امن کیلئے جنگ ضروری ہے

کام میں لانے کو یہ ہتھیار ، جُرات چاہیے
علم استعمال کرنے کو بھی حکمت چاہئے
عام انسان سے برتَر عقل و ہمت چاہیے
حُکمراں کو حُکمراں جیسی فضیلت چاہیے
ہانپتا دل،کانپتے ہاتھ اور یہ ڈانوں ڈول پاؤں
کو عظمت تک رسائی ، استقامت چاہیے
کیا مُروت سے بنا سکتے چیتے کو ہَرن
بد معاش و بد زُباں کو درسِ عبرت چاہیے

استاد محترم حاوی اعظم کے امن کیلئے جنگ کے فلسفے پر مجھے کامل یقین ہے ، ان کی یہ انقلابی نظم ہم سب کو ایک دعوت فکر دیتی ہے کہ بھلا جہاں ایک فریق سوائے جنگ کے ، کسی دوسری بات پر آمادہ ہی نہیں ہے تو پھر اس سے اس کی ہی زبان میں بات کرنے کیلئے اُسے کہاں سے جُرات کا ہتھیار فراہم کیا جائے۔آپ فرماتے ہیں کہ"اس فیصلے سے پہلے کہ علم طاقت سے بہتر ہے یا طاقت علم پر حاوی ، یہ معلوم کرنا ضروری ہے کہ مسئلے کا حل طاقت سے ممکن ہے کہ علم سے ؟۔"بے شک علم کا مثبت استعمال ایک بڑی طاقت ہے لیکن طاقت کا منظم مثبت اور برمحل استعمال کہیں کامیاب تر ، بہتر اور اعلی علم ہے۔عقل کا اثر سب پر یکساں نہیں ہوتا ۔یہ طاقت ور کے ساتھ میں لاٹھی اور کمزور کے ہاتھ میں عصا بنتی ہے۔لہذا جب عقل کا تقاضا طاقت سے کام لینے کا ہو ، وہاں ایسا نہ کرنا کم عقلی ہے۔آپ یہ فرماتے ہیں کہ ـ"یہ کوئی نئی بات نہیں ، بارہا ایسا ہوچکا ہے ، ہوتا رہے گا ،یعنی عقل انسان کی سلامتی کیلئے اخلاق اور قانون وضع کرتی ہے ، طاقت اس پر عمل در آمد کرواتی ہے ، ورنہ دوسرے علوم کی طرح قانون کو بھی درس دینے کی محدود رکھا جاتا۔آخر وجہ کیا ہے ، اقوام اور مملکتوں کو قانون، فوج یا طاقت پر دوسرے اداروں کی نسبت زیادہ سر مایہ لگانے کی"۔

یقینی طور پر ہمیں یہ دیکھنے کی ضرورت نہیں کہ فطرت کے بیشتر امور میں سختی اور تشدد کا عمل کارفرما ہے۔ جانداروں کے پیدائش کا عمل شروع سے آخر تک سختی پر مبنی ہے۔زمین کا سینہ چھید یا چیر کر جو بیج ڈالا جاتا ہے ، وہی زمین کا جگر پھاڑ کا نکل آتا ہے ،پہاڑوں وغیرہ کا اندر پھٹ کا معدنیات نکلتی ہے۔امن کیلئے جنگ کا یہ فلسفہ کسی فرد واحد کی ذہینی اختراع نہیں ہے کہ ہم ایسے انسانی جذبے عمل سے تعبیر کردیں ۔ بلکہ جب ہم تاریخ میں نظر دوڑاتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ نہ صرف عام لوگ ، بلکہ نابغہ ترین اور نہایت مقدس ہستیاں پر بیشتر اہم مسائل جہاد،جنگ یا طاقت کے ذریعے حل کئے بغیر نہ رہ سکیں۔
"خمسہ موسی"میں حضرت موسی علیہ السلام سے منسوب ہے کہ آپ نے فرمایا"خدا مرد جنگ ہے ، اُس نے میرے ہاتھ کو جنگ سکھائی"۔پھر تحریر ہے "یہواہ کوئی امن پسند انہ بے وقوفی نہیں کرتا "۔(کتاب عرب مصنف و ڈیورنٹ)۔

حضرت عیسی علیہ السلام سے منسوب ہے کہ آپ نے فرمایا"میں امن کیلئے نہیں، تلوار چلانے آیا ہوں "۔(زندہ کلام متی انجیل مقدس صفحہ ۱۴ باب ۱۰)۔شری کرشن سے منسوب ہے کہ انھوں نے ارجن سے کہا کہ"کھتری کیلئے سب سے نیک کام جنگ ہے "۔ گویا کتاب گیتا نے بھی مہا بھارت ( جنگ عظیم) کی کوکھ سے جنم لیا۔(کتاب مقدس شریمد بھگوت گیتا ۔ مصنف کشور داس ، ناشر رتن اینڈ کو کلاں دہلی صفحہ ۴۷)۔سکھوں کے آخری گرو گوبند سنگھ نے سکھوں کیلئے کرپان باندھنا لازمی قرار دیا تھا۔آج بھی ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ جنگ اور تباہی کا پیش خیمہ بننے والے امن کی خاطر "نوبل پرائز"کے بجائے امن و سلامتی کا سبب بننے والی جنگ میں "آئرن کراس" Meritr Pourle "وکٹوریہ کراس" " میڈل آف آنرز" اور" نشان حیدر" کو مقدم سمجھا گیا ہے۔

قرآن کریم میں رب کائنات اﷲ تعالی نے فولاد ( اسلحہ)کو انسانیت کی فلاح کے لئے بھی فائدہ مند قرار دیا۔اور مختلف جگہوں پر ظلم کے خلاف بزور طاقت قوت استعمال کرنے کا حکم دیا ۔ اسلام کی تعلیمات میں یہ کہیں نہیں کہ کوئی تمھارے گال پر تھپڑ مارے تو دوسرا گال بھی آگے کردو ، بلکہ قوت و سطوت کے لئے مختلف انبیا علیہ صلواۃ السلام کے قصاص بیان کئے جس میں انھوں نے ظالم کے خلاف اپنی بھرپور قوت کا استعمال کیا ۔ حضرت سیلمان علیہ اسلام ، حضرت موسی علیہ اسلام ، حضرت یوسف علیہ اسلام جنھوں نے بڑی بڑی حکومتیں بھی قائم کیں اور حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے علاوہ بھی جتنے انبیا ء اور رسولوں کے تذکروں میں صبر و استقامت کیساتھ ساتھ قوت کے استعمال کیلئے بھرپور طاقت کے حوالے بھی تواتر سے ملتے ہیں۔ تاہم اسلام کمزور ، غیر مسلم کی جانوں کی تحفظ و عبادت گاہوں کی حفاظت کیلئے مومنین کو سختی سے احکامات بھی دیتا ہے۔علاوہ ازیں صحابہ اکرام رضوان اﷲ اجمعین نے بھی باوجود کم افرادی قوت کے اپنے اسلامی جذبے کے تحت جہاد کے ذریعے پوری دنیا میں امن کا قیام کیا۔

حضرت عمر فاروق رضی اﷲ تعالی عنہ سے لیکربنو امیہ ، بنو عباس ، اور آخری سلطنت خلاف عثمانیہ تک مسلم حکمرانوں نے اسلامی ممالک کی وسعت میں اضافہ کیا اور جہاد کے ذریعے پوری دنیا میں امن کے نام پر فتح کے پرچم لہرائے۔جنگ عظیم اول و دوئم میں نو آبادیاتی کے اضافے کی روش نے دنیا کو جنگ کی آگ میں جھونکا تو بین الاقوامی طور پر لیگ آف نیشن وجود میں آئی ۔ جس کے بعد موجودہ اقوام متحدہ ابھی تک قائم ہے جو امن کے قیام کے نام پر امریکہ کے مفادات کو ترجیح دیتی آرہی ہے اور امریکہ نے امن کے نام پر متعدد ممالک پر چڑھائی کی۔طاقت کے تمام اصول امن کے قیام کے نام پر کئے گئے ۔ آج بھی امریکہ بہادر شام میں جا داخل ہوتا لیکن طاقت کے مقابلے میں جب روس کے طاقت سامنے آئی تو امریکہ تیسری جنگ عظیم کی ابتدا کرنے سے باز آیا۔تاہم یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ امریکہ امن کے نام پر کمزور ممالک پر حملہ آور اس لئے ہوتا رہے گا کیونکہ کمزور ممالک میں امن کے نام فساد فی الارض کرنے والوں کی آجاماگاہیں وافر تعداد میں موجود ہیں۔

پاکستان میں دہشت گردوں سے بات چیت کے نام پر امن قائم کرنے کی سالوں سال سے کوشش کی جا رہی ہے ، لیکن اس میں انھیں اس لئے ناکامی ہے کیونکہ اصلاح کے نام پر فساد کرنے والوں سے زبانی بات چیت کرنے کا مفروضہ ہمیں کسی بھی مذہب یا نظام میں نہیں ملتا ۔ عفو و درگزر کا عمل انفرادی تو ہوسکتا ہے لیکن اجتماعی مفادات کیلئے ہاتھ اٹھانے میں ہی فلاح کاراز پوشیدہ ہے۔

ریاست کیلئے ضروری نہیں کہ اُیسے چند افراد کو سبق سیکھانے کیلئے کروڑوں انسانوں کی زندگی داؤ میں لگانے والوں کے لئے لفاظی مشاورت کی جائے ۔جب ظاہر ہوچکا ہے کہ دہشت گردوں کے نزدیک پاکستان میں اﷲ کے گھرمساجد ، مسالک کے مزارات ،امام بارگائیں ، غیر مسلم کی عبادت گائیں، سیاسی دفاتر، جلسے ، جلوس ، مذہبی اقدار، خطاوار اور بے گناہ انسانوں میں کوئی تخصیص نہیں ہے تو پھر پاکستان میں اربوں ڈالر ز کے اخراجات پر مبنی فوج کیا صرف انڈیا سے مقابلے کیلئے تیار کی گئی ہے؟۔ فوج کا کام مملکت کی حفاظت کرنا ہے ، جب ملک کے اندر ان کے ہیڈکواٹرز ، اعلی افسران ، ٹریننگ سینٹر ، چھاؤنیاں اور ملک کی جملہ عوام بلاتفریق رنگ و نسل و مذہب محفوظ نہیں تو انھیں (دہشت گردوں) کو سبق سیکھانے کا مرحلہ کیا اُس وقت آئیگا جب مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بن گیا تھا،حکومت پاکستان کے ٹکڑے ٹکڑے ہونے کیلئے کس کے اشارے کا انتظار کر رہی ہے؟۔امن پسندی ، صبر و تحمل اور برداشت ایک بہت بڑی طاقت ہے لیکن موجودہ حالات میں یہ سب چیزیں بزدلی اور کمزوری کی علامات ہیں، جس سے باہر آنے کیلئے ہمت ، جرات اور قوت کی ضرورت ہے۔

تین عشروں سے ہم دوسروں کیلئے لڑ رہے ہیں ایک بار اپنے لئے بھی لڑ لیں۔ پاکستان بننے کے بعد سے اب تک دوسروں کی غلامی ہی کی ہے ایک بار قائد اعظم کے پاکستان کی غلامی کرلیں تو یقین ہے کہ امن کے لئے نوبل پرائز کے بجائے لاتعداد نشان حیدر والے مل جائیں گے۔

پاکستان میں نوبل پرائز لینے والوں کو کوئی نہیں جانتا لیکن نشان حیدر لینے والوں کو دل میں بسایا جاتا ہے۔امن کیلئے جنگ ضروری ہے۔
Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 744661 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.