دہشتگر دی اور پاکستان کا مستقبل

جمعے کا دن تھا موسم بھی نہایت خوشگوار تھا۔ سول سیکرٹریٹ پشاور کے سرکاری ملازمین اپنے دفتر میں سر کاری امور میں مصروف تھے ۔آج ملازمین کو چھُٹی کرنے کی بہت جلدی تھی کیونکہ آج جلد از جلدملازمین کواپنے سرکاری امور نمٹا کرگھروں کو جانا تھا اگلے دو دن کو سرکاری چُھٹی تھی تو ہر ملازم کے دل میں الگ الگ قسم کے خواہشات جنم لے رہی تھیں۔کسی نے چُھٹی کے بعد اپنے بچے کے لیے کوئی تحفہ خرید کرگھر پہنچتے ہی اپنے بچے کو سینے سے لگانا تو کسی کااگلے چُھٹی کے دو دن اپنے فیملی کے ساتھ گھومنے پھرنے کا ارادہ تھا۔کسی کے دل میں اپنے گاؤں جا کر بوڑھے ماں باپ کے ساتھ ملنے کی تمنا تو کسی کو سسرال سے گھر آئی ہوئی بیٹی اور پوتوں سے ملنے کی حسرت تھی۔کسی کے دل میں نئی نویلی دلہن کے ساتھ نئی زندگی شروع کرنے کے ارادے تو کسی کے دل میں گھر سے دور زیرتعلیم بیٹا یا بیٹی سے ملنے کی آرزو اور مستقبل کے حوالے اپنے لخت جگرکو کوئی نصیحت کرنے کی آرزو تھی۔

معمول کے مطابق دفتر کو چُھٹی ہوئی اورسول سیکٹریریٹ کے ملازمین اپنے دل میں حسرتوں کاطوفان لیے اپنے منزل مقصود پر جانے کے لیے بس میں سوار ہوئے لیکن کسی کو یہ معلوم نہیں تھا کہ یہ ان کی زندگی کی آخری سواری ثابت ہوگی۔معمول کے مطابق بس روانہ ہوئی کچھ ہی فاصلہ طے ہواتھا کہ بس میں ایک زورداردھماکہ ہوا جس کے بعد دل میں حسرتوں کے طوفان لیے اپنے گھروں کی جانب رواں دواں سرکاری ملازمین کی لاشیں ہر طرف بکھر گئیں۔قیامت کاسماں تھاخاک اور خون میں لت پت لاشوں کے لب وزیراعظم نواز شریف،پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان اورجے یوآئی کے امیرمولانافضل الرحمان سے سوال کر رہے تھے کہ کیاتم اب بھی طالبان کے ساتھ مزاکرات کے حق میں ہو؟اورکیاتم اب بھی پاکستان میں طالبان کے دفتر کھولنے کے حامی ہو؟اور ساتھ ہی خون میں غلطاں زخمیوں کے لبوں پر یہ شکوہ تھااور دل ہی دل میں حکمرانوں سے کہہ رہے تھے کہ تم مسلم لیگیوں،جماعیتوں،جہادیوں اور سونامیوں کے جان ومال محفوظ اور زندگی پر سکون ہے لیکن پاکستان میں بسنے والے ہر مذہب،مسلک،رنگ ونسل اور عقیدے سے تعلق رکھنے والے عام آدمی کی جان ومال محفوظ نہیں ہے تم آخر کس مرض کی دوا ہو؟

اس خونچکاں واقعے نے میرے دل پر جو اثرات مرتب کیے شعر کی صورت میں عرض ہے
ہر شخص کے لبوں پہ فقط یہ سوال ہے
حاکم ہمارے دیس کا کیوں کر دلال ہو
ملت کا خون بیچ کے کرتے ہو سیاست
حاکم نہیں ہو گدھ کی تمھاری مثال ہے

ہما رے ملک میں پھر سے دہشتگردی کی ایک نئی لہر کاآغاز ہوا ہے اس صورتحال میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے ملک کے انٹیلی جنس اورسیکیورٹی ادارے کیاکر رہے ہیں؟کیونکہ یہ اس طرزکے دہشتگردی کا پہلا واقعہ تو نہیں ہے اورہمارے دیس میں کوئی ایساسال،مہینہ،ہفتہ،دن،گھنٹہ،منٹ یا سکینڈ نہیں کہ جس میں کسی عام شہری کو جانی یا مالی نقصان نہ اٹھانا پڑے۔الحمد اﷲ اسلام ہمارا دین ہے اوراس میں کسی کے ناحق خون بہانے کی ہرگز اجازت نہیں ہے لیکن کیا ایسا تو نہیں کہ ہم نے پاکستان کے نام کے ساتھ اسلامی جمہوری پاکستان کا نام استعمال کرکے عام عوام کے ساتھ ساتھ اپنے آپ کو بھی بیوقوف بنا رہے ہیں کیونکہ پاکستانی معاشرے اورسرکاری اداروں کو دیکھ کر ہرگز یہ نہیں لگتاکہ ہم واقعی ایک حقیقی اسلامی ریاست میں رہ رہے ہیں۔میں پاکستان کوایک فلاحی ریاست کہنے والوں سے پوچھنا چاہتا ہوں؟ کہ تم کس اسلامی فلاحی ریاست کی بات کر رہے ہو؟جس کے حکمرانوں کے کتوں کے لیے خوراک(Dog food ( بھی بیرون ملک سے منگوایا جاتا ہے جبکہ غریب عوام کایہ ہے کہ ماں باپ اپنے بچوں سمیت فاقے کرنے پر مجبور ہیں۔غربت کی وجہ سے ماں باپ بچوں کو فروخت کرنے کے لیے سر بازار لائے ہیں یا ا پنے بچوں سمیت خود کشی کررہے ہیں۔پیٹ کی آگ بجھانے کے لئے معاشرے میں جسم فروشی عام ہے بالغ تو دور کی بات جہاں پانچ سال کی بچی کی عزت بھی محفوظ نہیں ہے اوراس ریاست کاہر عام شہری جانی اور مالی طور پر اپنے آپ غیر محفوظ تصور کرتا ہے تو تم کس منہ سے کس اسلامی ریاست اور کس اسلام کی بات کر رہے ہو؟

آج ہمارے ملک میں جو بھی صورتحال ہے کسی حد تک ہم بھی اس کے ذمہ دار ہیں کیونکہ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم نے مذہب کو سیاست کے لیے استعمال کیاہے نہ کہ اپنی ذات کی اصلاح کے لیے۔پاکستان کے معرض الوجود میں آنے کے بعدسے لے کر آج تک جس جعلی اسلام نے ہمیں جتنا نقصان پہنچایا ہے اتنا تو کسی نے نہیں پہنچا یا ۔ہر فرداپنے آپ کو اپنے طور پر دینی لحاظ سے مکمل(perfect)سمجھتا ہے اور جنت میں جانے کے لیے اپنے آپ کو ایسا موزوں امیدوارسمجھتا ہے جیسے اس کے آباؤ اجداد نے جنت تعمیر ہو تے وقت کوئی مالی معاونت کی ہو۔

آج ہمارے ملک میں جنگل کا نظام ہے ایسے میں ہمارے حکمران طالبان کے ساتھ دوستی کے لیے ہاتھ آگے بڑھا رہے ہیں تو میں سمجھتا ہوں کہ طالبان وہی ہیں جو اس ملک میں اُس جعلی اسلام کے نظام کو نافذ کرنا چاہتے ہیں کہ جس اسلام کا نام سن کرآج دنیا بھر میں مسلمانوں کو حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے ۔خیر ہمارے حکمران طالبان کے خیر خواہ ہونگے لیکن طالبان کسی طور پرکسی کے خیر خواہ نہیں ہیں آج ہمارے حکمران طالبان کے ساتھ دوستی کے لیے ہاتھ آگے بڑھا رہے ہیں تو خدا نہ کرے اگر جب اسلام آباد میں طالبان کا دفتر کھل گیا تومجھے خدشہ ہے کہ ڈی چوک اسلام آباد میں سرعام کوڑے لگائے جائیں گے۔جناح سپر مارکیٹ میں انسانوں کا ذبح خانہ ہوگا تو اس وقت طالبان کا یہی ہاتھ ہمارے حکمرانوں کے گریبان میں بھی ضرور ہوگا۔

اب بھی وقت کہ ہمارے حکمرانواں کے ساتھ ساتھ ہم بھی مذہب کو ریاستی امور سے الگ تھلگ رکھیں تو یہی ہمارے حق میں بہتر ہے۔امام بارگاہیں،مساجد،چرچ یا مندر کسی بھی ریاست کے لیے عزت کے مستحق ہوتے ہیں اور کسی کو کسی پر فوقیت نہیں ہے کیونکہ ہمارے نبی حضرت محمدؐ نے کئی سو سال پہلے ہمیں اس کا درس دیا ہے۔اگرہم نے ریاستی امور میں مذہب کو استعمال کیا تو ایک وقت ایسا بھی آئے گا کہ نہ مذہب رہے گا نہ معاشرہ اور نہ ریاست۔
﴿ختم شُد﴾
TEHZEEB HUSSAIN BERCHA
About the Author: TEHZEEB HUSSAIN BERCHA Read More Articles by TEHZEEB HUSSAIN BERCHA: 19 Articles with 21442 views

                                                                        
.. View More