پاکستانی ٹیکس کیوں نہیں دیتے؟

ن تلخ وجوہ کا بیان جن کی وجہ سے پاکستانی قوم تو امیر ہو گئی مگر ہماری حکومت فقیر *** کچھ دن قبل راقم ایک محفل میں بیٹھا تھا۔ وہاں پاکستانی قوم کے ماضی و حال پر بات ہونے لگی۔ ایک صاحب نے فرمایا ’’ چالیس پچاس سال پہلے بیشتر پاکستانی گھر آسائشات و سہولیات زندگی سے محروم تھے۔ آج خصوصاً شہروں کے ہر گھر میں ٹی وی، ٹیلی فون، مائیکرو ویو اوون، ریفریجریٹر وغیرہ مل جاتے ہیں۔ یہ اس امر کی علامت ہے کہ پاکستانی متوسط طبقہ مضبوط و خوشحال ہوا ہے۔‘‘ ان صاحب کے مانند بہت سے پاکستانی معاشرے میںاشیا کی کثرت کو ترقی و خوشحالی کا پیمانہ بناتے ہیں۔ حالانکہ یہ بہت کمزور پیمانہ ہے۔ کیونکہ آج خصوصاً متوسط طبقے کے گھروں میں جن اشیا کی کثرت ہے ، وہ چالیس پچاس برس قبل بہت مہنگی تھیں۔ جب وہ سستی ہوئیں تو ان کا خریدنا سہل بن گیا۔ دوسرے اشیاء کی کثرت انسان میں ان کی طلب بڑھاتی اور اسے مادہ پرستی تک لے جاتی ہے۔ ایسی صورت میں لامحدود خواہشات کا اسیر انسان کسی صورت چین نہیں پاتا اور اس کی زندگی سے اطمینان رخصت ہوجاتا ہے۔ غرض کثرتِ اشیا انسان کی روحانی زندگی کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتی ہیں۔ ویسے اس میں کوئی شک نہیں کہ پچھلے 63 برس کے دوران ایسے لاکھوں گھروں میں خوشحالی آئی ہے جن میں پہلے غریبی و کسمپرسی نے ڈیرے ڈال رکھے تھے۔آزادی کے اعجاز سے انہیں کئی آسائشات و سہولیات زندگی بھی میسّر آئیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ اس دوران ہماری حکومت خوشحال اورمضبوط نہیں ہوسکی جو خطرناک بات ہے۔ یہی دیکھیے کہ حکومت کبھی آئی ایم ایف اور کبھی بینکوں سے قرضے لیتی ہے تاکہ سرکاری اخراجات پورے کر سکے۔چناں چہ وہ قرضوں کے پہاڑ تلے دب چکی۔ رقم کی کمی کے باعث ہی حکومت شہریوں کو صحیح طرح خدمات نہیں دے پا رہی۔ مثلاً لوڈشیڈنگ عام ہے۔ سڑکیں ٹوٹ پھوٹ جاتی ہیں اور ان کی عرصہ دراز تک مرمت نہیں ہوتی۔ سرکاری اسپتالوں کے حال کو بھی تسلی بخش نہیں کہہ سکتے۔سرکاری دفاتر میں کرپشن کا زہر سرایت کر چکا۔ حکومت کی آمدن میں کمی کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ بہت سے پاکستانی ٹیکس نہیں دیتے۔ جب ٹیکس نہ دینے والوں کا سراغ لگایا جائے تو معاملہ گھمبیر ہوجاتا ہے۔پاکستانی متوسط اور تنخواہ دار طبقے کا کہنا ہے کہ وہ تو قدم قدم پہ ٹیکس دیتا ہے ۔مثلاً تنخواہ ملنے پر، گاڑی خریدتے، بل دیتے اور اشیائے صرف لیتے ہوئے۔ غرض اس طبقے پر تو ٹیکسوں کی بھرمار ہے۔ اگر وہ ٹیکس نہ دے تو بجلی کٹ جاتی ہے یا جیل جانا پڑتا ہے۔ اس طبقے کے بقول پاکستان میں کاروباری اور امیر و بااثر (حکمران) طبقات ٹیکس نہیں دیتے۔ کاروباری طبقے کا دعوی ہے کہ وہ ٹیکس دینے کو تیار ہے لیکن ان کی ادا کردہ رقم قومی خزانے نہیں حکمران طبقے( افسر شاہی و سیاست دانوں) کی تجوریوں میں جاتی ہے۔ اسی باعث وہ ٹیکس دینے سے بہتر یہ سمجھتے ہیں کہ اپنی رقم فلاحی منصوبوں پر لگا دی جائے۔مثال کے طور پر 2010ء میں جب وطن عزیز میں سیلاب آیا، تو وزیراعظم پاکستان نے ایک ریلیف فنڈ قائم کردیا۔ لیکن اس سرکاری فنڈ میں چند لاکھ روپے بھی جمع نہ ہوسکے۔ دوسری طرف ایک مشہور و دیانت دار سماجی رہنما نے سیلاب زدگان کی مدد کے لیے ٹی وی پروگرام کیا۔ انہوں نے صرف چار گھنٹوں میں مخیر پاکستانیوں سے پندرہ کروڑ روپے جمع کرلیے۔ گویا وطن عزیز میں دیانت دار، مخلص اور قانون پسند حکومت آجائے تو بہت سے پاکستانی بخوشی ٹیکس ادا کریں گے ۔کیونکہ انہیں علم ہوگا کہ ان کی رقم ملک و قوم کی تعمیر میں لگے گی۔ لیکن جب 17 اور 18 گریڈ کے سرکاری افسر پچاس ساٹھ لاکھ روپے مالیت کی گاڑیوں میں گھومنے لگیں، اور عام سیاست دان اسمبلی میں پہنچ کر لاکھوں میں کھیلنے لگے تو قدرتاً حکومتی ڈھانچے پر سے اعتبار اٹھ جاتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں 98 فیصد شہری ٹیکس دیتے ہیں۔ جواباً حکومتیں بھی انہیں بہترین سرکاری خدمات دیتی اور سہولیات مہیا کرتی ہیں۔ ایک اور اہم بات یہ کہ ان ممالک میں ٹیکسوں کی شرح بہت زیادہ ہے۔ بعض ملکوں کے شہری تو اپنی آمدن کا 50 فیصد حصہ ٹیکسوں کی صورت دے ڈالتے ہیں ۔مگر پھر انہیں صحت و تعلیم کی سہولیات بھی مفت ملتی ہیں۔ نیز وہ بے روزگاری و بڑھاپا الائونس وغیرہ بھی پاتے ہیں۔ دوسری طرف پاکستان میں خصوصاً امیر و بااثر طبقے میں سے صرف 1 فیصد لوگ ہی ٹیکس دیتے ہیں۔ ماہرین کے نزدیک اس خرابی کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں ٹیکسوں کا کڑا نظام موجود نہیں اور نہ ہی قانون کی حکمرانی ہے۔ دنیا میں کوئی بھی شخص خوشی خوشی ٹیکس نہیں دیتا بلکہ سخت قوانین بنا اور ان پر سختی سے عملدرآمد کرا کر شہریوں سے رقم وصول کی جاتی ہے۔ اہل اور دیانت دار قیادت کی عدم موجودگی سبھی غریب و ترقی پذیر ممالک کا سب سے بڑا المیّہ ہے۔ ایک عام مثال ہے کہ ان ملکوں میں 100ڈالر کسی اسکول یا ہسپتال کی خاطر رکھے جائیں، تو صرف 10ڈالر ہی منزل تک پہنچتے ہیں۔ بقیہ 90 ڈالر کرپٹ حکمران طبقے کی نذر ہوجاتے ہیں۔ اسی بداعتمادی کا نتیجہ ہے کہ وطن عزیز میں ٹیکسوں سے حاصل کردہ رقم بڑھنے کے بجائے الٹا کم ہوگئی۔ 1991ء میں یہ رقم جی ڈی پی کا’’ 14فیصد‘‘ تھی، جو آج صرف’’ 10.2 فیصد‘‘ رہ گئی۔ دوسری طرف ترقی یافتہ ممالک مثلاً آسٹریلیا، ڈنمارک، برطانیہ وغیرہ میں ٹیکسوں سے ملنے والی آمدن جی ڈی پی کا 40 تا 50 فیصد حصہ ہوتی ہے۔ یہ یقینی ہے کہ اگر ارض پاک میں اہل، دیانت دار اور محب وطن رہنماحکومت سنبھال لیں، تو بہت سے پاکستانی ٹیکس دینے کی جانب راغب ہوں گے۔ گویا اہل قیادت کا فقدان ملکی تعمیر وترقی اور عوامی خوشحالی میں بڑی رکاوٹ بن چکا۔ سوال یہ ہے کہ یہ رکاوٹ کب دور ہوگی؟ یقیناً اسی وقت جب پاکستان میں اخلاقی گراوٹ جاتی رہے اور نظام ِاخلاقیات کا بول بالا ہو جائے … بقول شاعر مشرقؒ: اگرچہ زر بھی جہاں میں ہے قاضی الحاجات جو فقر سے ہے میسّر، تونگری سے نہیں سبب کچھ اور ہے، تو جس کو خود سمجھتا ہے زوال بندہِ مومن کا، بے زری سے نہیں

Abdul Rehman
About the Author: Abdul Rehman Read More Articles by Abdul Rehman: 216 Articles with 261550 views I like to focus my energy on collecting experiences as opposed to 'things

The friend in my adversity I shall always cherish most. I can better trus
.. View More