بلوچستان میں زلزلہ متاثرین بے یار و مدگار

دنیا میں قدرتی آفات کا سلسلہ روزاول سے جاری ہے۔ برفانی و سمندری طوفان، موسلادھار بارشیں، قیامت خیز زلزلے وقفوں وقفوں سے قدرت کی مکمل بالادستی کا ثبوت دیتے رہتے ہیں ۔گزشتہ ہفتے بلوچستان میں آنے والے زلزلے اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔ان زلزلوں سے بلوچستان کے کئی علاقے ملیامیٹ ہوگئے۔آواران تو مکمل تباہ ہوچکاہے۔ دوسرے علاقوں میں بھی تقریباً اسی فیصد مکانات گر چکے ہیں، جو موجود ہیں ان میں بھی دراڑیں پڑی ہوئی ہیں۔ مدرسہ، اسکول، ہپستال سمیت ہر عمارت زمین بوس ہو چکی ہے۔غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ان زلزوں میں ایک ہزار سے زائد افراد جاں بحق اور اس سے دگنے زخمی ہوئے ہیں۔ ایک ابتدائی تجزیے کے حوالے سے حکام کا کہنا ہے کہ ایک لاکھ 80 ہزار سے دو لاکھ افراد زلزلے سے متاثر ہوئے۔ تقریباً 35 ہزار مکانات منہدم ہوگئے یا بری طرح ٹوٹ پھوٹ گئے۔ آواران اور کیچ کے کچھ گاؤں اس قدر تباہی سے دوچار ہوئے ہیں کہ وہاں کی تمام تعمیرات مسمار ہوگئی ہیں اور سطح زمین ہموار دکھائی دیتی ہے۔زلزلہ سے متاثرہ علاقے آثار قدیمہ کے کسی شہر کی طرح دکھائی دیتے ہیں۔لوگ خوف کا شکار ہیں۔بعض کی حالت دیکھکر ایسا لگتا ہے کہ وہ زلزلے کے ایک ہفتہ گزرجانے کے بعد بھی ابھی تک اسی صدمے کی کیفیت میں مبتلا ہےں۔بعض ایسے بھی ہیں جن کے خاندان میں سے کوئی بھی نہ بچا اور کسی کے خاندان کی خواتین زندہ رہی ہیں تو بچے زلزلے کی نذر ہوگئے اور اگر بچے زندہ بچ گئے تو تمام مرد حضرات ہمیشہ کی نیند سو گئے۔لوگ اپنے پیاروں کی جدائی کے صدمے سے دوچار ہیں۔

بلوچستان میں زلزلہ آئے ایک ہفتے سے زیادہ گزر گیا ہے لیکن متاثرین ابھی تک امداد کے منتظر ہیں۔لاکھوں افراد جن کے گھر زلزلے سے زمیں بوس ہوگئے تھے، اب تک بے گھر ہیں، اس کے علاوہ زلزلے سے کنووں اور پانی کے حصول کے دیگر ذرائع کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے، اس لیے متاثرین زلزلہ پینے کے پانی کے لیے بھی شدید مشکلات سے دوچار ہیں۔بلوچستان میں زلزلے سے تباہ ہونے والے علاقوں کے رہائشیوں کی مشکلات میں اضافہ ہو رہا ہے اور متاثرہ علاقوں میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بیماریاں پھیلنے کا خطرہ بڑھتا جا رہا ہے۔ زلزلے سے متاثرہ ضلع آواران کی تحصیل مشکے میں پینے کے صاف پانی کی شدید قلت ہے اور ڈاکٹروں کے مطابق آلودہ پانی پینے سے متاثرین بیمار پڑ رہے ہیں۔ مشکے میں پینے کا پانی کنوؤں سے حاصل کیا جاتا تھا جو زلزلے کے بعد مٹی سے بھر گئے ہیں اور لوگ اب برساتی نالوں اور ندی کا پانی استعمال کر رہے ہیں۔ مشکے میں قائم طبی کیمپ میں موجود ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ آلودہ پانی پینے سے لوگوں میں اسہال اور دست کی بیماری پھیل رہی ہے جب کہ متاثرین خوراک کی کمی کا بھی شکار ہیں۔ کچھ غیر سرکاری تنظیموں نے علاقے میں راشن تقسیم کیا ہے لیکن ان میں بچوں اور حاملہ خواتین کی خوراک کا انتظام نہیں ہے۔ یاد رہے کہ متاثرین میں خواتین اور بچوں کی اکثریت ہے۔ گزشتہ روز خودصوبائی حکومت نے یہ اعتراف کیا ہے کہ سیکورٹی کی وجوہات اور سڑکوں کی ٹوٹی پھوٹی حالت کی وجہ سے بہت سے علاقوں میں امدادی سامان پہنچایا نہیں جاسکا ہے۔مشکے کے قریب سب سے بڑا ہپستال آواران ہے، جہاں صرف ایک لیڈی ڈاکٹر ہے اور لیبارٹری اور ایکسرے مشین بھی دستیاب نہیں جبکہ پانچ گھنٹے کے اس سفر میں پتھریلی ناہموار سڑکوں سے گزرنا پڑتا ہے اور ڈاکٹروں کے مطابق یہ سفر حاملہ خواتین کی زندگی کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔ علاقے میں ملیریا کے علاوہ سانپ اور بچھو کے کاٹنے کے مریض بھی سامنے آ رہے ہیں کیونکہ لوگ منہدم گھروں کے باہر زمین پر سو رہے ہیں لیکن ابھی تک تریاق کسی بھی علاقے میں دستیاب نہیں۔ مشکے میں ڈاکٹروں نے رضاکارانہ طور پر کیمپ لگایا ہے، جہاں بیڈ بھی دستیاب نہیں اور مریضوں کو پتھریلی زمین پر چٹائی پر لٹا کر طبی امداد فراہم کی جا رہی ہے۔اطلاعات کے مطابق آواران کے مختلف علاقوں میں ہرطرف تباہی کے مناظر دکھائی دے رہے ہیں، لاکھوں متاثرین کے لیے امداد کے نام پر چند ہزار امدای پیکٹس ہی پہنچائے گئے ہیں۔ نجی فلاحی تنظیمیں محدود پیمانے پر امدادی کاموں میں مصروف ہیں۔ بند راستے کھولنے اور ملبہ صاف کرنے کے لیے اب تک متاثرہ علاقوں میں مشینری بھی نہیں پہنچی متاثرین اپنی مدد آپ کے تحت ہی ملبہ اٹھانے میں مصروف ہیں۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں اب تک امدادی کام نہ ہونے کی اصل وجہ یہ ہے کہ بلوچ حکومت سے امداد نہیں لینا چاہتے۔ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کی ریاست اور فوج زلزلے میں امداد اور تعاون کے نام پر فنڈ بٹورنا اور سیاست کرنا چاہتی ہے اور وہ اس کی ہرگز اجازت نہیں دیں گے۔ وہ حکومت کی طرف سے کوئی مدد قبول نہیں کریں گے۔ان کا کہنا ہے کہ بلوچستان کو ایک ایسا مفلوج علاقہ ظاہر کرنے کی مسلسل کوشش کی جا رہی ہے جہاں جاہل، بدعنوان، سست و کاہل اور غیر مو ¿ثر قبائلی سردار ہیں۔ یہ سوچ اسلام آباد کو بلوچستان میں اپنا سامراجی حکومت قائم و دائم رکھنے میں مدد دیتا ہے اور اس سے وہ بلوچستان میں حکمرانی کے ہر پہلو یعنی سیکورٹی، قدرتی وسائل، سرحدیں، ساحل اور حتکہ آفات کو بھی صفائی کے ساتھ سنبھالے ہوئے ہیں۔ بلوچستان میں زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں امدادی سامان کی تقسیم فرنٹیئر کور کی نگرانی اور حفاظت میں کی جا رہی ہے، جس کی مزاحمت کار مخالفت کر رہے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ’پاکستانی فوج چاہے ایف سی کی شکل میں کیوں نہ ہو، مدد کے لیے نہیں بلکہ انہیں مارنے کے لیے آ رہی ہے۔ حکومت کے علاوہ کوئی بھی دوسری فلاحی تنظیم امداد کرسکتی ہے۔اسی لیے اب تک بلوچستان میں کئی غیر سرکاری فلاحی تنظیمیں امدادی کام شروع کیے ہوئے ہیں۔یہ بھی یاد رہے کہ بلوچستان میں این جی اوز سے امداد نہایت ہی محتاط انداز سے لی جارہی ہے۔ اگر کوئی این جی او امداد لے کر جاتی بھی ہے تو وہاں کے باشندے ان سے امداد نہیں لیتے بلکہ ان کو اپنے سرداروں کے پاس بھیج دیتے ہیںاور وہ سردار ان سے امداد لے خود تقسیم کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ این جی اورز ان کے علاقوں میں آکر امداد کے بہانے ہمارے علاقوں میں ارتداد پھیلائیں گی۔بہت سی عیسائی مشنریاں اس کام میں آگے آگے ہیں۔جیسا کہ بالاکوٹ وغیرہ میں دیکھا گیا تھا۔ دوہزار پانچ میں کشمیر اور بالاکوٹ میں زلزلہ آیا تو اس وقت متعدد غیرملکی این جی اوز نے کھل کر اپنے مشن کی تکمیل کا کام کیا ۔ سرعام ارتدادپھیلایا۔لہٰذا ان خطرات کے پیش نظر بلوچستان میں متاثرین نے غیرملکی این جی اوز سے امداد لینے سے اسی لیے انکار کردیا ہے۔جبکہ حکومت اور ایف سی خود امداد دینے پر مصر ہیں۔اورحکومت غیرملکی این جی اوز کو بھی دعوت دے رہی ہے۔وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے حال ہی میں کہا تھا کہ جتنی بڑی تباہی آئی ہے وہ اکیلے اس کا مقابلہ نہیں کر سکتے، اس کے لیے بین الاقوامی مدد کی بھی ضرورت ہوگی۔حکومت نے قوم سے اپیل کی ہے کہ اپنے زلزلہ زدگان بھائیوں کی ایک بار پھر بالاکوٹ اور کشمیر زلزلہ زدگان کی طرح دل کھول کر امداد کریں۔

عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 700832 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.