امریکہ اور اسکے اتحادی صلیبیوں
نے افغانستان کے مسلمانوں کو مٹانے کے لیئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا مگر اﷲ
نے انکے کے مکر کو اپنی خفیہ تدبیر سے ایسا ناکام فرمایا کہ امریکی ،طالبان
کے دست حق پرست پر بیعت کرنے کو تیار ہیں۔ صلیبیوں نے اپنی خفت مٹانے کے
لیئے شام پر حملے کے اقدامات کیئے مگر لوٹ کے بدھو گھر کو آئے۔ دنیا نے
دیکھا کہ امریکہ کے چھٹے بحری بیڑے اور لڑاکاطیارہ بردار سفینے بحرہ روم
میں ہیں یا خفت زدہ چہرے لیئے بحراوقیانوس بھی خالی کرگئے۔ امریکہ اور اسکے
صلیبیوں نے شام کو کوئی خنزیر کا تکہ سمجھا تھا مگر اب پتہ چلاکہ اس علاقے
پر اﷲ کے حبیب اور کائنات کے والی سیدالمرسلین ﷺ کے صحابہ کرام رضی اﷲ عنھم
اجمعین پرچم اسلام لہراگئے ہیں اور اس سرزمین کو صلیبیوں کے اقتدار سے
ہمیشہ ہمیشہ کے لیئے پاک کر گئے ہیں۔ مزید تسلی کے لیئے تاریخ فتوحات شام
کا مطالعہ کرلیں۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد سے مسلسل مسلمان امریکی استحصال کا
شکار ہیں۔ اہل یورپ نے امریکی استحصال سے بچاؤ کے لیئے اپنی کرنسی یورو
بناکر ڈالر کا مقابلہ کیا لیکن مسلمان کی قسمت ایسی پھوٹی کہ ان کو مثبت
سوچ دینے والا دوراندیش سیاستدان جناب ذوالفقار بھٹوامریکی خصومت کی بھینٹ
چڑھا دیا گیا۔ اس کے بعد تو دنیائے اسلام مسلمانوں کے اجتماعی مفادات کی
سوچ رکھنے والوں سے محروم ہے۔ اگر کوئی ہیں تو ان کے ساتھ امریکی ایجنٹ مصر
کے مرسی جیسا معاملہ کرتے ہیں۔ افغانستان کے مسلمانوں نے امریکہ اور اسکے
اتحادیوں کا تنہا مقابلہ کیا اور کررہے ہیں۔ جب امریکہ نے افغانستان پر
حملہ کیا تو عالم اسلام اور بالخصوص پاکستان کو کیا کرناچاہیئے تھا؟ کیا
ایک مسلمان بھائی پر کافروں کے حملے کی صورت میں اسکی مدد نہیں کرنی چاہیئے
تھی؟ اﷲ اور رسول کے حکم کے مطابق مدد کرنا فرض عین تھا۔ مگر آج کے پس
زنداں کمانڈو کی بڑھکیں مارنے والے نے اپنے انجام سے بے خبر ہوکر مسلمانوں
کے قتل عام میں صلیبیوں کی بھر پور مدد کی۔ کچھ ہی عرصہ میں بڑی چالبازی سے
امریکہ نے امریکہ افغانستان جنگ کو پاکستان افغانستان جنگ میں تبدیل کردیا۔
جبکہ پاکستان کے عوام کا اس جنگ سے دور کا بھی تعلق نہ تھااور نہ ہے۔ وہ تو
اپنے مسلمان بھائیوں کے لیئے سب کچھ کرنے کو تیار تھے۔ افغانستان سے آنے
والے لاکھوں بے گھر لوگوں کی میزبانی کی ۔ امریکی خباثت نے افواج پاکستان
کو بھی اس جنگ میں الجھا دیا۔ امریکہ یہی چاہتا تھا کہ فوج کے الجھنے سے اس
کا بوجھ ہلکا ہوجائے گا ۔افغانستان اور پاکستان کے مسلمانوں کو ایک دوسرے
کے خلاف صف کرکے وہ بطرز ابلیس بھاگ جائے گا۔ طالبان سے صلح کا مقصد یہ
نہیں کہ علاقے میں امن ہوجائے بلکہ امریکہ کسی طرح اپنا سازوسامان لے کر
بحفاظت علاقے سے نکل جائے۔ مگر اب کمبل نہیں چھوڑتا۔ طالبان جتنی بھی اقسام
کے ہوں سبھی امریکہ کو دشمن جانتے ہیں۔ پاکستان کے حکمران امن بھی چاہتے
ہیں اور امریکہ کی خوشنودی بھی۔ ایسیا ہونا نا ممکن ہے۔ امریکہ پوری دنیا
میں دہشتگرد اعظم اور خالق دہشت گردی ہے۔ افغانستان پر حملہ سے قبل پاکستان
اور افغانستان کی تاریخ پر نگاہ ڈالیں کس قدر پیار و محبت اور اعتماد تھا۔
اس پرسکون منظر کو کس نے تہ و بالا کیا؟ پاکستان کے حکمران نااہل تھے اور
ہیں۔ یہ جاگیردار اور سرمایہ دار لوگ ہیں جو آئی ایم ایف سے سود پر قرض لے
کر پاکستان کی معیشت تباہ کرکے عوام کے وسائل پر قبضے کررہے ہیں۔ انکی بد
اعمالیوں کے نتیجہ میں ملک کے عوام تاریخ کی انتہا درجہ مہنگائی میں پس رہے
ہیں اور حکمران امریکہ کی وفاداری میں پاکستانی روپے کو مٹانے اور امریکی
ڈالر کی قدرو منزلت بڑھانے میں آئی ایم ایف سے تحریری معاہدے کرچکے ہیں
دوسری طرف امریکہ کی لڑائی میں پاکستان کے عوام مارے جارہے ہیں۔ تو تیسری
طرف اﷲ تعالیٰ بھی پاکستانیوں سے ناراض ہے کہ یہ لوگ باربار اسلام اور قوم
دشمن لوگوں کو اقتدار میں لاتے ہیں ۔حکمرانوں کو پاکستانی عوام کی مصیبتوں
اور پریشانیوں کو کوئی احساس نہیں کیونکہ انکا بہت کچھ پاکستان سے باہر ہے۔
اب عوام فیصلہ کریں کہ اپنے مسلمان بھائیوں کے ساتھ رہنا ہے یا کافر اور
ابلیس اعظم امریکہ کے ساتھ رہنا ہے؟امریکہ اور اسکے چیلوں کے اس تصور کو
یکسر مٹا دیں کہ افغانستان سے تعلق رکھنے والے انکے دشمن ہیں۔ تصفیہ طلب
مذاکرات کی کامیابی کے لیئے پہلا مرحلہ امریکہ کی غلامی سے نجات ہے۔ خدا
اور صنم دونوں راضی رکھنے کی بیل منڈھے نہیں چڑھے گی۔ برصغیر پر کئی سو
سالہ مسلم اقتدار غزی اور قندھار سے آنے والے کٹر باعمل مسلمان فاتحین کا
مرہون منت ہے۔ یہاں اولیاء کرام کو اﷲ تعالیٰ نے اس قدر تصرف عطافرمایا تھا
کہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیر ٰ رحمۃ اﷲ علیہ نے شہاب الدین غوری کو
خواب میں ہند کی ولائت دی۔ باقاعدہ اسلامی ریاست کی بنیا د 1206 میں قطب
الدین ایبک نے رکھی جو شہاب الدین غوری کا غلام تھا اور پھر خاندان غلاماں
حکمران رہا۔ انکے بعد بھی مغلوں تک سبھی حکمران افغانستان سے آئے تھے۔ جو
لا اینڈ آرڈر کو قائم رکھنا جانتے تھے۔ آج جیسی مہنگائی، بے روزگاری، دہشت
گردی اور لاقانونیتی کی ایک مثال بھی نہیں ملتی۔ ان لوگوں میں اوصاف
حکمرانی تھے اورآج کے طالع آزما اوصاف حکمرانی سے بے بہرہ ہیں۔ حضرت نعمت
اﷲ شاہ ولی کی پیشین گوئی پوری ہوگی اور پھر غزنی و قندھار سے نجات دہندہ
آئیں گے۔ جو زمین کو عدل سے بھر دیں گے۔ سر دست کیا کرنا ہے؟ کئی ٹی وی
مذاکرات سنے ، کسی نے کہا کہ طالبان قاتل ہیں انکے ساتھ صلح کی بات نہیں
ہوسکتی۔ میں کہتا ہوں کہ بند کمرے میں کسی کو خوش کرنے کے لیئے یہ کہنا
آسان ہے ذرا زمینی حقائق کو دیکھیں۔ صورت حال یہ ہے کہ طالبان اور القاعدہ
کا سب سے بڑا دشمن تو حواس باختہ ہوگیا ہے۔ یہ صاحبان آن ایرہونے میں ہی
مطمئن ہیں۔ ہمارے مفکرین ِ آن ایر اس وقت کہاں تھے جب پرویز مشرف نے تقریبا
نو ہزار قتل ، ڈکیتی، دہشت گردی اور بغاوت کے مقدمے معاف کردیئے۔ کلیۃ وہ
ایک سیاسی سودا تھا جو سراسر بے ایمانی اور عدل کے منافی تھا ۔ابلیس اعظم
کا فسوں ہے کہ بھائی ہی بھائی کو ماررہا ہے۔ طالبان کا معاملہ یہ ہے کہ
انکی افغانستان میں عدل پر مبنی حکومت تھی۔ پاکستان اور افغانستان ایک گھر
سمجھے جاتے تھے۔ ہماری شمالی اور مغربی سرحدیں بالکل محفوظ تھیں اور فوج کا
ایک سپاہی بھی وہاں متعین نہ تھا۔ مگر فساد کا بیج ابلیس اعظم نے بویا اور
اسکے نائب پرویز مشرف نے پاکستانی فوج کو آگ میں جھونک دیا۔ چاہیئے تو یہ
تھا کہ امریکہ سے عدم تعاون کیا جاتا، اسے ہوائی اڈے نہ دیئے جاتے، اسے
لاجسٹک سہولیات نہ دی جاتیں، اسے افغانستان کے اہم نقشے نہ دیئے جاتے۔اور
افغان بھائیوں کا ساتھ دیا جاتا۔ جب آپ کسی پر حملہ کریں تو وہ کب تک صبر
کرے گا ۔ ابھی تک انکے گھروں پر ڈرون حملے کرکے امریکہ انہیں قتل کررہا ہے
پاکستان کے حکمران سچ نہیں بولتے۔ قوم ایک طرف حکمران دوسری طرف۔ جب تک کتا
کنوئیں میں پڑا ہے آپ پانی نکالتے رہیں کنوآں پاک نہیں ہوگا اور یہا ں تو
خنزیر کنوئیں میں پڑا ہے پہلے اسے نکالیں ۔ آپ امریکہ کے ساتھ اپنی قومی
اور علاقائی خود مختاری کے سودے کو اب ختم کردیں۔طالبان خود بخود راضی
ہوجائیں گے۔ انکے خلاف یہ پروپیگنڈا بھی بڑا عجیب ہے کہ وہ گولی کے زور پر
اپنا نظام نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ طالبان کوئی نئے نہیں ۔ افغانستان میں
انہوں نے نفاذ اسلام کیا ۔ طالبان کی حکومت میں امن تھا۔ ایک اکیلی عورت
سفر کرتی تو کوئی اسکی طرف نگاہ نہ اٹھاتا تھا۔ طالبات تعلیمی اداروں میں
بے خوف و خطرجاتیں ۔یک بھی ناخوشگوار واقعہ نہیں ہوا۔ بڑی باتیں کرنے والے
اپنے پاکستان کے نظام کو دیکھیں کہ پانچ سالہ بچی، دس سالہ بچی، تیرہ سالہ
بچی چھ سالہ بچی وغیرہ جنونیوں کی بھینٹ چڑھ گئیں۔ کتنی لڑکیوں نے اور کتنے
لوگوں نے روٹی نہ ملنے کی وجہ سے خود کشیاں کرلیں۔ حکمرانوں اور بڑے بڑے
باتونیوں کو کیا اﷲ کے حضور پیش نہیں ہونا؟ امریکہ کی پوجا چھوڑ دو سب ٹھیک
ہے۔ کوئی افغان کسی مسلمان کا دشمن نہیں بلکہ اس کا محافظ ہے۔ پاکستان کے
حکمران اور امراء مسلسل آئینِ پاکستان کی خلاف ورزی کے مرتکب ہو کر غداری
کے زمرے میں آچکے ہیں کیونکہ پاکستان کا آئین ملک میں نفاذ اسلام کا مطالبہ
کرتا ہے ۔ جسے پورا نہیں کیا جارہا۔ اگر زندہ رہنا ہے تو اب پاکستان کو
اسلامی پاکستان بنانا ہوگا۔ |