ابن صفی بحیثیت طنز و مزاح نگار

ابن صفی کے فن کمال کی کئی جہتیں ہیں۔ ان میں سے ایک نہایت قوی جہت ان کی طنز و مزاح نگاری ہے۔ بات آگے بڑھانے سے قبل یہاں یہ ذکر ضرور ہوگیا ہے کہ اردو ادب میں نصف صدی سے بھی اوپر کا عرصہ گزر جانے کے بعد احیاء ابن صفی موجود صدی کی اول دہائی کے آخر میں دیکھنے میں آیا۔ معروف ادیب و براڈ کاسٹر جناب رضا علی عابدی نے راقم الحروف کے نام ایک حالیہ مکتوب میں کیا عمدہ بات کہی کہ ’’ غنیمت ہے کہ بعد میں، قدرے تاخیر سے اہل ادب کی آنکھ کھلی اور خیال آیا کہ جس شخص کے گزر جانے سے ادب کے دامن میں سوراخ ہوگیا ہے اس کے بارے میں آنے والی نسلیں پوچھیں گی تو کیا جواب دیں گے۔ ‘‘

ادھر ہندوستان میں مقیم ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی نے ابن صفی کو دریافت کا بیٹرہ اٹھایا ہے۔ وہ اپنی تازہ کتاب (جنوری ۲۰۱۳) ’ ابن صفی کے جاسوسی ناولوں میں طنز و مزاح ‘‘ میں رقم طراز ہیں: ’’ میں نے ابن صفی کے جاسوسی ناولوں سے ایک پہلو تراش کر طنز و مزاح میں بھی ان کی ذہانت ، فتانت اور چبھن کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔‘‘ ۔ ۔ ۔ لگتا ہے اردو ادب کے بڑے لوگوں کو ابن صفی کی اہمیت کا اندازہ ہوچلا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ مزاح لکھنے کے لیے انسان کو اول تا آخر مزاح نگار ہی ہونا چاہیے۔ یہ کلیہ ابن صفی کے معاملے میں سچ ثابت نہ ہوا۔اگر زیر نظر مضمون کا عنوان وہ نہ ہوتا جو ہے بلکہ ابن صفی بحیثیت شاعر، جاسوسی ناول نگار یا نثر نگار کے عنوانات کے تحت مضامین احاطہ تحریر میں لائے جاتے، تب بھی لاکھوں کے محبوب مصنف ،اس بے مثال ادیب کی تحریروں میں موجود حوالاجات کی مدد سے انہیں مکمل کرنا ذرا بھی مشکل نہ ہوتا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ابن صفی کی نثر میں ادبی چاشنی کے ساتھ ساتھ مزاح کا عنصر کچھ اس طرح گندھ کر رہ گیا ہے کہ پڑھنے والوں کو ان کے ناولوں میں بیک وقت ایک اعلی پائے کی عمدہ نثر کے ساتھ ساتھ بہترین مزاح بھی پڑھنے کو ملتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ ایک بار جس نے ابن صفی کو پڑھ لیا، عمر بھر ان کا گرویدہ ہی رہا۔

طنز و مزاح کے باہمی فرق کی وضاحت کرتے ہوئے وزیر آغا لکھتے ہیں:
’’ طنز، زندگی اور ماحول سے برہمی کا نتیجہ ہے اور اس میں غالب عنصر نشتریت کا ہوتا ہے۔طنز نگار جس چیز پر ہنستا ہے اس سے نفرت کرتا ہے اور اسے تبدیل کرنے کا خواہاں ہوتا ہے۔ اس کے برعکس مزاح، زندگی اور ماحول سے انس اور مفاہمت کی پیداوار ہے۔ مزاح نگار جس چیز پر ہنستا ہے، اس سے محبت کرتا ہے اور اسے اپنے سینے سے چمٹا لینا چاہتا ہے۔ طنز نگار توڑتا ہے اور توڑنے کے دوران ایک فاتحانہ قہقہہ لگاتا ہے چنانچہ طنز میں جذبہ افتخار کسی نہ کسی صورت میں ضرور موجود ہوتا ہے ۔دوسری طرف مزاح نگار اپنی ہنسی سے ٹوٹے ہوئے تار کو جوڑتا ہے اور پیار سے ناہمواریوں کو تھپکنے لگتا ہے۔ چنانچہ مزاح میں غالب عنصر ہمدردی کا ہوتا ہے۔‘‘ [۱]

ابن صفی کی تمام تحریریں ، ان کے تمام ناول ، مذکورہ بالا تعریف پر ہر لحاظ سے پورے اترتے ہیں۔ایسا کہنا کیونکر ضروری سمجھا گیا ہے، اس کی چند مثالیں آگے بیان کی جائیں گی۔

اوسلو یونیورسٹی ناروے میں اردو کے استاد اور ابن صفی کے معتقد پروفیسر فین تھیسن کہتے ہیں:
’’ اگر ہم اْن کا موازنہ اگاتھا کرسٹی سے کریں تو ابن صفی کی کتابوں میں دو اہم پہلو ایسے ہیں جو اگاتھا کرسٹی میں نہیں ہیں۔ ایک تو طنز و مزاح، میں سمجھتا ہوں کہ ان کی کامیابی کی وجہ یہ ہے کہ ایک تو ان کی زبان رواں ہے، دوسری بات یہ کہ انہوں نے ایسا کارنامہ انجام دیا جو شاید کسی اور نے انجام نہیں دیا، وہ یہ ہے کہ انہوں نے مزاح اور سسپنس کو یکجا کیا۔ ایسا ہوتا ہے کہ اگر لوگ مزاح لکھتے ہیں تو اس میں سسپنس نہیں ہوتا یعنی سسپنس اور مزاح کا ایک ساتھ ہونا میں نے کسی میں نہیں دیکھا۔ عموماً مزاح لکھتے وقت سسپنس ختم ہوجاتا ہے کیونکہ ہم یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ یہ مذاق ہی مذاق ہے، جبکہ ابن صفی کے ہاں یہ دونوں ساتھ ہیں۔ یہ میں نے کسی اور میں نہیں دیکھا۔‘‘ [۲]

حوصلے، استقلال اور خوش فکری کی قوتوں کو پامال کردینے والی باتوں کی موجودگی میں ابن صفی کا اپنی تخلیقات میں خوش مزاجی، اور طنز و مزاح کا بے مثال عنصر برقرار رکھنا بجائے خود ان کی ذہنی برتری اور ما فوق الفطرت فضیلت کا ایک اہم ثبوت ہے۔جاسوسی ناول نگاری کے بنیادی اصولوں کی پاسداری کرتے ۲۴۵ ناولوں کی ایک ایک سطر کا لطافت و شگفتگی سے مالا مال رہنا ابن صفی کا دلنواز و دل فریب کارنامہ ہے جس نے انہیں طنز و مزاح نگاروں کی صف میں لا کھڑا کیا ہے۔اس کی صحیح قدر و منزلت وہی لوگ کرسکتے ہیں جو ذوق سلیم کے ساتھ ساتھ کشادہ دلی کی دولت سے بھی مالا مال ہیں۔ یہاں ان نقادوں کی بات نہیں ہے جو علم و انشاء کے زندگی بخش رموز و نکات سے بے بہرہ او رکورے ہیں۔

ابن صفی نے متفرق مضامین کے مجموعے ڈپلومیٹ مرغ کے پیشرس میں لکھا تھا:
’’ طنز و مزاح میرا فن نہیں بلکہ کمزوری ہے۔ کمزوری اس لیے کہ میں صاحب اقتدار نہیں ہوں۔ صاحب اقتدار و اختیار ہوتا تو میرے ہاتھ میں قلم کے بجائے ڈنڈا نظر آتا اور میں طنز کرنے یا مذاق اڑانے کے بجائے ہڈیاں توڑتا دکھائی دیتا۔ الحمد اﷲ کہ میری یہ کمزوری قوم کی عافیت بن گئی اور قوم بلا سے واہ واہ نہ کرے، اسے ہائے ہائے تو نہیں کرنی پڑے گی۔ ‘‘

بہت عرصہ قبل ابن صفی کے دوست شاہد منصور ابن صفی کو بحیثیت ایک طنز نگار دیکھتے اور اس پر تبصرہ کرتے ہوئے اس خواہش کا اظہار کیا تھا :
’’ سراغ نگار نے طنز نگار کو نگل لیا۔ مگر وہ اسے فنا نہیں کرسکا۔اب بھی طنز نگار، سراغ کے دل میں نشتر کی طرح کھٹکتا رہتا ہے۔کاش کوئی ابن صفی کے ناولوں سے طنز کے یہ اچھوتے ٹکڑے جمع کرسکے تو ہوسکتا ہے کہ طنز میں ایک نئے دور کا آغاز ہوجائے ۔‘‘ (الف لیلہ ڈائجسٹ،کراچی۔جولائی ۱۹۷۲)
جناب شاہد منصور کی خواہش کے احترام میں متذکرہ اوصاف سے بھرپور، ابن صفی کے ناولوں سے چند اقتباسات پیش خدمت ہیں :
ماہنامہ ’’کمر لچکدار‘‘ جس کی دھوم سارے مُلک میں تھی!……وہ ادب اور ثقافت کا علم بردار تھا۔ادب کا علم بردار یوں تھا کہ اس میں فلم ایکٹرسوں کی کمزوریاں اچھالی جاتی تھیں اور ثقافت کا علم بردار اس لیے کہا جاسکتا تھا کہ سرِ ورق پر کسی لنگوٹی بند امریکن چھپکلی کی تصویر ہوتی تھی۔ (لڑکیوں کا جزیرہ۔عمران سیریز نمبر ۱۰ ۔اشاعت: ۱۵ جولائی ۱۹۵۶)
٭
’’اگر وہ مفلس آدمی ہوتے تو بھی میں اُن سے اسی طرح محبت کرتی کیونکہ ان کی روح تو مفلسی میں بھی اتنی ہی عظیم ہوتی‘‘۔
’’یہ عظیم روح کیا چیز ہے؟میں نے عظیم الدین سناہے،عظیم اﷲ سنا ہے مرزا عظیم بیگ چغتائی مرحوم سنا ہے لیکن یہ عظیم روح……‘‘ (آہنی دروازہ۔عمران سیریز ۱۴۔اشاعت:۲۵ نومبر ۱۹۵۶ )
٭
جب دو عورتیں بیک وقت تمہیں دلچسپ سمجھنے لگیں تو تم کسی بوڑھی عورت کو تلاش کرو جو اُن کے پیار کی تصدیق کرسکے۔ (الفانسے۔عمران سیریز نمبر ۱۷۔اشاعت: ۲۸ فروری ۱۹۵۷)
٭
عورتیں عموماً ہنسنے ہنسانے پر جان دیتی ہیں اور احمقوں سے تو انھیں بڑی دلچسپی ہوتی ہے، بشرطیکہ وہ اُن کے شوہر نہ ہوں۔(حماقت کا جال ۔عمران سیریز نمبر ۲۰۔اشاعت:۱۵ جون ۱۹۵۷)
٭
شہنشاہیت میں تو صرف ایک نالائق سے دوچار ہونا پڑتا ہے لیکن جمہوریت میں نالائقوں کی پوری ٹیم وبال جان بن جاتی ہے۔ (بھیانک جزیرہ۔جاسوسی دنیا نمبر ۱۷۔اشاعت: جون ۱۹۵۳)

’’صبح ناشتے میں نفسیات، دوپہر کے کھانے میں نفسیات، رات کے کھانے میں نفسیات، اونگھتے میں نفسیات، چھینکنے میں نفسیات‘‘۔
’’او ہو تو کیا تمہارے ملک میں اس مضمون سے بہت زیادہ دلچسپی لی جارہی ہے‘‘۔
’’افسانوں سے لے کر گورکنی کے پیشے تک میں گھُسی ہوئی ہے! گورکن قبر کھودتے کھودتے سوچ میں گم ہوجاتا ہے کہ آخر عورتوں نے اس پیشے کو کیوں نہیں اپنایا__ سمجھ میں نہیں آتا تو قبر ادھوری چھوڑ کر یونیورسٹی کی راہ لیتا ہے۔
’’یونیورسٹی!‘‘
’’ہاں!یونیورسٹی۔ اور وہاں سے فرائڈ فرائڈ کا نعرہ لگا تا ہوا واپس آتا ہے اور پہلے سے بھی زیادہ تندہی سے گورکنی میں مصروف ہوجاتا ہے‘‘۔
(خونی ریشے۔جاسوسی دنیا نمبر ۱۰۶۔اشاعت:۳۰ ستمبر ۱۹۶۹)
٭
ابن صفی اپنے جاسوسی ناولو ں میں دور حاضر کے ادبی مسائل کو بھی موضوع تحریر بنایا کرتے تھے ۔ اردو زبان و ادب کی مختلف اصناف میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات کو موضوع بناتے ہوئے اپنے مخصوص انداز میں چوٹ کرنا ان کی تحریر کا وصف تھا۔ باتوں باتوں میں اپنے کرداروں کے ذریعے وہ ایسے جملے لکھ جاتے تھے کہ ان کاقاری فوری طور اس میں چھپا لطیف طنز سمجھ جاتا تھا۔ابن صفی بنیادی طور پر فنون لطیفہ سے مکمل آگاہی رکھنے والے شخص تھے ۔ بحیثیت ایک جاسوسی ناول نگار، ان کی تحریروں میں ایک بات واضح طور پر سامنے آتی تھی اور وہ تھی ان کی شعر و ادب کے بدلتے ہوئے رجحانات سے مکمل آگاہی۔ رہین ستم ہائے روزگار رہے لیکن ادبی دنیا کے خیال سے ناواقف نہیں تھے۔ زیا دہ تر فقرے وہ اپنے لازوال کردار علی عمران کی زبان سے کہلوایا کرتے تھے۔ ایسی چند مثالیں پیش خدمت ہیں:
’’ہمارے ہاں تو کتابوں کو ترازو میں تول کر سال کی بہترین کتابیں منتخب کی جاتی ہیں اور ان پر انعامات دیئے جاتے ہیں۔ عموماً سب سے زیادہ ضخیم کتاب کا مصنف انعام پاتا ہے۔ اگر کوئی اﷲ کا بندہ اعتراض کر بیٹھے تو کہہ دیا جاتا ہے۔ اماں اتنی موٹی کتاب لکھ دی ہے، بے چارے نے، کہیں نہ کہیں تو کوئی قا بلِ انعام بات قلم سے نکل ہی گئی ہوگی۔
(بلی چیختی ہے ۔عمران سیریز نمبر ۴۳۔اشاعت:۳۱ مارچ ۱۹۶۴)
٭
یار پتہ نہیں کیوں ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے تم سب کسی ایک ہی استاد سے غزل کہلوا لاتے ہو___ مشاعروں میں سنتا ہوں___رسالوں میں پڑھتا ہوں___ سبھوں کا ایک ہی رنگ نظر آتا ہے۔ خدا بھلا کرے فیضؔ صاحب کا کہ انھوں نے اپنے بعد پھر کوئی اور اوریجنل شاعر پیداہی نہ ہونے دیا ___صرف دو تین اس بھیڑ سے الگ معلوم ہوتے ہیں۔ جیسے جمیل الدین عالی……اور جعفر طاہر وغیرہ…… آگے رہے نام اﷲ کا___!
’’ اچھا___! شاعر صاحب نے جھلا کر کہا’’سردار جعفری کے متعلق کیا خیال ہے‘‘۔
’’پتھر توڑتے ہیں ___‘‘
’’واہ___واہ___سبحان اﷲ…… جواب نہیں ہے اس تنقید کا۔ (ڈیڑھ متوالے۔عمران سیریز نمبر ۴۲۔اشاعت:۱۲ نومبر ۱۹۶۳)
٭
’’میلارمے [۳] ہی کو تو پڑھ پڑھ کر اس حال کو پہنچا ہوں……!اردو میں میرا جی سے ملاقات ہوئی تھی‘‘۔
’’میرا جی تو آج تک میری سمجھ میں نہیں آیا‘‘۔
’’عورتوں کی سمجھ میں نہ آئے تو بہتر ہے…… ورنہ پھُکنیاں اور دست پناہ سنبھال کر دوڑ پڑیں گی اس کی قبر کی طرف‘‘۔ (گیت اور خون ۔عمران سیریز نمبر۴۷۔اشاعت: ۹ اگست ۱۹۶۶)
ایک شاعر سے واقف ہوں جو میرؔ کے رنگ میں شاعری کرتے ہیں اور جعفرزٹلی کی شاعری سے متاثر ہو کر نثر لکھتے ہیں___ یہ تو ہوا آرٹ…… اور غالباً آرٹسٹک سنس اس کو کہیں گے کہ خواتین کے رسائل میں ہمیشہ اپنی نوجوانی کی تصویر چھپواتے ہیں۔ (دوسری آنکھ ۔عمران سیریز نمبر۴۸۔اشاعت: یکم دسمبر ۱۹۶۶)
٭
اپنے وجود کے ثبوت کے لئے میں ڈیکارٹس کے خیال سے متفق ہوں۔ یعنی میرا ادراک میرے وجود کا ثبوت ہے…… اور میرا وجود کسی کی حماقت کا نتیجہ ___ ! لہٰذا حماقت ہی بنیادی حقیقت ٹھہری…… دنیا کے سارے فتنوں کی جڑ تو عقل ہے۔ اس لئے عقل کو اٹھا کر طاق پر رکھ دینا چاہیے۔ جیسے میں نے رکھ دی ہے۔ (آنکھ شعلہ بنی ۔عمران سیریز نمبر۴۹۔اشاعت:۲۳ جنوری ۱۹۶۷)
٭
’’ہمارے ملک میں گھسیاروں کو پکڑ کر ماہر تعلیم بنادیا جاتا ہے۔ اور وہ کم عمرگدھوں پر مُختلف قسم کے مضامین کی گٹھڑیاں لادتے چلے جاتے ہیں۔……ابھی حال میں میں دوسری جماعت کے ایک بچّے سے اُس کے نصاب کے متعلق پُوچھ بیٹھا تھا……اُس نے بتایا کہ وہ اُردو، انگریزی، سوشل اسٹڈی-ارتھمیٹک-نیچر اسٹڈی- اسلامیات-آرٹ اینڈ کرافٹ اور ہائی جین وغیرہ وغیرہ پڑھتا ہے…… ذرا سوچو تو کیا حشر ہوگا اس کا۔ کیا وہ بچپن ہی سے ذہنی بدہضمی میں نہیں مبتلا ہوجائے گا ___کیا اکتاہٹ اور مایوسی اس کی زندگی کے اجزاء لازم نہیں ہوجائیں گے۔ کیا اس کی تخلیقی صلاحیتیں کند نہ ہو جائیں گی۔ اور پھر کیامستقبل اسے صرف ایک کلرک بناکر نہ رکھ دے گا‘‘۔

قوم کی تعلیم پر زرِ کثیر صرف کیا جارہا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ملک میں ایک بھی ان پڑھ نظر نہ آئے۔ سب کے سب منشی فاضل ہوجائیں۔ اس لیے ماہرین تعلیم کی خدمات حاصل کی ہیں جو قوم کے لئے بہت اچھی گاف کھیلتے ہیں اور اپنے بچوں کو حصولِ تعلیم کے لئے سمندر پار بھیج دیتے ہیں۔ (ڈاکٹر دعاگو۔خصوصی ناول ۔عمران سیریز ۔اشاعت: مارچ ۱۹۶۴)
٭
ابن صفی ادبی رویوں و رجحانات سے خوب واقف تھے، اپنے مخصوص انداز میں چوٹ کرنا ہو تو ناو ل سے بڑھ کر کوئی دوسرا ذریعہ بھلا کون سا ہوسکتا تھا۔ اپنے سدا بہار کردار علی عمران کی زبانی کہلواتے ہیں :
’’میری سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ یہ احمقانہ کھیل کب تک جاری رہے گا‘‘۔ ___ ’’کون سا کھیل؟‘‘ __ ’’یہی شاعرانہ کھیل جس نے لڑکی کی یہ درگت بنائی ہے!‘‘ ___ ’’کچھ آپ ہی کیجیے اس سلسلے میں‘‘۔ ___ ’’سارے شاعر میری جان کو آجائیں گے۔ ابھی حال ہی میں ایک بڑے میاں[۴] نے اپنے ڈیڑھ درجن عشق تحریر فرمائے ہیں اور ان پر بچوں کی طرح قلقاریاں مارتے رہتے ہیں‘‘ ۔ (پہاڑوں کے پیچھے۔عمران سیریز۶۰ ۔اشاعت:۱۸ مارچ ۱۹۷۱ )
٭
محبوبہ ہر حال میں محبوبہ ہوتی ہے۔ خواہ وہ کسی کی بیوی ہو یا نہ ہو۔ اور محبو بائیں عموماً بدمعاش ہی رکھتے ہیں۔ شریفوں میں تو بیوی رکھنے کی بھی ہمت نہیں ہوتی۔
(جاپان کا فتنہ ۔ جاسوسی دنیا ۷۰۔اشاعت: ۸ نومبر ۱۹۵۷)
٭
لوگ عموماً یہ سمجھتے ہیں جیسے بگڑا شاعر مرثیہ گوئی اختیار کرتا ہے اسی طرح نا اہل مُصوّر کارٹونسٹ بن جاتے ہیں۔حالانکہ یہ غلط ہے۔ اچھے کارٹونسٹ کے لئے ضروری ہے کہ وہ اعلٰی درجہ کا مصوّر بھی ہو۔ورنہ وہ اچھا کارٹونسٹ ہو ہی نہیں سکتا! بالکل اسی طرح جیسے گھٹیا قسم کے انشا پرداز مزاح نگار نہیں ہوسکتے۔ (سینکڑوں ہم شکل ۔ جاسوسی دنیا ۸۰ ۔اشاعت: ۲۵ نومبر ۱۹۵۸)
٭
فنون لطیفہ پر ابن صفی کی گہری نظر تھی۔ وہ خود بھی ایک اچھے آرٹسٹ تھے ۔ایک جگہ فن تجرید پر چوٹ کرتے ابن صفی کے یہ فقرے ملاحظہ ہوں :
’’ پچھلے دنوں ایک غیر ملکی سفارت خانے نے تصویروں کی نمائش کا اہتمام کیا تھا۔تمہارا یہ نوکر (عمران کا باورچی سلیمان۔راقم) وہاں بڑے ٹھسے سے پہنچا تھا اور تصاویر پر تنقید کرتا پھرتا تھا ۔‘‘
’’ اچھا! لیکن اس میں حیرت کی کیا بات ہے ؟ پکاسو کا بہت بڑا مداح ہے۔تجریدی آرٹ پر جان دیتا ہے اور جیسی تصاویر دیکھ کر آتا ہے ویسی ہی چپاتیاں پکانے کی کوشش کرتا ہے۔ایک دن ساڑھے تین فٹ لمبی چپاتی پکائی تھی۔میں نے پوچھا ’یہ کیا‘ تو کہنے لگا ’ صدائے صحرا ہے اور ’ابدیت‘ ابھی توے پر ہے۔‘‘ ۔ (تصویر کی اڑان۔ عمران سیریز نمبر ۵۳۔اشاعت:۱۹۶۸)
٭
اردو زبان و ادب میں شاعری ایک ’سنگین ‘ مسئلے کا رخ اختیار کرتی جارہی ہے۔ حالیہ چند دہائیوں میں ایسے شعراء کی تعداد میں خطرناک حد تک اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جو محض اپنا کلام شائع کرانے میں دلچسپی رکھتے ہیں اور اس عمل کے دوران شاعری کے معیار کو یکسر نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ ایسے ہی نام نہاد شاعروں پر چوٹ کرتے ہوئے ابن صفی کے ناول سے یہ چلبلا ،کٹیلا اقتباس ملاحظہ ہو:
’’ سارجنٹ ناشاد ایک غزل کہہ رہا تھا۔ سامنے رکھے ہوئے کاغذ پر اس نے بہت سے قوافی لکھ رکھے تھے۔ان قافیوں پر میں ایک ایک مصرعہ کہہ کر ان پر گرہیں لگاتا جارہا تھا۔اچانک ایک مصرعے میں اسے گاڑی رکتی ہوئی سی معلوم ہونے لگی۔ اس نے اس کی تقطیع شروع کردی۔غم جاناں۔۔ابے کھٹ کھٹ۔۔لہو بن کر۔۔۔ابے کھٹ کھٹ۔ ۔۔ہا۔۔ٹھیک تو ہے۔۔۔غم جاناں لہو بن کر ٹپک آنکھوں سے کچھ یوں بھی۔۔۔ابے کھٹ کھٹ۔ ۔۔ابے کھٹ کھٹ۔ ۔۔ابے کھٹ کھٹ۔ ۔۔

سارجنٹ ناشاد اسی طرح مصرعوں کی تقطیع کرتا تھا۔فاعلاتن فاعلات کے بکھیڑے آج تک اس کی سمجھ ہی میں نہیں آئے تھے۔ ویسے وہ اکثر دوسرے شعراء کو عروض سے ناواقف اور اور بالکل ہی کندہ ناتراش بتایا کرتا تھا۔سارجنٹ ناشاد فوجی آدمی تھا ۔تعلیم بھی واجبی سی تھی۔لیکن اس کے باوجود اسے جگت استاد ہونے کا دعوی تھا۔اور اس کے ساتھ والے اس کی استادی کے قائل بھی تھے کیونکہ اکثر اس کے اشعار میر و غالب جیسے اساتذہ سے بھی لڑ جاتے تھے۔ ایسے ہی ایک موقع پر کسی نے اعتراض کردیا۔سارجنٹ ناشاد دہڑ سے بولا ’ تولد ہوا ہے۔‘اس پر ایک زوردار قہقہہ پڑا۔پھر اچانک اسے یاد آیا کہ اسے ’تولد‘ نہیں توارد‘ کہتے ہیں۔مگر اب کیا ہوسکتا تھا۔[۵]
٭
ابن صفی کا ایک ایسا کردار بھی تھا جو ایک جیتا جاگتا شخص تھا اور جسے انہوں نے اپنے ناولوں میں استعمال کرکے ابدی شہرت عطا کردی تھی۔ یہ ذکر استاد محبوب نرالے عالم کا ہے جو شہر کراچی میں مقیم تھے اور آج بھی ایسے لوگ موجود ہیں جنہیں استاد سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا تھا۔ ابن صفی کے دیرینہ دوست جناب شاہد منصور اس ضمن میں بیان کرتے ہیں:
’’ پھر بارگاہ ِابن صفی میں کچھ اور لوگ آگئے۔ محفل کا رنگ تبدیل ہوگیا۔ میں اٹھ کر گھر چلا آیا ۔پھر کئی مہینے گزر گئے۔ ابن صفی سے ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ استاد بھی اس درمیان ایک د و بار ملے مگر کوئی قابل ذکر بات نہیں ہوئی ۔پھر ابن صفی کی مشہور کتاب ڈاکٹر دعاگو چھپ کر آگئی تو بڑے ذوق وشوق سے پڑھنا شروع کر دیا۔اور پھر میری آنکھیں حیرت سے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں جب اس کتاب میں ،میں نے استاد محبوب نرالے عالم کو منِ وعن اسی طرح براجمان پایا جیسے وہ مجھے ابن صفی کے دفتر میں براجمان ملے تھے۔ اپنی تمام ترہیت کذائی مشکل و صورت ،لباس اور بھونپو اور مکالموں کے ساتھ کوئی بھی فرق تو نہیں تھا۔ لگتا تھا کہ قدرت نے استاد کو ابن صفی کا کردار بننے کے لیے ہی پیدا کیا تھا۔‘‘ [۶]

استاد محبوب نرالے عالم سے متعلق عمران سیریز کے مندرجہ ذیل اقتباسات ملاحظہ ہوں۔یہاں ہمیں طنز و مزاح کی چاشنی ملتی ہے، وہ لطیف جذبہ یعنی ہنسی نظر آتا ہے جو بقول ڈاکٹر وزیر آغا ، ہمیں اس سنجیدہ کائنات میں زندہ رکھنے کاذمہ دار ہے:
یہ تھے استاد محبوب نرالے عالم۔ بے پناہ قسم کے شاعر۔شاعر کس پائے کے ہوں گے، یہ تو تخلص ہی سے ظاہر تھا۔ اتنا لمبا چوڑا تخلص شاید ہی کسی مائی کے لال کو نصیب ہوا ہو۔ استاد کا کہنا تھا کہ بڑ ا ا شاعر وہی ہے جس کے یہاں انفرادیت بے تحاشا پائی جاتی ہو، لہذا ان کا کہا ہوا شعر ہمیشہ بے وزن ہوتا تھا۔ بسر اوقات کے لیے پھیری لگا کر مسالے دار سوندھے چنے بیچتے تھے۔ مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ جو بھی پکڑ پاتا بری طرح جکڑ لیتا۔ بعض اوقات تو ایسا بھی ہوتا کہ سننے سنانے کے چکر میں استاد ہفتوں دھندے سے دور رہتے۔ بڑے بڑے لوگوں سے یارانہ تھا، پھر عمران کیسے محروم رہتا۔
’کوئی عمدہ سا شعر استاد‘ – عمران انہیں کی میز پر جمتا ہوا بولا
استاد نے منہ اوپر اٹھایا۔ تھوڑی دیر ناک بھوں پر زور دیتے رہے پھر جھوم کر بولے ’سنیے‘
حسن کو آفتاب میں صنم ہوگیا ہے
عاشقی کو ضرور بے خودی کا غم ہوگیا ہے
پھر بولے۔ ’پچھلی رات مجھ میں غالب کی روح حلول کرگئی تھی، سنو:
تم بھلا باز آؤ گے غالب
راستے میں چڑھاؤ گے غالب
کعبہ کس منہ سے جاؤ گے غالب
شرم تم کو مگر نہیں آتی
’یہ تو وزن دار ہے استاد‘– عمران حیرت سے بولا
’ میں نے بتانا نا غالب کی روح حلول کرگئی تھی، پھر وزن کیسے نہ ہوتا‘‘ (ڈاکٹر دعاگو۔عمران سیریز کا خصوصی ناول)

کارڈ پر نظر پڑتے ہی اس نے ٹھنڈی سانس لی۔ کارڈ پر تحریر تھا ’’ امام الجاہلین، قتیل ادب، استاد محبوب نرالے عالم‘‘
’بلاؤ‘ – عمران کراہا
’تشریف رکھیے‘
لیکن استاد تشریف کہاں رکھتے، وہ تو کنکھیوں سے نرس کو دیکھے چلے جارہے تھے۔
’میں نے کہا استاد‘
’جی۔ جی ہاں’ استاد چونک کر بولے : ’آج میں ارتعاش سیمگاں کا مقیم مصلوب ہوں‘
عمران نے اس طرح سر ہلایا جیسے پوری بات سمجھ میں آگئی ہو۔
اکثر استاد پر بڑے بڑے نامانوس الفاظ بولنے کا دورہ پڑتا تھا۔ کبھی کبھی نئے الفاظ بھی ڈھالتے۔ اس قسم کے دورے عموما’’ اس وقت پڑتے جب آس پاس کوئی عورت بھی موجود ہو۔
نرس اٹھ کر چلی گئی اور استاد نے ایک ٹھنڈی سانس لی اور پھر جھک کر آہستہ سے بولے: ’یہ دوسری کب آئی‘
’آتی جاتی ہی رہتی ہیں ‘ ۔ عمران لاپرواہی سے بولا ’’ مگر آپ کیوں مغموم ہیں‘‘
’نہیں جناب، یہ بے پردگی۔۔ یہ ٹڈے ٹڈیاں۔۔ میں عنقریب حج کرنے چلا جاؤں گا‘
’ ہوا کیا۔۔ کوئی خاص حادثہ‘
’جی ہاں، کل رینو میں میٹنی شو دیکھنے چلا گیا تھا۔ دیر ہوگئی تھی۔ کھیل شروع ہو چکا تھا۔ ہائے کیا فلم ہے ڈاکٹر نو دیکھی ہے آپ نے۔ سالے، لونڈیا کو چوڑی دار پاجامہ پہنا دیتے ہیں‘
’چوڑی دار پاجامہ نہیں استاد، اسے جین کہتے ہیں ‘ ۔عمران نے کہا۔ (ڈاکٹر دعاگو۔عمران سیریز کا خصوصی ناول)
٭
عمران نے استاد کے شانے پر ہاتھ مار کر کہا : ’سنو اکثر لوگ تمہارے آئیڈیاز چرا لیا کرتے ہیں‘
’جی بس کیا بتاؤں۔ استاد ٹھنڈی سانس لے کر بولے ۔’نہ صرف وہ لوگ جو زندہ ہیں بلکہ وہ بھی جو مرگئے‘
وہ کیسے استاد ؟
’خواب میں آکر۔۔ مومن، غالب اکثر اس قسم کی حرکتیں کرتے رہتے ہیں۔۔ میرا شعر تھا:
بے غیرت ناہید کی ہر تان ہے زمبک
شعلہ سا لپ لپ لپ جھپک
اب آپ دیکھیے، ٹیلی وژن والوں سے معلوم ہوا کہ یہ غالب صاحب کا ہے۔
’مومن کا ہے استا د‘۔۔ :
اس غیرت ناہید کی ہر تان ہے دیپک
شعلہ سا لپک جائے ہے آواز تو دیکھو
’اب یہی دیکھ لیجیے، میں نے بے غیرت ناہید کہا ہے، اور وہ فرماتے ہیں اس غیرت ناہید۔۔۔ ہوئی نہ وہی خواب کی چوری والی بات‘
’صبر کرو‘۔ عمران ان کا شانہ تھپک کر بھرائی ہوئی آواز میں بولا اور استاد میکانکی طور پر آبدیدہ ہوگئے۔۔۔ (پاگلوں کی انجمن ۔عمران سیریز ۔ناول نمبر ۵۸۔اشاعت:یکم جون ۱۹۷۰)
٭
ابن صفی کی تحریروں سے طنز و مزاح پر مبنی مذکورہ بالا انتخاب کرنے کے دوران راقم الحروف کو پنڈت برج نرائن چکبست[۷] کا وہ بیان یاد آگیا جو انہوں نے ’اودھ پنچ‘ کے مزاح نگاروں کے متعلق دیا تھا:
’’ اودھ پنچ کے ظریفوں کی شوخ و طرار طبیعت کا رنگ دوسرا ہے۔ان کے قلم سے پھبتیاں ایسے نکلتی ہیں جیسے کمان سے تیر۔ان کے فقرے دل میں ہلکی سی چٹکی نہیں لیتے بلکہ نشتر کی طرح تیر جاتے ہیں۔ان کا ہنسنا غالب کی زیر لب مسکراہٹ سے الگ ہے۔یہ خود بھی نہایت بے تکلفی سے قہقہے لگاتے ہیں اور دوسروں کو بھی قہقہہ لگانے پر مجبور کرتے ہیں۔‘‘

پنڈت برج نرائن چکبست کا یہ بیان بالخصوص اس وقت بہت یاد آتا ہے جب قاری ابن صفی کے ناولوں میں جاسوسی دنیا کے کردار قاسم اور عمران سیریز کے کردار استاد محبوب نرالے عالم کی زبان سے ادا ہونے والے جملوں اور مذکورہ کرداروں کا احوال پڑھتا ہے۔

کم و بیش ۲۵ برسوں تک اپنے جاسوسی ناولوں کے ذریعے بامقصد انداز میں لاکھوں قارئین کی ذہنی تربیت کرنے والے مصنف ابن صفی کے تحریر کردہ تمام ناولوں کی کئی جہتیں ہیں، ان تمام پر کئی حوالوں سے تحقیقی کام کی گنجائش باقی ہے۔ ابن صفی ایک نثر نگا ر ،ابن صفی ایک جاسوسی ناول نگار،ابن صفی ایک شاعر لیکن ’ابن صفی ایک طنز و مزاح نگا ر‘ کا موضوع ایک اچھوتا اور منفرد موضوع ہے ۔ جب بھی اس پر کام کیا جائے گا، ابن صفی ایک اہم طنز و مزاح نگار کی حیثیت سے پطرس، رشید احمد صدیقی، فرحت اﷲ بیگ، مشتاق احمدیوسفی، ابن انشاء، کرنل محمد خان جیسے مصنفین کی صف میں کھڑے نظر آئیں گے۔

حوالاجات:
[۱]۔اردو ادب میں طنز و مزاح۔ڈاکٹر وزیر آغا۔مکتبہ عالیہ، لاہور۔۱۹۷۷
[۲]۔مشتاق احمد قریشی کو انٹرویو۔ماہنامہ نئے افق،کراچی۔اگست ۱۹۸۶
[۳]۔Stéphane Mallarmé ۔ فرانسیسی شاعر و دانشور۔تاریخ پیدائش: ۱۸ مارچ ۱۸۴۲ ۔ تاریخ وفات: ۹ ستمبر ۱۸۹۸
[۴]۔جوش ملیح آبادی کی خودنوشت آپ بیتی، ’یادوں کی برات ‘کی جانب اشارہ ہے
[۵]۔لڑکیوں کا جزیرہ۔عمران سیریز۔ناول نمبر ۱۰
[۶]۔یادوں کی برات۔شاہد منصور۔ماہنامہ نئے افق، کراچی۔اگست ۱۹۹۳
[۷]۔پنڈت برج نرائن چکبست۔شاعر، ادیب و نقاد۔تاریخ پیدائش: ۱۹ جنوری ۱۸۸۲۔تاریخ وفات: ۱۲ فروری ۱۹۲۶، رائے بریلی، بھارت

Rashid Ashraf
About the Author: Rashid Ashraf Read More Articles by Rashid Ashraf: 107 Articles with 278260 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.