مغربی یوپی کے ’محبت نگر ‘کے نام سے مشہور مظفر نگر فرقہ
وارانہ فسادات کے شعلے گو اب بجھ چکے ہیں اور اس مجرمانہ کارروائی میں ملوث
لیڈران کی گرفتاریاں عمل میں آرہی ہیں اور فسادی لوگوں کو متاثرہ علاقوں کا
دورہ کر نے سے روکا جارہا ہے۔اس طرح سے گویامتاثرین کے زخموں پر مر ہم اور
پھاہا رکھا جارہا ہے ۔ انھیں بازآباد کر نے کی کوششیں ہر جانب سے کی جارہی
ہیں ․․․․․ایسے وقت میں اکھلیش یاد و نے ایک بچکانہ بیان دے کر بھرتے زخموں
کو پھر سے ہرا کر دیا اورایک بار پھر وہ لوگوں کی توجہ کا مرکز بن گئے ہیں
۔
تفصیلات کے مطابق سنیچر کوانھوں نے ’عالمی سہارا ٹی وی‘ کے خصوصی شو
’تکرار‘میں اظہار خیال کر تے ہو ئے کہا:’’کوسی کلاں سے لے کر مظفر نگرتک
‘‘ہونے والے فسادات کے بارے میں کیاکہا جائے۔سمجھ میں نہیں آتا کہ میں اس
موقع پر کیا بولوں ۔ ایک بات تو میں ضرور کہوں گا کہ یہ تمام مخالف جماعتوں
نے اپنے سیاسی مفادات کے لیے کر ائے ہیں۔مجھے میری ریاست میں ہونے والے
تمام فسادات پر بے حد افسوس ہے بالخصوص مظفرنگرکا فساد تو میرے سیاسی کر
ئیر پر ایک بد نما داغ ہے جسے میں کسی طرح نہیں مٹا سکتا ۔‘‘(یہ باتیں کہتے
وقت اکھلیش بناؤٹی پوز دکھانے کے لیے سر نہیں اٹھا رہے تھے یا شاید انھیں
اپنی ناکامی اورناہلی کا احساس تھا کہ وہ کروڑوں ناظرین کو کس طرح منہ
دکھلائیں۔)
نہ جانے اکھلیش یا دو نے یہ بات کیا سوچ کر کہی ہے اور نہ جانے اس کے پیچھے
ان کا کیا مقصد ہے تاہم اتنا ضرورہے کہ اتنا سب کچھ ہوجانے کے بعد بھی
اکھلیش یادو کا بچپنا نہیں گیا اور نہ انھیں ان فسادات پرحقیقی معنوں میں
کسی طرح کا افسوس اور دکھ ہے ۔ہاں رسمی طور پر تو کوسی کلاں کے فسادت سے ہی
مذمت کر تے آرہے ہیں اور مجرمین کو گر فتار کرنے یا انھیں ریاست بدر کر نے
کا اعلان کر تے آرہے ہیں ۔ان کے اندر کچھ اور باہر لوگو ں کو دھوکہ دینے
والی اسکیمیں اور باتیں ہیں۔
اکھلیش یاد و کی دوغلی پالیسی کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ مذکورہ
شو میں جب ان سے ایک سوال کیا گیاکہ جو لوگ آپ کی حکومت کی بر خاستگی کی
بات کررہے ہیں ان کا مطالبہ کہاں تک درست ہے؟ تو پہلے تو انھوں نے آنکھیں
لال پیلی کیں اس کے بعد ماضی کی باتیں کر نے لگے ۔سابق حکومتوں کی کارکر د
گیا ں گنوانے لگے ان کے دور میں ہونے والے فسادا ت کی فہرست بتانے لگے․․․․․پھر
رخ پر تیور ڈال کر کہنے لگے جولوگ میری حکومت کی بر خاستگی کا مطالبہ کر
رہے ہیں وہ جہالت کی باتیں کررہے ہیں۔ انھیں اپنے گر یبان میں جھانکنا
چاہیے ۔نیز انھیں سو چنا چاہیے کہ میں بھاری اکثریت سے وزیر اعلا چن کر
ایوان میں آیا ہوں ‘کو ئی گرا پڑا نہیں جسے جب چاہا ہٹا دیا اور جب چاہا
رکھ لیا․․․․میں ہر اس شخص کا سرکچل دوں گا جو اس طرح کا غیر معقول مطالبہ
کر ے گا۔ فسادات کب نہیں ہو ئے ۔گجرات کے فساد ات ہو ئے‘بابری مسجد شہید ہو
ئی ‘ہاشم پورہ ملیانہ اور شاملی کے بھیانک فسادات ہو ئے اس وقت کیوں
حکومتوں کی برخاستگی کا مطالبہ نہیں کیاگیا۔لوگ میرے ہی پیچھے کیوں پڑے ہیں
۔میں نے کو ئی نیا کارنامہ کیا ہے ․․․․․․
اکھلیش یادو اس طرح کی بکواس کر تے رہے اور ٹی وی اینکر سوچ میں پڑ گیا کہ
یا خدا یہ کس جاہل سے پالا پڑا ہے ۔پڑھے لکھے اس پاپی نے اتر پر دیش میں
کیا کیا کر دیا اس کے باوجود اسے اپنے کیے پر کو ئی افسوس نہیں بلکہ الٹا
فسادات کی آگ میں جلنے والے لوگوں کو الزام دے رہا ہے کہ وہ آگ میں کیوں
گئے اور انھوں نے اپنے گھر وں میں کیوں آگ لگا ئی․․․․․حالانکہ یہ وقت الزام
تراشیوں کا نہیں فریاد رسی اورغمخواریوں کاہے ۔دل جوئی کا ہے ․․․․․لوگو ں
کے مطالبے پر اکھلیش کو بر خاست ہوجانا چاہیے۔مگر اس کے لیے کیا کیا
جائے․․جو ان جاہلوں سے بھی زیادہ جہالت کا مظاہرہ کر رہاہے․․․․
قارئین کر ام!اکھلیش یاد و کا یہ غرور اور گناہوں پرقائم رہنے کی ضد دیکھئے
۔کتنی افسوس ناک بات ہے کہ یوپی کے دوسرے مقامات فسادات کی زد میں آنے والے
ہیں ‘دیوبند و سہارنپور کے آس پاس کے اہم ترین علاقوں میں رہ رہ کے امن کی
فضا کو مکدر کیا جارہا ہے ․․․․شرپسند موقع بے موقع مجرمانہ حر کتیں کر رہے
ہیں ۔سرراہ مسلمانوں پر فقرے کس رہے ہیں ۔وہاں کے باشندوں کے مطابق ماحول
ایسا بنا ہوا ہے جیسے وہ اپنے وطن میں نہیں بلکہ کسی غیر ملک میں رہ رہے
ہوں یا انھوں نے کو ئی جرم عظیم کیا ہو۔
ایک طرف یہ صورت حال ہے اور دوسری جانب اکھلیش یا دو ہیں جو سابقہ واقعات و
حادثات سے سبق لینے کے بجائے جھوٹی شان اور انا کی خاطر نیز اپنی نااہلی کو
چھپانے کے لیے اپنے غلط اصولوں پر قائم ہیں اور دنیا سے چکنی چپڑی باتیں کر
کے اپنی مظلومیت کا اظہار کر رہے ہیں ۔اپنی بر خاستگی کا مطالبہ کر نے
والوں کو جاہل اور گنوار کہہ رہے ہیں۔ حالانکہ سب جانتے ہیں کہ اکھلیش یادو
اس دَور کے سب سے نااہل وزیر اعلا ہیں نیز ان کی اب تک کی مدت کار میں
فسادات ‘تخریب کاریوں اور ریاست کے مسلمانوں کے ساتھ زیادتیوں کے سوا کو ئی
مثبت کارنامے سامنے نہیں آئے ہیں۔
کہتے ہیں اتر پردیش اب تک 150سے زائد فسادا ت کی مار جھیل چکا ہے ․․․․یہ
تعداد لکھنے اور سننے میں تو بہت آسان ہے مگر اس سے گذرنا اور محسوس کر نا
کسی آگ کے دریا سے نکلنے کے مانند ہے ۔میں اور آپ تو بس لکھ اور پڑھ رہے
ہیں ‘ہمیں وہ درد محسوس نہیں ہو سکتا جو’ ’کوسی کلاں سے لے کر مظفر نگر کے
فساد تک ‘‘ متاثرین کے دلوں پر سے گذر کر گیا ہے ۔ دیکھتے ہی دیکھتے کتنے
گھر وں کے چراغ گل ہو گئے ۔کتنے معصوم بچے اپنے ماں باپ کا سہارا بننے سے
پہلے ہی مر گئے ۔احساس کیجیے کتنی ایسی سہاگنیں ہوں گی جن کے ہاتھوں کی
مہندی ابھی تک تازہ ہوگی مگر ان پر بیوگی کے داغ لگ گئے جو ہمارے معاشرے
میں آج بھی عیب سمجھے جاتے ہیں۔کتنے ایسے بوڑھے والدین ہیں جن کے سہارے اور
بوڑھاپے کی لاٹھیاں ٹو ٹ گئیں اور وہ اپاہج بن کر رہ گئے۔کتنے آباد گھر تھے
جو نفرتوں کی آگ میں جل گئے اور ان سے وابستہ یادیں بھی خاکستر ہو
گئیں․․․․․کہاں تک لکھو ں ․․․․․ کیا کیالکھوں․․․․․کیسے لکھوں․․․․․افسوس تو
یہ ہے کہ اپنا خونچکاں خامہ اور فگار انگلیاں بھی کسی کو نہیں
دکھلاسکتا․․․․․․کو ئی ہمدرد اور مسیحا نہیں ہے ۔سب مفاد پر ست چاپلوس اور
باتیں بنانے والے ہیں ۔زخم دے کر صبر کر نے کی تلقین کر تے ہیں ۔مرکزی
حکومت بھی بس بیان بازی کر تی ہے۔ملک کے وزیر اعظم کو اب تک ان حالات پر بس
’’تشویش ‘‘ہی ہے ۔ بھلا اس سے کیا ہو سکتا ہے․․․․․ اور اکھلیش یادو نے چند
نمائشی گر فتاریوں اور بیانات کے سوا کچھ نہیں کیا ہے۔
اکھلیش یاد و سمجھتے ہیں کہ وہ مظفر نگر کے فساد ات کو اپنے سیاسی کر ئیر
پر بد نما داغ بتا کر کو ئی بہت بڑی بات کہہ رہے ہیں نیز یہ کہ انھیں لوگوں
کی ہمدردیاں حاصل ہو جائیں گی اور وہ ان کے گناہوں کو معاف کر دیں گے
․․․․․یہ ان کی بچکانہ سوچ اور خوش فہمی ہے ۔انھیں پتا ہونا چاہیے کہ یہ
دَورچاپلوسوں سے زیادہ حقیقت پسندو ں کا ہے ۔چاپلوس لوگ ضرور ان کی باتوں
میں آکر انھیں اس دَور کا سب سے عظیم لیڈر مان لیں گے اور منصف اعظم کا
خطاب دے دیں گے لیکن حقیقت پسند افراد اسے کسی طرح تسلیم نہیں کر سکتے چاہے
گر دن الگ ہو جائے ․․․․چو نکہ یہ لوگ اپنے وطن عزیز سے سچی محبت کر تے ہیں
اور اسے بگڑتے نہیں دیکھ سکتے ۔
ان لوگوں کی رائے سے ہر ذی شعور اور حساس شخص اتفاق کر ے گا کہ اکھلیش یادو
کو اس کی نوجوانی دیکھ کر باربار موقع دیا دیاگیا ۔اس کا مقصد یہ تھا کہ وہ
اپنی سابقہ غلطیو ں کو سدھار لیں مگر انھوں نے کو ئی سبق حاصل نہیں کیا اور
ریاست پوری طرح فرقہ وارنہ فسادات کے شعلوں کی نذر ہو گئی ․․․․․ اب ہم ایسے
سر بر اہ ریاست کو کیسے بر داشت کر یں جو ہمارے ملک کو جہنم زار بنا دینا
چاہتا ہے ۔ ہم ایسے شخص کی بر خاستگی سے کم کسی چیز پر راضی نہیں ہوں گے
۔انھیں پتا ہے کہ یہ شخص جو آج نہیں سدھر ا کل کیسے سدھر سکتا ہے یا پھر جب
تک اس کی مدت ختم ہو گی اتر پردیش ملک کے نقشے پر کسی چیچک زدہ ریاست کی
حیثیت اختیار کر لے گا جس سے پورا ملک ہی نہیں بلکہ پوری دنیا گھن کر ے گی
۔اس لیے اس طرح کی صورت حال پیدا ہونے سے پہلے ایسے سربراہ کو ہی بر خاست
کر دیا جائے جو پوری طر ح سے ان فسادات کا ذمے دار ہے اور فسادبر پا کر نے
والے فرقہ پر ستوں کو ریاست میں مزید فسادات بر پا کر نے کے لیے پال رہا
ہے۔
احساس
دیکھتے ہی دیکھتے کتنے گھر وں کے چراغ گل ہو گئے ۔کتنے معصوم بچے اپنے ماں
باپ کا سہارا بننے سے پہلے ہی مر گئے ۔ احساس کیجیے کتنی ایسی سہاگنیں ہوں
گی جن کے ہاتھوں کی مہندی ابھی تک تازہ ہوگی مگر ان پر بیوگی کے داغ لگ گئے
جو ہمارے معاشرے میں آج بھی عیب سمجھے جاتے ہیں۔کتنے ایسے بوڑھے والدین ہیں
جن کے سہارے اور بوڑھاپے کی لاٹھیاں ٹو ٹ گئیں اور وہ اپاہج بن کر رہ
گئے۔کتنے آباد گھر تھے جو نفرتوں کی آگ میں جل گئے اور ان سے وابستہ یادیں
بھی خاکستر ہو گئیں․․․․․کہاں تک لکھو ں ․․․․․ کیا کیالکھوں․․․․․کیسے
لکھوں․․․․․افسوس تو یہ ہے کہ اپنا خونچکاں خامہ اور فگار انگلیاں بھی کسی
کو نہیں دکھلاسکتا․․․․․․کو ئی ہمدرد اور مسیحا نہیں ہے ۔سب مفاد پر ست
چاپلوس اور باتیں بنانے والے ہیں ۔زخم دے کر صبر کر نے کی تلقین کر تے ہیں
۔مرکزی حکومت بھی بس بیان بازی کر تی ہے۔ملک کے وزیر اعظم کو اب تک ان
حالات پر بس ’’تشویش ‘‘ہی ہے ۔ بھلا اس سے کیا ہو سکتا ہے․․․․․ اور اکھلیش
یادو نے چند نمائشی گر فتاریوں اور بیانات کے سوا کچھ نہیں کیا ہے۔ |