امریکہ کی چودھراہٹ ساری دنیا پر قائم ہو
یا نہ وہ لیکن مسلم ممالک پر ضرور قائم ہے، کیونکہ وہ مسلم ممالک کو اپنے
مطابق چلاتا ہے ار یہ ممالک امریکہ کے اشاروں پر چلتے بھی ہیں۔ جب کہ دوسرے
ممالک امریکہ سے نہ تو اتنے خائف نظر آتے ہیں اور نہ ہی وہ اسے اتنی زیادہ
اہمیت دیتے ہیں۔ چین ، روس، شمالی کوریا کی طرف سے اکثر و بیشتر دیئے جانے
والے بیانات سے یہ ظاہر ہوتا ہے وہ امریکہ کو پسند نہیں کرتے، بلکہ امریکہ
کی چودھراہٹ بھی تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ فرانس، جرمنی، انگلینڈ
جیسے ممالک امریکہ کی وہی بات یا پالیسی کو مانتے ہیں جو ان کے نظریات کے
تناظر میں ہوتی ہے، ورنہ وہ خود فیصلے لیتے ہیں اور امریکی دباؤ کو قبول
نہیں کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ جس طرح امریکہ نے ترقی کی اسی طرح یہ ممالک بھی
ترقی کر رہے ہیں۔ اگر یہ ممالک اپنے آپ کو خوف کفیل نہ بناتے اور امریکہ کے
ہی اشاروں پر رقصاں رہتے تو وہ آج اتنے ترقی یافتہ نہ ہوتے، مگر مسلم ملکوں
کا معاملہ اس سے بالکل برعکس نظر آتا ہے یا تو و ہ امریکہ سے خائف رہتے ہیں
یا پھر اسے اپنا چوہدری سمجھ کر اس کے اشاروں پر چلتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا
ہے کہ ان میں سے زیادہ تر ممالک خود کفیل نہیں ہیں۔ حالانکہ عرب ممالک اپنے
قدرتی وسائل کے لحاظ سے کافی مالا مال ہیں اور بہت کچھ کرنے کی استطاعت
رکھتے ہیں، مگر صورتحال یہ ہے کہ وہ ابھی تک خود کفیل نہیں ہوئے ہیں۔
ٹیکنالوجی میں ان کا کوئی مقام نہیں ہے، سائنسی تحقیقات و ایجادات سے فی
الوقت ان کا دامن خالی ہے۔ مصنوعات و آلات کے شعبے میں وہ دوسروں پر تکیہ
کیئے ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اگر انہیں اپنے دفاع کے لیے اسلحہ کی ضرورت
ہوتی ہے تو انہیں دوسروں کی طرف دیکھنا پڑتا ہے اور کئی گنا رقم خرچ کرکے
اسلحہ خریدنا پڑتا ہے۔
ہمارے پاس قدرتی ذخائر بے شمار ہیں، ایٹم بم موجود ہے، ہم بھی نِت نئی
ایجادات کے ماہر ہیں، اور آئے دن اس کا تجربہ بھی ہوتا ہی رہتا ہے، ہماری
قوم بھی غیرت مند ہے، مگر پھر بھی ہم دوسروں پر انحصار کر تے ہیں، آئی۔ ایم۔
ایف سے ان کی من مانی شرائط پر قرضے لے لے کر قوم کو گروی رکھنے کا عمل
تاحال جاری ہے۔ اب تو سنا جاتا ہے کہ ہمارے ملک میں پیدا ہونے والا بچہ بھی
کئی سو ڈالر کا مقروض بن چکا ہے۔ہمارا روپیہ تاریخ کے بد ترین گراوٹ کا
شکار ہے اور وہیں امریکی ڈالر تاریخ کے بلند ترین سطح پر جا پہنچا ہے۔
مہنگائی نے عام اور متوسط طبقہ کی کمر توڑ دی ہے۔ اور یہ مہنگائی کی اصل
وجہ بھی آئی ۔ ایم۔ ایف ہی ہے کیونکہ انہیں کے من مانے شرائط کو قبول کرکے
قرضے لیئے جاتے ہیں تاکہ حکومتی اُمور چلتے رہیں۔ یہ کشکول پھیلانے کا عمل
نہ جانے کب ہمارے ملک سے ختم ہوگا۔ کب اس غیور عوام کے زخموں پر مرہم رکھی
جائے گی۔
اکیسویں صدی میں دنیا کی مختلف قومیں تیزی کے ساتھ ترقی کر رہی ہیں، مگر
ہمارا ملک ہمیشہ کی طرح اب بھی بحران کا ہی شکار ہے۔ اور وہ پستی کی طرف
بڑھتی جا رہی ہے۔ ذرا اکیسویں صدی کے پاکستان کا جائزہ لیجئے کہ وہ عالمی
نقشہ پر اپنا کیا مقام رکھتا ہے؟ دیگر اقوام اسے کس نظر سے دیکھتی ہیں؟
عالمی سیاست میں اس کی کیا حیثیت ہے؟تہذیبی و فکری لحاظ سے اس کا بقیہ دنیا
پر کتنا اثر ہے؟ اور عالمی معیشت میں اس کی کیا وقعت ہے؟ جہاں تک موجودہ
دنیا میں ہماری مقام و حیثیت کی بات ہے تو اس بات سے کون واقف نہیں کہ عہدِ
حاضر میں ہماری مقبولیت گم ہو چکی ہے۔ بیرونی دنیا میں ہمیں وقعت کی نظر سے
نہیں دیکھا جاتا، بلکہ ہمیں انتہائی پسماندہ خیال کیا جاتا ہے، دہشت گرد
خیال کیا جاتا ہے، تمام باتوں کو چھوڑبھی دیا جائے تو آپ دیکھیں کہ کوئی
بھی ملک اب ہمارے ملک میں آکر کھیلنے کو بھی تیار نہیں، متعدد ترقی یافتہ
ممالک میں تو ہمارے آنے جانے پر گہری نظر رکھی جاتی ہے اور ان کی بابت کافی
کھوج بین کی جاتی ہے، کیونکہ ہمارے لوگوں کو ان ممالک کے حکام دہشت گردی،
بد تہذیبی اور غریبی کے آئینہ میں دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں، جیسے کہ ہمارا
ملک دہشت گردی ، خونخواری اور غریبی کی آما جگاہ بنا ہوا ہے۔ اس پر کنٹرول
کرنے کی ذمہ داری بھی حکومتِ وقت پر ہے۔ اس لئے ہماری ذی شعور عوام اب یہ
کہنے میں حق بجانب ہے کہ خدارا اب درست سمت میں فیصلہ کرتے ہوئے ہمیں دہشت
گردی، بم دھماکوں، مہنگائی، کرپشن، اور بے روزگاری جیسے مسائل سے نجات
دلایا جائے اور ہمارے ملک کو ترقی کی شاہراہوں پر ڈالا جائے ۔ ہم سے بعد
میں آزاد ہونے والا ملک بنگلہ دیش آج ترقی کی کس سیڑھی پر موجود ہے ، کسی
سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔
فکری اور تہذیبی نقطۂ نظر سے اگر ہماری بات کی جائے تو ہر طرف مایوسی ہی
مایوسی نظر آتی ہے کیونکہ اس بات سے قطعی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ہم فکری
لحاظ سے منجمد ہو چکے ہیں اور ہم سوچنا بھول گئے ہیں۔ حالانکہ غور و فکر
کسی بھی قوم کی روح ہوتی ہے، جب فکر ہی ختم ہو جاتی ہے تو زوال اس قوم کا
مقدر بن جاتا ہے۔ فکر کی اسی اہمیت و افادیت کے پیشِ نظر قرآن مجید میں بھی
متعدد مقامات پر انسان کو غور و فکر کی دعوت دی گئی ہے۔ مگر ہم مسلسل فکری
انحطاط کا شکار ہیں۔ جبکہ اہلِ مغرب کے نظریات تیزی کے ساتھ پرورش پا رہے
ہیں۔
اسلامی تہذیب جس کو چند صدی قبل پوری دنیا میں بڑی مقبولیت حاصل تھی وہ اب
آخری ہچکیاں لیتی دکھائی دے رہی ہے، بلکہ بعض مبصرین کے مطابق گزشتہ چند
صدی سے اسلامی و مغربی تہذیب کے درمیان جو معرکہ بپا تھا، کشمکش تھی، اس
میں اسلامی تہذیب کو مغلوبیت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور مغربی تہذیب غالب
آ رہی ہے۔ اس رائے سے اتفاق کیا جائے یا نہیں؟ مگر اتنا ضرور ہے کہ فی
زمانہ اسلامی تہذیب اپنا اثر کھو رہی ہے۔ دوسرے ممالک میں تو کیا لوگ اس
تہذیبکو قبول کرتے، خود ہمارے ملک میں لوگ اس تہذیب سے بیزار دکھائی دے رہے
ہیں، پڑوسی ملک کے تمام پروگراموں کو شوق سے دیکھا جاتا ہے اور اس کی تقلید
کرتے ہوئے ہمارے چینلز بھی اُسی دھنگ کے ڈرامے بنا رہے ہیں جس سے عریانیت
جھلک رہی ہوتی ہے۔
خیر! بات ہو رہی تھی چوہدراہٹ کی ، تو آج ہم پر دیکھا جائے تو امریکہ مکمل
طور پر حاوی ہے، اور اپنی چوہدراہٹ قائم کئے ہوئے ہیں۔ ڈرون حملے ملک میں
جاری ہیں، ہنگامہ، بلوہ، دہشت گردی، بم دھماکے، قتل و غارت، نشانہ وار قتل
سب ہی کچھ تو ہمارے ملک میں ہو رہا ہے اور تو اور روپیہ کی گراوٹ مسلسل
جاری ہے جس کی وجہ سے غریبی، افلاس، بے روزگاری، مہنگائی، کرپشن ، یہ تمام
بیماریاں بھی ہمارے ملک میں بہت زیادہ عروج پر ہیں جس کی وجہ سے ہمارے لوگ
کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔مہنگائی کا عمل حکومتی سطح پر ہی
ہوتا ہے مگر یہاں کے غیور باسیوں کو آج بھی مبلغ آٹھ ہزار روپیہ بمشکل
تنخواہ دی جاتی ہے۔ اس مہنگائی کے دور میں کوئی کس طرح آٹھ ہزار روپئے میں
اپنے گھر کی کفالت کر سکتا ہے۔بظاہر تو یہ تمام عمل ہم ہی کر رہے ہیں مگر
مبصرین اور باشعور لوگ اس بات کا ماتم بھی کرتے نظر آتے ہیں کہ پسِ پردہ ان
تمام محرکات میں امریکہ ملوث ہے۔ یا اسی کا ادارہ آئی ۔ ایم۔ ایف؟
اختتامِ کلام بس اتنا کہ خدارا! اب یہ قرضوں کا کشکول توڑ دیجئے اور خود
انحصاری پر توجہ دیجئے تاکہ اس ملک کے لوگ مزید تنگ دست نہ ہوں۔ مزید بے
حال نہ ہوں۔ مزید رُسوا نہ ہوں۔ خدائے بزرگ و برتر ہم سب کا حامی و ناصر
ہو! آمین |