مودی کی نامزدگی

وزیر اعظم کے عہدے کے لئے بی جے پی نے آر ایس ایس کے حکم کے مطابق 2914ء میں ہونے والے انتخابات کے لئے نریندر مودی کو انا امیدوار نامزد کردیا ہے۔ کسی عہدے کے لئے کسی کی نامزدگی بہت زیادہ اہم بات نہیں ہے لیکن بی جے پی اور خود نریندر مودی یوں جشن منارہے ہیں جیسے کہ وہ واقعی وزیراعظم بن گئے ہیں۔ بی جے پی شائد یہ بات بھول چکی ہے کہ 2004ء اور 2009ء میں بی جے پی زیادہ مضبوط تھی اور وزارت عظمیٰ کے عہدے کے لئے اس کے امیدوار اٹل بہاری واجپائی اور اڈوانی جیسے قدآور قائدین تھے نیز این ڈی اے میں22تا24 جماعتیں شامل تھی اور آج این ڈی اے میں صرف تین جماعتیں ہیں۔ اس کے باوجود نریندر مودی اور سنگھ پریوار کا جشن دنیا کو دھوکا دینے کی ناکام کوشش ہے عوام کو غلط تاثر دینا سنگھ پریوار کا پرانا حربہ ہے۔

نریندر مودی کی نامزدگی کا اعلان دراصل بی جے پی کی مصلحت اور مجبوری ہے یا کئی اہم باتوں پر سے ملک کی توجہ ہٹانے کے لئے یہ کھیل کھیلا گیا ہے۔

گجرات پولیس کے ایک اعلیٰ افسر ونجارا نے گوکہ اپنے دس صفحات پر مشتمل خط میں نریندر مودی کی پول پوری طرح تو نہیں کھولی ہے لیکن وزارت عظمیٰ کے عہدے کے امیدوار ہونے کا دعویٰ کرنے والی شخصیت کے لئے ونجارا جیسے اعلیٰ عہدے دار کے انکشافات اس کی شخصیت کو مسخ کرنے کیلئے کافی ہیں یاد رہے کہ ونجارا مودی کے خاص الخاص معتمد افسروں میں سے ایک رہے ہیں لہٰذا ان کی باتوں کو مسترد کرنا آسان نہیں ہے۔ گجرات میں مودی کے کالے کرتوتوں سے متعلق کئی مقدمات مختلف عدالتوں میں زیر سماعت ہیں کسی بھی مقدمہ میں مودی کو جھٹکا لگنے کا احتمال ہے۔ اس صورت میں وزیر اعظم کے عہدے کے لئے مودی کی نامزدگی بھی مشکل ہوجاتی ۔ اسی لئے قبل اس کے کہ مودی کی شبیہ مزید بگڑتی ان کا تصور مسخ ہوتا۔ بی جے پی نے مناسب سمجھا کہ جھٹ پٹ مودی کو امیدوار نامزد کردیا جائے۔

مظفر نگر کے فسادات میں بی جے پی بری طرح ملوث ہے۔ ان فسادات کے ذریعہ بی جے پی اور نریندر مودی کے نائب امت شاہ کے یہ ارادے کہ یو پی کو گجرات بنادیا جائے گا۔ آشکار ہوگئے حالانکہ بی جے پی نے اپنے وفاداروں (خاص طور پر پولیس افسران کی مدد سے اور اکھلیش کی نااہلی سے بھر پور فائدہ اٹھاتے ہوئے سماج وادی پارٹی کو بدنام کرنے مظفر نگر میں فسادات کروائے تھے لیکن بی جے پی کا کھیل معصوموں کی جان لے کر قتل و غارت گری کے باوجود اسی کو الٹا پڑ گیا۔ سماج وادی پارٹی کا چاہے جو حسر ہو لیکن بی جے پی اور امت شاہ کے جرائم کھل کر سامنے آگئے اس بدنامی سے بچنے کے لئے نریندر مودی کی نامزدگی کا اعلان کرکے توجہ ہٹانے کی کوشش کی گئی ہے حالانکہ بی جے پی کے زیر اثر میڈیا نے مظفر نگر کے فسادات کو بڑی اہمیت دیتے ہوئے فسادات کے سلسلے میں یو پی حکومت پر ہونے والی تنقیدوں کو نمایاں کیا اور زبردست تشہیر کی۔ ورنہ عام طور پر ہمارا میڈیا مسلم کش فسادات کو پر بہت کم اہمیت دیتا ہے۔ آسام میں تقریباًدو سال قبل ہوئے انتہائی بھیانک فسادات ہوئے تھے لیکن میڈیا نے اسے زیادہ اہمیت نہیں دی تھی اور نہ ہی آسام کے وزیر اعلیٰ گو گوئی سے کسی نے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا تھا۔ اصل بات یہ ہے کہ یو پی میں لوک سبھا کی زیادہ سے زیادہ نشستوں پر کامیابی کے لئے ضروری ہے کہ یو پی میں سماج وادی پارٹی کو کمزور کیا جائے خاص طور پر مسلمانوں کو سماج وادی پارٹی سے دور کیا جائے۔ ٹی وی پر آنے کے شوقین اور کسی بھی مسئلہ پر ٹی وی والوں کی مرضی کے مطابق بات کہنے کے عادی مولویوں نے بڑا شورمچایا۔ آسام، راجستھان، بہار اور مہاراشٹرا میں ہوئے فسادات کے موقع پر ٹی وی پر شائد ہی کوئی مولوی صاحب ٹی وی پر نظر آئے ہوں۔ اﷲ کا شکر ادا کرنا چاہئے کہ ٹی وی والوں کے پسندیدہ مولوی صاحبان کی تعداد بہت کم ہے۔

نریندر مودی مسلمانوں کے ووٹس کی اہمیت سے واقف ہیں اس لئے ایک طرف وہ مسلمانوں کے ووٹس کے حصول کے لئے کوشاں ہیں اور زور شور سے دعوے کررہے ہیں کہ گجرات کے ریاستی اسمبلی کے انتخابات میں 20تا%25 مسلمانوں نے ان کو ووٹ دیا ان کا اور بی جے پی کا دعویٰ ہے کہ جب گجرات میں 20تا25 ووٹ مل سکتے ہیں تو ہندوستان میں بھر میں بھی مل سکتے ہیں!۔ اس سلسلے میں پہلی اور اہم بات تو یہ ہے کہ مودی کو یہ اعداد و شمار ملے کہاں سے؟ لگتا تو یہ ہے کہ یہ من گھڑت ہیں لیکن یہ ضرور ہے کہ گجرات میں بی جے پی کو کچھ نہ کچھ مسلم ووٹ ضرور ملے ہیں۔ یہ بات اس بنیاد پر کہی جاسکتی ہے کہ ایسے حلقوں میں جہاں کانگریس کے امیدوار مسلمان تھے وہاں بھی بی جے پی کے امیدوار (غیر مسلم) کامیاب ہوئے اس کی وجہ یہ ہے کہ زیادہ تر حلقوں میں سنگھ پریوار کے غنڈوں نے دھمکیوں دھونس اور دھاندلیوں سے یا تو مسلمانوں کو ووٹ دینے سے باز رکھا یا پھر ان کو بی جے پی کوووٹ دینے پر مجبور کیا۔ گجرات کا بے بس و بے یارو مدد گار مسلمان ڈر اور خوف کا شکار تھا۔ مزید پریشانی سے بچنے کے لئے سنگھ پریوار کے حکم کو ماننے پر مجبور تھا۔
’’لوگ مجبور ہیں ظالم کی طرفداری پر‘‘

لیکن نریندر مودی اور ان کی حمایت کرنے والے یادرکھیں کہ سارا ہندوستان گجرات نہیں ہے اور نہ ہی ہوسکتا ہے۔ مودی نے مسلمانوں کو کچھ نہیں دیا ہے ان کے پاس مسلمانوں کو دینے کے لئے کچھ نہیں ہے ہاں لینا وہ جانتے ہیں کبھی فسادات میں جان و مال لیتے ہیں تو جعلی پولیس مقابلوں میں معصوموں اور مظلوموں کو ونجارا، پانڈے اور نریندر امین جیسے افسروں سے قتل کرواتے ہیں۔ ہر معاملے میں مسلمانوں کو حاشیہ پر رکھنے والا مودی مسلمانوں سے ووٹس کی توقع رکھے تو اس کو امیدوار بنانے والوں کی عقل پر ہنسنا چاہئے۔ گجرات کے قصائی کی شاہنواز حسین اور مختار عباس نقوی حمایت کریں تو اور بات ہے لیکن درگاہوں، خانقاہوں اور امام بارگاہوں کے سجادے، مشائخ، مرشد، دیوان اور متولی صاحبان واجپائی حمایت کمیٹی کی طرح مودی حمایت کمیٹی بنائیں تو ان کا مواخذہ ضروری ہے۔ ان کو عہدے سے ہٹانا بھی ضرروری ہے۔

گجرات میں ریاستی اسمبلی کے انتخابات سے قبل سے ہی ملک کے بڑے بڑے سرمایہ دار وصنعت کار مودی کو وزیر اعظم کی کرسی پر بٹھانے کی مہم شروع کرچکے تھے۔ سنگھ پریوار اور سرمایہ داروں کے زیر اثر اخبارات اور ٹی وی چینلز اس مہم میں اس طرح شامل ہیں کہ لگتا ہے کہ مودی بی جے پی کے امیدوار نہیں میڈیا کے ہے۔ میڈیا کی اس قدر دلچسپی کی وجہ بلکہ وجوہات میں ان کی فرقہ پرستی، مسلم دشمنی کے علاوہ ان کے بکاؤ ہونے کے علاوہ امریکہ کی اس یہودی فرم کا بھی اثر ہے جس نے مودی کو وزیر اعظم بنانے کے لئے تشہیر عوامی رابطوں اور لابنگ کا ٹھیکہ لیا ہوا ہے۔

امریکہ کی عالمی شہرت کی مالک خبر رساں، تشہیر اور عوامی رابطوں کی مشاورتی فرم APCO World Wideکی سی او اوCEO اورمؤس مارگیری کراؤس Margery Kraus نے بتایا کہ ہندوستان میں APCO کے منیجنگ ڈائرکٹر MD سوکنتی گھوش مودی کے لئے اپنے ساتھیوں کے ساتھ شب و روز مصروف ہیں یہ بھی بتایا کہ امریکہ و برطانیہ کے لئے سابق ہندوستانی سفیر اور ممتاز سفارت کاللت مان سنگھ بھی APCO میں مودی کے لئے کام کررہے ہیں۔ جب لاکھوں ڈالر دے کر اتنی ممتاز و ماہر فرم کی خدمات مودی کے لئے حاصل کی جائیں گی تو مودی کا شاندار پروپگنڈہ تو ہوگا ہی!۔ اس پروپگنڈے کا کس حدتک اثر ہوگا؟ یہ اہم ہے؟

گجرات کی صنعتوں کو اس کی ترقی یاوکاس کے ثبوت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ مودی نے ملکی اور غیر ملکی سرمایہ داروں کو ناقابل قیاس کم قیمتوں پر زمین، بجلی اور پانی فراہم کیا، کم سے کم قیمتوں پر خام مال اور مزدور فراہم کروائے اور ٹیکسوں میں چھوٹ دے دے کر گجرات میں سرمایہ کاروں کو سرمایہ کاری اور صنعتیں لگانے کی ترغیب دی۔ عوامی سہولیات کی ترقی تو مدھیہ پردیش اور راجستھان میں گجرات سے زیادہ ہوئی ہیں ۔ جب سرکار خود سرمایہ داروں کو رعایتوں اور مراعات کی رشوت دے گی۔ گھٹالوں کو چھپائے گی تو کرپشن کی گنجائش کہاں ہوگی؟ ملک بھر سے مسلم نوجوانوں گجرات کی جیلوں میں قید کرکے ہندو دہشت گرد بھلا اپنے سرپرست اعلیٰ کی ریاست میں دہشت گردی کیوں کریں گے؟ جیلوں میں قیدیوں کی تعداد بڑھاکر اور متعدد جعلی پولیس مقابلوں میں مسلمان نوجوانوں بشمول 19سالہ طالبہ عشرت جہاں کو قتل کرواکے انسداد دہشت گردی ختم کرنے میں کامیابی کا دعویٰ مودی کرتے ہیں!۔

ترقی کے جھوٹے دعووں، فرقہ پرستی اور اپنے مظالم پر نازاں (ندامت و معذرت کا ذکر تک نہ کرنے والا) ظالم مودی پروپگنڈے کے زور پر انشاء اﷲ العزیز ہرگز کامیاب نہ ہوگا (آمین)۔
Rasheed Ansari
About the Author: Rasheed Ansari Read More Articles by Rasheed Ansari: 211 Articles with 184786 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.