خدایا! کیوں یہ اندھیرا کم نہیں ہوتا

دہشت گردی کی جنگ نے میدان جنگ کی تمام جہتوں کو یکسر تبدیل کرکے رکھ دیا ہے۔ ایک روایتی میدان جنگ جہاں دو یازیادہ سے اتحادی ایک دوسرے کے خلاف نبرد آزما ہوتے ہیں اور بڑے چھوٹے ہتھیار استعمال کرتے ہیں، دہشت گردی کے خلاف جنگ اس سے یکسر مختلف ہے جس میں دوست دشمن مبہم ہوتے ہیں۔ اس جنگ میں کوئی سرحد نہیں ہوتی بلکہ اس نے پوری دنیا کو میدان جنگ کا روپ دے رکھا ہے اوریہ اس وقت دنیا کے کونے کونے میں اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ لڑی جارہی ہے۔ اس جنگ کا سب سے سفاک پہلو یہ ہے کہ یہ کسی کی تمیز نہیں کرتا اور چھوٹے بڑے معصوم اور مسلح ہر کوئی اس کے نشانے پر ہے۔ اس میں مرنے والے فرد کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ اسے کس جرم کی سزا دی گئی اور مارنے والے پر واضح نہیں ہوتا کہ وہ اپنے ہاتھ عام اور معصوم شہریوں کے خون سے کیوں رنگ رہا ہے۔افسوس کی بات یہ ہے کہ دہشت گرد اسلام کی اصولوں کو جواز بنا کر ایسا کررہے ہیں جبکہ اسلام دین امن وسلامتی ہے۔ دہشت گردی کی جنگ میں معصوم شہریوں کے علاوہ اعلیٰ سول اور فوجی افسر بھی نشانہ بنے۔ اس کی ایک مثال چند روز قبل دیر میں میجر جنرل ثناء اﷲ کی شہادت ہے جو بارودی سرنگ حملے میں اپنے دوساتھیوں لیفٹیننٹ کرنل توصیف اور لانس نائیک عرفان سمیت شہید ہوئے ۔ ان پر حملے کی ذمہ داری تحریک طالبان پاکستان نے قبول کرلی۔تازہ واقعہ پشاور کے گرجا گھر میں خود کش حملے ہیں جن میں 81سے زائد افراد سے زندگی چھین لی گئی۔ مرنے والوں میں خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد بھی شامل ہے۔ اس واقعہ کی ذمہ داری بھی طالبان سے منسلک جندل الحفصہ گروپ نے قبول کرلی ہے۔

دیر میں جنرل آفیسر کمانڈنگ اور پشاور کے گرجا گھر پر طالبان کے حملوں سے ایک چیز تو صاف نظر آرہی ہے کہ دہشت گردوں کا مقصد ہرگز پرامن رہنا نہیں بلکہ انہیں مملکت پاکستان کو تارتار کرنے کا مشن سونپا گیا ہے۔اس سے وہ ٹلنے والے نہیں۔ اس پس منظر میں حکومت پاکستان اور فوج کی جانب سے مذاکرات کی جو سنجیدہ کوششیں جاری تھیں ، نتیجہ خیز ثابت ہوتی نظر نہیں آرہیں۔ اس طرح گزشتہ ایک دہائی سے پاکستان اور اس کے عوام کو دہشت گردوں کی جانب سے جس سفاکی کا سامنا ہے، اس میں اضافے کی توقع ضرور کی جاسکتی ہے۔ ہماری بہت سی خامیوں سے دہشت گردفائدہ اٹھا رہے ہیں اورافواج پاکستان کی بہت سی قربانیوں اور کوششوں کے باوجود یہ عفریت ابھی تک پھن پھیلائے کھڑا ہے اور اس کی سرکوبی کا مرحلہ انتہائی دانش مندی، منصوبہ بندی اور ٹھوس کارروائی کا تقاضا کرتا ہے۔دہشت گردی کے حالیہ واقعات سے اب یہ یقین ہوگیا ہے کہ دہشت گردی میں ملوث تنظیموں کی جڑیں بین الاقوامی ہیں اور مختلف ممالک کے عناصر ان میں موجود ہیں۔ ان تنظیموں کے مختلف مقاصد اور عزائم ہیں۔ پاکستان میں موجود دہشت گرد تنظیموں کی نوعیت اورمقاصد جاننے کے لئے چند سوالات کے جوابات تلاش کرنا انتہائی ضروری ہے اس کے بعد ہی تعین کیا جاسکتا ہے کہ انہیں کیسے نمٹا جائے۔ ان سے مذاکرات کئے جائیں یا انہیں سختی سے کچلنے کی حکمت عملی اپنائی جائے۔اس مقصد کے لیے یہ معلوم کرنا ناگزیر ہے کہ ان دہشت گردوں کے حتمی مقاصد کیا ہیں․․․ کیا وہ ان مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے کوئی جائز راستہ بھی اختیار کرسکتے ہیں؟ انہیں دہشت گرد بنانے کا ذمہ داری کون ہے؟ان دہشت گردتنظیموں کی سیاسی اور عسکری حکمت عملی کیا ہے․․․کون ان کو مالی امداد فراہم کررہا ہے اور یہ کس سماجی، اخلاقی، مذہبی اور انسانی اخلاقیات کی پیروی کررہے ہیں؟ ان سوالات کے جوابات پر سیکڑوں صفحات سیاہ کئے جاسکتے ہیں۔ ان پر تحقیق ایسی بھول بھلیوں کی مانند ہے جس میں صرف کھویا جاسکتا ہے، حاصل کچھ نہیں کیا جاسکتا۔ کسی جگہ پہنچا تو جاسکتا ہے مگر واپسی کا راستہ اختیار نہیں کیا جاسکتا۔ جتنا دماغ پر زوردیا جائے اتنی کنفیوژن جنم لے گی اور اپنے پرائے سبھی سازش بننے میں مصروف نظر آئیں گے۔بدقسمتی سے پاکستان بھی کچھ اسی قسم کی صورتحال کا شکار ہیں۔ دہشت گردی کو لے کر یہاں ہر کسی فرد اور تنظیم کے مختلف خیالات دیکھنے کو ملتے ہیں۔ کوئی ان کی شدید مذمت کرتا ہے تو کوئی ان کی حمایت میں بچھا بچھا جاتا ہے۔ اسی طرح ابھی تک یہ بھی واضح نہیں ہوسکا کہ حکومت کی جانب سے اس کے خاتمے کے لئے کیا اقدامات کئے جائیں گے۔ یہ معاملہ بھی مخمصے کا شکار ہے کہ ہمارے پاس اس عفریت سے نمٹنے کے لئے ابھی تک کوئی ٹھوس اور حتمی سٹریٹجی نہیں ہے۔ حکومتی اور عسکری سطح پر بھی مختلف رائے پائی جاتی ہیں۔ اسی طرح اپوزیشن اور دیگر پارٹیاں بھی اس حوالے سے بھانت بھانت کی بولیاں بولتی ہیں۔ پاکستان کے عوام اس حوالے سے کافی کنفیوژن کا شکار ہیں ۔ اسی طرح ہمیں اپنی ناکامی کی وجوہات اور کب تک پاکستان کے عوام اس عفریت کے بھینٹ چڑھتے رہے گے اس کے بارے میں کچھ معلوم نہیں۔ دہشت گردی کے عفریت پر قابو پانے کے دوران ضروری ہے کہ مقاصد، وسائل اور متوقع نتائج پر گہری نظر رکھی جائے۔ اب تک ہمیں اس سلسلے میں جو ناکامیاں دیکھنا پڑی ہیں ان کی وجوہات کے بارے میں متعلقہ اداروں کو یقینا فکر مند ہونا چاہے اور انہیں فوری طور پر ان خامیوں، کمزوریوں کی نشاندہی کرکے اصلاح احوال کرنا چاہئے۔ اس کے خلاف ہماری سٹریٹجی قبل از وقت پیش بندی اور پہل کاری پر مبنی ہونی چاہئے۔دفاعی حصار اور سیکورٹی میں اضافے کا بندوبست ہی کافی نہیں بلکہ خفیہ معلومات اور دہشت گردوں پر ان کے مذموم ارادوں سے قبل قابو پالینے کی حکمت عملی اپنانی ہوگی اور اس کے لیے عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔ اب تک جو صورتحال نظر آرہی ہے عام طور پر پہل کاری، جگہ اور وقت کا انتخاب دہشت گردوں پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ وہ اپنی مرضی سے جہاں چاہیں حملہ کریں ۔ اس تناظر میں ضرورت اس امر کی ہے کہ دہشت گردی کے عفریت کو بوتل میں بند کرنے کے لئے ایک جامع حکمت عملی اپنائی جائے۔ سب سے پہلے ریاست کی رٹ کو چیلنج اور بغاوت کرنے والوں کے خلاف کاؤنٹر آپریشن کیا جائے۔ اس کے بعد ان دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کی جائے جو باہرسے پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث ہیں، ان کے خلاف جارحانہ رویہ اپنایا جائے اور پہل کاری کے عنصر کو غالب رکھا جائے۔ دہشت گرد دنیا کے جس حصے میں بھی موجود ہوں، انہیں ڈھونڈ نکالا جائے، اور تیسرا یہ کہ دہشت گردی سے متاثر ہونے والے افراد کی داد رسی کی جائے ان کے دل ودماغ جیتنے کے لئے تمام وسائل بروئے کار لائے جائیں۔ ڈپلومیسی اورمذاکرات کے پہلو کو بھی نظر انداز نہیں کیا جانا چاہئے مگر یہ اپنی شرائط پر ہوں۔ حکمت عملی پر اس طرح عملد آمد کیا جائے کہ یہ دہشت گردوں کے دلوں میں خوف اور دہشت طاری کردے اور ان سے پہل کاری کا عنصر چھین لے اور انہیں ریاست کی رٹ تسلیم کرنے کے لئے مذاکرات پر آنے پر مجبور کردے۔اکثر تجزیہ نگار یہ رائے دیتے نظر آتے ہیں کہ دہشت گردوں کو کسی قسم کا خوف نہیں کیونکہ وہ مرنے اور مارنے کے لئے نکلتے ہیں۔ ان کی بات کافی حد تک درست معلوم ہوتی ہے مگر ہمارے ایک انتہائی معتبر ماہر نفسیات نے تصویر کا دوسرا رخ پیش کیا ہے۔ جو حقیقت کے زیادہ قریب نظر آتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ دہشت گردوں کو دنیا کے تمام خوف گھیرے رکھتے ہیں کیونکہ خوف ، خدشات اور بے یقینی ہی کی بنیاد پر دہشتگردی جنم لیتی ہے۔ تمام دہشت گرد دراصل ایسی محرومیوں کا شکار ہوتے ہیں جو دنیا میں انہیں تنہا کردیتی ہیں۔ یہی کیفیت انسانوں سے نفرت کا سبب بن کر انہیں ہتھیار اٹھانے پر مجبور کردیتی ہے۔ دہشت گرد بنیادی طور پر خوف کے فوبیا کا شکا ر ہوکر ہی دنیا کو مارنے کے لئے گھر سے نکلتے ہیں۔ پھر جب وہ ایسے گروہ میں داخل ہوتے ہیں جو ان سے ذہنی ہم آہنگی رکھتا ہو تو پھر یہ خوف کا رویہ اجتماعی شکل اختیار کرکے دوچند ہوجاتا ہے اور جب یہ لوگ مسلسل خون ریزی کرتے ہیں تو خوف کی کیفیت پر قابوپانے کے لیے بے حسی کو غالب کرلیتے ہیں۔ اس طرح وہ سفاکی کی ایسی دلدل میں دھنس جاتے ہیں جس سے شاید ہی پھر نکل سکیں اور جب تک زندہ رہتے ہیں انہیں مختلف خوف مسلسل اپنے گھیرے میں لیے رکھتے ہیں جن میں ضمیرکا خوف، پکڑے جانے کا خوف، لوگوں اور اپنے ہی گھر والوں کی نفرت کا خوف ۔۔۔اور ہاں، ان کے دل میں اگر کسی خوف کی کمی ہے تو وہ خوفِ خدا ہے کیونکہ خوف خدا رکھنے والے کسی معصوم کی جان نہیں لیتے اور نہ حد سے تجاوز کرتے ہیں۔آخر میں جناب سید نظر زیدی کے چند اشعار پیش خدمت ہیں:
کبھی سوچا یہ کیسا دورِ مسعود ہے لوگو!
لہو بہتا ہے اور قاتل کا دامن نم نہیں ہوتا
شیاطین نے جمالِ زندگی برباد کر ڈالا
خدایا ، کیا ہوا، کیوں یہ اندھیرا کم نہیں ہوتا
Prof Afraz Ahmed
About the Author: Prof Afraz Ahmed Read More Articles by Prof Afraz Ahmed: 31 Articles with 21129 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.