جمعرات کی صبح سری نگر میں
بھارتی فوجی کیمپ پر مجاہدین نے دھاوا بول کر لیفٹیننٹ کرنل سمیت 5 بھارتی
اہلکاروں کو ہلاک کر ڈالا۔ میڈیا رپورٹوں کے مطابق ٹرک سوار حملہ آور فوجی
وردیوں میں ملبوس تھے۔ کئی گھنٹے جھڑپ کے بعد تمام حملہ آور بچ نکلنے میں
کامیاب ہوگئے۔ اسی روز ایک پولیس اسٹیشن کو بھی نشانہ بنایا گیا جس کے
دوران 5 اہلکار اور پولیس کے 2 مخبر مارے گئے، یہاں بھی حملہ آوروں کو کسی
جانی نقصان کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔
اہل پاکستان جو بم دھماکوں اور سیکورٹی مراکز پر حملوں کے عادی ہوچکے ہیں،
ان کے لیے مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے یہ 2 حملے کوئی اچھنبے کی بات نہیں
ہیں مگر پاک بھارت تعلقات پر گہری نظر رکھنے والے ان واقعات کو بہت اہمیت
دے رہے ہیں۔ اس معاملے کے دو پہلو ہیں، ایک اس کی ٹائمنگ اور دوسرا تحریک
حریت سے اس کا تعلق۔ نواز شریف اور من موہن سنگھ کے درمیان نیویارک میں
ملاقات ہونے والی تھی۔کشمیریوں نے سیکورٹی فورسز کو نشانہ بنا کر دونوں
ملکوں کو یہ پیغام دیا ہے کہ پاکستان اور بھارت مسئلہ کشمیر حل کیے بغیر
آگے نہیں بڑھ سکتے۔ خطے میں مستقل بنیادوں پر امن آلو، پیاز کی تجارت سے
نہیں بلکہ کشمیریوں کو ان کا حق دینے سے ہی ممکن ہوگا۔
چند روز قبل ایک سیاسی جماعت کے رہنما نے کوئٹہ میں پریس کانفرنس سے خطاب
کرتے ہوئے کہا تھا کہ مقبوضہ کشمیر میں مسلح تحریک دم توڑ چکی ہے۔ یہ بات
پہلی بار سننے میں نہیں آئی، بلکہ بہت سے تجزیہ کار مسلسل اسی قسم کے
خیالات کا اظہار کرتے چلے آرہے ہیں۔ ریکارڈ بھی یہ بتارہا ہے کہ کم از کم
گزشتہ پانچ برسوں کے دوران مقبوضہ کشمیر میں قابض فوج پر کوئی بڑا حملہ
نہیں ہوا ہے۔ بعض لوگ تو یہاں تک کہہ رہے تھے کہ مقوضہ کشمیر میں چلنے والی
مسلح تحریک کا تعلق چوں کہ کشمیریوں سے نہیں تھا، اس لیے جوں ہی ان کے
بیرونی معاونین نے ہاتھ کھینچا، تحریک بھی ٹھنڈی پڑگئی۔ جمعرات کے واقعات
ان سب سوالوں کا جواب ہیں۔ ان حملوں کی ذمہ داری ایک مقامی تنظیم نے قبول
کی ہے، جو خالصتاً کشمیریوں پر مشتمل ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ تحریکوں کی
جدوجہد میں نشیب وفراز تو آتے رہتے ہیں مگر دشمن کو خبر ہو کہ کشمیری ابھی
زندہ ہیں۔ وہاں کی مائیں بانجھ نہیں ہوئیں، وہ اب بھی ایسے سپوتوں کو جنم
دے رہی ہیں، آزادی جن کا نعرہ اور شہادت جن کی محبوبہ ہے۔
بھارتی میڈیا نے حسب روایت کسی ثبوت کے بغیر پاکستان کو ان حملوں کا ذمہ
دار ٹھہرادیا۔ ٹی وی اسکرینوں پر جنگ کا ماحول بنادیا گیا۔ چن چن کر ایسے
سیاست دانوں کے انٹرویو نشر کیے گئے، جن کی پاکستان دشمنی سے ایک جہاں واقف
ہے۔ بدلے اور سبق سکھانے کی باتیں کی گئیں، بعض نے تو یہاں تک کہا بہت
ہوچکا اب پاکستان پر دھاوا بول دینا چاہیے۔ پاکستان دشمنی میں ہوش گنوانے
والے یہ بھارتی سورما اگر اپنے گریبان میں جھانک لیتے تو انہیں ان حملوں کا
سارا پس منظر سمجھ میں آجاتا۔ سوچنے کی بات ہے، بھلا پاکستان یہ حملے کیوں
کرائے گا؟ کیا حکومت پاکستان یہ چاہے گی کہ نواز، من موہن مذاکرات ناکام
ہوجائیں؟ کبھی بھی نہیں، نواز شریف تو بھارت پر قربان ہوئے جارہے ہیں، ان
کے تقریباً ہر خطاب میں بھارت سے دوستی کی بات ہوتی ہے، کشمیری ہونے کے
باوجود کشمیر ان کی ترجیحات میں نظر نہیں آتا۔ ن لیگ کی حکومت تو بھارت کو
پسندیدہ ملک کا درجہ قرار دینے کے لیے بے چین ہے، اس حکومت نے تو کنٹرول
لائن پر اپنے فوجیوں کی شہادت پر بھی اس خوف سے سخت احتجاج نہیں کیا کہ
کہیں بھارت سے تعلقات خراب نہ ہوجائیں۔
دراصل بھارتی سیکورٹی فورسز پر حملوں میں پاکستان ملوث ہے اور نہ ہی یہاں
کے کسی شخص یا تنظیم کا اس میں کوئی ہاتھ ہے۔ یہ بھارتی فورسز کے ستائے
کشمیریوں کے احتجاج کی ایک جھلک ہے، جب تک یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا، بھارت کو
اس طرح کی جھلکیاں دیکھنا پڑیں گی۔ 6 لاکھ سے زاید بھارتی فوجی کشمیر کے
چپے چپے پر موجود ہیں، ان کے ہاتھوں کسی کا مال محفوظ ہے، نہ عزت وآبرو۔ یہ
جس کے سینے میں چاہیں گولی اتار دیتے ہیں اور جسے چاہیں اندھیری کوٹھریوں
میں قید کر ڈالتے ہیں۔ جب تک یہ جبر جاری رہے گا، اس کے خلاف آواز بھی
اٹھتی رہے گی۔ بھارتی حکومت، سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ، سیاست دانوں اور میڈیا کو
یہ حقیقت تسلیم کرلینی چاہیے، شتر مرغ کی طرح ریت میں منہ چھپانے سے کچھ
نہیں ملے گا۔ جہاں تک الزام تراشیوں کا معاملہ ہے، بھارت کو پہلے اس سے
کوئی فائدہ پہنچا اور نہ آیندہ کوئی امید رکھنی چاہیے۔ صرف کشمیر نہیں
بھارت میں تین درجن کے قریب ایسے علاقے ہیں جہاں آزادی کی تحریکیں چل رہی
ہیں۔ اگر ہم مان لیں کشمیریوں اور سکھوں کی پشت پر پاکستان ہے تو جناب یہ
بتائیے! باقی تحریکوں کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے؟ شاید بھارتی میڈیا اس کا
جواب دینا پسند نہ کرے، چوں کہ، چنانچہ، اگرچہ، مگرچہ سے لوگوں کو چکر تو
دیا جاسکتا ہے مگر حقیقت نہیں چھپائی جاسکتی۔ بھارت میں چلنے والی علیحدگی
کی تحریکوں کے پیچھے پاکستان نہیں وہاں کے عوام کا احساس محرومی ہے۔ لوگوں
نے بھارت کے ظلم سے تنگ آکر اسلحہ اٹھایا ہے۔ پاک بھارت رہنماؤں کو آلو،
پیاز کے چکر سے نکل کر کشمیر کے ون پوائنٹ ایجنڈے پر مذاکرات کرنے چاہئیں۔
اسی مسئلے کی وجہ سے دونوں ملک کئی جنگیں لڑچکے ہیں، دونوں اطراف اسی وجہ
سے اسلحہ کے ڈھیر لگائے جارہے ہیں، پورے خطے میں کشیدگی اسی مسئلے کی وجہ
سے ہے، پہلے اسے حل کرلیجیے، پھر شوق سے آگرے کے تاج محل اور لاہور کی شاہی
مسجد کی سیر کیجیے۔ |