بھارتی جنتا پارٹی (بی جے پی) کی
جانب سے وزیراعظم کے عہدہ کیلئے نامزدہ کئے جانیوالے نریندر مودی بولنے کے
حوالے سے بہت زیادہ شہرت رکھتے ہیں اور بولتے وقت انداز جارحانہ اور بیباک
ہونے کے ساتھ ساتھ الفاظ کا چناؤ بھی نپے تلے اندا ز میں کرنے کے ماہر ہیں۔
ان کی یہ خاصیت لوگوں کو دیوانہ بنانے کیلئے کافی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مودی
کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے۔اور مخالفین کی سب سے بڑی پریشانی کا سبب بھی
یہی ہے کہ ان کے پاس مودی کی باتوں کا توڑ نہیں ہوتا ۔لیکن یہ بھی حقیقت ہے
کہ بڑے سے بڑاماہربھی کبھی نہ کبھی منہ سے ایسی بات نکال دیتا ہے جو اس کے
لئے وبال بن جاتی ہے اور جگ ہنسائی ہوجاتی ہے ۔ کچھ ایسا ہی معاملہ گذشتہ
دنوں مودی کے سلسلے میں ہوا جب وہ مسلم ووٹ حاصل کرنے کیلئے کچھ زیادہ ہی
بے تاب نظر آئے۔جب اپنے ایک بیان میں انہوں نے پس ماندہ مسلم معاشرہ کو
اپنی بھارتی جنتا پارٹی سے جوڑنے کی وکالت کی۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ بھارت
میں کل مسلمانوں میں پس ماندہ سماج کی کل آبادی تقریبا85 فیصد ہے اور مسلم
معاشرہ تقریبا44 ذاتوں میں تقسیم ہے جن میں چار اونچی ذاتوں(مغل، شیخ، سید
اور پٹھان) کوچھوڑ کر چالیس کا شمار پس ماندہ لوگوں میں کیا جاتا ہے یہ لوگ
کافی خستہ حال ہیں اور خود کو محروم طبقہ تصور کرتے ہیں اور اب خود کو ترقی
کی راہ پر گامزن کرنا چاہتے ہیں لیکن ان کی اس خواہش میں محدود وسائل اور
ناخواندگی سب سے بڑی رکاوٹ ہے اور یہی پسماندگی اور ناخواندگی سیاسی
جماعتوں کیلئے بڑا چارم رکھتی ہے اوروہ اسے کسی نعمت سے کم تصور نہیں کرتے
کیونکہ ان کی یہ محرومیاں اور بے بسی ان سیاسی گرگوں کو الیکشن کے دنوں
اپنی دکان چمکانے میں بڑی معاون و ممد ثابت ہوتی ہیں اور سبھی پارٹیاں ان
کو صرف ووٹ بنک کی حد تک استعمال کرتی ہیں لیکن ان کے مسائل کو کبھی
سنجیدگی سے حل کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔سب سے بڑے دکھ اور تکلیف کی بات یہ
ہے کہ یہ اونچی ذات کے چاروں مسلمان طبقے بھی باقی ماندہ مسلمانوں کے مسائل
کے حل کیلئے بالکل بھی کوشاں نہیں ہیں۔جیسے ہی الیکشن قریب آتا ہے یہ چھوٹی
بڑی پارٹیاں جن میں سماجوادی پارٹی،بہوجن سماج پارٹی، کانگریس،آر ایل ڈی
وغیرہ سبھی ان کی مجبوری کا فائدہ اٹھا کرانہیں استعمال کرتی ہیں۔اور اسی
ووٹ بنک کو بی جے پی2014 کے لوک سبھا الیکشن میں استعمال کرنے کا بھرپور
ارادہ رکھتی ہے۔ اسی لئے نریندر مودی کہتے ہیں کہ گجرات میں20-25 فیصد مسلم
بی جے پی کیلئے ووٹنگ کر سکتے ہیں تو پورے ملک میں ایسا کیوں نہیں
ہوسکتا؟ایک کٹر ہندو پرست نریندر مودی کی زبان سے ایسے الفاظ سیاسی مقاصدکو
حاصل کرنے کی بھرپور کوشش ہے۔اور مسلمانوں کے پس ماندہ حصہ کو بھی اس بات
کا شدت سے احساس ہوچلا ہے کہ مودی کو ان کی طاقت کا اندازہ ہے۔جب کہ مسلم
رہنما انیس منصوری کے مطابق مودی کا بیان گمراہ کن ہے ان کاکہنا ہے کہ
ہوسکتا ہے کہ ایک دو فیصد مسلم ووٹ ان کے کھاتے میں چلاجائے لیکن یہ بھی
پسماندہ مسلمز کے نہیں ہونگے۔ یہ ان امیر و دولت مندمسلمانوں کے تو ہو سکتے
ہیں کہ جن لوگوں کا کوئی نہ کوئی مفاد ان سے وابستہ ہو۔ انیس منصوری کہتے
ہیں کہ کئی برسوں کا مسلم پسماندہ لوگوں کے مسائل و مطالبات پورے نہیں ہوئے
ہر مرتبہ ان میٹھی گولی دے دی جاتی ہے۔ ان کا مطالبہ ہے کہ پسماندہ
مسلمانوں کو آئین کی دفعہ341 کے مطابق مذہبی پابندی ختم کرکے ہندو ،مسلم،سکھ،
عیسائی،او بدھ مذاہب سے متعلقہ تمام درج فہرست ذاتوں کو فائدہ پہنچایا جائے۔
ان کو ذات و قبائل قانون سے باہر رکھاجائے تاکہ ان کو مطالم سے بچایا جاسکے
ان کوآبادی کے تناسب کے مطابق 9 فیصد الگ سے ریزرویشن دیا جائے۔ ان کا کہنا
ہے کہ پسماندہ مسلم سماج کو پسماندہ رکھنے میں ایک بڑا ہاتھ ان مسلم لیڈرز
کا بھی ہے جو کہ صرف اپنی کرسی بچانے اور رشتہ داروں کو نوازنے کا کام
کررہے ہیں۔برسر اقتدار پارٹیوں اور مسلم لیڈر کی نااہلی کی وجہ سے ان کی
حالت بد سے بدتر ہوتی جارہی ہے اور مرکزی اور ریاستی حکومتوں کے نظر انداز
کرنے کی بنا پر گوجر، گدی، گھوسی، قریشی، چھیپا، جوگی، ہاشمی، تمولی، تیلی،
سامانی، عراقی ، منصوری، رحمانی، فقیر، ہاری، انصاری ،حلال خور، نائک،
عباسی، دھوبی۔ نان بائی، حلوائی، میواتی، موچی، ماہی گیر، سنگ تراش،نٹ، لال
بیگی، مشعلچی وغیرہ کے خاندانی و پشتینی کاروبار ختم ہوچکے ہیں۔ روزی روٹی
کا مسئلہ پیدا ہوگیا ہے بچوں کی تعلیم و تربیت ممکن نہیں رہی ۔کاشت کاری کے
بعد سب سے زیادہ ریویونیو دینے والی صنعت (گھریلو صنعت ) اپنی موت آپ مر
رہی ہے ۔ لیکن مرکزی حکومت صم بکم عم کے مصداق کچھ کرنے سننے کو تیار نہیں۔
سچر کمیٹی اور رنگ ناتھ مشرا کمیشن نے اپنی رپورٹوں میں اس کا ذکر شد و مد
سے کیا۔ لیکن دیکھنے اور سننے کی حد سے بات آگے نہ بڑھ سکی ۔یہی بات اس
تعصب کی کھلم کھلا دلیل ہے کہ یہ چونکہ مسلمان لوگ ہیں ہندو نہیں۔ اسلام کے
داعی ہیں ہندو مت کے نہیں۔ اﷲ کی عبادت کرتے ہیں ہنو مان گاؤ ماتا کالی
دیوی وغیرہ کو نہیں پوجتے۔اس لئے ہندوستان میں ان کیلئے انکی اولاد کیلئے
تعلیم ، روزگار، تربیت،ٹرانسپورٹ ،صحت کی بنیادی سہولیات ان ہندو پسماندہ
لوگوں سے بھی بہت کم ہیں۔ تعصب کو چھوڑ کر مسلمانوں کو بھی ہندو پسماندہ
سماج کے برابر آبادی کے تناسب سے حصہ ملنا چاہئے تاکہ وہ مین اسٹریم سے جڑ
کر اس میں شامل ہوکر اپنے لئے وسائل پیدا کرسکیں۔ریاستی حکومتوں کے ذریعے
تشکیل شدہ تمام کمیشنز اور بورڈز یں ایک رکن نامزد کیا جائے۔سلیکشن کمیٹیز
میں پس ماندہ مسلمز کا ایک رکن مقرر کیاجائے۔ خاندانی پیشوں کے فروغ اور
ترقی کیلئے مالی امداد فراہم کی جائے۔ صنعت و تجارت کیلئے بلاسود قرضے دیئے
جائیں۔ پرائیویٹ تعلیمی اور مسلم اداروں میں 50 فیصد حصہ ریزرو کیا جائے۔پس
ماندہ مسلم سماج کو صرف اور صرف ووٹ بنک نہ سمجھا جائے بلکہ انہیں
ہندوستانی شہری مانتے ہوئے ان کیلئے تمام سہولیات مہیا کی جائیں۔نریندر
مودی کو بھی یہ جان لیناچاہئے کہ ہم صرف اور صرف ووٹ نہیں بلکہ ان کے سماج
کے جیتے جاگتے انسان ہیں۔
مسلم دنیا پر اگر ایک غیر جانبدارانہ نظر دوڑائی جائے تو معلوم ہوگا کہ اس
کے حکمران اور سیاستدان اقتدار اور دولت کے لالچ میں اور غیر مسلم آقاؤں کے
آلہ کار بن کر اپنے عوام پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہے ہیں اور اپنے مخالفوں کے
وجود کو دنیا سے خالی کررہے ہیں نجانے ایساکونسا خوف دبدبہ و رعب ہے کہ
امریکا اسرائیل اور مغربی ممالک سے مسلم حکمران ہر وقت کانپتے ہیں یا پھر
ایسا کون سا خوف ہے کہ مسلمانوں سے ان کی طاقت و ہیبت سے امریکا اسرائیل
اور مغربی ممالک خوفزدہ ہے اور مسلمانوں کو پنپنے کا موقع نہیں دیتے۔ آج 57
آزاد اور خود مختار مسلم ممالک کے حکمران اور سیاستدان عیسائیوں ،یہودیوں،
کمیونسٹوں اور ہندوؤں کے آگے مکمل طورعاجز ،بے بس اور بے توقیر ہوچکے
ہیں۔مسلمانوں کی شناخت کو ختم اور مسخ کرنے کیلئے ہمارے اپنے نام نہاد،بے
ضمیر اور منافق حکمرانوں اور سیاستدانوں کو مغربی اور طاغوتی طاقتیں آلہ
کار کے طور پر استعمال کررہی ہیں۔ہمارے حکمرانوں بالخصوص مسلم امہ کو تفرقہ
میں پڑنے کی بجائے تسبیح کے دانوں کی طرح ایک ڈوری میں بندھ جانا
چاہئے۔پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا پر بھی یہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ
اسلام اور مسلمانوں کی شناخت و ثقافت کو اجاگرکرنے کیلئے تاریخی
مقامات،واقعات،اکابرین پر دستاویزی فلمیں بناکر معاشرہ میں جوت جگائیں تاکہ
نریندر مودی جیسے ناپاک لوگ مسلمانوں کو استعمال کرنے سے باز رہیں۔نیز
بااختیار مسلم لیڈرز کو بھی اپنے مردہ اور سوئے ہوئے ضمیر کو جگاکر مسلم
کمیونٹی کیلئے کچھ بہتر کرنا چاہئے۔ کیونکہ اگر کہیں کوئی آگ لگے گی کوئی
فساد ہوگا مسلمانوں کو زیر بار کیا جائے گا تو اس کی تپش آپ سب تک جائیگی
اور بسا اوقات یہ تپش اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ آپ کو جھلسا دیتی ہے لہذا خود
بھی بچیں اور مسلم معاشرہ کو بھی بچائیں |