ہندوستان میں تمام چیزوں کو ہندواور مسلم نظریے سے دیکھنے
کی روایت پختہ ہوگئی ہے اور یہاں تمام چیزیں یہاں تک کہ چرند پرند، جانور،
ساگ سبزی وغیرہ بھی ہندو اور مسلمان ہیں۔ یہ اچانک نہیں ہوا ہے اس کی بنیاد
انگریزوں کے دور پڑی تھی لیکن وہ صرف چھوا چھوت تک محدود تھا نظریاتی
اعتبار سے نہیں تھا۔ریلوے اسٹیشن پر ہندو پانی مسلم پانی کے نام سے پانی
پلایا جاتاتھا۔ اس کے پش پشت خواہشات کا احترام تھا نہ کہ کسی طرح کی نفرت
یا امتیاز کو فروغ دینا۔ ملک آزاد ہوا تو جہاں انگریزی حکومت کی دیگر
روایات کو ختم کیاگیا وہیں ہند و پانی مسلم پانی جیسی روایت بھی ختم ہوگئی۔
لیکن ہندو ؤں کے دلوں میں مسلمانوں کے تئیں نفرت پیدا کرنے کے لئے نت نئے
طریقے اختیار کئے جانے لگے۔ ملک کی آزادی کا صلہ مسلمانوں تک نہ پہنچے اس
کے لئے غیر معلنہ پالیسی وضع کی جانے لگی ،دفعہ 341سے مسلمانوں کو مستثنی
قرار دینا اس کی زندہ مثال ہے جب کہ آئین میں ایسی کوئی بات نہیں ہے یہ صرف
فرقہ پرست افسر کا کمال ہے۔حکومت نے اپنے آپ کو پوری طرح سیکولرازم کے قالب
میں بظاہر ڈھال لیا لیکن اندر سے تمام جذبات و خیالات، احساسات، کردار، عمل
اور نفاذ ہندوتو کے رنگ میں سرابور تھا۔ اچکن میں سرخ گلاب تھا مگر اندر
گولوالکر کی روح پھڑپھڑارہی تھی۔ 1925میں آر ایس ایس کی بنیاد پڑی تھی مگر
درحقیقت اس کی آبیاری آزادی کے بعد کے دور میں ہوئی۔ وہ جب چاہتے پورے ملک
کو یرغمال بنالیتے مگر سیکولر ملک کے اندر اتنی ہمت نہیں ہوتی تھی کہ وہ
نفرت کے سوداگر کوکچل سکے کیوں کہ حکومت کی خواہش کبھی اسے نیست و نابود
کرنے کی نہیں تھی۔ بابائے قوم مہاتما گاندھی کے قاتل تنظیم جس پر پابندی
لگادی تھی کانگریس کی سیکولر حکومت نے اس پر پابندی کیوں ہٹائی؟ کیوں نہیں
اس کے سارے اثاثے ضبط کرکے اس کے تمام لیڈروں کو جیل کے سلاخوں میں پیچھے
ڈالا گیا کیوں کہ لیڈروں کا جسم کانگریس کا تھا لیکن روح آرایس ایس کی تھی۔
کانگریس اس وقت اس پوزیشن میں تھی کہ اس نفرت کے تاجر کو نکیل ڈال سکے ۔مگر
سب سے زیادہ فروغ آر ایس ایس کو ملک یا ملک کی ریاستوں میں اس وقت وہاں
وہاں حاصل ہوا جہاں جہاں کانگریس کی حکومت تھی۔ آزادی کے بعد اترپردیش کے
سابق وزیر اعلی گووند بلتھ پنت کے مسلمانوں کے بارے میں نظریات سے کون واقف
نہیں ہے۔ کیا جواہر لال نہرو ان کے نظریات سے لا علم تھے۔ جواہر لال نہرو
کے وزیر داخلہ سردار پٹیل نے قرولباغ کے مسلمانوں کے قتل عام کو جائز
ٹھہرانے کے لئے کہا تھا ان کے پاس ہتھیار برآمد ہوئے ہیں اور ثبوت کے طور
پر جو ہتھیار پیش کئے گئے تھے وہ سبزی کانٹے والی زنگ آلود چھریاں تھیں۔
یہاں اس کا مقصد سیکولر حکومت کے بڑے وزیروں کا نظریہ پیش کرنا ہے۔ ابتدا ء
ہی سے ان لوگوں کے مسلمانوں کے تئیں کیا نظریات رہے ہیں۔ جب تک مسلمان ان
نظریات کو نہیں سمجھیں گے اس وقت تک اپنے لئے لائحہ عمل اور حکمت عملی تیار
کرنے میں دشواری ہوگی۔ آزاد ہندوستان میں جب بھی کوئی پروگرام مسلمانوں کے
لئے لایا گیا مالی فائدہ ہوا یا نہیں لیکن اس سے سب زیادہ نقصان مسلمانوں
کو ہی ہوا۔ ہندوتو کی علمبرداروں نے اس طرح کے پروگرام کومسلم نوازی اور
ہندوؤں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کے طور پر پیش کیا۔ کسی حکومت سیکولر نے کبھی
یہ نہیں کہا کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی حالت بہت ابتر ہے اور حکومت کی
اسکیموں پران کا بھی حق ہے اس میں ہندوؤں کے حقوق پر ڈاکہ کیسے ہوااور نہ
ہی اس طرح کے پروپیگنڈہ کرنے والے کو لگام دینے کی کوشش کی۔ اس کا مقصد ایک
تیر سے دو شکار کرنا تھا۔ ایک طرف لالی پاپ دکھاکر مسلمانوں کو خوش کرنا
تودوسری طرف ہندؤں کو مسلمانوں کے تئیں مشتعل کرنا تھا۔ خوف کی نفسیات میں
مبتلا رکھنے والا یہ کھیل آزاد ہندوستان میں جم کر کھیلا جارہا ہے۔ ترقی
پسند اتحاد حکومت کے نو سال سے زائد اقتدار کو دیکھیں تو اس میں یہ کھیل جم
کر کھیلا گیا۔ وزیر اعظم نے یہ اعلان کردیا کہ اقلیتوں پر 80ہزار کروڑ روپے
خرچ کئے گئے ۔ تفتیش سے پتہ چلا کہ ان میں سے ایک ہزار کروڑ بھی مسلمانوں
پر خرچ نہیں ہوا ہے بلکہ اقلیتوں کے نام پر مسلمانوں کے علاوہ تمام طبقوں
پر رقم خرچ کی گئی لیکن یہ پیغام یہ گیا کہ اتنی بڑی رقم مسلمانوں پر خرچ
کی گئی۔
جب بھی مسلمان یا کمزور طبقہ یا دلتوں کوسہولت اور ریزرویشن دی گئی اس کا
بدلہ مسلمانوں سے لیا گیا۔ منڈل کمیشن کے نفاذ کے ردعمل طور پر کمنڈل کا
نعرہ دیا گیا اور اس کے سہارے پورے ملک میں نفرت ما حول تیار گیا اور نتیجے
کے طور پر بابری مسجد کی شہادت عمل میں آئی ہے ۔ معاملہ صرف بابری مسجد کی
شہادت تک نہیں رکا بلکہ ملک گیرپیمانے مسلمانوں کے خلاف فسادات پربا کئے
گئے جن میں ممبئی کا فساد سب سے وحشیانہ اور درندگی کا مظہر تھا اس میں
ڈھائی ہزار سے زائد مسلمان ہلاک اور ڈھائی ہزار کروڑ روپے کا مالی خسارہ
ہوا تھا۔ ان فسادات میں ہندوتوں کے علمبرداروں کے دو مقاصد واضح تھے ایک تو
جانی نقصان اور دوسرا مالی نقصان۔ مکانوں اور دکانوں کو لوٹ کر آگے حوالے
کردینا تاکہ لوٹ مار کی نشانی باقی نہ رہے اور یہ سمجھا جائے کہ تمام چیزیں
آگ کی نذر ہوگئیں۔ اس کے بعد گاہے بگاہے فسادات کا عمل جاری رہا اور
مسلمانوں کو نفسیاتی طور پر خوف کے حصار میں قید کرنے کی ناپاک کوشش جاری
رہی۔ اس میں ہندوستان کی تمام پارٹیاں شامل تھیں۔ گجرات فسادات کے بعد
حالیہ مظفر نگر کا فساد کئی معنوں میں منفرد اور الگ ہے۔ یہ وہ علاقہ ہے
جہاں لڑائیاں مذہبی بنیاد پر نہیں ہوتیں بلکہ ذات اور برادری کے نام پر
ہوتی ہیں۔ پنچایت میں جمع بھی مذہبی بنیاد پر نہیں ہوتے بلکہ ذات اور
برادری کے نام ہوتے ہیں۔ جو برادری ہندؤں کی ہے وہی برادری مسلمانوں کی ہے
اور مذہب سے زیادہ وہاں برادری کو اہمیت حاصل تھی۔ بی جے پی کے لیڈروں نے
یہاں یہ احساس کرایا کہ تم ہندو ہو اور تمام برادری کو ہندو اور مسلم
برادری میں تقسیم کردیا۔ بی جے پی سمیت دیگر سیاسی پارٹیوں کے رہنماؤں کو
انتظامیہ نے یہ سب کرنے کی مکمل چھوٹ دی۔ فسادات کے بعد دو ہفتے تک نامزد
ایف آئی آر میں ملزم قرار دئے گئے لیڈر بلاروک ٹوک ہر جگہ گھومتے رہے مگر
پولیس نے انہیں گرفتار کرنے سے کتراتی رہی۔ اس دوران ان لیڈروں کو دیکھ
لینے اور گرفتاری کی صورت میں بڑے پیمانے پر ردعمل کی دھمکی دینے کا موقع
پولیس فراہم کرتی رہی۔ یہ ایسا فساد ہے جہاں سب کچھ فکس تھا۔ پولیس والے
فکس تھے وہ فسادیوں کو تحفظ فراہم کر رہے تھے۔ جو لیڈروں کی گرفتاریاں
ہورہی ہیں اور جس انداز میں ہورہی ہیں وہ نہ صرف قانون کا مذاق اڑانے والا
ہے بلکہ اس سے یہ پیغام جارہا ہے یہ صرف نورا کشتی ہے۔
مظفرنگر میں جوفساد کی آگ بھڑکی ہے وہ آسانی سے ٹھنڈی نہیں ہوگی اور نہ
ہونے دی جائے گی۔ یہاں پر عدالتی کمیشن کو بٹھادیا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ
مظفر نگر کے بچے بچے کو معلوم ہے کہ خاطی کون ہے، کس نے فساد بھڑکا یا ہے
اور اشتعال انگیز فرضی سی ڈی تقسیم کرنے کا ذمہ دار کون ہے۔ اب تک جتنے
عدالتی کمیشنوں کی تشکیل ہوئی ہے ان میں سے کتنے کو سزا دی گئی ہے ۔
ہندوستان میں جتنے فسادات ہوئے ہیں ان میں مارنے والا ایک ہی طبقہ ، ایک ہی
نظریہ کے حامل افراد، ایک ہی پارٹی سے وابستہ لیڈراور کارکن شامل رہے ہیں۔
یہ الگ بات ہے خاموش حمایت تمام پارٹیوں کی رہی ہے۔ رپورٹ کے مطابق
احمدآبادمیں 1969میں ہونے والے فساد ات میں جسٹس جگموہن ریڈی کمیشن نے
تبصرہ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ’’کمیشن سے سچائی چھپانے خاص طور سے آر ایس
ایس اور جن سنگھ (موجودہ بھارتیہ جنتا پارٹی) کے رہنماؤں کے فسادات میں حصہ
داری کو چھپانے کے لئے جان بوجھ کر کوشش کی گئی‘‘۔۔ بھیونڈی جلگاؤں فسادات
1970کے بعد اپنے اعلی افسران کے سپرد اپنی ایک رپورٹ میں ضلع کے ایک افسر
نے کہا ہے ’’میں نے یہ پایا ہے کہ ہندوؤں خصوصاً آر ایس ایس اور کچھ پی ایس
پی لوگوں کا ایک طبقہ شرارت کرنے پر آمادہ تھا۔ وہ عظیم شیواجی کو اعزاز
دینے کے لئے جلوس میں شامل نہیں ہوئے تھے۔ وہ اپنے حق بتانے اور اگر ہوسکے
تو مسلمانوں بھڑکانے اور بے عزت کرنے کے لئے آئے تھے‘‘۔ جسٹس ڈی پی مڑون
کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کہا تھاکہ ’’گاؤں والوں نے مسلم مخالف اشتعال
انگیز نعرے لگائے، جارحانہ رویہ اختیار کیا اور ڈرگرچ روڈ اور ستارعلی
جنکشن بانگڑ گلی میں موتی مسجد پر گلال پھینکا۔ پولیس نے خاموش رہ کر مدد
کی‘‘۔ تیلی چیری فساد 1972: جسٹس جوزف یتھایتھی کمیشن کی رپورٹ میں کہا گیا
ہے ہ کہ تیلی چیری میں ہندو اور مسلمان ایک ساتھ صدیوں سے بھائی چارے کے
ساتھ رہ رہے تھے۔ آر ایس ایس اور جن سنگھ کے ذریعہ وہاں اپنی شاخیں قائم
کرکے سرگرمیاں شروع کرنے کے بعد صورت حال بدل گئی۔ ان کی مسلم مخالف مہم ،
اس کے ردعمل کے طور پر مسلمانوں نے فرقہ وارانہ خطوط پر مبنی سیاسی پارٹی
مسلم لیگ کے پاس چلے جانے سے کشیدگی پیدا ہوگئی۔ ان فسادات کے لئے پس منظر
ہونا شروع ہوگیا۔ جمشید پور 1979: انکؤائری کمیشن کی رپورٹ میں کہا گیا ’’
انتخابات سے پہلے خفیہ شاخ جمشید پور (23مارچ 1979) نے اپنی رپورٹ میں 31
مارچ اور یکم اپریل کو ہونے والے آر ایس ایس کے ڈویژنل کانفرنس کا خصوصی
طور پر ذکر کیا۔ جس میں دیگر لوگوں کے علاوہ آر ایس ایس کے سرو سنچالک کو
حصہ لینا تھا۔ جلوس کے راستے کے بارے میں تنازعہ بہت بڑھ گیا۔ خود کو متحدہ
بجرنگ بلی اکھاڑہ کمیٹی کہنے والے لوگوں کا گروپ مشتعل تھا۔ انہوں نے بہت
ہی منظم طریقے سے فرقہ وارانہ وارانہ مواد پر مبنی پرچے تقسیم کئے۔ اس گروپ
کا آر ایس ایس کے ساتھ تنظیمی تعلق تھا۔ انتظامیہ نے جب ایک خاص راستہ سے
گزرنے کی اجازت نہیں دی تو اس کی خلاف ورزی کرنے کی اپیل کی گئی ۔ اس پر
مشتعل ہجوم انتظامیہ کی مخالفت کرتے ہوئے مسلم مخالف نعرے لگائے۔ اس بعد
جمشید پور میں (سری رام نومی کیندریہ اکھاڑہ سمیتی کے ذریعہ جاری کردہ)
پرچے تقسیم کئے گئے۔ اس میں ہندؤں کے جذبات کو بھڑکا یا گیا۔ واقعات کو توڑ
مروڑ کر پیش کیا گیا اور کچھ کاموں کے ہندو مخالف بتایا گیا۔ یہ سب ایک
سازش کا حصہ لگتا تھا۔ کنیا کماری فساد 1982: جسٹس وینوگوپال کمیشن کی
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’’ فرقہ وارانہ تشدد کو بھڑکانے کے لئے آر ایس ایس
کی سرگرمی اس طرح ہے۔ * اکثریتی طبقہ کے جذبات کو یہ کہہ کر بھڑکا گیا ہے
کہ عیسائی ہندوستان کے مخلص شہری نہیں ہیں۔* اکثریتی طبقہ کے دل میں یہ کہ
کر خود بٹھایا گیا کہ اقلیتوں کی تعداد بڑھ رہی ہے اور ہندؤں کی کم ہورہی
ہے۔ اکثریتی طبقہ کے نوجوانوں کو خنجروں، تلواروں اور بھالوں چلانے کی
تربیت دینا۔(رام پنیانی کی کتاب سمپردائکتا ایک سچتر پریچے سے ماخوذ) اس کے
باوجود کسی پر کارروائی نہ کرنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ مسلمانوں کے لئے یہاں
انصاف کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ہندوستانی جمہوریت کے چاروں ستون کا رویہ
مسلمانوں کے تئیں منفی رہا ہے۔
فسادات کاسلسلہ دراصل مسلمانوں کو خوف کی نفسیات میں مسلسل مبتلارکھنے کی
ایک منصوبہ بند سازش ہے۔ اس کے لئے صرف بی جے پی ذمہ دار نہیں ہے بلکہ
ہندوستان کی تمام سیکولر پارٹیوں اس میں مشترکہ طور پر مساوی طور پر شریک
ہیں۔ سیاسی پارٹیو ں کی پالیسی ہے کہ مسلمانوں کے پاس کوئی متبادل نہ رہے۔
گھوم پھر کر وہ کانگریس اور دیگر نام نہاد سیکولرپارٹیوں کے پاس جانے کے
علاوہ وہ کچھ نہ کرسکیں۔اس لئے کانگریس نے آج تک فسادیوں کے خلاف کوئی قدم
نہیں اٹھایا اور نہ ہندوستان میں مسلمانوں کو پیروں پر کھڑا ہونے دیا اور
نہ مسلمانوں میں کوئی لیڈر شپ پیدا ہونے دی۔ ان کی کوشش یہی رہی ہے کہ
اولاََ کوئی مسلمان لیڈر پیدا ہی نہ ہو اگر کوئی ابھر کر آجائے تو وہ
مشترکہ کلچر کا علمبردار ہو یعنی اس کی بیوی ہندو ہو یا اپنی بیٹی کی شادی
ہندو کے یہاں کر رکھی ہو۔ کانگریسی مسلم لیڈروں پر ایک نظر ڈالئے بات آسانی
سے سمجھ میں آجائے گی ۔کانگریس میں مسلمانوں میں کوئی لیڈر بننے کی کوشش کی
تو ان کا حشر ضیاء الرحمان انصاری جیسا ہوا۔ سوال یہ ہے کہ جب سب کو معلوم
ہے کہ بی جے پی اور سنگھ پریوار ملک میں مسلمانوں کے خلاف فسادات بھڑکانے
اور مسلمانوں کے قتل عام میں ملوث ہیں تو حکومت نے اس کے خلاف کارروئی کیوں
نہیں کی۔ ملک میں بی جے پی اور سنگھ پریوار کو کیوں پھلنے پھولنے کا موقع
دیا گیا۔ اتنے ثبوت اور کمیشنوں کی سفارشات کے باوجود ان کے خلاف کوئی
کارروائی نہ کرنا یہ ثابت کرتا ہے کہ کانگریس بی جے پی اور سنگھ پریوار کی
حوصلہ افزائی کرتی ہے تاکہ خوف زدہ ہوکر مسلمان کانگریس کو ووٹ دینے پر
مجبور ہوجائیں۔ |