خواتین ہوں یا مرد.... اگر اپنی گفتگو سے ان چھوٹی چھوٹی
خامیوں کو دور کرلیں تو یقینی طور پر ان کی شخصیت پسندیدگی کا بلند درجہ
حاصل کرلے گی اور لوگ ان کی مثالیں دیا کریں گے۔اگر غور کیا جائے تو زبان
ہی آپ کی سب سے بڑی دشمن ہے جو کہ لوگوں سے خوشگوار روابط استوار نہیں ہونے
دیتی۔
بزرگوں کا کہنا ہے کہ انسان کی اصلیت اس کی زبان کے نیچے پوشیدہ ہوتی ہے
اور یہ بات ہے بھی سچ۔ کیونکہ سیانے کہہ گئے ہیں کہ زبان شیریں ہو تو پھر
یہ ملک گیری کا باعث بن جاتی ہے لیکن اگر زبان وبیان میں تلخی ہو تو پھر
انسان تنہا ہوکر رہ جاتا ہے جہاں تک بات لڑکیوں یا شادی شدہ خواتین کی ہے
تو دیکھا گیا ہے کہ ان کے اکثر مسائل ”زبان“ کے باعث ہی جنم لیتے ہیں۔ مذہب
اسلام نے آداب مجلس کیلئے جو احکامات دئیے ہیں ان میں سب سے زیادہ زور زبان
کے درست استعمال کی ہی جانب ہے۔
بہت سارے گھرانوں میں یہ معمول ہے کہ بچوں کے سامنے لڑائی جھگڑے کیے جاتے
ہیں اور ایک دوسرے سے بدزبانی کھلے عام کی جاتی ہے جسے دیکھ کر بچے یہ
سمجھنے لگتے ہیں کہ دنیا میں اپنی بات منوانے یا خود کو نمایاں رکھنے کا
یہی طریقہ ہے جب گھر کے بڑے اس طرز عمل کا مظاہرہ کرنے کے عادی ہوں تو پھر
بچوں سے یہ توقع کس طرح کی جاسکتی ہے کہ وہ اپنے معاملات میں مدمقابل سے
شیریں زبان استعمال کریں گے۔
کسی خاتون کی عزت میں اس کے گھرداری کے سلیقے اور شیریں زبانی کا بہت بڑا
دخل ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ جن کی مائیں اپنی بچیوں کی تربیت اس طریقے سے
کرتی ہیں کہ شیریں زبانی اور آداب مجلس کا سلیقہ گھرداری کے ساتھ ساتھ ان
کی زندگی کا حصہ بن جاتا ہے تو جب یہ اپنے گھر بار کی ہوتی ہیں تو تربیت کے
اسی وصف کے باعث وہ بھرے پُرے سسرال میں بھی سب کے دلوں پر راج کرتی ہیں
لیکن جو لڑکیاں مائوں کی تربیت کے اس اصول کو سنجیدگی سے نہیں لیتی ہیں آگے
چل کر اس بات کے ان کی زندگیوں میں منفی اثرات پڑتے ہیں اور نتیجتاً زندگی
تلخ ہونے لگتی ہے۔
کسی بھی لڑکی کی تربیت ایک اصولی تکون کے گرد گھومتی ہے اور وہ تکون ہے
گھرداری‘ شیریں زبان اور آداب مجلس سے آگہی۔ حسن سلیقہ کے بغیر لڑکی کی
تربیت مکمل نہیں ہوتی ہے اور شخصیت کی تعمیر میں اس اہم عنصر کی کمی رہ
جائے تو بعض اوقات اچھے بھلے خوش و خرم اور آباد گھرانے بھی بربادی کا شکار
ہوکر رہ جاتے ہیں۔ اکثر گھرانوں کی تباہی کے پیچھے حسن سلیقہ کی کمی ہوتی
ہے جہاں خواتین اپنے خیالات کو دوسروں پر ٹھونستے ہوئے دوسروں کی تو کیا
اپنی بھی مدد نہیں کرپاتی ہیں۔ حسن سلیقہ محض یہ نہیں کہ لڑکیوں کو صفائی
ستھرائی‘ سلائی کڑھائی اور کھانے پکانے کی مکمل تربیت حاصل ہو بلکہ وہ گھر
کی مختلف صورتحال میں ڈیمانڈز کو بھی سمجھیں انہیں اچھی طرح علم ہو کہ فلاں
جگہ ان کا کیا کردار ہے اور اسے کس طرح موثر انداز میں نبھا کر حالات میں
بہتری پیدا کی جاسکتی ہے۔
آداب مجلس سے آگہی انسان کے رویوں کی تربیت کرتی ہے لہٰذا جب لوگوں سے ملیں
جلیں تو اس وقت اور اس کے بعد اپنی شخصیت کا جائزہ ضرور لیں کہ کیا آپ کا
رویہ آداب مجلس کے عین مطابق تھا یا نہیں؟ اگر جواب نہ میں ملے تو پھر ان
خامیوں کو دور کرنے کی کوشش کریں اوراس بات کا تہیہ کرلیں کہ آئندہ ان منفی
رویوں کو نہیں دہرائیں گے۔
بدمزاجی سے بچیں
ہر وقت منہ پھلائے رہنا اچھی بات نہیں۔کوئی مہمان آئے تو اس سے بات نہ
کرنا‘ گھر میں کسی بڑے نے کچھ کہہ دیا تو سارا دن ناراض رہنا مناسب رویہ
نہیں۔ اس سے نہ صرف خود کو تکلیف ہوتی ہے بلکہ دوسروں پر بھی یہ آپ کی
شخصیت کا غلط تاثر پیدا کرتی ہے۔ آداب مجلس کا تقاضا ہے کہ جب دوسرے آپ سے
ملیں توان سے مسکراتے ہوئے ملیں‘ ان سے باتیں کریں‘ خیریت دریافت کریں اور
ان کی تواضع کریں۔
دل شکنی مت کریں
بعض خواتین کی یہ عادت ہوتی ہے کہ وہ ہر چیز میں نقص نکال دیتی ہیں اگر ان
کی کوئی بہن‘ کزن یا سہیلی انہیں اپنی خریدی ہوئی چیز دکھارہی ہو تو کہتی
ہے کہ یہ فضول ہے یا.... معمولی ہے۔ یہ بات بظاہر تو چھوٹی سی ہے لیکن اس
سے دوسرے کی دل آزاری ہوتی ہے اگر ہم دوسرے کے احساسات کا خیال رکھتے ہوئے
ان کی چیزوں کی تعریف کردیں تو اس میں حرج کیا ہے اگر ہم ایک دوسرے کے خلوص
اور محبت کی قدر کریں تو اس سے رنج وغم ہلکے ہوجاتے ہیں لہٰذا دوسروں کی دل
شکنی سے گریز کریں۔
حسد و رشک کے مابین فرق کو پہچانیں
مردوں کے مقابلے میں خواتین کے اندر حسد و رشک کے جذبات زیادہ ہوتے ہیں۔
کسی دوسرے کی کامیابی پر نیک نیتی اور خلوص دل سے رشک کرنا بہت اچھی بات ہے
لیکن اگر اس رشک کے نتیجے میں حسد جنم لے تو پھر اس سے غیبت جنم لے لیتی ہے
جو اسلام میںقابل مواخذہعمل ہے لہٰذا دوسروں کی کامیابیوں اور خوشیوں پر
خوش ہوں اور سچے دل سے رشک کریں لیکن خیال رہے کہ اس میں حسد نہ شامل ہونے
پائے۔ وسعت قلبی سے کام لے کر رواداری کا سبق سیکھیں اور دوسروں سے حسد
کرنے کے بجائے اپنے آپ کو بہتر بنانے کی کوشش کریں کیونکہ حسد آپ کو اندر
ہی اندر دیمک کی طرح کھاجاتا ہے۔
طنزیہ گفتگو سے پرہیز کریں
عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ لوگ آپس میں گفتگو کرتے ہوئے طنز کا کوئی پہلو
ہاتھ سے نہیں جانے دیتے اور یہ سوچنا گوارا تک نہیں کرتے کہ ان کی باتوں سے
سامنے والے کو کس دکھ یا تکلیف سے گزرنا پڑتا ہے۔ طنزیہ گفتگو کے ماہرایسے
ذومعنی فقرے بھی کہہ دیتے ہیں جس کا مطلب کوئی کچھ بھی نکال سکتا ہے اور
ایک وقت آتا ہے کہ تعلقات میں دراڑ پڑنا شروع ہوجاتی ہے اور پھر سمجھانے کے
باوجود کسی بات کی وضاحت کرنا مشکل ہوجاتا ہے لہٰذا طنزیہ اور ذومعنی باتوں
سے پرہیز کریں اور صاف صاف بات کرنے کی عادت ڈال لیں جس سے کسی کو تکلیف نہ
پہنچے۔ دوسروں کی خامیاں اور نقائص پر طنز کرنے کے بجائے اکثر مثبت پہلوئوں
کو اجاگر کیا جائے تو اس سے تعلقات میں مضبوطی آتی ہے۔
خودنمائی مت کریں
بہت بری عادت ہے.... اس سے کئی سماجی برائیاں جنم لیتی ہیں جن میں جھوٹ
بولنے اور باتوں کو بڑھا چڑھا کر بیان کرنے جیسی عادت بھی شامل ہے۔ بھری
محفل میں اپنے گھر کی آسائشوں او رلمبی کار کا تذکرہ ممکن ہے کہ کچھ لوگوں
کو مرعوب کردے لیکن بہت سے لوگوںمیں احساس کمتری پیدا ہوسکتا ہے۔ مجلس میں
بیٹھ کر کسر نفسی سے کام لیں اور یہ نکتہ ذہن میں بٹھالیں کہ جھوٹی شان
انسان کو نیچا اور کسرنفسی کی عادت انسان کو بہت بلند بنادیتی ہے۔مجلس میں
بیٹھ کر سرگوشی یا کانا پھوسی سے گریز کریں۔ محفل میں نمایاں ہونے کیلئے
بڑھ چڑھ کر باتیں کرنے سے کہیں بہتر ہے کہ اپنے اندر بردباری اوروقار پیدا
کریں اس سے دوسروں کے دلوں میں آپ کی عزت بڑھے گی اور آپ کو اچھے لفظوں میں
یاد کریں گے۔
خواتین ہوں یا مرد.... اگر اپنی گفتگو سے ان چھوٹی چھوٹی خامیوں کو دور
کرلیں تو یقینی طور پر ان کی شخصیت پسندیدگی کا بلند درجہ حاصل کرلے گی اور
لوگ ان کی مثالیں دیا کریں گے۔اگر غور کیا جائے تو زبان ہی آپ کی سب سے بڑی
دشمن ہے جو کہ لوگوں سے خوشگوار روابط استوار نہیں ہونے دیتی۔
ماہنامہ عبققری میگزین سے اقتباس |