ایک عظیم مقصد ٢

بزرگ: میں اپنے خیالات میں گم تھا کہ ٹرین کی آمد کا اعلان ہوا میں اور میرے ساتھ جو لوگ تھے سب ٹرین میں بیٹھ گئے اس وقت میں نے دیکھا کہ میرے بھائی سامنے سے آ رہے ہیں ان میں ایک میرے بڑے بھائی بھی تھے بڑے بھائی نے آتے ہی سلام کیا
بڑے بھائی: اسلام علیکم
میں: وعلیکم اسلام
بھائی: کیا تمہارا پاکستان جانے کا فیصلہ اٹل ہے؟
میں: جی ہاں میں نے سوچ سمجھ کر یہ فیصلہ کیا ہے ایک بہت بڑی تحریک کے بعد ہم نے یہ ملک حاصل کیا ہے اپنے دن رات ایک کر کہ یہ ملک پایا ہے کیا میں اس ملک میں نہ رہوں جو خالص اسلام اور مسلمانوں کے لئے بنا ہے یہاں غلامی کی سی زندگی سے وہ آزادی اور خودمختاری کی زندگی بہت اچھی ہے۔
بھائی: اچھا تم چلے جانا آج نہ جاؤ مجھے خبر ملی ہے کہ اس سے پہلے جو ٹرین روانہ ہوئی تھی اس کو راستے میں روک لیا گیا ہے اور اس میں بہت قتل و غارتگری ہوئی ہے۔
میں: بھائی اب میں فیصلہ کر چکا ہوں اب میں واپس گھر نہیں جاؤنگا۔
بھائی: اچھا جیسے تمہاری مرضی فی امان اللہ۔
اتنے میں ٹرین کی وسل بج گئی اور ٹرین آہستہ آہستہ چلنا شروع ہو گئی میں نے سواری کی دعا پڑھی اور بھائی کو خدا حافظ کہا۔
ٹرین ٦٠ یا ٧٠ کی اسپیڈ سے چلنا شروع ہو گئی دیکھتے ہی دیکھتے شہر ہماری نظروں سے اوجھل ہو گیا پاکستان جانے کی خوشی بھی تھی اور اپنا آبائی گھر چھوڑنے کا غم بھی، لیکن جس مقصد کے لئے میں پاکستان جا رہا تھا وہ مقصد عظیم تھا۔

نہ جانے وہ کونسا جذبہ تھا جو مجھے ایسا کرنے پر مجبور کر رہا تھا، میں سوچ رہا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب ہجرت کر رہے ہونگے تو ان کے احساسات اور جذبات کیا ہونگے وہ بھی خالص اللہ کے لیے ہجرت کر رہے تھے اور اس وقت میں میں صرف اور صرف دین اور اسلام اور اللہ کے خاطر ہجرت کر رہا تھا یہ سوچ کر میرا دل اور بھی مطمئین ہو گیا کے میں نے جو ارادہ کیا وہ صرف اور صرف اللہ کی خاطر ہے۔

شام ہو چکی تھی سورج ڈھلنے ہی والا تھا سورج کی شعاعیں براہ راست ہماری ٹرین کی بوگی میں آ رہی تھیں اچانک میں نے محسوس کیا کہ ٹرین کی رفتار کچھ کم ہو رہی ہے۔ میں نے دروازہ کھول کر دیکھا تو ٹرین کے ٹریک پر رکاوٹیں رکھی ہوئی ہیں بالآخر ٹرین کو رکنا پڑا تھوڑی دیر بعد دیکھا کہ کچھ ہندو جنونی طرح کے ہماری ٹرین کی طرف دوڑے چلے آرہے ہیں میں ان کا ارادہ سمجھ گیا اور میں نے آواز لگائی کہ سب اپنی اپنی بوگی کے دروازے بند کر لیں۔