فرنود ۔جون ایلیا کا عجائب خانہ نثر

جون ایلیا نے معروف نقاد شمس الرحمان فاروقی سے دورہ ہند کے دوران ایک ملاقات پر استفسار کیا: ’’وہ شاعر عظیم کیسے ہوسکتا ہے جس نے متضاد کرداروں کی مدح سرائی کی ہو۔ مثلاً ڈاکٹر اقبال کا ہیرو بیک وقت اورنگ زیب بھی ہے اور سرمد بھی۔ ایک ہی شاعر بیک وقت قاتل اور مقتول دونوں کو بلند کردار کہہ رہا ہے۔۔ مسولینی میں عظیم انسان کی کون سی خوبیاں تھیں؟ وہ ڈاکٹر اقبال کا ہیرو کیسے ہوگیا ؟ برٹش امپائر کے شہنشاہ کے سامنے اقبال نے سرِ تسلیم کیسے خم کردیا؟ کیا عظیم شاعر کا یہی کردار ہوتا ہے کہ وہ ہر طبقے کے لوگوں کو خوش کرنے کی کوشش کرے؟ اور شاہین ایک ایسا خونخوار طائر ہے جس میں رحم کا جذبہ ہرگز نہیں ہوتا۔ کیا اقبال نے شاہین کو علامت بنا کر انسان کو خونخوار بننے کی تعلیم نہیں دی ؟
اس نوع کے سوالات کرنے کا حوصلہ صرف جون ایلیا ہی میں تھا۔ ع۔۔۔۔ہم اپنی وضع کیوں چھوڑیں۔

بی ون، مومن اسکوئیر، راشد منہاس روڈ، گلشن اقبال کراچی ۔جون ایلیا کا یہ پتہ بہت پرانا ہے جب وہ اس فلیٹ میں رہا کرتے تھے، یہ ان کی جدوجہد کا زمانہ تھا۔عرصہ ہوا یہ پتہ بدل چکا ہے۔جون ایلیا سے متعلق پہلی یاد ایک ٹی وی مشاعرے کی ہے، یہ وہ زمانہ تھا جب بھائیوں میں جائیداد کی چپقلش میں تلخیاں گھلنے لگی تھیں، چرچے عام ہونے لگے تھے, انہی دنوں انور مقصود نے ایک مزاحیہ مشاعرے میں "شاعر نمبر بارہ" کی زبانی یہ اشعار کہلوا دیے:

مرغ و شتر کے درمیاں گائیں رہی نہ بکریاں
میرے تمام چارہ گر تھا جو گھر میں وہ چر گئے
کیا پسندہ کیسی پسند، کس سے کہیں اے ارجمند
میرے تمام بھائی بند میرا کباڑا کرگئے
عجب مجنونانہ طبیعت پائی تھی جون ایلیا نے۔دوبئی میں ہوئے ایک مشاعرے کے دوران عطاء الحق قاسمی نے یہ شعر پڑھا:
ظلم بچے جن رہا ہے شہر کی گلیوں میں
عدل کو بھی صاحب اولاد ہونا چاہیے
جون ایلیا نے اٹھ کر عطاء قاسمی کی پیشانی چوم لی!
اور ظلم کے بچے جننے کی رفتار دگنی ہوگئی!

جون ایلیا کی شاعری سے ایک زمانہ واقف ہے لیکن وہ ایک عمدہ نثر نگار بھی تھے۔ قدرت کی جانب سے یہ ہنر بہت کم لوگوں کو ودیعت ہوتا ہے۔ کراچی سے تعلق رکھنے والے بینکار خالد احمد انصاری نے ایک کام تو یہ بہت اچھا کیا کہ جون ایلیا کے انشائیوں و دیگر مضامین کو بدقت تمام یکجا کردیا ہے۔ یہ انتخاب ۱۹۵۸ سے ۲۰۰۲ کے درمیانی عرصے میں انشا، عالمی ڈائجسٹ اور سسپنس ڈائجسٹ میں شائع ہونے والی تحاریر پر مشتمل ہے۔ کتاب کا نام ’فرنود‘ تجویز کیا گیا۔ فرنودکے معنی دلیل ، سند یا مثال ہیں۔پس ورق جون ایلیا کا یہ قول درج کیا گیا ہے ’’ ہم ایک ہزار برس سے تاریخ کے دسترخوان پر حرام خوری کے سوا اور کچھ نہیں کررہے۔ ‘‘

جون ایلیا یکم جنوری ۱۹۵۸ کو امروہہ سے کراچی پہنچے تھے۔ان کے بڑے بھائی یعنی رئیس امروہوی اور سید محمد تقی کراچی میں اپنے قدم جما چکے تھے۔ جون کے پہنچنے پر دونوں بھائیوں کو ان کے روزگار کی فکر لاحق ہوئی۔ سو اردو ماہنامے انشا کا ڈول ڈالا گیا جو ایک علمی رسالہ تھا۔ انشا کا پہلا شمارہ فروری ۱۹۵۸ میں منظر عام پر آیا۔ جون ایلیا اس کا اداریہ خود لکھا کرتے تھے، وہ ملکی و غیر ملکی مسائل کو موضوع خیال بنایا کرتے تھے۔ ۱۹۶۴ میں انشا کا نام تبدیل کرکے عالمی ڈائجسٹ رکھ دیا گیا۔۱۹۸۸ میں عالمی ڈائجسٹ بند ہوگیا۔ فرنود میں شامل دیگر تحریریں ماہنامہ سسپنس ڈائجسٹ سے اخذ کی گئی ہیں۔ یہ اداریے ۱۹۸۹ سے ۲۰۰۲ کے عرصے میں لکھے گئے تھے۔

خالد انصاری فرنود کو جون ایلیا کا عجائب خانہ نثر قرار دیتے ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ جون ایلیا اپنے بھائی رئیس امروہوی کے قتل کے بعد سے محتاط ہوگئے تھے جن کے بارے میں خیال تھا کہ انہیں انتہا پسندوں نے قتل کیا ہے۔ لیکن یہ تو بہت بعد کی بات ہے۔۱۹۶۲ میں انہیں کس کا ڈ ر تھا، ایک اداریے ’ فی سبیل اﷲ فساد‘ سے یہ ٹکڑا ملاحظہ کیجیے کہ کیا ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ سطور نصف صدی قبل لکھی گئی تھیں :
’’آپ کو پاکستان پر شاید کبھی رحم نہیں آئے گا ، مگر آپ اپنے اوپر تو رحم کیجیے۔اگر پاکستان بے وقار اور تباہ حال ہوگا تو آپ بھی بے وقار اور تباہ حال ہوں گے۔ کسی نے یہ بھی کہا ہے کہ حکومت پاکستان کے قانون میں تحریک جہاد کے لیے بھی ایک وفد شامل ہونا چاہیے۔ واضح رہے کہ اعلائے کلمہ حق کے لیے سب سے پہلے ملحد روس اور مشرک امریکہ ہی کے خلاف علم جہاد بلند کیا جائے گا۔ چناں چہ ایک وفد خروشیف اور ایک کینیڈی سے ملے گا اور کہے گا:
یا تو اسلام قبول کرو!
یا جزیہ دو!
نہیں تو ہم سے جنگ کرو․․․․․․․․․‘‘
۔۔٭۔۔
دسمبر ۱۹۵۸ میں لکھے گئے ایک انشائیے کے الفاظ ملاحظہ کیجیے ۔پاکستان ہو یا ہندوستان۔۔۔۔ نصف صدی کا قصہ کیا آج کی بات نہیں لگتی:
’’ ہم دیکھ رہے ہیں کہ مدتوں سے ہمارے شہروں میں دا نش و فن سے معاندانہ بیگانگی اختیار اختیار کر لی گئی ہے۔ہمیں چاروں طرف سے ایک ہجوم گھیرے ہوئے ہے ۔ایک ہجوم جو نہ سنتا ہے نہ سمجھتا ہے۔ہماری بستیوں میں ایک عجیب و غریب نسل پیدا ہوگئی ہے۔ اس نسل کے پاس نہ حافظہ ہے اور نہ تخیل ۔جو ماضی کے قابل ہے نہ مستقبل کے شایان۔ اس کا مقدر یہ ہے کہ صرف حال میں معلق رہے اس نسل کا وجود ، بالکل غیر طبعی ہے۔ ان کے سامنے اگر علوم و فنون کا ذکر کیا جائے تو ا ن کے چہرے متغیر ہوجاتے ہیں۔ان میں سے بعض ا ایسے ہیں جو سوال کرتے ہیں کہ علوم و فنون کا ذائقہ کیا ہوتا ہے ؟ یہ لوگ ادب ، فلسفہ اور شاعری کو عام زندگی کی اشیائے ضرورت اور اسباب تعیشات کی نسبت سے جانچتے ہیں۔‘‘

جون ایلیا نے بھی عجیب متلون طبیعت پائی تھی۔ ایک سیمابی روح تھی کہ انہیں ہر آن بے چین رکھتی تھی۔کتاب کے پہلے مضمون ’رائگاں ‘ میں کہتے ہیں ’’ میری پیڑھی کے افراد نے اپنی قدیم عادات اور روایت کے مطابق علم، ادب اور شاعری سے اپنا رشتہ استوار کیا جیسے رئیس امروہوی ، کمال امروہوی، سید محمد تقی۔یہ سب کے سب کامیاب رہے ، ناموری حاصل کی۔مگر میں غریب اول جلول قسم کا آدمی بری طرح مارا گیا اور وہ اس لیے کہ میں ان سب سے زیادہ خیال پسند، مثالیہ پسند(idealist) اور اپنے رجحانات میں بے حد ضدی واقع ہوا تھا۔ ‘‘

’رائگاں ‘ میں انہوں نے خواتین کے بارے میں اپنے خیالات بلا کم و کاست بیان کردیے ہیں۔ یہ وصف بھی انہی کے حصے میں آیا تھا، قاری کو چونکا دینے کا۔بھلا اسے پڑھ کر کون مسکرائے بغیر نہ رہ پائے گا۔لکھتے ہیں: ’’میں نے حسین عورتوں کو عام طور پر بے ضمیر اور لالچی پایا ہے۔کم سے کم مجھے تو کسی باضمیر اور بے غرض حسینہ سے ملنے کا آج تک موقع نہیں ملا۔ میں نے کوئی اور کارنامہ انجام دیا ہو یا نہ ہو مگر ایک کارنامہ ضرور انجام دیا ہے اور وہ یہ کہ میں نے حسین لڑکیوں کو بری طرح ذلیل کیا ہے۔ اس لیے کہ مجھے ان سے میر تقی میر اور اپنے معصوم ترین بھائی حضرت عبدالعزیز خالد کا انتقام لینا تھا۔ مجھے امید ہے کہ میرا خدائے غیور مجھے اس کا اجر دے گا۔ ‘‘

عجب معاملہ تھا۔’حسین لڑکیوں ‘ کو اس بات کا شائبہ بھی نہ ہوتا ہوگا کہ ان سے حضرت عبدالعزیز خالد کا انتقام لیا جارہا ہے۔ کتاب کے ابتدائی مضمون میں شکیل عادل زادہ بیان کرتے ہیں ’’ اپنی محبوباؤں کے نام بدل دینے کا انہیں شوق تھا۔ ’ف ‘سے شروع ہونے والے نام جانے کیوں انہیں بہت مرغوب تھے۔کہتے تھے جانی! کیا وقت تھا۔سال دو سال گلی کی ریاضت طواف کے بعد کہیں دریچوں میں آہٹ اور چلمنوں میں سرسراہٹ کی سرخوشی یا فتح نصیب ہوتی تھی۔

جون ایلیا دختر رز کے اسیر تھے۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ اسی کیفیت میں لکھا بھی کرتے تھے ۔ مشاعروں میں ان کا خاص رنگ بھی اکثر دختر رز کی ’مرہون منت‘ ہوا کرتا تھا۔ لوگ ان کی اس ادا پر فدا تھے، کلام سنانے کے بعد وہ سا معین کے پرزور اصرار پر جاتے جاتے لوٹ آتے تھے۔اسٹیج پر بیٹھے شعرا اور شرکاء سے مکالمہ بھی ہوتا رہتا تھا۔ شکیل عادل زادہ بیان کرتے ہیں ’’ آخر میں شراب کی کثرت اور شراب بھی سستی یا جو بھی میسر آجائے۔ڈاکٹروں کی تنبیہ کے باوجود باز نہیں آئے۔ سب کو یقین دلاتے تھے اور اپنے آپ کو بھی کہ بھیا! اﷲ پاک کی قسم ، ٹیسٹوں میں جگر ایسا صاف آیا ہے جیسے کسی بچے کا ہو۔‘‘

شکیل عادل زادہ، جون ایلیا کے نہایت قریب رہے ہیں۔ ان کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں پر اپنے مخصوص انداز میں روشنی ڈالتے ہیں۔ کتاب کے لیے ایک عمدہ و دلچسپ مضمون شکیل عادل زادہ کا تحریر کردہ ہے۔ مذکورہ مضمون میں شکیل عادل زادہ نے جون ایلیا کی تمام زندگی کو اپنے مخصوص و دلنشین انداز میں قاری کے سامنے پیش کردیا ہے۔ ایک جگہ لکھتے ہیں:’’ گفتگو میں انوکھے اچھوتے فقروں ، نت نئی تاویلوں سے مخاطب کو لاجواب کرنے میں ملکہ حاصل تھا۔برجستہ، ایسا سفاک ، جارحانہ فقرے جست کرتے، ایسی دلیل وضع کرتے کہ تن بدن میں آگ لگادے۔ بڑے بھائی رئیس امروہوی کے حادثاتی انتقال پر لوگ تعزیت کررہے تھے اور صبر و استقامت کی تلقین کررہے تھے۔ سنتے رہے اور آہ بھر کر بولے، ہاں صاحب! ہمیں اپنے بھائی کے قتل کا کوئی تجربہ تو نہیں تھا۔۔۔۔۔۔۔
کسی دن گھریلو امور کا قصہ چل رہا تھا، کہنے لگے : ’’یار شکیل! سنتے ہیں، پچھلے زمانوں میں بیویاں مر بھی جایا کرتی تھیں۔ ‘‘
عبید اﷲ علیم کے جنازے پر ایک ہم عصر شاعر بے حال تھے، پچھاڑیں‘ کھا رہے تھے۔ہر آنے والے سے لپٹ کر بین کرتے، ادھر جون صاحب کا بھی کم و بیش یہی حال تھا۔ کسی دوست نے ہم عصر شاعر کے بارے میں سرگوشیانہ تبصرہ کیا کہ اس کی حالت تو دیکھی نہیں جاتی۔ جون صاحب سر ہلاتے ہوئے ہونٹ سکوڑ کر بولے، ہاں جانی! وہ ہم سے بازی لے گیا۔‘‘

فرنود میں جون ایلیا کے کل ۷ مضامین شامل کیے گئے ہیں جبکہ انشائیوں /اداریوں کی تعداد ۱۸۱ ہے۔ تمام انشائیوں و مضامین کا طرز تحریر بے ساختہ ہے، کچھ کچھ سفاک اور کہیں کہیں لب و لہجہ ایسا کہ فساد خلق بپا ہوجائے لیکن جون ایلیا اس متوقع خوف فساد خلق سے بے پروا لکھتے چلے گئے تھے، یہ ضرور ہے کہ اس نوع کے مضامین آج کے زمانے میں لکھے جائیں تو لکھنے والا معتوب قرار پائے، خصوصا مذہبی حلقوں کی جانب سے ۔چند مقامات پر بیان کا حکومتی گرفت میں آنا بھی یقینی نظر آتا ہے۔ ان تمام باتوں کے باوجود جون ایلیا کے طرز تحریر میں اپنے قارئین کو جکڑ لینے کی خاصیت پائی جاتی ہے۔ وہ مجنونانہ کیفیت جو ان پر طاری رہا کرتی تھی، کئی مضامین اس سے لبریز نظر آتے ہیں لیکن ان کا قاری ان کی انہی اداوں کا تو اسیر ہے سو کتاب کا شائع ہونا تھا کہ نہ صرف وطن عزیز بلکہ پڑوسی ملک سے بھی اس کے حصول کی فرمائشوں کا تانتا بندھ گیا۔فرنود میں شامل تحریروں کے ذریعے جون ایلیا نے اپنے دل کا غبار نکالا ہے ۔یہاں ہمیں وہ جون ایلیا نظر آتا ہے جو اپنے بھائیوں کے مقابلے پر خود کو خیال پسند، مثالیہ پسند اور اپنے رجحانات میں بے حد ضدی سمجھتا تھا، سو قلم چلاتے وقت بھی یہی کیفیات ان پر غالب نظر آتی ہیں، اچھوتی بات، چونکا دینے والے نظریات اور اظہار کا بے باک انداز۔

فرنود میں شامل آخری اداریہ سسپنس ڈائجسٹ کے دسمبر ۲۰۰۲ کے شمارے سے لیا گیا ہے۔ یہ جون ایلیاکا آخری اداریہ تھا۔ حیرت انگیز طور پر اس کا آغاز ان سطور سے ہوتا ہے: ’’ نشیان ، سحر البیان! تم نے سنا جون ایلیا مرگئے۔کیا کہا ، جون ایلیا مر گئے۔‘‘ ۔اور پڑھنے والے کو بے اختیار ان کے بڑے بھائی رئیس امروہوی کی یاد آجاتی ہے جو اپنے قتل کے وقت جو کالم لکھ رہے تھے ، اس میں خود ان کی اپنی موت کی پیش گوئی موجود تھی۔

جون ایلیا نے اپنے آخری اداریے میں ان عوامل کی نشان دہی بھی کی تھی جن سے بقول ان کے ، وہ ہارے تھے:
’’ جون ایلیا !تنہائی اور بے وفائی سے ہارے ہیں
جون ایلیا ! علمی بونوں سے ہارے ہیں
جون ایلیا ! اپنے خون سے ہارے ہیں
جون ایلیا ! اپنی ثقافت سے ہارے ہیں
جون ایلیا ! اپنی روایت سے ہارے ہیں
یہ ہیں جون ایلیا کے قاتل‘‘

۷۱۸ صفحات اور آٹھ سو روپے قیمت کی اس ضخیم کتاب کو لاہور کے ناشر الحمد پبلیکیشنز نے نہایت اہتمام کے ساتھ شائع کیا ہے۔البتہ کتاب کا سرورق دیکھنے والے پر نہایت بوجھل تاثر چھوڑتا ہے۔وقت کی صلیب پر سفید کرتہ پاجامہ زیب تن کیے کم عمر نظر آتے جون ایلیا ٹنگے ہیں، دونوں ہاتھوں میں آہنی کیلیں ٹھکی ہوئی ہیں، ہاتھ لہولہان ہیں۔ خداا جانے یہ خیال کس کا تھا۔ راقم گواہ ہے کہ جون ایلیا کے پرستاروں نے اسے ہرگز ہرگز پسند نہ کیا۔

گمان ہے کہ جون ایلیا یہ سرورق دیکھتے تو اس کے تخلیق کار سے کہتے ’’ جانی! تم نے تو صرف میرے ہاتھ خون میں لت پت دکھائے ہیں، یہاں تو پورا جسم ہی لہولہان ہے۔‘‘
Rashid Ashraf
About the Author: Rashid Ashraf Read More Articles by Rashid Ashraf: 107 Articles with 300435 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.