا ہے کہ خطرناک ٹیکنالوجی کو بغیر سوچے سمجھے نصاب کا حصہ بنایا گیا ہے۔ دوسری جانب چین بھی اس ٹیکنالوجی میں پیش رفت کر رہا ہے۔ جس سے امریکہ پریشان ہے۔ عا لمی تجزیہ کاروں کا کہناہے کہ چین اپنے تیزی سے بڑھتے ہوئے دفاعی بجٹ سے اپنی ڈرون ٹیکنالوجی کو جدید ترین اور موثر بنا رہا ہے جس سے یہ خدشات پیدا ہوگئے ہیں کہ وہ امریکا کو اس ٹیکنالوجی میں حاصل عالمی برتری کو جلد ہی چیلنج کرنے کے قابل ہوجائے گا۔ادھر جاپان کی ایک سکیورٹی کمپنی نے ایسے ڈرونز کرائے پر فراہم کرنے کا منصوبہ بنایا ہے جو کسی بھی عمارت میں سکیورٹی الارم بجنے کی صورت میں فوری طور پر وہاں پہنچ کر وہاں کی تصاویر اپنے مرکز کو نشر کرنا شروع کر دے گا۔جاپان کی ایک سکیورٹی کمپنی سیکوم Secom کی طرف سے تیار کیا جانے والا یہ ڈرون ایک ہیلی کاپٹر کی شکل کا ہے اور اس میں نگرانی کے لیے ایک خصوصی کیمرہ لگا ہوا ہے جو کسی بھی ہوتے ہوئے جرم کی براہ راست تصاویر نشر کر سکتا ہے۔امریکہ نے سمندر میں کام کرنے والے ڈرون بھی بنائے ہیں۔ امریکی بحریہ کے ایک افسر کا کہنا ہے کہ سی فوکس نامی ڈرونز کو پانچویں بیڑے میں شامل کیا گیا ہے جس کا دائرہ کار خلیجِ فارس اور بحیرہ عرب ہے۔سمندر کی گہرائی میں کام کرنے والے اس ڈرون کی لمبائی چار فٹ ہے جو کیمرے اور سونار سے لیس ہے اور اسے سطح پر موجود کسی کشتی یا جہاز سے تار کے زریعے کنٹرول کیا جاتا ہے۔ اسے بنانے والے جرمن ادارے ، اٹلس الیکٹرونکس کے مطابق، یہ اپنے ساتھ دھماکہ خیز مواد تین ہزار دوسو فٹ دوری تک لے جا کر پانی میں موجود بارودی سرنگوں کو تباہ کرسکتا ہے۔طیاروں کے بعد "ڈرون گاڑیاں "بھی میدان میں آگئیں ہیں۔امریکی سرچ انجن گوگل نے سڑک حادثوں سے بچاؤ کیلئے بنا ڈرائیور کے خود کار گاڑیاں تیار کی ہیں۔ گوگل کی جانب سے خود کار گاڑیوں کو ایکسیڈنٹ پروف قرار دیا جا رہا ہے۔ گاڑیوں میں ویڈیو کیمرے ، ریڈار سسٹم اور لیزر ٹیکنا لوجی نصب ہے۔ راستوں کا میپ گاڑی میں پہلے سے تیار کیا جاتا ہے۔ گوگل ماہرین کے مطابق ان خود کار گاڑیوں میں آزمائشی مراحل کے دوران سان فرانسسکو میں ایک لاکھ 40 ہزار میل کا سفر کامیابی سے طے کیا ہے۔ اقوام متحدہ کے عالمی ادارہ صحت کے مطابق ہر سال دنیا بھر میں 12 لاکھ افراد ٹریفک حادثوں میں ہلاک ہو جاتے ہین تاہم گوگل ماہرین کا دعوی ہے کہ یہ خود کار گاڑیاں حادثوں کی روک تھام میں معاون ثابت ہوں گی۔ غرض یہ سب کچھ انسان ہی پر منحصر ہے کہ وہ خنجر کا استعمال کسی قتل میں کرے یا اس سے جراحی کا کام لے کر کسی انسان کی جان بچالے۔

Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 418853 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More