سعودی عرب کا اسلامی دنیا میں کردار

سعودی عرب وہ مقدس جگہ ہے جہاں عالم اسلام ہی نہیں بلکہ پوری کائنات کی سب سے عظیم مقدس جگہیں ہیں جنہیں اللہ تبارک وتعالیٰ نے خود اپنی مقدس کتاب قرآن الحکیم و الفرقان المجید میں جا بجا ذکر فرمایا ہے ان مقدس جگہوں کے بارے میں آنحضور ﷺ نے نہ صرف پسندگی کا اظہار فرمایا بلکہ اس کی افضلیت و برکت پر بے پناہ کلام کیئے ہیں وہ دو مقدس جگہیں ایک مکة المکرمہ (خانہ کعبہ) اور دوسری مدینة المنورہ (روضہ اقدس ﷺ)ہیں۔ دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ ان مقدس مقامات کو ازل سے ہی بہت اہمیت حاصل ہے جبکہ مدینہ المنورہ کو حضور کی آمد کے بعد مقام خاص عطا ہوا ،ہجرت کے بعد یژب سے مدینہ المنورہ بن گیااور تا قیامت مدینہ المنورہ ہی رہے گا۔ مکہ میں اللہ تبارک و تعالیٰ کا گھر ہے تو دوسری جانب اللہ کے پیارے حبیب محمد مصطفی ﷺ کا روضہ مبارک ہے۔ انیسوی صدی مین موجودہ سعودی فرماروا کے آباؤاجداد نے اس خطے پر بادشاہت جماعی اور ایک معاہدے کے مطابق ترکی سے اس خطے کی ذمہ داری لی،یہی وجہ ہے کہ نبی پاک ﷺ کا ترکی کے دور کا بنا ہوا حصہ آج تک اسی حالت میں قائم و دائم ہے۔

شاہ فیصل کی خدمات بے لوث اور موثر تھیں لیکن امریکہ کی مسلسل مداخلت نے انہیں اپنے ہی مسلم ممالک کیلئے پریشانی کا باعث بناڈالا، ظاہر ہے امریکہ کے تمام معاملات یہودی دیکھتے ہیں اسی لیئے دولت سے مالا مال سعودی عرب کے بے وقوف حکمرانوں کو چکنی چپٹی باتوں میں لاکر ایسے گروہ کی مالی اعانت کرنا شروع کردی جن کا مذہب اسلام سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں، ان میں نام نہاد جہادی تنظیمیں، جہادی گروپس اور انجمیں شامل ہیں۔ امریکہ نے عرب امارات کو یکجا کرکے ان کے بدو دماغ سے پورا پورا فائدہ اٹھایا پہلے پہل انہیں اپنے ہی عرب ممالک سے دشمنیاں پیدا کرکے فاصلے پیدا کیئے پھر سعودی عرب اور دیگر امارات کو ڈرا دھمکا کر اور خوف دلا کر آپس میں دست و گریبان کرڈالا اور جھوٹی محبت اور خلوص دکھا کر ان کی دولت کے ذریعے انہیں عرب ممالک پر دھاوا بول ڈالا میرا مطلب میرے قائرین سمجھ گئے ہونگے، عراق کو قربانی کا بکرا بنایا پھر افغانستان اور اب شام!! میں ایک بات اچھی طرح جانتا ہوں کہ اس وقت ہم پندرہویں صدی ہجری میں ہیں اور نبی پاک ﷺ نے چودہویں صدی کے بارے میں بہت کچھ اشارے کیئے تھے!! ۔۔ پاکستان ان حالات میں براہ راست اثر انداز ہوا ہے کیا وجہ ہے یہ ایک ایگ بات ہے اور مفصل بحث بھی ، بس یوں سمجھ لیجئے کہ اس جلتی آگ میں کودنے کیلئے بھی کسی نہ کسی پہلو میں سعودی فرما روا کا دخل ضرور ہے مانا کہ یہ سنگین غلطی ہمارے حکمرانوں کی جانب سے ہوئی ہے مگر انھوں نے ایسا کیوں کیا ،آج تک کسی نے یہ جاننے کی کوشش نہی کی بلکہ شور شرابا کرکے اپنی سیاست چمکاتے رہتے ہیں گویا یہ سیاست دان نہیں جاہل اوجھٹ ہوں اگر پاکستانی سیاستدانوں میں عقل و شعور نام کی کوئی چیز ہوتی تو یہ اصل حقائق کو جاننے کی کوشش کرتے اور حالات کو مزید خراب ہونے سے بچانے کیلئے نئی حکمت عملی لاتے مگر افسوس ہمارے حکمران!! انہیں تو دولت کمانے ، لوٹ کھسوٹنے سے فرصت ہی نہیں، انہیں کیا درد کہ عوام کس حال میں ہیں، کہیں ان کے کارندے لوٹ مار میں مست دکھائی دیتے ہیں تو کہیں طاقت کے اظہار کیلئے لوگوں کی جانیں سلب کرتے نظر آتے ہیں آخر جہوریت کا کیا مطلب؟؟ ایک وہ جماعت ہے جو غریب عوام کا نعرہ لگاتے تھکتی نہیں کبھی روٹی کپڑا مکان کا وعہدہ ، تو دوسری جانب ایسی جماعت نظر آتی ہیں جو اللہ اور اس کے رسول کی محبت کا دعویٰ کرتی تھکتی نہیں مگر حاصل عمل کچھ نہیں ،خیر چھوڑیں نظام ریاست پاکستان کو ، کیونکہ ہر ایلکشن میں دھاندلی کا بازار گرم رہتا ہے اور ہر بار الزام در الزام کا سلسلہ چل پڑتا ہے مگر کوئی یہ نہیں کہتا کہ الیکشن کے نظام کو جدید کمپیوٹرائز انگوٹھے کے ساتھ اسکینگ کو لام قرار دیا جائے ظاہر ہے اس جدید کمپیوٹر نظام سے ووٹ نہ جعلی پڑ سکیں گے اور نہ دھونس دھمکی سے ڈالے جائیں گے کیونکہ اس سے عوامی مینڈیٹ کھل کر سامنے جو آجائے گا اور ان کا کھانا پانی بند جو ہوجائیگا۔ خیر چھوڑیں میں بات کررہا تھا سعودی حکومت اور عرب امارات کی کہ ان کا اسلامی ممالک کیلئے کیا کردار رہا ہے ،ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ مسلک سے مبرا ہوکر تمام مسلم ممالک کو ایک دوسرے کی عسکری وقت کو بڑھانے کیلئے تمام ذرائع اپنانے چاہیئے جس سے دنیا میں تمام مسلم مملک مضبوط ہوتی جس طرح غیر مسلم ممالک ایک دوسرے کی مالی، عسکری، معاشی تعاون کرتے تھکتے نہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ غیر مسلم ممالک نے ہم مسلم دنیا میں کہیں مسلک کی نفرت، کہیں زبان کی نفرت،کہیں رنگ و نسل کی نفرت میں اوندھا کردیا ہے اسی وجہ سے دنیا بھر میں مسلم مملک کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے غیر مسلم بالخصوصاسرائیل اور بھارت نے خوب فائدہ اٹھایا ہے اب بھی وقت ہے کہ مسلم ممالک ان کی چالاکیوں کو سمجھ لیں اور آپس کی بلا وجہ چپکلیشی،مسلکی نفرت کو ختم کرکے ایک ہوجائیں تو انشاءاللہ تعالیٰ پوری دنیا میں مسلم با عزت و مقام سے دیکھا جائیگا لیکن ایسا ہوتا ہوا نہیں دیکھتا کیونکہ ان ممالک کو احساس ہے کہ وہ کیا کررہے ہیں اور کیا کرنے جارہے ہیں بس عقل پر دہ پڑگیا ہے۔ حالیہ دنوں میں سعودی عرب کے وزیر خارجہ سعود الفیصل نے اعتراف کیا ہے کہ ان کے ملک نے خطے میں حکومتوں کی تبدیلی کے لئے اب تک کھربوں ڈالر خرچ کئے ہیں۔سعود الفیصل نے اعتراف کیا کہ سعودی عرب نے مصر سمیت خطے کے دیگر ملکوں میں حالیہ دوسال کے دوران آنے والی تبدیلیوں میں کھربوں ڈالر کی رقم خرچ کی ہے، انہوں نے کہا کہ مصر میں عوامی انقلاب سے پہلے اور بعد میں اور خاص طور سے فوج کے ہاتھوں منتخب صدر محمد مرسی کی برطرفی کے بعد سے سعودی عرب نے مصر کے بعض با اثر دھڑوں میں بھاری بھاری رقمیں تقسیم کی ہیں۔سعودی الفیصل نے مصر کے با اثر سیاسی دھڑوں میں بھاری بھاری رقموں کی تقسیم اور محمد مرسی کی قانونی حکومت کی برطرفی میں سعودی عرب کے کردار کا اعتراف ، ایسے وقت میں کیا ہے جب با خبر سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ سعودی عرب ، قطری سمیت خطے کے دیگر دولت مند عرب ملکوں کے ساتھ ملکر ، تیل کے ڈالر وں کے ذریعے علاقے میں قائم آمریتوں کا تحفظ اور عرب ملکوں میں عوامی انقلاب کی روک تھام کی ناکام کوشش کر رہا ہے۔شام اور عراق کے حکام اور اسی طرح یمن اور تیونس کے بعض تجزیہ نگاروں کی تصدیق اور رپورٹوں کے مطابق حالیہ دو برس کے دوران سعودی عرب خطے کے ملکوں میں بحرانوں کو ہوا دینے والے میں اہم کردار میں تبدیل ہوگیا ہے۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق شام کے معاملے میں ترکی کے اندر شروع ہونے والی مخالفت اور انقرہ کا کردار کمزور ہونے ، قطر میں اقتدار کی تبدیلی ، نیز دہشتگردوں کے مقابلے میں حکومت شام کا پلڑا بھاری ہونے کے بعد ، اب ایسا دکھائی دیتا ہے کہ سعودی عرب کی حکومت ، اپنے انٹیلی جینس چیف بندر بن سلطان کی قیادت میں جنکے امریکی انٹیلی جینس حکام کے ساتھ قریبی رابطے اور تعلقات ہیں، خطے کے تبدیلیوں کو مغربی ملکوں، اسرائیل اور اپنے حق میں موڑنے کی کوشش کر رہی ہے۔شام میں حکومت مخالف اتحال کو شکست سے بچانے کے لئے سعودی حکومت کی ایسے وقت میں سرتوڑ کوشش کر رہی ہے جب عرب تجزیہ نگاروں نے بھی اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ سعودی عرب ، شام میں لڑنے والے دہشتگردوں کھربوں کی ڈالر کی مالی اور اسلحہ جاتی امداد فراہم کرکے بحران شام کو ہوا دینے والے دیگر ملکوں سے آکے نکل گیا ہے۔ شام میں جاری بحران کے نتیجے میں ہزاروں بے گنا ہ انسان مارے جاچکے ہیں، اور اسرائیل کے خلاف تحریک مزاحمت کے اگلا محاذ سمجھے جانے والے ملک شام کو ایسا زبردست نقصان پہنچا ہے کی تلافی شائد برسوں تک بھی ممکن نہ ہو۔سعودی عر ب کی شاہی حکومت، مصر و شام اور یمن و تیونس میں کے علاوہ ، عراق کی بدامنی میں اہم کردار اد کر رہی ہے اور عراقی کے وزیر اعظم سمیت اس ملک کے اعلی حکام بارہا اس بات کا اظہار بھی کرچکے ہیں۔عراق میں سرگرم دہشتگرد گروہ، خطے کی رجعت پسند عرب حکومتوں کے حمایت کے ذریعے جن میں سعودی عرب سر فہرست ہے ، بغداد حکومت کے لئے مشکلات کھڑی کرتے چلے آرہے ہیں اور انکی کوشش ہے کہ عراق میں دہشتگردانہ سرگرمیوں میں اضافہ کرکے بدامنی کو بڑھاوا دیں اور وزیراعظم نوری المالکی کی عوامی حکومت کی سرنگونی کا راستہ ہموار کرسکیں، اس بات میں شک و شبہے کی کوئی گنجائش باقی نہیں ہے کہ شام اور عراق میں بیک وقت شروع ہونے والی بدامنی کی تازہ لہریں، منصوبہ بند سازش کا حصہ ہیں، جس میں امریکہ ، سعودی عرب اور خطے کی دیگر رجعت پسند حکومتوں کا ہاتھ ہے اور اس کا مقابلہ کرنے کے لئے خطے کے ملکوں کو ملکر کوشش کرنا ہوگی،دوسری جانب شام کے مخالفین کا ارادہ تھا کہ وہ جلد شام کو ختم کر دیں گے لیکن ان کا یہ خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکا 2013ءمیں استعماری طاقتوں امریکہ، اسرائیل، ترکی اور سعودی عرب نے اس مسئلہ میں سنگین قسم کا دباؤ ڈالا، اس دوران القاعدہ حساس علاقوں میں تسلط حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا تھا لیکن آج مغربی طاقتوں کے اتحاد کی کوئی خبر نہیں ہے، اس کی بڑی وجہ عربی ممالک کی صفوں میں پیدا ہونے والا اختلاف ہے، مثال کے طور پر سعودی عرب اور قطر کا اختلاف، مصر اور تیونس والے سعودی عرب کے ساتھ نہیں ہیں، ترکی جو شام کے مخالف ایک محاذ تھا، اس میں بھی کمی واقع ہوئی ہے، وہ مخالفین جن میں امریکہ، یورپی ممالک، سعودی عرب، ترکی اور بشار الاسد کے مسلح مخالفین کے پاس اس کے سواءکوئی چارہ نہیں رہا کہ وہ شام کی حکومت کے ساتھ اس بات پر متفق ہوجائیں کہ بشار الاسد کی حکومت آزادانہ انتخابات کروائے۔۔۔۔۔۔۔ سعودی عرب کی امریکہ نواز آل سعود کی وہابی منحرف حکومت مصر میں اسلام پسندوں کی حکومت گرانے کے بعد اب تیونس میں اسلام پسندوں کی حکومت کو گرانے کی تلاش و کوشش کررہی ہے، مصر اور تیونس میں طویل عرصے سے اقتدار پر قابض حکمرانوں کے خلاف عوامی انقلاب کے بعد اسلام پسند جماعتوں کی حکومتیں قائم ہوئیں لیکن پہلے مصر میں فوج نے سعودی حکومت کے تعاون سے اخوان المسملین کی حکومت کا تختہ الٹا اب حیران کن طور پر تیونس میں بھی حکومت کے خلاف احتجاج شروع ہوگیا ہے جس کے پیچھے سعودی حکومت کا ہاتھ بتایا جاتا ہے کیونکہ سعودی حکومت اسلام پسندوں کے اقتدار میں آجانے سے سخت خوفزدہ ہے اسی لئے سعودی عرب کی حکومت القاعدہ کی دنیا بھر میں کارروائیوں کی حمایت اور ان کی مالی مدد کرتی ہے لیکن انھیں سعودی عرب میں کارروائی کرنے کی اجازت نہیں دیتی اور سعودی عرب میں اس نے القاعدہ کے کئی ارکان کو جیلیں بند کررکھا ہے۔۔۔۔عالم اسلام کا درد رکھنے والوں کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ امریکہ اور اس کے بعض مغرب اتحادی شام میں سرگرم عمل القاعدہ کے دہشت گردوں کی حمایت کیوں کر رہے ہیں؟ طالبان اور تکفیری فکر رکھنے والے مغرب ملکوں کے لئے اتنے عزیز کیوں ہوگئے؟ کیوں امریکہ سمیت سارا یورپ، حتی شام کے عیسائی باشندوں کے سر کاٹے جانے پر اپنے لبوں پر مہر سکوت لگائے ہوئے ہے؟ ان کے آزاد میڈیا کو بھی سانپ سونگھا ہوا ہے اور انسانی حقوق کے اداروں نے بھی اپنے منہ بند کر رکھے ہیں۔۔۔۔۔

اگر پاکستان کو اس تناظر میں دیکھیں تو پاکستان کی صورتحال کچھ جدا نہیں یقینا اس صورتحال پر پاکستان کے تمام مخلص سیاستدانوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اس مسلہ کو افہام و تفہیم کے بجائے جنگ و جدول سے حل کرے ، اس سلسلے میں سعودی عرب و دیگر عرب امارات کو ان کی مالی معانت سے باز رکھ کر بھرپور طاقت کے ساتھ جس میں بری و ہوائی حملہ کرکے ان کے تمام ٹھکانوں کو نیست و نابود کردیں کیونکہ ان کا کوئی دین و ایمان نہیں ان کے نزدیک مسجد، مدرسہ، اسکول، بچے بچیاں، معذور، بوڑھے، عورتیں، گرجا گھر، مندر ،مزارات کسی کی بھی کوئی حیثیت نہیں یہ امریکہ اور اسرائیل کے کرائے کے ٹٹو ہیں ان کا کام دہشت پھیلانا، خون ریزی کرنا، امن و امان تباہ کرنا، معاشی و اقتصادی طور پر تباہ کرنا، عسکری طاقتوں کو کمزور کرنایہی ان کا اصل مشن ہے ، یہ انسانیت کے قاتل ہیں، قاتلوں کو معاف نہیں بلکہ سزا دی جاتی ہے۔

جاوید صدیقی
About the Author: جاوید صدیقی Read More Articles by جاوید صدیقی : 310 Articles with 273765 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.