پشتون بلوچ دو قومی صوبہ بلوچستان اور رقبے کے لحاظ سے
پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ -کہا جاتا ہے کہ بلوچستان کو روز اول سے ہی
پسماندہ رکھا گیا ہے۔ جغرافیائی لحاظ سے دیکھا جائے تو دو ایشیائی ممالک
افغانستان اور ایران سے ایک لمبی پٹی پر مشتمل بارڈر کا ایریا اور گوادر
پورٹ جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ بلوچستان کا روشن مستقبل ہے
پسماندگی کے حوالے سے بلوچستان کو صحت اور تعلیم کے حوالے سے پسماندہ رکھا
گیا ۔ پاکستان کی باقی صوبوں کی طرح بلوچستان میں بھی بہت سی حکومتیں آئیں
کچھ حکومتوں نے وقت پورہ کیا اور کچھ حکومتیں سیاسی اختلافات اور کچھ مارشل
لاء کے نظر ہوئے۔ پچھلے حکومتوں کے ارکان اور حکمران جو آسمان سے باتیں کیا
کرتے تھے وہ کیا اس صوبے کی پسماندگی کو دور کرتے بلوچ قوم پرست بی این پی
کی حکومت تھی پھر جب مارشل لاء کا دور آیا تو ہمارے حکمران مارشل لاء دور
کے ہاتھوں بھک گئے اور حکومت بنی مسلم لیگ ق اور جمعیت علماء اسلام کی
جنہوں نے صوبہ بلوچستان کو ایک نہیں دونوں ہاتھوں سے لوٹھا صوبے کی
پسماندگی دور کرنے کے لئے نام نہاد آغاز حقوق بلوچستان کا کلمہ ہمیں پڑھایا
گیا ۔ اوراس بہانے صوبے کے عوام کی زبانیں ہمیشہ کے لئے بند کر دی گئی عوام
آندھیں پن کا مظاہرہ کرتے رہئے اور حکمران صوبے کو لوٹ رہے تھے خیر عوام سے
پوچھنے والا تو کوئی نہیں کہ ان رشوت خور ، چور اور ڈاکووں کو حکمرانی کرنے
کا حق انہی عوام نے دیا اس نام نہاد صوبائی حکومت وفاقی حکومت اور مارشل
لاء کے خلاف بلوچستان اور سندھ کے قوم پرست جماعتوں نے ایک تحریک کا اعلان
کیا جسے پونم کا نام دیا گیا پونم نام تحریک سندھ اور بلوچستان میں بڑھے
زور اور شور سے چلی پونم مطلب محکوم قوموں کی تحریک - یہ تحریک کچھ ہی سال
چلی اس تحریک کے پہلے سربراہ بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ آخترجان مینگل
کے والد سردار عطاء اللہ مینگل تھے جب بلوچستان میں فوجی آپریشن کی بات کی
گئی تو اُس وقت پونم کی سربراہی محمود خان اچکزئی کو دی گئی۔ محمود خان
اچکزئی کی سربراہی میں یہ تحریک بمشکل دو سال چل سکی پونم صرف اور صرف عوام
کو بتاتی رہی کہ یہ تحریک پاکستان میں نافذ مارشل لائی نظام کے خلاف بنائی
گئی ہیں ۔ وقت گزرنے کے ساتھ پونم سے بلوچ قوم پرست جماعتیں الگ ہو گئی اور
ایک اور تحریک شروع کی جسے چار جماعتی بلوچ اتحاد کا نام دیا گیا جس کی
سربراہی نیشنل پارٹی کو دی گئی پونم کو جڑ سے اُکھاڑنے والے بلوچوں میں
چارجماعتی بلوچ اتحاد کا بول بالا ہونے لگا ۔ جمہوری وطن پارٹی کے سربراہ
نواب اکبر بگٹی جو اُس وقت مسلم لیگ ق اور جمعیت علماء اسلام کے سربراہان
جو وفاقی کابینہ کے ارکان تھے وفاقی وزراء سے ملاقاتوں اور میٹینگز میں
مصروف تھے۔ ایک نہیں کئی بار نواب اکبر بگٹی نے کہا کہ آپریشن پورے
بلوچستان کا نہیں صرف بگٹی قوم کا مسلہء ہیں بلوچ قوم پرست جماعتیں ہمارے
درمیان خلل نہ ڈالے نواب اکبر بگٹی ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ میں قوم پرست
سیاستدان نہیں ۔ اتنے میں قوم پرست جماعتوں کی طرف سے آوازیں بلند ہونے لگی
کہ اگر بلوچستان میں آپریسن کیا گیا تو ہم سھاراوان کو آگ لگا دینگے کسی نے
کہا کہ ہم جھالاوان کو آگ لگا دینگے نواب اکبر بگٹی شہید کر دئیے گئے مگر
نہ سھاراوان میں آگ لگی نہ جھالاوان میں سب خاموش بیٹھ گئے۔ ملکی سیاست کا
ایک اور باب بند ہو گیا ۔ ہندوستان ، افغانستان ایران اور کئی ممالک میں
اکبر بگٹی کی شہادت کی مذمت کی گئی ۔ حکومت کو ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا
بلوچستان کے بلوچ نوجوانوں نے ایک تحریک شروع کی آزادی کی تحریک ہونا تو یہ
چاہیے تھا کہ پچھلے تحریکوں کی طرح یہ تحریک بھی آمن سے کام لیتی لیکن ایسا
نہیں ہوا تحریکیں شروع ہوئی اور اُن تحریکوں کو نام بھی دیا گیا کسی کو بی
ایل اے کسی کو بی آر اے کسی کوبی آر پی پھر بلوچستان میں ٹارگٹ کلنگ اور
قتل وغارت ایک نیا سلسہ شروع ہوگیا ان تنظیموں کے سربراہان لندن امریکہ
کینڈا اور سویزرلینڈ میں بیٹھے تماشا دیکھ رہے تھے۔ وقت گرزتا گیا محترمہ
بینظیر بھٹو شہید کی گئی اور پھرپرویز مشرف کی حکومت ختم ہوگئی اور مملیکت
خداداد پاکستان میں پیپلز پارٹی کی حکومت بنی پیپلز پارٹی کے دور میں بھی
بلوچستان کے ساتھ ایک بہت بورا کھیل کھیلا گیا جب پتہ چلا کہ بلوچستان
اسمبلی کے سارے ارکان وزیر بن گئے ما سیوائے سردار یار محمد رند کے چونکہ
یار محمد رند کی سابقہ وزیر اعلیٰ نواب اسلم رئیسانی سے قبائیلی اختلافات
ہیں اور لیئے یار محمد رند صوبائی حکومت نہیں رہے پیپلز حکومت میں بھی
بلوچستان کو دونوں ہاتھوں سے لوٹھا گیا اُس وقت بلوچستان کی قوم پرست
جماعتیں پشتونخوا ملی عوامی پارٹی ، بلوچستان نیشنل پارٹی اور نیشنل پارٹی
نے الیکشن کا بائیکاٹ کیا تھا اس بار پھر نام نہادمذہب پرستوں اور اپنے آپ
کو سوشلزم کی پرستار کہنے والے پیپلز پارٹی نے بلوچستان میں کرپشن کے
ریکارڈ قائم کئے۔ وقت گرزنے کے ساتھ لوٹ مار کا سلسلہ بھی زور و شور سے
جاری تھا کہ کرتے کرتے یہ حکومت بھی اپن ی پانچ سالہ دور پوری کر گئے پھر
الیکشن ہوئے اور بلوچستان میں قوم پرست بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئے
بلوچستان میں کامیاب ہونے والوں میں قوم پرست پہلے اور مسلم لیگ ن بشمول
آزاد اُمیدواران دوسے جمعیت علما ء اسلام تیسرے اور مسلم لیگ ق چھوتے نمبر
پر ہیں پانچ مہینے ہو گئے ہیں پُرآمن اور صاف شفاف الیکشن ہوئے لیکن ابھی
تک حکومت نہ بن سکی محترم نواز شریف کے کہنے پر وزیر اعلیٰ ڈاکٹر مالک بلوچ
اور گورنر محمد خان اچکزئی کو قلمدان سونپے گئے اور باقی وزارتیں تینوں
جماعتیں آپس میں مل بیٹھ کہ بانٹ لیں یہ کہا میاں محمد نواز شریف نے لیکن
اس پر آدھا عمل ہوا اور آدھا نہیں ۔ اس حکومت سے عوام کو بہت سے توقعات ہیں
کہ صوبہ بلوچستان کی پسماندگی اگر کوئی ختم کر سکتا ہیں تو یہ تین جماعتوں
پر مشتمل حکومت ہیں اب حکومت بننے کو تھا کہ چوبیس ستمبر کو ایک قدرتی
واقعہ پیش آیا زلزلہ ہوا بلوچستان کے دو اضلاع بوری طرح متاثر ہوئے یہاں تک
کہ صفاء ہستی سے مٹ گئے پانچ سو کے قریب افراد ہلاک ہوہے اور کئی زخمی ہو
گئے حکومت نے علحیدگی پسند تحریکوں کے نمائندوں سے کہا کہ ہم زلزلہ زدگان
کے لئے ریلیف کا سامان متاثرہ علاقوں کو روانہ کر رہے ہیں ان قافلوں پر
حلمے نہ کئے جائے اس کے باجود حملے ہوئے اور یہاں تک کہ پروازوں کو بھی
نشانہ بنایا گیا ۔ اور وزیر اعلیٰ بلوچستان ہاوس آواران پر بھی راکٹوں سے
وار کیا گیا ۔آج کا بلوچستان کیسا ہوگا کیا اس حکومت میں پسماندگی ختم
ہوجائے گی کیا دس یا پندرہ سال کی پسماندگی ان پانچ سالوں میں ختم ہوگی کیا
علحیدگی پسند لیڈروں سے پات چیت ہوگی کیا وہ مان جائیں گے کیا یہ صوبہ ایک
بار پھر سے آمن کا گہوارہ بن پائے گا پشتون بلوچ دو قومی صوبہ بلوچستان کے
عوام آج بھی کشکول آتھ میں لیئے آمن کے طلب گار ہیں اور ان کی موجودہ حکومت
سے بہت سے توقعات ہیں۔ |