جب ماں اجڑتے اجڑتے بچی.

بچے کی ولادت پر اہل گھرانہ کی خوشی دیدنی تھی۔ پیدائش کے موقع پر بچے کے والد نے اہل محلہ کے لئے دعوت عام کا اہتمام کیا۔ دن یوں ہی گزرتے گئے کہ ایک دن اغوا کاروں نے بچے کو اغوا کرنے کی کوشش کی لیکن بچے کے والد کی بروقت مداخلت کی وجہ سے اغوا کار اپنی کوشش میں کامیاب نہ ہو سکے۔ اگرچہ اس دوران والد کو شدید چوٹیں آئیں جس کی بناءپر وہ کئی دن ہسپتال میں زیر علاج رہا لیکن انہوں نے اپنے بیٹے کو کوئی گزند نہیں پہنچنے دیا۔ دن ہفتوں، ہفتے مہینوں اور مہینے سالوں میں تبدیل ہوتے گئے کہ کچھ ہی عرصے میں بچے کے والد کی دوستی علاقے کے منشیات فروشوں سے ہو گئی۔ بس پھر کیا تھا اس کی تو زندگی کے معمولات ہی تبدیل ہوگئے۔ پہلے جہاں اس کا زیادہ تر وقت کام کاج اور اپنے گھر والوں کے ساتھ گزرتا تھا اب اس نے کام پر بھی جانا چھوڑ دیا اور گھر والوں کو بھی نظرانداز کرنا شروع کر دیا۔ انہی حرکات کی بناء پر اسے گھر اور خاندان والوں نے سمجھایا لیکن اسے کسی کی بات سجھائی نہ دی۔ ایک دن اہل گھرانہ خاندان کے کسی تقریب میں گئے تھے کہ شام کو جب واپس آئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ گھر میں موجود ریفریجریٹر غائب ہے۔ بچے کے والد سے جب معلوم کیا تو اس نے الٹا گھر والوں کی ڈانٹ ڈپٹ شروع کی کہ کیا ضرورت تھی تمہیں کسی کی تقریب میں جانے کی۔ نہ تم عیاشی کرتے (یعنی تقریب میں جاتے) اور نہ میرے محنت سے کمائے ہوئے چالیس ہزار کا فریج غائب ہوتا۔

گھر والے تو اسی وقت خاموش ہوگئے لیکن انہوں نے بعد میں جب چھان بین شروع کی تو پتہ چلا کہ وہ ریفریجریٹر تو بچے کے والد نے دوسرے علاقے کے ایک کباڑیہ کو پانچ ہزار روپے میں بیچ دیا ہے۔ جب اس بات کی خبر خاندان کے بزرگوں کو ہوئی تو انہوں نے رات کو گھر واپسی پر جب اس کو اس کے کیے ہوئے کرتوت کے بارے میں بتایا تو اس وقت اس نے بڑے ڈھٹائی کے ساتھ کہا کہ جب میرے پاس دارو کے لیے اور کچھ نہیں بچا تو تب جا کر میں نے فریج کو بیچ دیا۔ دارو کا نام سن کر اس کی بیگم نے تو رونا شروع کیا کہ ہائے سرتاج تمہیں کیا بیماری لاحق ہوئی ہے تم نے اتنا تکلیف کیوں اٹھایا اور ہمیں بتایا تک نہیں اللہ تمہیں لمبی زندگی دے۔ موقع پر موجود ایک رشتہ دار نے اس کی بیوی کو بمشکل چپ کرایا اور کہا کہ بھابھی جس دارو کا یہ ذکر کر رہا ہے وہ دارو اور ہے۔۔۔ وہ دارو میڈیکل اسٹور پر نہیں ملتا بلکہ اس کی پڑیا منشیات کے اڈوں سے ملتی ہے۔ منشیات کے اڈے کا نام سنتے ہی خاندان کے بزرگ تو سکتے میں آگئے۔ بزرگوں نے بچے کے والد کو بھی ہر لحاظ سے سمجھایا کہ بیٹا جس راستے پر تم چل پڑے ہو اس میں دنیا اور آخرت کے نقصان کے سوا اور کچھ نہیں ملے گا۔ بہر حال وقت گزرتا گیا اور وہ شخص اپنے گھر والوں اور اپنے اس لاڈلے بچے سے بھی لاپرواہ ہو گیا حالانکہ بچہ ابھی کافی بڑا اور سمجھدار ہو چکا تھا۔

ایک دن اچانک بچے کا والد گھر آیا اور کہا کہ بیٹے جلدی سے تیار ہو جاؤ تمہیں سیر کے لئے لے کر جانا ہے۔ بچے کی ماں نے منع کیا لیکن وہ زبردستی بچے کو ساتھ لے گیا۔ بچے کے جانے کے بعد ماں کی چھٹی حس نے خطرے کی گھنٹی بجا دی اور اس نے فوری طور پر اپنے بھائی کو تمام تر صورت حال سے آگاہ کر دیا۔ بھائی نے فوراً بہنوئی کا پیچھا کیا اور بس ٹرمینل تک جا پہنچا۔ وہاں اس کا بہنوئی اپنے بیٹے سمیت قریبی شہر جانے والی گاڑی میں سوار ہو رہا تھا۔ انہوں نے انتہائی ذہانت کا مظاہرہ کرتے ہوئے بہنوئی کو موقع پر پکڑنے کی بجائے اس شہر میں موجود اپنے ایک دوست کو فون کیا اور اسے تمام تر صورتحال سے آگاہ کرنے کے بعد اسے گاڑی نمبر لکھوا دیا اور بچے اور اس کے والد کا حلیہ بتا دیا اور خود دوسری دستیاب گاڑی سے شہر روانہ ہوا۔ بچے کے ماموں نے جس وقت اپنے دوست کو اس تمام صورتحال سے آگاہ کیا تو اس کے دوست نے اسی وقت سے گاڑی کا انتظار کرنا شروع کر دیا۔ گاڑی جب شہر پہنچی تو پہلے سے بیٹھے ہوئے دوست نے بچے اور اس کے والد کو پہچاننے میں کوئی دقت محسوس نہیں کی اور انہوں نے مناسب فاصلے سے ان کا پیچھا کیا۔

تھوڑی ہی دور جانے کے بعد پیچھا کرنے والے دوست کو اس وقت حیرت کا شدید جھٹکا لگا جب بچے کا والد اپنی حیثیت سے بڑھ کر ایک اعلیٰ پائے کے نہایت مہنگے ہوٹل میں داخل ہوا۔ انہوں نے فوراََ پولیس کو اطلاع کردی۔ پولیس کے پہنچنے پر موبائل کے انچارج نے دو سادہ لباس میں ملبوس اہلکاروں کو ہوٹل کے قریب کھڑا کر دیا اورخود موبائل سمیت کچھ فاصلے پر چلے گئے۔ تقریباً آدھے گھنٹے بعد جب بچے کا والد ہوٹل سے باہر آیا تو بچہ اس کے ساتھ نہ تھا البتہ ایک چھوٹی سی پوٹلی اس کے ہاتھ میں دکھائی دی۔ موقع پر پہلے سے موجود دوست نے سادہ وردی میں ملبوس پولیس کے جوانوں کو اشارے سے بتا دیا کہ آدمی یہی ہے۔ ان میں سے ایک جوان نے فوراً وائرلیس کے ذریعے موبائل پولیس کو اطلاع دی اور بندے کا حلیہ بھی بتا دیا۔ بچے کا والد جیسے ہی ہوٹل سے کچھ دور ہو گیا تو اچانک پولیس والوں نے اسے دھر لیا اور آنکھوں پر پٹی باندھ کر اسے قریبی زیر تعمیر مکان میں لے گئے وہاں ایک اہلکار کو ان پر مامور کر کے موبائل پولیس اب ہوٹل کے قریب آ گئی ابھی چند ہی منٹ گزرے تھے کہ دو ہٹے کٹے آدمی بچے کو ساتھ لیے ایک بلیک کلر پراڈو گاڑی کی جانب بڑھنے لگے۔ ابھی وہ دروازہ کھول ہی رہے تھے کہ اچانک آواز آئی ”ہینڈز اپ“ دونوں جب تک مزاحمت کی کوشش کرتے پولیس ان کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں پہنا چکی تھی۔

پولیس جب انہیں تھانے لائی تو ان کے قبضے سے دو پستول، غیر ملکی کرنسی، جعلی شناختی کارڈ اور کافی تعداد میں ہیروئن کی پڑیا برآمد ہوئی جبکہ بچے کے والد سے جو پوٹلی برآمد ہوئی تھی اس میں پچاس ہزار رپے اور پانچ ہیروئن کی پڑیا موجود تھیں۔ تھانے کے ایس ایچ او نے جب تفتیش شروع کی تو وہ کچھ بتانے کو تیار نہیں تھے تو ایس ایچ او نے سپاہیوں کو حکم دیا کہ باری باری ان تینوں کی چھترول کرو۔ بچے کا والد تو پانچ منٹ میں سب کچھ بتانے کو تیار ہوا البتہ وہ دو آدمی کافی ڈھیٹ ثابت ہوئے ان سے راز اگلوانے میں سپاہیوں کو تقریباً ایک گھنٹہ لگا۔ اسی اثناء میں بچے کا ماموں بھی تھانے میں پہنچ گیا، چھترول مکمل کرنے کے بعد تینوں نے ایس ایچ او کو جو حقائق بتائے وہ کچھ یوں ہیں:

بچے کے والد کی دوستی جب منشیات فروشوں سے ہوگئی تو کچھ ہی عرصہ گزرجانے کے بعد وہ خود بھی اس لت میں مبتلا ہو گیا۔ جمع پونجی ختم ہونے کے بعد اس نے پڑیا کی خاطر گھر کا سامان حتیٰ کہ ریفریجریٹر تک بیچ ڈالا۔ جب گھر میں بھی سب کچھ ختم ہوا تو انہوں نے اس صورتحال سے اپنے منشیات فروش دوستوں کو آگاہ کیا ایک دو دن تک تو وہ اسے مفت میں مال دیتے رہے لیکن پھر صاف انکار کر دیا۔ جس سے بچے کا والد بہت پریشان ہو گیا۔ ایک دو دن گزارا کرنے کے بعد وہ دوبارہ اڈے پر اپنے دوستوں سے ملنے گیا تو انہوں نے تعاون سے تو بالکل ہی انکار کر دیا البتہ یہ مشورہ دیا کہ تم اپنا بیٹا بیچو، پہلے پہل تو یہ تیار نہ ہوا لیکن جب انہوں نے کہا کہ بچے کے بدلے میں تمہیں پچاس ہزار روپے اور پانچ پیکٹ ملیں گے تو فوراً راضی ہو گیا۔ جب یہ راضی ہو گیا تو انہوں نے انسانی اسمگلنگ کے بین الاقوامی گروہ کے مقامی کارندوں سے پانچ لاکھ روپے کا سودا کیا۔ جن میں سے ساڑھے چار لاکھ منشیات فروشوں نے لے لیے جبکہ پچاس ہزار کے بارے میں پارٹی کو بتادیا کہ مال لیتے وقت بچے کے والد کو دے دینا۔ ایک اور دلچسپ بات یہ کہ والد جب بچے کو ہوٹل میں لے کر گیا تو وہاں پر پہلے سے موجود انسانی اسمگلروں کو بچے کے سامنے اپنا دوست ظاہر کیا اور بچے سے کہا کہ میں قریبی کلینک جا رہا ہوں تم تھوڑی دیر میں انکل کے ساتھ ان کی گاڑی میں وہاں آجانا۔ یہی تو وجہ تھی کہ بچہ ان دو آدمیوں کے ساتھ خوشی خوشی ہوٹل سے گاڑی کی طرف جا رہا تھا کیونکہ اسے حقیقت حال معلوم نہ تھی۔

تمام تر حقائق سے با خبر ہونے کے بعد ایس ایچ او نے فوری طور پر اپنے اعلیٰ حکام کو اس کیس کے بارے میں اطلاع دی کیونکہ یہ ایک ہائی لیول کیس بنتا نظر آ رہا تھا۔ اعلیٰ حکام کو اطلاع دینے کے بعد منشیات فروشوں کو سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا گیا۔ بحرحال یہ تو اللہ نے کرم کیا کہ بچے کی ماں کے دماغ نے بروقت کام کیا۔ ورنہ بچہ تو ان سے بچھڑ ہی چکا تھا۔

معاشرہ اسی صورت بہتری کی جانب گامزن ہوتا ہے۔ جب اس کی تمام اکائیاں تہذیب کے دائرے میں رہے۔ بظاہر کوئی برائی چھوٹی ہی کیوں نہ ہو لیکن اس کے اثرات ماحول پر بڑے گہرے نقوش مرتب کرتے ہیں۔ یہ کہانی ہمیں یہ پیغام دے رہی ہے کہ نشہ معاشرے کے لئے زہر قاتل کی حیثیت رکھتی ہے۔

Saeed ullah Saeed
About the Author: Saeed ullah Saeed Read More Articles by Saeed ullah Saeed: 112 Articles with 105550 views سعیداللہ سعید کا تعلق ضلع بٹگرام کے گاوں سکرگاہ بالا سے ہے۔ موصوف اردو کالم نگار ہے اور پشتو میں شاعری بھی کرتے ہیں۔ مختلف قومی اخبارات اور نیوز ویب س.. View More