ہم صورت گر کچھ خوابوں کے

ایک دم مکمل ، ایک دم پرفیکٹ :) ایک ہی سانس میں پڑھنے کے قابل :)

ماہنامہ’’ ساتھی ‘‘ کراچی کی اشاعت کے ۳۵ سال مکمل ہونے پر بسترِ علالت پر لکھا گیا ایک تاریخی شاہ کار
ہم صورت گر کچھ خوابوں کے

بسترِ علالت پر اپنے مخالفوں کے لطیفے یاد کرکر کے ہنسی آرہی تھی،معالجین مصر تھے کہ ’’ٹائیفائڈ ‘‘ ہے ، ہم بضد کہ ’’ڈینگی ‘‘ کا ٹیسٹ تو کروالیجئے ، وہ مُصر کہ نھیں آرام کیجئے اور ’’بچوں کا ادب ‘‘ تو ہرگز قریب نہ آنے دیجئے ۔اسی قسم کے حالات میں اپنے معالجین کی کوتاہ نظری پر ہنس رہے تھے اور دشمنان کے لطائف جو انہوں نے بیس پچیس سال پہلے سُنائے تھے ، اُن پر ہنس رہے تھے کہ اچانک بیگم صاحبہ پوری بٹالین کے ساتھ ہمارخواب گاہ میں بے پوچھے داخل ہوئیں اور اُن کی جوان کڑیل اولاد ہمیں پھول کی طرح اُٹھا کر مقامی ہسپتال لے کرچلتی بنی ۔
ڈاکٹر ڈھکنا : کیا کھایا تھا ؟
ہم : غم ، افسوس ، دُکھ !
ڈاکٹر ڈھکنا : خدا نخواستہ شاعر تو نھیں ہیں ؟
بیگم صاحبہ : اے اللہ نہ کرے ، اچھے بھلے پروفیسر تھے ، ٹائیفائڈ سے پہلے ، اب کی اللہ جانے !
ڈاکٹر ڈھکنا :احتیاط کا کہا تھا ، تیل کھایا ؟
ہم: کیوں عراق کا معاہدہ کامیاب ہوگیا ؟
بیگم: ارے ڈاک صاب جانے دیں ان کی باتیں ،پینتیس سال سے کلیجہ چھلنی کردیا ہے اس آدمی نے ، اگر کوئی دوسری ہوتی تو ٹی بی ہوجاتی ۔
ڈاکٹر ڈھکنا : اوہو ۔۔۔بیگم صاحبہ ۔۔۔۔ جبھی مجھے آپ کی شکل دیکھتے ہی لگا کہ آپ کو ٹی بی جیسی مہلک بیماری ہے ، اچھا ہوا آپ نے خود ہی فرمادیا ، میرے پاس اشتہاری سلسلے میں ٹی بی کی ایک لاجواب ویکسین آئی ہے۔
خاتونِ خانہ (خاتونِ تھانہ کا رُوپ دھارتے ہوئے ) : اجی ٹی بی ہوگی آپ کی نسلوں کو ، میں کہتی ہوں اس آدمی کو دیکھ کر میری جان چھوڑئیے ۔
ڈاکٹر ڈھکنا : کون سا آدمی ؟ کیا ڈینگی مچھر کی شرارتوں نے کسی اور پر بھی حملہ کیا ہے ؟؟؟
(موبائل فون کی مسلسل صدا )
ہم نے کراہتے ہوئے فون کان سے لگایا :’’ جی ۔۔۔ جی ۔۔وعلیکم السلام ۔۔جی فصیح حسینی صاحب۔۔۔۔اچھا ۔۔۔اچھا۔۔۔۔آپ نام بتادیں ۔۔۔اجی کیا کہا ؟اپنے حافظے سے لکھ لیں؟او بھائی ذاتی حافظہ ہوتا تو ہم یہاں نہ ہوتے ۔۔۔اچھا خیر لکھ دیں گے)
فون بند کرتے ہی ڈاکٹر ڈھکنا نے بیگم صاحب کے کان کے پاس جا کر ’’شر گوشی ‘‘ کی :’’دیکھا بیماری بڑھنے کی وجہ بچوں کے ادب سے قربت ہے ، اب آپ کیا کہتی ہیں میڈم ؟‘‘
’’اے دفع ۔۔۔۔میں لاعلاج موروثی بیماریوں کے حوالے سے پی ایچ ڈی نھیں کررہی ہوں ، آپ ان کو ریفر کردیں۔
ڈاکٹر ڈھکنا : کہاں ؟؟
بیگم صاحبہ : گھر کردیں ان کے ذاتی ، میں اور میری اولاد خود ان کا علاج کردے گی اور ہاں دوا ساتھ لکھ کر دیجئے گا۔
ڈاکٹر نے اثبات میں گردن ہلائی ۔
’’کیا کہہ رہے تھے ’’ساتھی‘‘ کے مُدیر ؟ ‘‘
’’ذرا سوچیے !‘‘
’’جی ؟لیکن کیا سوچوں ؟‘‘
’’اوہو بھئی ہم سے کہہ رہے تھے کہ ذرا سوچ ساچ کر پرانے قلم کاروں کے کردار کی دھجیاں بکھیر دیجئے !‘‘
’’وہ تو آپ کے دائیں ہاتھ کا کام ہے !چلیے تو پھر میں یخنی بنا کر لاتی ہوں ، تب تک آپ تمام جراثیموں کو گلے سے لگالیجئے تاکہ ایک ساتھ آکر دوا دے دوں !‘‘
’’لیکن اتنے جراثیموں کی موجودگی میں دوا نھیں ، ڈینگی اسپرے کام کرے گا محترمہ !‘‘
وہ چلی گئیں ۔
ہمیں یقین نھیں آرہا تھا کہ ساتھی ’’پینتیس ‘‘ سال کا ہوگیا ، ہائے ہائے ، ہم اٹھارہ سال کے تھے جب ساتھی میں ’’سوکھے پَتّے ‘‘ چبائے تھے ، معاف کیجئے گا ، ’’سُوکھے پَتّے ‘‘ کہانی لکھی تھی ،اب آناً فاناً کیسے ۳۵ سال گزر سکتے ہیں ۔یقین نھیں آرہا ۔لیکن ہمارے یقین نہ آنے سے ، قارئین ، مصنفین ، ناقدین ،ناشرین، مدیران بلکہ پورے معاشرے کی صحت پر کیا فرق پڑے گا ؟ ہم تو اپنی عمر چھپانے کے لیے حقائق سے منھ موڑ رہے ہیں ۔ تنگ آکر ’’بھائی میاں ‘‘ کو فون کیا ۔
’’ہیلو !‘‘
’’ہاں بولو! ‘‘
’’بھائی میاں ۔۔۔کیا ساتھی چَھپتے پینتیس سال بِیت گئے ؟‘‘
کافی کچھ سنانے کے بعد کہا گیا : ’’بیڑا غرق پروفیسر ، تمہیں یاد نھیں کہ تم پچیس سال کے تھے جب ساتھی میں پہلی کہانی لکھی تھی ، ۱۹۷۸ء میں !‘‘بھائی میاں اُدھار کھائے بیٹھے تھے۔
’’ابے لے۔۔۔۔‘‘ ، یہاں تو لینے کے دینے پڑگئے تھے ، سمجھ گئے کہ بھائی میاں کو کوئی نیا ٹیلی ڈراما حسبِ معمول فلاپ ہوچکا ہے اور وہ غصہ ہم پر اُتار رہے ہیں ۔
’’اچھا اختر صاحب ، ٹھیک ہے ہم خود سوچ لیتے ہیں ۔‘‘ ہم نے بھائی میاں کا شکریہ ادا کرکے فون رکھ دیا اور اُس گھڑی کو کوسنے لگے جب ہم نے ساتھی کے مُدیر صاحب سے بات کی تھی ۔
کیا تھا جو خاتونِ تھانہ حسبِ معمول ہمارا فون جھپٹ کر کال منقطع کردیتیں ؟ کیا تھا جو ڈاکٹر ڈھکنا ہمارے منھ میں حرارت پیما لگا چکا ہوتا ؟ہائے ، اب فون لے کر پھنس چکے تھے ۔
ماہنامہ ساتھی نے ’’بچپن ‘‘ سے ’’جوانی ‘‘ اور پھر جوانی سے ’’پُختہ عمری ‘‘ تک کا سفر دن دیہاڑے ہماری آنکھوں کے سامنے طے کیا ہے ۔اُف اللہ ۔۔۔ہماری عمر سب کو پتا ہوگی ؟ تو پھر؟ بہت سے بچّے تو ہم پر فاتحہ پڑھ چکے ہوں گے ۔ہائے اللہ نہ کرے ۔ابھی ہم نے دیکھا ہی کیا ہے ؟اپنے نواسوں اور پوتے کو ’’ساتھی ‘‘ میں اپنی ہی کہانیاں نقل کرکرے دیں گے اور جب وہ ’’ناقابلِ اشاعت ‘‘ میں شامل ہوں گی تو خوب خوب ہنسیں گے ۔ہاہاہا ۔۔ہاہاہا۔۔۔ جی ہاں بالکل اسی طرح ہنسیں گے۔
جناب فصیح اللہ حسنی کے سا منے ہم نے بقر عید پر قربان ہونے والے بکرے کی طرح گھٹنے ٹیک دیئے اور کہا :’’بھائی کوئی ای میل تو بھیج دیجئے !‘‘ انہوں نے اگلے ہی پَل ’’گرم ڈاک‘‘ والی ایک ای میل آئی ڈی روانہ کردی ۔
اللہ کون تھا پہلا ایڈیٹر ؟کون تھا ؟ ہم نے معصوم صورت بناکر آئینہ کے سامنے جا کر اپنے آپ سے سوال کیا ۔بھائی جان کوئی بھی ہوگا ،تم دوا توکھالو ،ورنہ بیگم صاحبہ ؟؟ دماغ نے ٹھیک ٹھاک دھونس دی۔ہمیں ’’شریف شوہر ‘‘ ہونے پر سخت غصہ آیا ، کیا ہوجاتا ہے ہمیں محترمہ کے سامنے ؟ کون سے ڈاکے مارے ہیں ہم نے اپنی سسرال میں ؟ کیوں بھیگا بِلّا بن جاتے ہیں ان کے سامنے ۔یہ ایک سُناتی ہیں تو ہم ایک لاکھ ایک کروڑ ، ایک ارب کیوں نھیں سُناتے ؟ کیوں کیوں ، آخر کیوں ؟او بھائی بس کردے ، تجھے اپنے ٹائیفایڈ کا واسطہ ۔ہمارا عکس آئینے میں گھگھیانے لگا ۔
خیر پہلے ایڈیٹر صاحب کا تو بعد میں کسی سے پوچھ پاچھ لیں گے ، پہلے شروع تو کریں ؟ ہاں تو کس کس نے لکھا تھا ’’ساتھی ‘‘ میں ؟
کس کس نے ؟ یہ ہمیں نیند کیوں آرہی ہے ؟ بیگم تم کہاں ہو؟ ہماری دوا کہاں ہے ؟ ہماری دوا؟ ٹائیفایڈ ؟؟ بے ۔۔۔بے ۔۔۔گم ۔۔۔۔ اغوں ۔۔۔۔ اس کے بعد ہم سو چکے تھے،شاید دوا کے زیر اثر ۔
پروفیسر عنایت علی خان ٹونکی :
ٹونک (راجھستان) سے تعلق ۔اردو کی درسی کتب کا معروف نام ۔ہم ساتھی ایوارڈ کی پہلی تقریب میں گئے تو حضرت مہمانِ خاص تھے۔ہم نے تبصرے پر پہلا ایوارڈ حاصل کیا تھا ۔حضرت نے تمام ایوارڈ یافتگان کو اسٹیج پر بلا کر حکم دیا کہ ۔۔۔ دونوں ہاتھ اُٹھا کر کھڑے ہوجائیں ۔ہائے اللہ ۔۔۔ یہ تو اردو کے سر ہیں شاید ؟داخل ہوتے ہی سمجھ گئے کہ ہم نے بی ایس سی کی اُردو میں نقل مارنے کی کوشش کی ہے ، اس لیے سزا دے دی جھٹ سے ۔ مگر نھیں ، نقل اتنے سارے لوگ مل کر تو نھیں کرسکتے ، یہ تو سب کو اسٹیج پر بُلا بُلا کر ہاتھ اٹھانے کی سزا دے رہے ہیں۔سرخ لال بھبھوکا آنکھیں ، سفید ریش ، رعب دار چہرہ ،اللہ انہوں نے ہی تو کہیں ہماری بی ایس سی کی اردو کاپی نھیں جانچی تھی اور ستّر نمبر دئے تھے ، اب پہچان گئے ہیں شاید ۔’’مجیب ظفر صاحب ، آپ ہاتھ نھیں اُٹھا رہے ؟‘‘ یکایک ایک کڑاکا ہوا۔ہم سمجھے ہوٹل کے باہر بارش برس رہی ہے اور بادل کڑک رہے ہیں ۔لیکن لب پروفیسر صاحب کے ہلے تھے۔’’ہم کسی پر ہاتھ نھیں اُٹھاتے سر !‘‘مگر آواز منمناہٹ بن کر ہمارے لبوں میں دم توڑ گئی (حالانکہ بیگم کہیں بھی نہیں تھیں ہماری اس وقت )۔ہاتھ اُٹھائیے جناب ، جواب آتا ہو تو ’’سبحان اللہ کہئے ‘‘ اور نہ آتا ہو تو ہاتھ نیچے۔‘‘ پروفیسر صاحب نے یک جنبشِ لب مسئلہ حل کردیا کہ یہ ایک کھیل تھا جو ساتھی کے قلم کاروں کو ایوارڈ کی پہلی یادگار تقریب میں کھیلنا تھا ۔ہا ہا ہا۔۔۔۔پروفیسر صاحب پیٹ بھر کر ہنسے ۔اب تو سارے بچّے اور بڑے بھی ہنسنے لگے ۔’’سر ہمارے ہاتھوں میں درد ہوگیا ہے !!‘‘ ہم نے دُہائی دی۔بہت خوش ہوئے ۔سمجھ گئے کہ لڑکے کو کبھی سزا نھیں ملی ،فوراً پاس بلایا اور ’’تبصرہ نگاری ‘‘ پر پہلا ایوارڈ دے دیا ۔
پھر اللہ جانے کسی اور ایوارڈ کی تقریب میں ہمیں یہ سعادت حاصل ہوئی کہ ہم محترم پروفیسر عنایت علی خان صاحب کو اُن کی رہائش گاہ ، شمالی ناظم آباد بلاک ایف ، ڈراپ کرنے جارہے تھے۔ہمارے ڈرائیور صاحب آندھی طوفان کی رفتار سے گاڑی چلارہے تھے۔پروفیسر صاحب سے ہم نہایت خوشامد کے بعد اُن کی تازہ نظم ’’ ببّن خاں کے باڑے میں ‘‘ سُن رہے تھے ۔اچانک ڈرائیور محترم نے انتہائی خطرناک موڑ کاٹا ۔’’اللہ خیر !‘‘ پروفیسر صاحب گھبرا گئے جبکہ ہمیں موت کے کنویں میں سواری کی عادت تھے ، پوچھا :’’ کب سے ہیں یہ موصوف آپ کے پاس؟‘‘اشارہ ڈرائیور کی طرف تھا ۔
’’جی سر۔۔آج صبح ہی آیا ہے !‘‘ ہم نے صاف گوئی سے کام لیا ۔
’’یا اللہ خیر۔۔۔تو یوں کہئیے کہ شیر آج ہی جال میں پھنسا ہے !‘‘ لیکن ہم نے اُن کی ببّن خان کے باڑے کو جاری رکھنے کی درخواست کی اور جب پروفیسر صاحب جھوم جھوم کر ببن خان کے باڑے میں بھئی ، ببن خان کے باڑے میں کہتے تو ہمارا جی چاہتا کہ گاڑی سے اُتر کر بیچ سڑک پر رقص کریں ، کیا نغمگی تھی ؟ کیا دُھن تھی ؟کیا لےَ تھی؟ کیا تال تھی ؟ ببن خان کے باڑے میں بھئی ببّن خاں کے باڑے میں ۔اللہ پروفیسر صاحب کو سلامت رکھے تاکہ مدیرانِ ساتھی کی اُردو کے جوڑ ڈھیلے کرنے والا کوئی تو ہو ۔
یاسمین حفیظ :
محترمہ ’’ساتھی‘‘ کے ہراول دستے قلمکاروں میں شامل ہیں۔خُوب لکھا ۔لکھ بھی رہی ہیں۔ٹوٹ بٹوٹ میں بھی ستّر کی دہائی میں رنگ جماچکی ہیں۔’’ساتھی‘‘ کے قارئین کو ادب برائے زندگی سے متعارف کروانا یاسمین کا اضافی وصف ہے۔یاسمین حفیظ کی خاص بات یہ ہے کہ اگر گفتگو کے دوران موضوع ان کا پسندیدہ نھیں ہے تو ’’جی اچھا ۔۔۔جی اچھا جی ‘‘ کہتی رہیں گی لیکن اگر موضوع ان کا پسندیدہ ہے تو پھر آپ کون ہوتے ہیں بولنے والے ؟؟ ان کے ساتھ ایک مسئلہ اور بھی ہے کہ ان کی عینک کے بغیر آپ ان کی درست عمر کا اندازہ نھیں لگاسکتے کیونکہ عینک لگا کر یاسمین ’’یاسمین ‘‘ لگتی ہیں اور عینک اُتار کر اپنی ہی ’’دادی ‘‘ لگا کرتی ہیں ۔اللہ ان کو بھی سلامت رکھے کہ ’’ساتھی‘‘ کے سیکڑوں صفحات یاسمین حفیظ کے ادبی رشحاتِ قلم سے آراستہ ہیں۔
اختر عباس :
۸۰ء کی دہائی سے ۹۰ء کی دہائی کا ممتاز نام رہے ۔ہمیشہ ہمیں کراچی خط لکھ کر یا فُون کرکے معلوم کرتے :’’یار ۔۔آج کل ساتھی کا مُدیر کون ہے ؟‘‘ ہم سمجھ جاتے کہ اختر کی مُراد ’’کرنٹ ایڈیٹر ‘‘ سے ہے۔ایک مرتبہ کراچی تشریف لائے تو لاہور کے ایک ممتاز بچوں کے پرچے کی ادارت فرمارہے تھے ۔بولے : ’’ساتھی ۔۔۔چھپ رہا ہے ؟‘‘
’’جی ہاں ، مُدیر نئے ہیں ۔‘‘ ہم نے بتایا تو صدمے سے دُہرے ہوگئے کیونکہ ابھی تو ان کی چند ماہ پُرانے مُدیر صاحب سے گاڑھی کیا ۔۔۔پتلی بھی نہ چھننا شروع ہوئی تھی کہ مدیر تبدیل۔ہم نے ان کی حالت دیکھ کر چوٹ کی:’’ہائے اللہ اختر۔۔۔اس بار تو حد ہی ہوگئی ، ظالموں نے عدت تک پوری نہ ہونے دی،کانٹا بدلنے کی ایسی جلدی ؟‘‘ ہکلا کر بولے :’’ بندۂ خدا سعود کمال عباسی کے بعد تو تُو چل میں آیا کا بورڈ لگ گیا ہے سلیم ایونیو میں !‘‘ ہم اُن سے حسبِ معمول کسی بات پر نالاں تھے ، لہٰذا قطعی نہ ہنسے ۔اختر عباس نے اُس وقت کی اسٹوڈنٹس بریانی کی فرمائش کی جب وہ کہیں سے بھی اسٹوڈنٹ نہ تھے ۔خیر ہم بریانی تناول فرما کر ریگل برنس روڈ کی طرف جا نکلے تو قریبی پارکوں میں بیٹھے لوگوں کو دیکھ کر بولے :’’مجیب تمہارے شہر میں لوگ کس قدر فارغ بیٹھے رہتے ہیں ۔‘‘ بس اُن کا یہ کہنا غضب ہوگیا ۔ہم اُن دنوں ایک مقامی روزنامہ میں ’’تیز و طرار مجیب ظفر انوار ‘‘ کے قلمی نام سے لکھ بھی رہے تھے ۔ بلبلا کر بولے :’’دیکھو اختر ، کراچی جیسا بھی ہے ، ہمارا مولد ہے۔ہم اس کی برائی مذاق میں بھی برداشت نھیں کرسکتے ۔آپ غور سے دیکھئے ، یہ لوگ یہاں فارغ نھیں بیٹھے بلکہ تاش یا جُوا کھیل رہے ہیں۔دوسری بات یہ کہ آپ کہتے ہیں کہ کراچی میں ہر شخص ڈور رہا ہے ، بھاگ رہا ہے ، تو قبلہ خدا جھوٹ نہ بلوائے ، یہاں تو لوگ بہت آہستہ آہستہ بھاگ رہے ہیں جبکہ آپ کے آبائی گاؤں میں تو لوگ اس سے چار گُنا زیادہ رفتار کے ساتھ بھاگتے ہیں !‘‘
’’لیکن خدا کے بندہ و ہ کب بھاگتے ہیں اس سے چار گُنا تیز ؟؟‘‘ اختر عباس نے اپنی سوالیہ نظریں ہم پر گاڑ دیں ۔
’جب اُن کے پیچھے آپ کے گاؤں کے خونخوار کُتّے لگ جاتے ہیں بھائی اور کب !!‘‘
فوراً رکوع میں چلے گئے اور جب پیٹ بھر کر ہنس چکے تو اُٹھے ، ہم سے گلے ملے اور اپنے ہوٹل کی جانب چل دئے۔اللہ اختر عباس کو اُن کے موجودہ ’’اردو ڈائجسٹ ‘‘ سمیت ہمیشہ سلامت رکھے ، آمین !
نوشاد عادل:
پتا نھیں کب نوشاد نے ساتھی میں پہلی تحریر لکھی ہوگی لیکن انہوں نے ’’ڈربہ کالونی ‘‘ ضرور لکھی ہے۔اپنی نو آموزا دبی زندگی میں جتنے تبصرے اور لعن طعن ہم نے ڈربہ کالونی پر کیے ، اس کا عشرِ عشیر بھی موجودہ اُردو ادب پر کرتے تو آج اونچے پایوں والے پلنگ پر لیٹنے والے ، یعنی بلند پایہ نقاد ہوتے۔اب اطلاعات مل رہی ہیں کہ نوشاد عادل ، ساتھی میں ’’ڈربہ ہائٹس ‘‘ کے نام سے نیا معرکہ سرانجام دینے والے ہیں۔ویسے ہمیں لگتا ہے کہ کراچی کے موجودہ دفلیٹوں کا نقشہ نوشاد کے ڈربی مکینوں کو دیکھ کر ہی بنایا گیا ہوگا کہ جب آدمی ڈربے میں رہ سکتا ہے تو چالیس گز کا فلیٹ کیا بُرا ہے ؟ بہادر شاہ ظفر اگر نوشادعادل کی ’’ڈربہ کالونی ‘‘ پڑھ لیتے تو سخت ناراض ہوجاتے کہ انھوں نے تو دو گز زمین برائے قبرمانگی تھی ، لیکن نوشاد تودو گزز مین پر پُورا پلازا بنانے پر مُصر ہیں ۔ہماری بلا سے نوشاد ایک گز کے ڈربے بنائیں یا چار ہزار گز کے کہانی پلاٹ ، بس خوش رہیں ، زندہ تندرست رہیں۔
عبد القادر :
ممتاز شاعر ،ساتھی کے جانے مانے ۔ہماری اُن سے پہلی ملاقات کچھ زیادہ خوشگوار نھیں ہے ۔کیونکہ بات ہی ایسی تھی،نوّے کی دہائی کے کوئی ساتھی ایوارڈز کی تقریب تھی،اچانک جناب عبد القادر کا نام پکارا گیا۔اسی وقت ہم بیٹھے بیٹھے اُکتا چکے تھے۔مدیران ساتھی ہمارا نام پکارنا ہی بھول چکے تھے۔تنگ آکر ہم ذرا ٹانگیں سیدھی کرنے کو کھڑے ہوئے کہ اچانک ایک صاحب ، سخت بوکھلائے ہوئے ہمارے عقب سے نمودار ہوئے اور ہمیں باقاعدہ ٹکر مارتے ہوئے سخت وحشت کے عالم میں ایوارڈز کی جانب لپکے۔ہم تو دنگ ، گنگ رہ گئے ، ایوارڈز سے ایسی محبت ؟ معلوم کرنے پر پتا چلا کہ یہ وہی محترم عبد القادر صاحب ہیں جو اپنی نظموں کے آخر میں مشکل الفاظ کے معنی بھی لکھ دیا کرتے ہیں اور کمپوزر بچّوں کے لیے دنیا ہی میں ایک ابدی امتحان گاہ قائم کردیتے ہیں۔بہت اچھے انسان ہیں ، اللہ سلامت رکھے۔
محمد افتخار کھوکھر :
ساتھی کا ایک اور نمایاں نام ۔دعوۃ اکادمی سے وابستہ رہے اور رٹائرمنٹ تک ہمیں ایوارڈ نہ دینے کی گویا قسم کھا کر اسی فارمولے پر کمر بستہ رہے۔دنیا کے ایک ایک رائٹر کو دعوۃ انعام مل گیا لیکن ہماری باری نہ آنا تھی ، نہ آئی ۔رٹائرمنٹ والی شام ہم نے فُون کرکے مبارک باد دی ، فوراً قبول کرلی۔ہم نے پوچھا :’’سر وہ۔۔۔دعوۃ اکادمی کے ایوارڈز کا سلسلہ بھی رٹائر کرکے سا تھ لے جائیے !‘‘
’’وہ کیوں بھائی ؟‘‘ مجسم سوال بن گئے ۔
’’وہ اس لیے سر کہ کہیں نئے آنے والے ڈائریکٹر صاحب آپ کی روایات سے بغاوت نہ کربیٹھیں !‘‘بات سمجھ کر خوب انجوائے کیا اور فرمایا : ’’بس اتفاق ہے حمیدی صاحب !‘‘
لیکن یہ اتفاق نھیں کہ ڈاکٹر محمد افتخار کھوکھر صاحب نے ’’دعوۃ اکادمی ‘‘ کے ذریعہ ادبِ اطفال کی بے پایاں خدمت کی ہے اور اسی اعزاز کو اپنائے اپنی سرکاری ذمہ داریوں سے سبک دوش ہوئے۔ساتھی میں بھی ’’اقبال کہانی ‘‘ نے رنگ جمائے رکھا ۔
اشتیاق احمد :
نجانے محترم مسعود احمد برکاتی صاحب نے ’’پاکستان چلڈرن رائٹرز گلڈ ‘‘(رجسٹرڈ) کی ماہانہ تقریب میں یہ پُرسکون بیان کب دے دیا کہ اشتیاق احمد نے بچّوں کے لیے اس قدر جاسوسی ناول لکھے ہیں کہ اگر اُن کو تلے اوپر رکھا جائے تو اُن کا قد اشتیاق احمد کے قد سے اونچا ہوگا۔اب تحقیق کرنا ہمارا کام ہے کہ یہاں ’’اشتیاقی قد ‘‘ سے مُراد ادبی قد و قامت ہے یا طبعی ؟ میرے خیال میں ہمیں کسی شاعر اور ادیب کے کردار سے کوئی سروکار نھیں ہوتا ،اگر ایسا ہوتا تو چچا غالبؔ ،مومن ؔ ، اقبالؔ ،فیضؔ سب کے سب ٹھپ ہوجاتے۔ہاں قطع نظر اس کے اشتیاق احمد موجودہ صدی میں ابنِ صفی (اسرار احمد) کے بعد اُردو جاسوسی ادب کا برصغیر ہند و پاک کا سب سے بڑا نام ہے۔انگلینڈ اور اسکنڈے نیوین ممالک میں اشتیاق احمد صاحب کے ناولوں پر کئی فلمیں بنیں ، خصوصاً اُن کا دروازے کے ہینڈل کے نیچے سے زہریلی سُوئی کا نکل آنا اور ملزم کو ہلاک کردینا تو کسی اچھوتے خیال کی طرح یورپ کی جاسوسی گلیوں میں اِتراتا پھرتا ہے۔افسوس اس حکومت اور قوم نے اشتیاق احمد کی بھی قدر نھیں کی۔اشتیاق بھائی وہیں ہیں ،جہاں جھنگ میں رہائش پذیر تھے۔آپ نے ’’چاند ستارے ‘‘ نکالا ، ہمارے ہاتھ میں خارش ہوئی اور ’’چاند‘‘ کہانی جو روزنامہ جنگ کے بچوں کے صفحہ پر غلام محی الدین شایع کرچکے تھے ، وہ اشتیاق صاحب کو روانہ کردی ۔حضرت کی سادگی ملاحظہ فرمائیے، آپ نے ’’چاند‘‘ کا نام تبدیل کیا اور ’’سونے کا قلم ‘‘ کے عنوان سے دوسرے شمارے میں شایع کردی ، بعد ازاں انتہائی نفاست کے ساتھ تین سو رُپے کا پہلا انعام بھی منی آرڈر کیا ۔ہم نے اُن تین سو رُپوں سے اپنے زمانۂ طالبِ علمی کے معصومانہ قرضے اُتارے اور خوش خوش پورے کراچی میں اُڑتے پھرے ۔واہ واہ اشتیاق احمد صاحب ، آپ تو پاکستان کی پہچان ہیں ، مان ہیں ، سرمایہ ہیں ،لیکن کیا کریں کہ حکومت والے ہماری بات پر کان نھیں دھرتے چلیں ہم نوبل ادب انعام کمیٹی کے کانوں میں یہ بات ڈالتے ہیں کہ آپ کو بچوں کے پاکستانی ادب کے سلسلے میں ایوارڈ دیا جائے لیکن سر ۔۔۔آپ اس بات کا خیال ضرور رکھیے گا کہ لاکھوں کڑوڑوں قارئین ہی آپ کا اصل ایوارڈ ہیں ، ہر چند کہ برصغیر میں یہی بات کہہ کہہ کر ادب کو گھاٹے کا سودا بنادیا گیا ہے۔اللہ اشتیاق احمد صاحب کو بھی سلامت رکھے ، آمین !
مظہر یوسف زئی :
انتہائی نستعلیق بزرگ ،مرحوم ہوئے ۔ ساتھی میں لکھنے کے لیے ہمیں یہ اعزاز حاصل ہے کہ حضرت کو مدعو کیا ۔آپ بڑے آدمی تھے ، مان گئے اور ساتھی کے صفحات آپ کے جواہر پاروں سے جگمگانے لگے۔مظہر اس قدر عظیم انسان تھے کہ ہمیں اُن کی ذات و صفات سے بے پناہ فائدے حاصل ہوئے ، خاص کر اُن کا رسالہ ’’ہماری دنیا ‘‘ جس میں مصطفٰے ہاشمی اُن کے دست راست تھے ،پڑھتے ہوئے ہمیں علی گڑھ کی اقدار یاد آجایا کرتیں۔اس قدر شان دار پرچہ اُن کی وفات کے بعد زمانے کی بے حسی کا شکار ہوگیا۔مظہر صاحب ’’روشن پاکستان ‘‘ کے مدیر اعلا بھی تھے اور ہم نے اُن کی زندگی ہی میں ایک مضمون ’’مظہر مائل قوت ‘‘ لکھا تھا ، جسے پڑھ کر خوب خوب خوش ہوئے تھے۔ہنسی کو چبا چبا کر اور پپول پپول کر انجوائے کرتے تھے۔اکثر بھول جاتے کہ چائے پلا چکے ہیں ، چناں چہ ایک ایک گھنٹے بعد چائے اور انتہائی مزے دار بسکٹ منگواتے رہتے ۔واحد ادیب ہیں جنھیں میں نے کبھی مالی مشکلات کا رونا روتے نھیں دیکھا ۔اللہ جانے کس کی حکومت تھی؟نیا پرچہ آنے والا تھا ۔ ہم نیاز حاصل کرنے جا دھمکے ، خُوب خوش ہوئے ، نئے نکور رسالے کی ورق گردانی کرتے ہوئے گویا ہوئے :’’حمیدی صاحب ، یہ نیا سلسلہ دیکھئے ، دنیا کا سب سے بڑا پاکستان میں ہے !‘‘ انگلی رکھ کر ایک نیا سلسلہ دکھایا ۔ہم نے پرچہ دیکھا ، دنیا کا سب سے بڑا موڑ پاکستان میں ہے ، دنیا میں سب سے اونچی سطح مرتفع پاکستان میں ہے ، دنیا میں سب سے بڑا دریا پاکستان میں ہے ۔وغیرہ وغیرہ ۔ہماری رگِ خباثت پھڑکی ،ا ن کے احترام کا خیال بھی نہ کیا (بالکل نوشاد عادل کی طرح ) اور کہا :’’سر جی ، یہ بھی تو لکھیے کہ دنیا کا سب سے بڑا چور بھی پاکستان میں ہے !‘‘ خوب خوب ہنسے ، خوب ہنسے ، بعد سر اُٹھا کر مسکراتے رہے ۔مظہر صاحب رائل کمپنی میں سینئر پوسٹ پر تھے اور بہت کم لوگ یہ جانتے ہیں کہ فی زمانہ سگرٹ کی ڈبیوں پر جو عبارت لکھی پائی جاتی ہے کہ :’’سگرٹ نوشی صحت کے لیے مُضر ہے ، وزارتِ صحت!‘‘ یہ مظہر یوسف زئی صاحب ہی کی عبارت ہے ۔انھوں نے ہی یہ لوگو تراشا،تاہم ہم نے انعام ملنے کے بعد ڈھڑلے سے کہا کہ :سر یاد رکھیے ، وزارتِ صحت ، صحت کے لیے مُضر ہے ، تمباکو نوشی !‘‘ فرمایا یہ آپ ’’حمیدی فاؤنڈیشن میں لکھیے گا !‘‘ خوب مُسکرائے ۔اُن دنوں ہم ’’حمیدی چلڈرن لٹریچر ایجوکیشن پروموشن ‘‘ کی داغ بیل ڈال رہے تھے اور محترمہ نسرین جلیل صاحبہ جو اُس وقت نائب سٹی ناظمہ تھیں ، میٹٹنگس کے سلسلے میں ہمیں اور پروفیسر ظریف خان صاحب کو بارہا زحمت دے چکی تھیں ۔مظہر صاحب پاکستان چلڈرن رائٹرز گلڈ کے انعقاد تک حیات نہ رہے ، اللہ آپ کو کروٹ کروٹ جنّت نصیب کرے ، آمین !
سید نعیم علی اشرف بیتھوی (اشرف بیتھوی ):
’’بِیتھو شرف‘‘ (صوبہ بِہار ) سے تعلق ہے ۔بچوں کے لیے شاعری کرتے ہیں۔بلکہ ایک مرتبہ تو ہم نے جل کر کہہ دیا تھا کہ ’’کیوں کرتے ہیں !‘‘ کوئی دوسرا کام بھی کریں ۔لیکن سرکاری ملازم تھے ، ہمیں لینے کے دینے پڑگئے ۔اشرف صاحب کو بھی پتا نھیں تھا کہ ہم سرکاری درباری ٹیچرہیں، وہ تو جب معاملہ بڑھا تو محترم مظہر یوسف زئی صاحب نے سمیٹا ۔بہت پیارے آدمی ہیں اور اکثر ہمیں مظہر صاحب کے گھر پر بھیج کر کہتے :’’آپ چلیں ، میں ابھی آتا ہوں !‘‘ پھر ان کے آجانے پر محفل جمتی ۔سب سے کوفت ہمیں اشرف بھائی سے اُس وقت ہوتی تھی جب ببانگ دہل فرماتے کہ یار گلبرگ چورنگی تک گاڑی تک لے کر آجاؤ ، آپ کا تو ڈرائیور ہے ۔یاد رہے کہ اُس وقت پٹرول سے ہی گاڑیاں چلتی تھیں جو تیس رُپے لیٹر تھا ، چنانچہ ہم ٹنکی فُل کروا کر پُورے گلبرگ ٹاؤن بلاک بارہ ، تیرہ ، اٹھارہ اور سترہ میں اور احتیاطاً کنووں اور کھائیوں میں بھی اشرف بیتھوی صاحب کو تلاش کرلیا کرتے کہ حضرت کہاں گئے ؟ یا اللہ ! ایک گھنٹہ بعد موبائل سُن ہی لیتے :’’جی جی ۔۔۔بس بس بس ۔۔۔۔‘‘ ، ’’سر جی کون سی بس؟یہ جو سامنے آرہی ہے ؟‘‘ہم جلبلا جاتے۔’’اوہ نھیں بھائی ، بس گھر سے نکلنے ہی والاہوں!‘‘ ان کا یہ جملہ سُن کر ہم پر کیا گزرتی ہوگی ، آپ اندازہ لگالیجئے۔ایک مرتبہ اشرف بیتھوی صاحب نے اپنی کتاب کے لیے اپنی بڑی زبردست سی کوئی تصویر کھنچوائی ۔وہی تصویر کوئی بچوں کا رسالہ ’’اشرف بیتھوی نمبر ‘‘ کے سرورق کے لیے مانگ رہا تھا ۔فوٹو لے کر ہمارے پاس تشریف لائے ۔’’دیکھ کر بتاؤ کیسی لگ رہی ہے !‘‘
ہم نے تصویر اُلٹنا پلٹنا شروع کی ۔دس منٹ گزر گئے ۔’’کیا ہوگیا بھائی ؟‘‘ بلبلا اُٹھے۔’’سر۔۔۔بس سائڈ پوز ، فرنٹ پوز، پینتالیس درجہ کے زاویے سے ٹھیک نھیں آئی ہے لیکن بخدا پُشت پر سے بہترین ہوگی ، وہی پوز لیجئے فوٹو گریفر سے !‘‘ ٹھٹھا مارا ۔خُوب ہنسے ۔اللہ اشرف بیتھوی صاحب کو سدا ہنستا مُسکراتا رکھے ، آمین !
ضیا ء الرحمٰن ضیاء :
معروف شاعر ، بہت ہی ملنسار انسان ، بڑی مقفٰی اور بامعنی نپی تُلی شاعری کرتے ہیں۔ایکسپو میں اردو نمائش کے مواقع پر ملاقاتیں ہوتی رہتی ہیں ۔اکثر فرماتے ہیں کہ میں معلم ہوں اور بڑوں کے لیے بھی شاعری کرتا ہوں ، کئی مشاعرے لُوٹ چکا ہوں۔ضیاء بھائی کی اس بات پر ہم انھیں نظر بھر کر دیکھتے ہیں کہ اچھے بھلے شریف ، بھلے مانس انسان ہیں ، کہیں سے بھی لُٹیرے نھیں لگتے ،پھر مشاعرے کیسے لُوٹ سکتے ہیں ؟کہہ دیجئے یہ غلط ہے !
تنویر پھول ؔ :
بہت بڑے شاعر ، بہترین انسان ۔امریکہ میں گذشتہ دس برسوں سے مقیم ہیں۔بچوں کے منجھے ہوئے شاعر، حمد و نعت کا ایک معتبر حوالہ۔ان دنوں شدید علیل ہیں اور امریکہ میں اپنی صاحب زادی کے پاس مقیم ہیں۔اللہ تنویر پھولؔ صاحب کو سدا سلامت رکھے ، آمین ! کئی واقعات ہیں ، لیکن مضمون طویل ہوجائے گا ۔پھر سہی !تنویر پھولؔ صاحب کی ہر نظم بچوں کے پرچے کے لیے کسی ’’تحفہ‘‘ سے کم نھیں ہوتی۔حکومتِ پاکستان نے آپ کی کئی کتابوں مثلاً ’’چڑیا ، تتلی ، پھول ‘‘ کو بارہا سرکاری اعزازات سے نوازا ہے۔
محمد انوار احمد :
اسی قبیل کے معروف شاعر،عمر میں محترم مسعود احمد برکاتی صاحب سے سینئر تھے،مرحوم ہوئے۔بہت نفیس انسان ۔حمیدی چلڈرن فاؤنڈیشن کی ماہانہ تقاریب میں اپنی موٹر سائکل خود چلا کر تشریف لایا کرتے۔اب پچاس سال سے اوپر کا ہوکر محمد انوار احمد صاحب کی تاب و طاقت کو محسوس کرتا ہوں کہ بچوں کا ادیب واقعی توانا اور کردار کا انتہائی مضبوط ہوتا ہے۔میری ’’ساتھی‘‘ والوں سے گزارش ہے کہ محمد انوار احمد صاحب کی ادبی خدمات کے سلسلے میں انھیں ’’نشانِ سپاس ‘‘ پیش کیا جائے ۔محمد انوار احمد اتنے پیارے ، ٹھنڈے ، میٹھے انسان تھے کہ اُن سے ملتے ہی ایک تو یہ گُمان گزرتا کہ حضرت پاکستان جیسے ’’گرم مزاج ‘‘ ملک میں نھیں رہتے اور دوم یہ کہ جب بچوں کے لیے لکھنے والے حضرات اس قدر نستعلیق ہیں تو پھر ’’بچوں کا پاکستانی ادب‘‘ کس قدر باکمال ہوگا ۔صاحبو ، مسعود برکاتی ، انوار احمد اور مظہر یوسف زئی ہمارے ادبِ اطفال کے گراں مایہ تحفے ہیں۔
صفیہ سلطانہ صدیقی :
اللہ جانے اُس وقت کم سن تھیں ، نوجوان تھیں یا پُختہ عمر میں داخل ہوچکی تھیں۔بہر حال فی زمانہ تو ڈاکٹر ہیں۔میں اُس زمانے کا تذکرہ کرتا ہوں جب بیٹھے بٹھائے میرے جی میں آئی اور اپنی ایک کہانی کو ’’بلا عنوان‘‘ کا نام دے کر ’’ساتھی ‘‘ میں چھپنے کو بھیج دیا ۔عظیم الدین اوّل بھائی نے وہ اگلے ماہ چھاپ دی۔اب بچّوں نے اور قارئین نے میری بلاعنوان کے عنوانات بھیجنا شروع کیے۔جو خطوط آتے ، وہ ساتھی کے ذریعہ مجھے گھر پر مل جاتے۔اُن ہی خطوط میں سے ایک دن ایک انتہائی صاف ستھرا نستعلیق خط لفافے سے مسکراتا ہوا نکلا ، بالکل مستند عنوان۔بھیجنے والی تھیں ’’ صفیہ سلطانہ صدیقی ‘‘ ، مجھے نھیں یاد آتا کہ ۱۹۸۷ء سے پہلے میں نے کہیں صفیہ سلطانہ صدیقی کا نام پڑھا ہو۔خیر میں نے انھیں تعریفی خط لکھا اور انعام کے طور پر کچھ کتابیں خاص کر حکیم محمد سعید صاحب کی ’’سب سے بڑا انسان ؐ ‘‘ اُن دنوں خاصی مقبول تھی ، بھجوادی ۔انعام ملنے کی خبر محترمہ صفیہ سلطان نے ساتھی رسالے میں دی اور یوں مجھے یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ ڈاکٹر صفیہ سلطانہ صدیقی کو ماہنامہ ساتھی تک لایا ۔
مومن آرٹسٹ :
بطور خاص تذکرہ کروں گا ۔ساتھی کے اسکیچز جس مہارت اور مشاقی سے مومن صاحب نے بنائے ہیں شاید ہی کوئی دوسرا یہ کام کرسکے۔بچوں کے ایک مقامی پرچے کی کہانیوں کی تصاویر بھی بناتے تھے لیکن ’’ساتھی‘‘ میں فرقان بھائی اور آپ نے جان ڈال دی تھی۔جب ساتھی ’’پیامی ‘‘ کے نام سے چھپتا تھا تو اُس وقت کہانیوں کے ساتھ تصاویر تو ’’ساتھی ‘‘ کی پالیسی میں شامل نھیں تھیں لیکن اسّی کی دہائی کے آخر تک کہانیوں کے ساتھ اسکیچز بھی دئے جانے لگے۔مومن صاحب نے اس قدر بہترین تصاویر بنائیں کہ ہم یہ بات کہنے پر مجبور ہوگئے اور بچوں کے کسی پرچے میں لکھ دی کہ مومن بھائی تو ساتھی کی تصویروں میں جان ڈال دیتے ہیں۔فوراًکسی دل جلے نے ہماری بات کا جواب دیا کہ کیا مومن صاحب اوکسی جن(آکسیجن) دے کر اپنی تصویریں بناتے ہیں۔اللہ سلامت رکھے ، اچھے آدمی ہیں۔اچھے انسانوں کی اس دور میں سخت ضرورت ہے ۔
ڈاکٹر طاہر مسعود :
متین ، حلیم ،قابل قلم کار ہیں۔ہماری طاہر مسعود صاحب سے اُس وقت سے سلام اللہ ہے جب موصوف ایک مقبول فُوڈ انڈسٹری کے بینر تلے شایع ہونے والے بچّوں کے مقبول ترین ماہنامے کی مُدیر اعلا تھے۔ہمیں یوں اچھا لگا کرتے کہ کہانیوں کا بہترین معاوضہ دیتے ، ہماری کہانیوں میں معمولی کتر بیونت کیا کرتے، بروقت شایع کردیتے ۔ کیا کسی شفیق ایڈیٹر میں مزید خصوصیات کا ہونا بھی ضروری ہے؟آپ نے بچوں کے اُس مقبول زمانہ پرچے کے کئی خاص الخاص نمبر بھی شایع فرمائے ، جن میں ’’عالمی ادب نمبر ‘‘ آج ادبِ اطفال کی ایک شناخت بن چکا ہے۔اکثر کہانیوں کے حوالے سے نِت نئے تجربات کرتے رہتے اور اپنے دیرینہ رفیق پروفیسر سلیم مغل کے ساتھ پرچے کو شب و روز ترقی دینے کے جتن کیا کرتے۔ڈاکٹر طاہر مسعود جامعۂ کراچی کے شعبۂ صحافت (ماس کام ) سے وابستہ رہے۔پروفیسر صاحب نے معاشرے کو اپنے بہترین شاگرد تفویض فرمائے،جن کی چمک دمک سے اُفقِ صحافتِ پاکستان خیرہ ہے ۔جیو پروفیسر صاحب !
شبی فاروقی ، پروفیسر :
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب میں دہلی گورنمنٹ کالج سے اسسٹنٹ پروفیسر ترقی پاکر سراج الدولہ کالج میں گیا تھا تو ہم لوگ جانے کو ہوتے کہ شام کے اساتذہ کرام تشریف لے آتے ۔اُن اساتذہ کرام سے کبھی گفتگو ہوتی اور کبھی محض سلام دعا۔اُن میں سے شام کے کالج میں ہی ایک پروفیسر صاحب ہوا کرتے تھے، اُردو ہی کے عاشق تھے ، محترم شبی فاروقی ،شاعری خُوب فرماتے ۔ہم سب اکثر کالج کے نزدیک کسی چائے کے صاف ستھرے ہوٹل کا انتخاب کرکے جناب شبی فاروقی صاحب کی بہترین شاعری پر سر دُھنا کرتے ۔یہ بات میرے وہم و گُمان میں بھی نہ تھی کہ آپ نے ’’ساتھی‘‘ کے صفحات پر کسی سال رنگ بکھیرے ہیں۔ساتھی والوں کی خاص بات ہے کہ کوئی ان کے لیے ایک تحریر بھی لکھ دے تو اسے یہ لوگ یاد رکھتے ہیں اور ایوارڈز کی سالانہ ’’بندر بانٹ ‘‘ میں ضرور بلاتے ہیں ، ہاہاہا۔۔۔ایک تو بہت دیر سے ہنسا نھیں تھا اور پھر کمپوز کرتے کرتے تھک چکا تھا ، علیل بھی ہوں اور ساتھی کا خلیل بھی ۔ہاں ! تو ایک ایوارڈ کی تقریب میں محترم پروفیسر شبی فاروقی سے ملاقات ہوگئی ۔فاران کلب میں انتظام تھا ،شبیؔ فاروقی اسٹیج پر اپنا کلام پیش کررہے تھے۔میں نے اُترنے کے بعد اُن سے سلام دعا کی ، فوراً پہچان گئے ، سراج الدولہ کالج کے بارے میں اور موجودہ اسٹاف کے بارے میں دریافت کرتے رہے۔مجھے خوشی ہوئی کہ عرصہ دراز امریکا میں گزارنے کے بعد بھی وہ اپنے کالج اور شاگردوں کو نھیں بھولے تھے۔
اُفق دہلوی :
بچوں کے جانے مانے شاعر ہیں،لاہور میں شروع سے مقیم ہیں،یعنی جب سے ہماری جان پہچان ہوئی ،لاہور ہی میں ملے ۔کراچی آکر چلڈرن گِلڈ کے پروگراموں میں شرکت فرمائی اور ہماری بیگم صاحبہ کے ہاتھ کے ’’گلاوٹ کے قیمہ ‘‘ کی تعریف کرتے رہے۔ہم نے کہا :’’صاحب ، جب یہ بندہ گل گیا ان کے آگے تو قیمہ کی کیا مجال ؟‘‘ ، بالکل نہ ہنسے۔کیونکہ پُوری تن دہی سے کھانے کے ساتھ انصاف فرمارہے تھے۔اُفق دہلوی صاحب بچوں کے لیے بڑی مزے دار نظمیں کہا کرتے تھے،اب نجانے کیوں ’’ساتھی‘‘ سے دُور ہیں۔ہماری سنجیدہ کہانیوں میں ’’زندگی بھر ‘‘ اور شرارتی کہانیوں میں ’’دادا جان کی ران ‘‘ کی بے انتہا تعریف کیا کرتے تھے۔ہماری ’’اردو شاعری کی سیریز ‘‘ ، اردو شاعری کی ٹانگ ، اردو شاعری کا ہاتھ ، اردو شاعری کا چہرہ، اردو شاعری کا منھ بھی اُن کی پسندیدہ کہانیاں تھیں۔فرماتے ہیں : ’’حمیدی آپ سے بہترین مزاح بچوں کے لیے کوئی لکھ نھیں سکتا !‘‘۔اسی بات پر ہم نے اُفق بھائی کے ہاتھ پہ ہاتھ مار کر انھیں اس بزم میں زحمت دی ہے۔ہر مصرعہ کے آغاز میں متحرک لفظ شامل کرنا اور ’’بحر ‘‘ کا خاص خیال رکھنا جناب اُفق دہلوی کے محرکات ہیں۔
ابنِ آس:
محمد اختر خان،ابن آس ، معروف ڈراما نگار ،بچوں کے سابقہ کہانی نویس ۔’’ساتھی ‘‘ میں حکومت کرتے رہے اور ہمیں ان کی ’’جاسوسِ اعظم‘‘ اور ’’بھائی میاں بکرا پیڑھی میں ‘‘ آج بھی یاد ہیں۔ابن آس نے زندگی کو بہت قریب سے برتا ہے،ایک ایسی زندگی کو جس میں اپنے زندہ رہنے کے لیے ، زندگی کی بقا کے لیے ہر روز کنواں کھودنا پڑتا ہے۔ابنِ آس نے اپنی کہانیوں کے ذریعہ سے ’’بچوں کے جدید سائنٹفک ادب ‘‘ کو ایک نیا آہنگ ، ایک نیا اسلوب عطا کردیا۔آپ کی کہانیوں میں محنت کش بچّے موجود ہیں۔ابن آس نے کئی پرچوں پر حکومت کی ہے اور آپ کے قارئین کا وسیع حلقہ آج بھی آپ کی کہانیوں کا منتظر ہے۔مجھے اِس روکھے ، پھیکے، کوفت زدہ ، عرفِ عام میں ’’کھوجر بُھٹّے ‘‘ ہا ہا ۔۔۔۔ آدمی میں ایسی کوئی بات نظر نہ آئی کہ ان کا تعارف مزاحیہ انداز میں پیش کروں۔میٹرک کرنے کے پچاس سال بعد ہمیں ایک ایس ایم ایس میں بتایا :’’مجیب تمہیں یاد ہے ، ہمارے ساتھ نویں جماعت میں ایک قاری لڑکا بھی پڑھا کرتا تھا ، وہ گلبرگ میں کہیں رہتا تھا ، اس کا پتا تو کرو !‘‘ جوابی سندیسے میں ہم نے کراچی کے ایک مقامی قبرستان کی ایک قبر کا حوالہ دیا ۔زار زار ہنسے اور لکھا :’’او بھائی ، دنیا بدل گئی، تم نھیں بدلے !‘‘ کوئی ہمیں بتائے کہ ’’شریف شوہر ‘‘ کیا بدلنے کے لیے ہوتا ہے؟ابنِ آس ۔۔۔جیو ۔۔جیو ۔۔۔جیتے رہو !
شازیہ فرحین :
محترمہ سے میری ملاقات کبھی نھیں ہوئی ، تاہم اس لیے ذہن میں رہ گئیں کہ ان کی کسی کہانی کو ’’ساتھی‘‘ میں پڑھ کر ہمیں بہت ہنسی آئی تھی اور دماغی بیماریوں کے ماہر نے جواب دے دیا تھا ( ہمیں ) ساتھ ساتھ بچوں کے دوسرے پرچوں میں بھی نظر آتی رہیں۔
فرحانہ افتخار صدیقی:
ساتھی میں بچوں کا پہلا ناول ’’پنجرہ ‘‘ لکھا ،معلمہ ہیں اور ایک مقامی اسکول کی پرنسپل صاحبہ ہیں۔بہترین کہانیاں لکھا کرتی تھیں ،لیکن عرصہ سے رُوپوش ہیں۔فرحانہ اگر آپ میری سطور پڑھ رہی ہیں تو گزارش ہے کہ ’’ساتھی‘‘ کے لیے لکھنے کا اعزاز از سرِ نو حاصل کیجئے۔’’پنجرہ ‘‘ غالباً ۸۶۔۱۹۸۵ء میں دو اقساط میں شایع ہوئی تھی۔

احمد حاطب صدیقی :
معروف مزاح نویس ،کراچی کے ایک روزنامہ میں کالم بھی لکھتے رہے۔بچّوں سے خصوصی محبت کے باعث ’’ساتھی ‘‘ اور دیگر پرچوں میں جم کر لکھا ، ’’یہ بات سمجھ میں آئی نھیں ، کیوں امّی نے سمجھائی نھیں ، میں میٹھی باتیں کیسے کروں؟ جب میٹھی چِجّی کھائی نھیں !‘‘ آپ کی سماعتوں میں آج بھی رَس گھولتی ہوگی۔کلام میں بلا کی روانی اور مٹھاس ہے۔نثر کے بھی ماہر ہیں۔فی زمانہ ایسے افراد کی نظم و نثر تھکے ماندہ معاشرے کے لیے پانی کی وہ تاثیر قرار پاتی ہے جو زندگی کا پتا دیتی ہے۔بانسری کی وہ لَے ، جو زندگی کو تازہ دم کیا کرتی ہے۔صدیقی صاحب خوش رہئیے جناب !
کلیم چغتائی :
جناب عالی !
’’جنابِ عالی ‘‘ لکھ کر جناب کلیم چغتائی کے خلوص کا اعتراف کررہا ہوں۔آپ جس پرچے میں بھی گئے ، ہماری تحریروں کو بڑی محبت و مُروّت کے ساتھ شایع فرماتے رہے۔ماہنامہ ’’ساتھی‘‘ کے پہلے مُدیر ہیں۔آپ اُس وقت سے ’’ساتھی‘‘ کی آب یاری فرمارہے ہیں ، جب وہ ’’پیامی‘‘ کے نام سے ’’مطبوعاتِ جماعتِ اسلامی‘‘ کا اہم جریدہ ہو اکرتا تھا۔بچوں کے لیے کلیم چغتائی صاحب کی ننھی مُنّی کہانیاں بھی لاہور ، اچھرہ سے شایع ہوئیں ، جن میں مجھے ’’بند ڈبّے کا راز ‘‘ یا ’’بندپیکٹ کا راز ‘‘ بہت پسند آئی تھی۔کلیم چغتائی صاحب جانتے ہیں کہ بچوں کے اسلامی ادب کو کن خطوط پر گامزن کیا جاسکتا ہے۔عرصہ سے مصروف کار ہیں ، سلامت رہئیے چغتائی صاحب۔
مُنیر احمد راشد :
’’کمانڈو نمبر چار ‘‘ مُنیر احمد راشد صاحب کا اصل نام ہے۔مذاق ، مذاق میں ’’ساتھی ‘‘ میں ’’کمانڈو کہانی ‘‘ کی داغ بیل ڈالی جو آگے چل کر اس قدر طویل ہوئی کہ راشد بھی بھول گئے کہ یا اللہ ، یہ شروع کہاں سے ہوئی تھی اور کہاں تک پہنچے گی ،خیر ، قارئین نے ہاتھ پیر جوڑ کر اس طویل ترین کہانی کا اختتام کرا ہی دیا ،کیونکہ ان کے ’’کمانڈو نامہ‘‘ کی نظر ہم غریبوں ، بے بسوں کی ننھی مُنّی کہانیاں ہورہی تھیں۔اللہ اللہ کرکے ’’کمانڈو فور ‘‘ کو اختتام نصیب ہوا اور ہمیں ’’سکون کا سانس ‘‘ ! منیراحمد راشد بہت پیارے انسان ہیں ۔ہم نے ان کے ساتھ بچوں کے ایک مقامی پرچے میں ’’لنچ ‘‘ بہت کھائے ہیں۔بعد ازاں تو ہمیں وہ ہوٹل کی چنے کی دال ، قیمہ آلو اس قدر بھا گئے تھے کہ ایک زمانے میں ہمارا قلبی معالج بھی ہمارے پیچھے پیچھے ’’جیل چورنگی ‘‘ کے اُن ہوٹلوں تک پہنچ جاتا ، جہاں ہم اُن ڈاک صاب کو اس رشوت پر شریکِ طعام کرتے کہ ملاقات پر وہ ہماری بیگم کو اس ’’سادہ غذا ‘‘ کے بارے میں کچھ نھیں بتائے گا ۔ڈاکٹر تصور حسین صاحب وعدہ کرلیا کرتے ۔ہم نے دیکھا کہ مُنیر احمد راشد بالکل ’’بُڑھیا ‘‘ چکے ہیں ، ہاہاہا۔۔۔۔ بھئی ابھی ان کی عمر ہی کیا ہے ؟ ہم سے ایک آدھ ماہ ہی آگے پیچھے ہوں گے موصوف ، سلامت رہئیے جناب ۔۔۔
میر شاہد حسین :
منیر احمد راشد صاحب کی طرح آپ بھی ’’ساتھی ‘‘ کے کوئی نہ کوئی مُدیر رہے۔ایک مرتبہ اختر عباس نے مجھے لاہور سے خط لکھا کہ بھائی میاں ! ساتھی والوں سے ملاقات کی کوئی سبیل پیدا کرو ۔میں ایک ایڈیٹر کو خط لکھتا ہوں تو پتا چلتا ہے کہ وہ تبدیل ہوگیا۔ہم نے فُون پر اختر عباس سے وعدہ کرلیا کہ پُوچھ کر بتائیں گے۔اگلے روز ہم ڈاکٹر محمد محسن (واٹر پمپی ) سے ایک میڈیکل پیڈ لائے اور اخترعباس کو حسبِ معمول ایک طویل ترین خط لکھا : ’’ بھائی اختر ، بات یہ ہے کہ تمہارا خط ملا جناب سعود کمال عباسی کو ، پڑھا جناب عظیم الدین اوّل نے ، جواب لکھا جنا ب صادق جمیل نے ، لفافے میں ڈالا منیر احمد راشد نے ، لفافہ چپکایا صہیب جمال نے ، پوسٹ کیا میر شاہد حسین نے ،ابھی وہ تمہارے خط کا جواب پوسٹ کر کے ہی آئے تھے کہ میر حامد نے اُن کا تختۂ ادارت اُلٹ دیا ۔اب بتاؤ تم کس کو جواب لکھو گے۔اس خط کو پڑھ کر پروفیسر اختر عباس اس قدر جذباتی ہوگئے کہ کراچی تشریف لے آئے اور محفل محفل ہماا خط دکھا کر ’’داد‘‘ وصولتے دیکھے گئے ۔شاہد حسین صاحب ، بخدا مجھے آپ کی کوئی کہانی اس وقت یاد نھیں آرہی ۔
حماد ظہیر :
ہنستی مُسکراتی کہانیوں کے خالق ،حماد ظہیر ۔اکثر ہماری کہانیاں کراچی یونیورسٹی کی انتظار گاہ میں پڑھتے ہوئے گرفتار کیے گئے۔خوش قسمتی سے اساتذہ کرام میں پروفیسر طاہر مسعود صاحب بھی شامل تھے ، اس لیے بچت ہوگئی ۔بچوں کے ادب میں ’’مجیب ظفر انوار‘‘ کو وہی مقام حاصل ہے جو ’’بُڈھوں کے ادب ‘‘ میں سعادت حسن منٹو اور عصمت چغتائی کو حاصل ہے۔حماد ظہیر صاحب نے ایک علمی و ادبی خانوادے میں آنکھ کھولی ، مولوی شفیع الدین نیّر ، اپنے والد صفدر رضوی ، والدہ اُمِ کاشان ، بھائی صاحب سیّد کاشان جعفری اور دیگر کی صحبت میں رہ رہ کر اچھا خاصا لکھنا سیکھ گئے۔ہمیں یاد ہے کہ کہیں یہ بیان دیا تھا کہ نیا ’’ساتھی ‘‘ موصول ہوتے ہی نائلہ صدیقی ، عادل منہاج ، حماد ظہیر اور سیما صدیقی کی کہانیاں تلاشتا ہوں۔حماد نے بچوں کے ایک پرچے میں شاعری بھی کی جس کے نتیجے میں لاہور سے اچھا خاصا شایع ہوتا وہ پرچہ بند ہوگیا ۔خوش رہئے حماد ، دعائیں !
اُمِ کاشان :
محترمہ بھابھی صاحبہ کا اصل نام معلوم نھیں ، لیکن میں انھیں ’’اُمِ ادبِ اطفال ‘‘ کہا کرتا ہوں کیونکہ بچوں کے پاکستانی ادب کو آپ نے پانچ عدد توانا ’’ادیب و شاعر ‘‘ تفویض کیے ہیں جن میں کاشان جعفری ، حماد ظہیر ، ذیشان بن صفدر ،میرے ذہن میں ہیں۔اللہ سے دعا ہے کہ محترمہ اُمِ کاشان سلامت رہیں اور اپنے رشحاتِ قلم سے بچوں کے ادب کو مہکاتی ، سنوارتی رہیں، آمین !
الطاف پاریکھ قادری :
الطاف پاریکھ ’’پاکستان چلڈرن رائٹرز گلڈ ‘‘ کے اعزازی جنرل سیکریٹری رہے،بچوں کے سینیئر قلم کار ہیں۔بچوں کے ادب کے حوالہ سے کچھ نہ کچھ کرتے اور ہم سے کرواتے ہی رہتے ہیں۔ماشاء اللہ سنجیدہ عمر میں بھی اپنے بیٹے سے انٹرنیٹ سیکھا (واضح رہے ، سنجیدہ عمر آپ کے بیٹے کے تھی )۔الطاف پاریکھ بڑے اچھے انسان ہیں ۔ہمیشہ بغیر اطلاع دیے تشریف لائے اور ہماری بیگم کو ہمارے آگے گھگھیانے پر مجبور کردیا کہ :’’مجیب ہائے اللہ ، کوئی صاحب اتنی دُور سے آئے ہیں ، میں تو جُھوٹ نھیں بولوں گی کہ آپ ڈاکٹر کے گئے ہیں ، گاڑی کھڑی ہے !وہ دیکھ چکے ہیں!‘‘ ہم تلملا کر کہتے :’’صاحب نھیں ، الطاف پاریکھ ہیں وہ ،جا کر کہہ دو ہم سورہے ہیں ، کیوں بغیر فُون کیے تشریف لاتے ہیں؟ جبکہ دنیا کو خبر ہے کہ ہم بیمار ہیں ۔خود الطاف پاریکھ نے جنگ میں ہماری دعائے صحت کی خبر چھپوائی کئی مرتبہ ، حالانکہ اُس وقت ہم اُن کے ساتھ ’’گوگو بریانی ‘‘ یا برنس روڈ کی نہاری کھا رہے ہوتے۔الطاف پاریکھ کی خاص بات یہ ہے کہ بچوں کے ادب سے وابستہ تقاریب کے جتنے فوٹو ان کے پاس محفوظ ہیں ، دعوے سے کہہ سکتا ہوں ، کسی اورکے ریکارڈ میں نھیں ہوں گے ۔خیر ، یہ باتیں تو چلتی ہی رہیں گی ، ساتھی رائٹرز ایوارڈز میں نظر آتے رہے ، بڑے با اصول انسان ہیں۔السلام علیکم الطاف پاریکھ صاحب!
شانِ مُسلم :
یہ ٹھیک ہے کہ مردِ مومن اور مردِ مُسلم کی اپنی ایک شان ہوتی ہے لیکن حضرت کا اسمِ گرامی کیا ہے؟ اسمِ گرامی ہے یا اسمِ کیلو گرامی ؟اسمِ پاؤنڈی ہے یا کچھ اسی قبیل کا ؟ہمارے علم میں نھیں۔تاہم ’’ساتھی ‘‘ میں ’’گوریلا فائٹرز ‘‘ کے ساتھ تشریف لائے اور مستقل ڈیرے ڈالنے کے منصوبے بنانے لگے ۔ہم جنگ و جدال کی کہانیوں سے سوتے میں بھی ڈرتے ہیں ، جب ’’گوریلوں ‘‘ نے زیادہ ہی آفت مچائی تو ہم نے حسبِ عادت سازشوں کے جال بچھانے شروع کردئے ، منیر احمد راشد کو اُکسایا ، یہ تو بھیّا کمانڈو فور کا بھی ریکارڈ توڑ دے گی ’’گوریلا جنگجو‘‘ ، مگر اُن دنوں کسی کے سر میں جوئیں نہ پڑی تھیں ،اس لیے کسی کے کان پر ایک جُوں نہ رینگی۔بہر حال اللہ پیر کرکے خدا معلوم کس مہینے ’’گوریلوں ‘‘ کو کراچی بدر کیا گیا ، ہمیں نھیں معلوم ، معلوم تو یہ ہے کہ شانِ مسلم صاحب بہت اچھے آدمی ہیں ، ہم نے اسی مارے بھی آپ کو زحمت دی ہے جناب !
لعل بخش :
بھلا ’’ساتھی ‘‘ کی ترویج و اشاعت کا معاملہ ہو اور جناب لعل بخش کا نام نہ لیا جائے تو یہ زیادتی ہوگی۔جن دنوں ہم زیادہ ’’جوان ‘‘ تھے ، اُن دنوں چھلانگیں مارتے گلشنِ اقبال میں شام پانچ سے پہلے ہی جا دھمکتے ،ساتھی والے تو بعد عصر پہنچتے ،لیکن لعل بخش بھائی سے ملاقات گراؤنڈ فلور ہی پر ہوجاتی۔ہم نے ان کا نام ’’ساتھی ‘‘ کی اندرونی لوح پر پڑھ رکھا تھا ، اس لیے خصوصی تاکید کرتے ہوئے اپنی کہانیاں لعل بخش صاحب کے حوالہ کردیتے کہ دیکھئے صاحب، عین مین ایڈیٹر صاحب ہی کے ہاتھ میں دیجئے گا ، کہیں اِدھر ، اُدھر بھول نہ جائیے گا۔وعدہ کیجئے ۔وہ اردو شاعری کے روایتی محبوب کی طرح وعدہ کرلیتے اور نتیجتاً اگلے ہی ماہ ہماری کہانی ۔۔۔۔ شایع نھیں ہوپاتی۔جب غلغلہ پڑتا تو پتا چلتا کہ اس ’’غدر ‘‘ کا محرک جناب لعل بخش ہیں ، ہم تو بیواؤں کی طرح جھولی پھیلا پھیلا کر دہائیاں دیتے۔مرزا غالب کی طرح ہائے ہائے کیا کرتے لیکن لعل بخش بھائی کا ایک ہی جواب کہ :’’ دے دی تھے ایڈیٹر صاحب کو ! ‘‘ لیجئے ، کہانی رُخصت پانے والے مُدیر صاحب کے بیگ میں نکلی اور مُفت میں بدنام ’’لعل بخش ‘‘ ہوئے۔خوش رہئے جناب ۔
نجیب احمد حنفی :
مجھے اس دھان پان سے شرارتی لڑکے سے خدا واسطے کا بَیر ہے ، وہ یوں کہ ساتھی کے سابق مدیر ہیں(یہ تو ایک معقول وجہ ہوئی ) ، دوسری وجہ یہ کہ ایوارڈ کی ہر تقریب جو ،ان کے ’’دورِ زلزلال ‘ ‘ میں ہوئی ، اس کی نظامت خود ہی فرماتے ، حضرت کو یہ وہم ہوگیا تھا کہ ادبی مزاح لکھتے اور بولتے ہیں، چنانچہ ’’ساتھی ایوارڈ ‘‘ کی تقریب میں ہم اپنی اکلوتی بیگم کو لے کر ’’ایوارڈ گاہ‘‘ پہنچے ،نجیب احمد حنفی صاحب حسب عادت مائک کو ثابت نگلنے کی کاوشوں میں مصروف تھے، ہمارا تعارف کرایا :’’آئیے اب ملتے ہیں، بچوں کے ممتاز ترین ادیب سے ، جو مجیب بھی ہیں ، ظفر بھی ہیں ، انوار بھی ہیں ، حمیدی بھی ہیں ، پروفیسر بھی اور ڈاکٹر بھی ہیں !‘‘ ہماری بیگم صیب تو کھونٹا چُھڑا کر باہر کو لپکیں۔اللہ پیر کرکے انھیں واپس بلایا کہ بخدا تمہارا نکاح ایک ہی آدمی سے ہوا ہے، یہ لڑکا ہذیان کہتا ہے ، ہرگز نہ مانیں ، بولیں ، یہ ممتاز کون ہے ؟ ہائے ہائے ، اُس وقت کو کوسا جب ’’فیملی ‘‘ کو ’’ادبی تقاریب ‘‘ کا فعالی حصہ بنانے کا سوچا تھا ۔
فصیح اللہ حسینی :
آپ کی بہت ساری تالیوں میں ہم یہ اعلان کرتے ہوئے مُسرت محسوس کرتے ہیں کہ ’’ساتھی ‘‘ کے موجودہ مُدیر اعلا جناب فصیح اللہ حسینی ہیں ، آن بان ،پھول پتّی پان ، آپ سب کا اللہ نگہبان ! شدید بیماری اور اپنے معالجین کی بار بار تنبیہ کے باوجود جو کچھ لکھا ہے ، ساتھ پیشِ خدمت ہوں ! مجیب ظفر انوار حمیدی (ایسوسی ایٹ پروفیسر اردو ،گورنمنٹ ڈگری کالج ، کراچی)
پروفیسر ڈاکٹر سید مجیب ظفر انوار حمیدی
About the Author: پروفیسر ڈاکٹر سید مجیب ظفر انوار حمیدی Read More Articles by پروفیسر ڈاکٹر سید مجیب ظفر انوار حمیدی: 10 Articles with 35406 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.