اکثر و بیشتر میرے دوست مجھ سے
معلوم کرتے ہیں کہ جنت او ر دوزخ کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ کیا یہ
کہیں موجود ہیں بھی جن میں انسان اپنے اچھے اور برے اعمال کے مطابق سزا و
جزا کے لئے بھیجا جائیگا؟ یا یہ صرف قرآن میں علامتی طور پر بیان کئے گئے
ہیں؟ کیا یہ وہ مقامات ہیں جہاں انسان ابد تک اپنے پورے ہوش و حواس میں
مقیم رہے گا؟ در حقیقت یہ سوال ایسا ہی ہے جیسا کہ لوگ پیغمبر اسلام محمدﷺ
سے قیامت کے بارے میں معلوم کیا کرتے تھے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ دیگر
صحیفوں کی طرح قرآن بھی وضاحتی سے زیادہ علامتی ہے۔ کوئی بھی صحیفہ ابدی
رہنے کے لئے محض وضاحتی نہیں ہو سکتا۔ علامتیت اسے ہمیشہ ہمیشہ عمل پیرا
رہنے کے ساتھ ساتھ معنوی اعتبار سے کئی پرتی بنا دیتی ہے۔صحیفے عوام الناس
اور عالموں دونوں کے لئے یکساں قابل فہم ہونے چاہئیں۔ اگر کوئی صحیفہ صرف
عالموں کے لئے ہی قابل فہم ہے تو وہ صحیفہ عام انسان پر بے اثر رہے گا اور
اگر وہ صرف سیدھا سیدھا بیان ہے اور اس میں معنویت یا کسی بات کے کئی معنی
نہیں ہیں تو اس سے کسی عالم میں بھی کوئی جوش یا تحریک پیدا نہیں ہوگی۔اس
طرح قرآن جنت و جہنم کے بارے میں جو کچھ بھی بیان کرتا ہے وہ عام آدمی اور
عالم دونوں کے ہی لیے جوش پیدا کرنے کے لیے ہے۔اسی لیے ہم جنت و جہنم کو
وضاحتی اور علامتی دونوں شکل میں دیکھتے ہیں۔ لیکن ایک اور پہلو بھی ہے جس
سے سبھی کو باخبر رہنا چاہئے اور صوفی حضرات اس پر کافی زور دیتے ہیں۔
صوفیوں کا خیال ہے کہ لالچ یا خوف یعنی جزا و سزا کے لیے کوئی کام نہیں
کرنا چاہئے۔اس کے لیے رابعہ بصری سے موسوم واقعہ صحیح نشاندہی کرتا ہے۔ایک
بار لوگوں نے دیکھا کہ رابعہ بصری عالم جذب میں بصرہ کی گلیوں میں دوڑی چلی
جارہی ہیں اور انکے ایک ہاتھ میں پانی سے بھری بالٹی اور دوسرے ہاتھ میں
دہکتی مشعل ہے۔ جب لوگوں نے روک کر دریافت کیا کہ یہ آپ کیا کرنے جارہی ہیں
تو رابعہ بصری نے جواب دیا کہ اس آگ سے جنت کو جلاؤں گی اور اس پانی سے
جہنم کی آگ ٹھنڈی کروں گی تاکہ لوگ اس معبود حقیقی کی عبادت جنت کی لالچ یا
جہنم کی آگ کے خوف سے نہ کریں بلکہ بندوں کی عبادت کا مقصد محض اﷲ کی محبت
بن جائے۔ قرآن پاک علامتی اور سیدھے سادھے انداز کی وضاحتی زبان کے حوالے
سے بڑا متوازن ہے۔ اس کو ایک عام آدمی بھی پڑھ کر اتنا ہی سمجھ سکتا ہے
جتنا کہ ایک عالم دین اسے پڑھ کو سمجھ سکتا ہے۔ عقلیت پسند بھی قرآن کو
اتنا ہی مفید سمجھتے ہیں جتنا گہری عقیدت رکھنے والے محسوس کرتے ہیں لیکن
اس کو سمجھنے کے تعلق سے ان دونوں میں کافی اختلاف ہے۔ آیات کے مخفی معنی
میں یقین رکھنے والے صوفی حضرات قرآن کو ظاھریوں سے مختلف انداز میں سمجھتے
ہیں۔جہاں تک ظاھریوں کا تعلق ہے تو ان کے نزدیک جنت و جہنم کی ایسی تصویر
کشی کی گئی ہے کہ وہ ایسا مقام ہے جہاں ابدی باغات ہوں گے جن میں دودھ و
شہد کی نہریں بہہ رہی ہوں گی اور جہنم میں ایک آگ دہک رہی ہوگی جس میں جلنے
والے کو زبردست عذاب ہو رہا ہوگا۔ اور کوئی اسے اس آگ سے نجات نہیں دلا سکے
گا۔ دونوں ہی ابدی ہیں۔جنت کے بارے میں وضاحت بڑی دلکش اور ترغیب دینے والی
ہے جبکہ جہنم کا نقشہ خوف سے لرزہ طاری کر دیتا ہے۔تاہم جو عالم ہیں وہ اسے
بہت زیادہ علامتی مانتے ہیں اور اس کی معنویت کی گہرائی تک پہنچنے میں لگ
جاتے ہیں۔ قرآن جنت کو امن و سکون اور سلامتی کا مقام کہتا ہے اور قرآن میں
مذکور ہے: جو متقی ہیں وہ باغوں اور چشموں میں ہوں گے۔ ان سے کہا جائے گا
ان میں سلامتی سے داخل ہو جاؤ۔اور ان کے دلوں میں جو کدورت ہوگی ان کو ہم
نکال کر صاف کر دیں گے گویا بھائی بھائی تختوں پر ایک دوسرے کے ساتھ
بالمشافہ بیٹھے ہو ں گے۔نہ ان کو وہاں کوئی تکلیف پہنچے گی اور نہ وہاں سے
نکالے جائیں گے۔( سورۃ 15آیت 45تا 48)۔پہلی بات تو یہ کہ جنت ایک ایسا مقام
ہے جہاں ایک مومن مکمل امن و سلامتی محسوس کرے گا۔ جہاں شک، بے آرامی و بے
چینی اور خوف کا رتی برابر احساس نہ ہوگا۔ ایک یقین کامل رکھنے والا مومن
یا مومنہ ہی ایسا محسوس کرے گا۔ لیکن منکرین اور وہمی و شکی لوگ جن کے
اعتقاد مضبوط نہیں ہیں وہ دلی طورسے خود کو محفوظ و مامون اور پر سکون
محسوس نہیں کر سکتے۔صو فی حضرات انسان کامل یعنی مکمل انسان کے قائل ہیں۔
ان کی تمام تر کوشش انسان کامل بنانے کی ہوتی ہے اور ایسے لوگ خود مکمل طور
پر پرسکون ہوتے ہیں۔ مکمل ہونے یا تکمیل کے بھی کئی درجے ہوتے ہیں اور ہر
شخص کمال کے اونچے سے اونچے درجہ پر پہنچنا چاہتا ہے۔یہ کہنا درست نہیں ہے
کہ جنت آرام اور سیر تفریح کا مقام ہے۔ اس سے قطع نظر یہ ایک وہ مقام ہے جو
تکمیل کے اعلیٰ درجے تک پہنچنے کی جہد مسلسل ہے۔اس طرح قرآن کہتا ہے:لیکن
جو لوگ اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں ان کے لیے اونچے اونچے محل ہیں جن کے
اوپر بالا خانے بنے ہوئے ہیں اور ان کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں یہ خدا کا
وعدہ ہے اور خدا وعدے کے خلاف نہیں کرتا(سورۃ 39آیت20)۔اس طرح جنت ایک ابدی
آرام گاہ یا مقام سیر و تفریح نہیں بلکہ کمال کے مزید مرحلے طے کرنے کی
روحانی کوششوں اور اعمال صالحہ کے لیے ہے۔اس لیے یہ ان معنوں میں مستقل اور
پائیدار ہے کہ اس میں عمل پیہم اور متواتر کوششیں ہیں۔ اور جب کوئی شخص
تکمیل کا ایک مرحلہ طے کر لیتا ہے تو پھر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھتا اور پھر
بڑھتا ہی چلا جاتا ہے اور ایسی کوششوں میں اسے بہت لطف محسوس ہوتا ہے۔ جتنی
زیادہ کوششیں کرے گا اتنا ہی سکون اور راحت محسوس کرے گا۔اسی طرح علما کے
نزدیک جہنم بھی ایک ایسا مقام ہے جس میں نہ صرف کمزور ایمان والے اور
نامکمل لوگ بلکہ ہمیشہ شک میں مبتلا رہنے والے اور ریا کار لوگ جائیں گے۔
اور وہ وہاں انتہائی کرب کے عالم میں رہیں گے۔ یہ شک اور ریاکاری و منافقت
کی آگ ہی ہے جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ اور جس طرح جنت میں درجات بلند ہوں
گے اسی طرح جہنم میں دوزخی پستی در پستی گرتا جائے گا۔ اور جتنی زیادہ پستی
میں گرے گا اتنا ہی زیادہ اذیت ناک عذاب میں مبتلا رہے گا۔ لیکن قرآن توبتہ
النصوح کی راہ دکھاتا ہے جو اسے اس اذیت سے بچا لیتی ہے۔ہر شخص کو آزادی
حاصل ہے کہ وہ تکمیل کے اعلیٰ و ارفع مقام کی جانب بڑھنا چاہتا ہے یا
پستیوں کے عمیق گڑھے میں گرنا چاہتا ہے۔ |