شاہین اختر
نیویارک کی امریکی عدالت نے سکھوں کے قتل عام سے متعلق سکھ فار جسٹس نامی
تنظیم کی درخواست پر بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ اور نیویارک میں موجود
سونیا گاندھی کو طلبی کے نوٹس جاری کر دیئے ہیں۔ بھارتی وزیر اعظم منموہن
سنگھ بھی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے حوالے سے
نیویارک میں موجود ہیں۔ یاد رہے کہ 21اکتوبر 1984 ء کو بھارتی وزیر اعظم
اندرا گاندھی کو اپنے ہی سکھ محافظوں بیانت سنگھ اورستونت سنگھ نے موت کے
گھاٹ اتار دیاتھا۔ اندرا گاندھی کی طرف سے امرتسر میں واقع سکھوں کے مقدس
مقام گولڈن ٹمپل پر فوج کشی کے حکم جاری کرنے پر سخت مضطرب اندرا گاندھی کے
محافظوں نے اپنا غصہ اتارا تھا۔ فوج کی یہ کارروائی آپریشن بلیو سٹار،، کے
نام سے مشہور ہوئی تھی۔ جیسا کہ یہ بات ہر خاص و عام جانتا ہے کہ یہ اندرا
گاندھی ہی تھی جس نے پہلے بھنڈرانوالہ کو استعمال میں لاتے ہوئے اس کی دہشت
گردانہ مہم کوپنجاب میں اکالی دل کے اثر ورسوخ کو کم اور ختم کرنے کی کوشش
کی مگر یہ کوشش کامیاب تو کیا ہوتی البتہ اسکے الٹ اثرات سامنے آنے لگے اور
بھنڈرانوالہ نہ صرف جیل سنگھ بلکہ خود اندرا گاندھی کے بھی مدمقابل آگیا۔
جب اندرا نے دیکھا کہ کھیل کی باگ ڈور اب اس کے ہاتھوں سے پھسل رہی ہے،تو
اس نے حکم جاری کیا کہ گولڈن ٹمپل کے اندر آپریشن بلیو سٹار شروع کیاجائے
جو کہ سکھو ں کیلئے سب سے مقدس ترین مذہبی مقام کا درجہ رکھتاہے۔ اندرا
گاندھی کے قتل کے فوری بعد ہی کانگریس کی قیادت نے موقع کی نزاکت کا فائدہ
اٹھاتے ہوئے پولیس اور غنڈوں کی مدد سے سکھوں کے قتل عام کی سازش تیار کی
تاکہ ایک تو قتل کا بدلہ لیا جائے اور دوسرے اس قتل عام کے ذریعے عام لوگوں
کو خوف و دہشت کا شکار بھی کردیاجائے۔ اس بہیما نہ بربریت کی شدت کا اندازہ
اندرا گاندھی کے بیٹے راجیو گاندھی کے اس بیان کے الفاظ سے لگایاجاسکتا ہے
جو اس نے ریڈیو پر دیاتھا، جب یہ قتل عام جاری تھاکہ جب ایک بہت بڑا درخت
گرتا ہے تو زمین کو ہر حال میں دہل جاناپڑتاہے،، ۔ یہ بیان ایک اشارہ تھا
اور ایک ہدایت بھی کہ کس طرح اور کس شدت سے اس کارروائی کو انجام
دیاجائے۔اس بہیمانہ سازش کے تحت بعد ازاں اس بدلے کی بھانا کو سکھوں کے بلا
تردد اور بلاروک ٹوک قتل عام کی مہم میں بدل کے رکھ دیاگیا جس میں بیشتر
سکھوں کے گلے میں جلتے ہوئے ٹائر ڈال کر انہیں نشان عبرت بناتے ہوئے لقمہ
اجل بنا دیاگیا۔ ان کے گھروں کو جنونی انداز میں تہہ وبالا کردیاگیا ، ان
کی املاک لوٹ لی گئیں اور ان کی عورتوں کوجنسی درندگی کی بھینٹ
چڑھایاجاتارہا۔ اس دوران کانگریسی لیڈروں کی قیادت میں غنڈوں کی ٹولیاں اور
لشکر کھلے عام اور دیدہ دلیری سے یہ سب کچھ کررہے تھے،پولیس یہ سب کچھ آرام
و سکون سے چپ چاپ ہوتادیکھتی رہی ۔ یہی نہیں بلکہ اس نے ان وارداتوں اور
وارداتیوں کی ممکنہ مدد اور راہنمائی کا بھی فریضہ سرانجام دیا۔ للیت میکن،
سجن کمار، جگدیش ٹائٹیلر، اور ہر ی کشن لال بھگت جیسے سبھی یونیں منسٹرز
اور حکمران پارٹی کے ا س وقت کے مہان نیتاں کے بارے عام لوگوں نے گواہی دی
کہ انہوں نے غنڈوں موالیوں کو سکھوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کیلئے نہ
صرف بھڑکایا بلکہ ان کی قیادت کی۔
3 ستمبر 2013ء کو جاری ہونے والے ان سمن کے تحت مسز سونیا گاندھی کو ان
الزام کے تحت عدالت نے طلب کیا ہے کہ انہوں نے کانگریس کی صدر کی حیثیت سے
1984ء میں دلی میں سکھوں کے خون سے ہولی کھیلنے والے کانگریس رہنماؤں جگدیش
ٹائٹیلر، کمل ناتھ اور ساجن کمار کو تحفظ دے کر انہیں اب تک قانون کی گرفت
سے آزاد رکھا ہوا ہے اور وہ کانگریس کی صدر کی حیثیت سے ان قاتلوں کی پشت
پناہی کررہی ہیں جنہوں نے 1984ء میں اندرا گاندھی کے اپنے دو باڈی گارڈز کے
ہاتھو ں قتل کے بعد بے گناہ سکھ عورتوں، مردوں، بوڑھوں، بچوں کو سرکاری
سرپرستی میں بہیمانہ تشدد کرتے ہوئے ہزاروں کی تعداد میں مار ڈالا۔
بھارت تقریباً ایک کروڑ ساٹھ لاکھ سکھوں کا مسکن ہے۔ پنجاب میں سکھوں کی
اکثریت ہے جو آبادی کا 61 فیصد ہیں لیکن سکھ بھارت کی کل آبادی کے 2 فیصد
سے بھی کم ہیں۔ 1947ء میں تقسیم کے وقت پنجاب کا 66فیصد حصہ جو مسلمان تھا
پاکستان میں شامل ہوا۔ نو آبادیاتی دور میں پنجاب میں سکھوں کی آبادی 14
فیصد تھی۔ 2000ء میں کئے گئے ایک سروے کے مطابق پنجاب 85لاکھ 33 ہزارایکڑ
رقبے اور دو کروڑ سے زائد آبادی پر مشتمل ایک بھارتی صوبہ ہے جس میں 70
فیصد دیہی اور 30 فیصد شہری آبادی شامل ہے۔ 1947ء میں انگریز سے آزادی کے
وقت پنجاب کی تقسیم کے باعث اس کے سرحدی خدوخال پر کافی اثر پڑا۔ نو برس
بعد پنجاب میں پٹیالہ کو ضم کردیا گیا۔ ستمبر 1966ء میں پنجاب کی سرحدیں
ایک بار پھر تبدیل ہوئیں اور پنجاب سٹیٹ ری آرگنائزیشن بل کے تحت جنوب میں
ہندی بولنے والے میدانی اضلاع پر ہریانہ ریاست قائم کی گئی۔ شمال میں ہندی
بولنے والے پہاڑی اضلاع کو پڑوسی ہماچل پردیش کے ساتھ ضم کردیا گیا اور بچے
ہوئے پنجابی بولنے والے علاقے پر نئے پنجاب کا قیام عمل میں آیا۔ اس بار
بار تقسیم کے عمل نے پنجابی سکھوں میں خالصتان کے قیام کی خواہش کو بیدار
کیا۔ |