اس صدی میں انسان کوجس چیز کا سب سے زیادہ سامنا کرنا
پڑرہا ہے وہ دہشت گردی ہے ۔دہشت گردی خواہ وہ کسی بھی ملک میں ہومگر اس میں
نقصان تو انسانیت کو پہنچ رہا ہے۔ اموات تو جاندار کی ہورہی ہیں۔ اس وقت
دہشت گردی کا شکار پوری دنیا میں سب سے زیادہ جو ملک ہورہا ہے وہ پاکستان
ہے۔پاکستان ایک پرامن ملک ہے ۔ یہ اسلام کے نام پر بنایا گیا ہے۔ تاکہ
مسلمان اپنی زندگی اسلامی اصولوں کے مطابق گزار سکیں۔ اسلام میں ہمیشہ امن
اور بھائی چارے کا درس دیا جاتا ہے۔ کوئی بھی مسلمان کسی دوسرے انسان کا
خون کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتابلکہ ایک مسلمان کی کوشش ہوتی ہے کہ اس کے
ہاتھوں دوسرے انسان کا بھلا ہو۔
ابتداء اسلام سے آج تک غیر مسلم قوتیں مسلمانوں کے خلاف ہی رہی ہیں۔ نبیوں
کے دورسے لیکر آج تک کفارمسلمانوں پر ظلم و ستم ڈھاتے آ رہے ہیں۔ پاکستان
کی بنیاد اسلام کے نام پر رکھی گئی ہے اسی لیے شاید غیر مسلم طاقتیں
پاکستان کے خلاف اکٹھی ہوگئیں ہیں۔ اسکے بعد سونے پر سہاگہ پاکستان ایٹمی
طاقت بن گیا جوکفار کو بالکل پسند نہیں اور اب ان کی نظر ہماری ایٹمی
ٹیکنالوجی پرہے۔ پاکستان جو امن کا گہوارہ ہے اس کو ایک سازش کے تحت دہشت
گردی کا مرکز بنا دیاگیا ہے۔پاکستان کا کوئی بھی شہر محفوظ نہیں رہا۔ ہرطرف
قتل وغارت ہورہی ہے۔ دنیاکے کسی بھی حصے میں کوئی دہشت گردی کا واقعہ رونما
ہو تو اس کی ذمہ داری فوراً پاکستان پر ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ حالانکہ
پوری دنیا میں سب سے زیادہ دہشت گردی سے متاثر بھی یہی ملک ہورہا ہے جوآج
تک دہشت گردی کے خلاف نبردآزما ہے۔پاکستان میں دہشت گردی میں جو بیرونی اور
اندرونی عوامل شامل ہیں ان سے تمام ذی شعور انسان بخوبی واقف ہیں۔ پاکستان
میں دہشت گردی کو جو عناصر ہوا دے رہے ہیں وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔
گزشتہ چند سالوں میں پاکستان میں ہزاروں معصوم شہری اس دہشت ناک دہشت گردی
کا شکار ہوئے ہیں۔ کئی گھر اجڑے ، کئی سہاگ اجڑے اور کئی ماوؤں کی گود خالی
ہوگئیں۔
نومنتخب حکومت پاکستان نے دہشت گردی سے نپٹنے اور ملک میں امن امان کے
استحکام کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا۔ جس میں
ملک کی محافظ اور ہماری آن پاکستان کی آرمی نے بھی نہ صرف شرکت کی بلکہ اے
پی سی (APC)کو دہشت گردی کے خلاف بریفنگ بھی دی۔نومنتخب حکومت پاکستان ملک
میں امن وامان کی خواہاں ہے۔ اسی لیے انہوں نے تمام سیاسی جماعتوں سے
مشاورت کے بعد طالبان سے مذاکرات کرنے کا فیصلہ کیا۔ پاکستانی کی عسکری اور
سیاسی قیادت کا یہ فیصلہ طالبان نے بھی دل سے قبول کیامگر پاکستان اور
اسلام مخالف قوت کو یہ سن کر بہت دکھ ہوا۔وہ نہیں چاہتے کہ پاکستان امن کا
گہوارہ بنے۔
ہندوستان اور امریکی ایجنٹ پاکستان میں ہرطرف پھیلے ہوئے ہیں۔جس کی مثال
ریمنڈڈیوس اور شکیل آفریدی کی صورت میں موجود ہے۔ شکیل آفریدی بظاہر مسلمان
ہے لیکن ایسے لوگوں کا کوئی دین نہیں ہوتاان کا سب کچھ پیسہ ہی ہوتا ہے
اوریہ لوگ پیسے کر خاطر کچھ بھی کرسکتے ہیں ۔اسلام دشمن عناصر شکیل آفریدی
جیسے لوگوں کی تلا ش میں ہوتے ہیں اور پھر انہی لوگوں کے ذریعے اپنے مشن
میں کامیاب ہوتے ہوئے پاکستان کا امن وامان تباہ کرتے ہیں۔ماضی میں بھی پا
ک آرمی نے سوات میں مولانا نیک محمد سے امن معاہد ہ کیا تھا مگر امریکہ کو
پاکستان میں امن پسند نہیں اسی لیے اس نے نیک محمد کو مزائیل حملے سے نشانہ
بنوا کر مروادیاجس کی وجہ سے سوات کا امن تباہ ہوکر رہ گیا تھا۔
پاک آرمی بھی طالبان سے مذاکرات کرنے کی حامی ہے۔ اے پی سی میں چیف آف آرمی
سٹاف نے بھی شرکت اور تمام سیاسی قیادت سے متفق ہوتے ہوئے طالبان سے
مذاکرات کو نیک شگون قراردیا۔ مگر امریکہ اور اس کے حواریوں کو یہ مذاکرات
بالکل پسند نہیں آئے۔اسی وجہ سے پہلے کی طرح اب بھی امریکہ اور اس کے
اتحادی پاکستان اور طالبان کے درمیان خلیج بنانا چاہتے ہیں تاکہ ان کے
درمیان مذاکرات کامیاب نہ ہوں اور وہ ایک دوسرے کے دشمن بنے رہیں۔
حال ہی میں اپر دیرمیں ہونے والا سانحہ پاکستان کے لیے ناقابل تلافی نقصان
ہے۔جس میں جنرل،لیفٹیننٹ جنرل اور لانس نائیک شہید ہوئے اور اس حملے کی ذمہ
داری طالبان نے قبول کرلی مگرسوال یہ ہے کہ یہ طالبان نے حملہ کیا یا پھر
طالبان کو بدنام کرنے اورمذاکرات سبوتار کرنے کے لیے امریکی ایجنٹوں نے
کیاہے؟ امریکہ پاکستان میں مختلف تنظیموں کے ذریعے جاسوسی کررہا ہے۔ سی آئی
اے اوراسکے حلیف پاکستان دشمن عناصر کومختلف طریقوں کا لالچ دیکراپنے ساتھ
ملار کر پاک سرزمین کو نقصان پہنچا کر اپنے ناپاک عزائم میں کامیاب
ہورہاہے۔مسلم دنیا میں واحد ایٹمی طاقت پاکستان ہے ۔جو غیرمسلم طاقتوں کو
برداشت نہیں اس لیے امریکہ ، اسرائیل اور بھارت کی نظر پاکستان کے ایٹمی
پروگرام پر ہے۔یہ نہیں چاہتے کہ پاکستان سپر پاور بن کر ابھرے وہ چاہتے ہیں
کہ بس پاکستان اپنے اندرونی اور سیاسی مسائل میں الجھا رہے۔
اب جب حکومت پاکستان نے طالبان سے مذاکرات کا حتمی فیصلہ کرلیا ہے تو پھر
اے پی سی والوں کو اور فوجی قیادت کو چاہیے کہ اس سے پہلے کہ امریکہ اور اس
کے حواری طالبان اور حکومت کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کراکے اپنے ناپاک
مقاصد میں کامیاب ہوں ان دونوں کو چاہیے کہ فوراً جامع مذاکرات شروع کریں
اور جلد کسی نتائج پر پہنچ کرامریکہ اور اسکے ایجنٹوں کو بتا دیں کہ
پاکستان کے حالات طالبان نے نہیں بلکہ غیر مسلم طاقتوں نے خراب کررکھے تھے۔
طالبان اگر واقعی سچے مسلمان ہیں اور وہ پاکستان کی بہتری اور اسلام کی سر
بلندی کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں تو ان کو حکومت پاکستان سے ہاتھ ملانا
ہوگا اورحکومت کوبھی پاکستان کی بقا اور سپر پاور بننے کے لیے طالبان سے
مثبت اندازمیں بات کرنا ہوگی۔ اگر یہ مذاکرات لمبے ہو جائیں توپھر اس دوران
حکومت پاکستان اورخاص طورپر آرمی کو ان لوگوں پر نظر رکھنا ہوگی جو طالبان
کے نام پر ملک میں دہشت گردی کرکے ان مذاکرات کو فیل کرانا چاہتے ہیں۔
پاکستان میں طالبان کے نام پر بہت ڈرامہ ہوگیا اب دونوں قیادتوں(حکومت
پاکستان اور طالبان)کو سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا ہوگا اور اپنے وطن کی ترقی
اور بقا کے لیے ملکر ساتھ چلنا ہوگا۔ غیرمسلم وطن دشمن قوتوں کو ملک سے
نکالنا ہوگا۔ غیر ملکیوں کے ویزا پالیسی اجراء پر نظر ثانی کرنا ہوگی کہ
کہیں پھر سے کسی ریمنڈ ڈیوس جیسے بلیک واٹرکے دہشت گرد کوپاکستان میں آنے
کی اجازت تو نہیں دے رہے؟
اﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اس بار طالبان اور حکومت کے درمیان مذکرات میں کو
ئی مثبت پیش رفت ہوں تاکہ ملک اور عوام کے حالات اچھے ہوسکیں اور پاکستان
پھر سے امن کا گہوارا بن جائے ۔ |