”مائی “پنجابی میں عورت کو کہا
جاتا ہے۔ ”مائی “کے لفظ کو دیکھتے ہوئے دیہاتی عورت کا تصور خود با خود ذہن
کی سکرین پر نمودار ہوجاتا ہے۔ کیوں کہ مائی جیسے پنجابی کا لفظ ہے ویسے ہی
یہ گاﺅں اور دیہاتوں میں ہی زیادہ تر استعمال ہوتا ہے۔ شہردار خاتون اور
دیہاتی مائی میں فرق فراغت اور کھلے دماغ کا ہے۔ شہر کی خاتون اپنے
کاموںمیں اور کچھ خود ساختہ مصروفیات میں مگن ہوتی ہے جس کی وجہ سے اس کے
پاس زیادہ باتیں کرنے اور ادھر کے ادھر شکوے شکایات لگانے کا وقت نہیں ملتا۔
اس کے برعکس دیہاتی مائی کے پاس وقت کی کوئی کمی نہیں۔ کام اس کے پاس بھی
بہت ہوتا ہے مگر دیہاتیوں کو اللہ نے خصوصی طور پر بہت فرصت کے لمحات دیے
ہوتے ہیں۔ کیوں کہ وہ اپنے تمام معمولات کو وقت پر کرتے ہیں اس لیے ان کے
اوقات میں برکت ہوتی ہے۔ دیہاتی مائی کو جب فارغ وقت ملتا ہے تو وہ شکوے،
شکایات کرتی نظر آتی ہے۔
پاکستان کے وزیر اعظم میاں نواز شریف نے گزشتہ روز اس فلسفے کو ذہن میں
رکھتے ہوئے بھارتی ہم منصب کو دیہاتی مائی کا خطاب دے ڈالا۔ ویسے ایک ذاتی
تجزیہ کے مطابق بھارتی وزیر اعظم منموہن میں دیہاتی مائی والی دو اہم
خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ ایک تو وہ جس کا تذکرہ وزیراعظم پاکستان میاں نواز
شریف نے کیا کہ وہ امریکا کو پاکستان کی شکایات کرتے ہوئے نہیں تھکتے۔
دوسری جو ایک دیہاتی عورت نے یہ سن کر اندازہ لگایا کہ وزیر اعظم نے اس لئے
ان کو اس صفت سے نوازا ہوگا، وہ تھا ان کی مذہبی علامت پگڑی۔ پگڑی انسان کی
عزت سمجھی جاتی ہے اور ایسے میں جب وہ کسی قوم کی مذہبی علامت کو اس پر کسی
بھی قسم کی بات کرنا حقیقتاً غلط اور انتہا پسندی ہے۔ مگر یہاں بات ایک
دیہاتی مائی کی ہورہی ہے، وہ یہ سمجھ رہی تھی کہ جیسے عام طور پر دیہاتوں
میں مائیاں (عورتیں) کام کے دوران اپنے دوپٹے کو پگڑی بنا کر سر پر باندھ
لیتی ہیں۔ تو دور سے وہ بھی ایسے معلوم ہوتے ہیں۔ مگر دیہاتی مائی کے
سمجھنے میں غلطی واقع ہوئی جس کی معذرت قبول ہو۔
وہ اس لئے کہ پہلے بھی میاں نواز شریف نے منموہن کے بارے میں جن خیالات کا
اظہار کیا اور ایک ننھی سے رائے کا اظہار کرڈالا اس پر بھارت میں وزارت
عظمیٰ کیلئے بی جے پی کے نامزد امیدوار نریندر مودی کافی ناراض اور غم و
غصے کا اظہار کررہے ہیں۔ انہوں نے تو یہ تک کہہ دیا کہ نواز منموہن ملاقات
پر بھارتی عوام تشویش کا شکار ہیں۔ نواز شریف نے منموہن کو دیہاتی مائی کہہ
کر بھارت کی توہین کی ہے۔ مگر ساتھ میں گجراتی سینکڑوں مسلمانوں کے قتل عام
کا خون منہ پر سجائے موصوف نے یہ بھی انکشاف کرڈالا کہ وزیر اعظم منموہن کی
عزت تو ان کی اپنی جماعت نہیں کرتی تو نوازشریف کیوں کریں گے؟۔ بھارتی
دارالحکومت دلی میں انتخابی جلسے سے پرجوش خطاب کرتے ہوئے انہوں نے بھارتی
وزیراعظم کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا، ان کا کہنا تھا کہ منموہن امریکی
صدر باراک اوباما سے ملاقات میں صرف غربت کا رونا روتے رہے، عوام بتائیں کہ
ملک آئین کے مطابق چل رہاہے یا راہول گاندھی کے فرمان پر۔ انہوں نے کہا کہ
منموہن سنگھ نوازشریف سے ملاقات میں ایل او سی پر ہلاک بھارتی فوجیوں کو
بھی یاد رکھیں، منموہن بتائیں کہ وہ نوازشریف سے بھارتی فوجیوں کی ہلاکت کا
معاملہ کیسے اٹھائیں گے؟۔
اب بات جب نریندر مودی کی چل نکلی ہے ان کے بارے میں قارئین کو بتاتے چلیں۔
1950 میں پیدا ہونے والے نریندر مودی 1980 میں بی جے پی کے رکن بنے اور
جماعت میں کئی عہدوں پر فائز رہنے کے بعد 2001 میں پہلی مرتبہ گجرات کے
وزیراعلی بنے۔ اس کے بعد مودی نے گجرات میں 2002، 2007 اور پھر 2012 کے
اسمبلی انتخابات جیتے۔
مگر داغ دار ماضی کے حامل اور انسانی حقوق کی بڑے پیمانے پرسنگین خلاف
ورزیوں میں ملوث نریندر مودی پر 2002 میں بھارتی ریاست گجرات میں ہونے والے
مسلم کش فسادات میں اہم کردار ادا کرنے کی الزام ہے۔ ان فسادات میں ایک
ہزار سے زیادہ افراد موت کو گلے لگاگئے تھے۔ مودی پر الزام ہے کہ انہوں نے
2002 کے مسلم مخالف فسادات کے دوران پولیس کو مداخلت نہ کرنے کی ہدایت دی
تھی۔ بھارتی ریاست گجرات میں 2002 کے فسادات میں مسلمانوں کے قتل عام پر
نریندر مودی نے کہا تھا کہ اگر گجرات میںایک کتا مر جائے تو اس سے دکھ ہوتا
ہے۔ مگر اتنے مسلمانوں کے قتل پر شاید اسے کوئی دکھ نہیں ہوا تھا۔ اس لئے
جب مسلمانوں کی بستیوں کو آگ لگائی جارہی تھی، ان کا قتل عام کیا جارہا تھا
اس وقت مودی نے پولیس کو فسادات کو نہ روکنی ہدایات کی گئی تھیں۔ اگرچے ان
کے اس بیان پر کانگریس سمیت تمام مسلمانوں نے شدید احتجاج کیا تھا۔ جس پر
مودی نے وضاحتیں پیش کرنا شروع کردی تھیں۔ مودی کی اسلام دشمنی کا 2002 سے
چلی آرہی ہے اور آج ایک مرتبہ پھر وہ نواز منموہن ملاقات کے موقع پر کھل کر
سامنے آگئی۔
اس وقت جب مودی کو وزارت عظمیٰ کے لئے نامزد کیا گیا ہے ہندو انتہا پسند
اور اسلام و پاکستان مخالف تنظیموں کی حمایت اور آشیر وار حاصل ہے۔ جس کے
پیچھے صرف اور صرف مسلم مخالفت شامل ہے۔ آج منموہن کو مائی کہنے پر تلملا
اٹھنے والا مودی کے ماضی کا ایک ایک ورق اس بات کا گواہ ہے کہ وہ اس میں
پاکستان کی مخالفت کس قدر بھری ہوئی ہے۔ ایسا شخص میاں نواز شریف کے گزشتہ
روز کی تقریر کے چبھتے حقائق کو بھلا کیسے بھول سکتا ہے۔ نواز منموہن
ملاقات کے دوران بھارتی وزیر اعظم کے ہاتھوں کے طوطے اڑے ہوئے اور باڈی
لینگویج کی واضح بتارہی تھی کہ ان پر کسی اسلام مخالف اور پاکستان دشمن
پارٹی یا افراد کا دباﺅ ہے۔ جو نہیں چاہتے کہ کشمیر کی آزادی کے حوالے بات
ہو، جو پاکستان کے پانیوں پر بھارتی قبضے کی وضاحت پیش نہیں کرنا چاہتے، جو
پاکستانی بارڈر پر خلاف ورزیوں اور فوجیوں کے شہید کے حوالے کسی حتمی فیصلے
کو نہیں سننا چاہتے۔ تجزیہ نگاروں اور سینئر صحافیوں کی بات سن کر دیہاتی
مائی نے بے اختیار پکار کر کہا کہ وزیر اعظم کو کسی کا دباﺅ نہیں ہے سوائے
مودی کے۔ |