ڈالروں کی آس میں

نہ جانے ہمارے حکمرانوں کو کیا ہوگیا ہے۔ امریکہ ہم سے جتنا زیادہ مطالبہ کرتا ہے۔ ہم اس قدر اس سے ڈالروں کی فرمائش کرتے جاتے ہیں۔ ڈالروں کی اس جنگ میں ہم نے اس قدر لوگوں کو آگ اور خون کے سمندر میں دکھیل دیا ہے کہ اب روزانہ گنتی ہورہی ہے۔ جن لوگوں کو راہ نجات اور راہ راست پر لانے کے لئے یہ ہورہا ہے۔ ان میں سے ۰۴ لاکھ سے زیادہ گھروں سے بے گھر کیمپوں میں پڑے ہیں۔ اور جو راہ راست پر آنے کو تیار نہیں ہیں وہ پہاڑوں پر چڑھے ہوئے ہیں۔ ہماری اس کامیابی کی سند بھی ہمیں امریکہ ہی سے مل رہی ہے۔ وہ بھی امریکی انٹیلی جنس سے۔ گزشتہ دنوں امریکہ کے ڈائریکٹر آف نیشنل انٹیلی جنس ڈینس بلیئر اورپاکستان و افغانستان کیلئے خصوصی نمائندے رچرڈہالبروک نے یہ سند دیتے ہوئے ہماری پیٹھ تھپکی دی ہے اور کہا ہے کہ پاکستانی عوام میں سوات آپریشن کی حمایت مستحکم ہورہی ہے ۔ ڈینس بلیئرنے واشنگٹن میں انٹیلی جنس ماہرین کے ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پہلی مرتبہ دنیا کے اس حصے (سوات ) میں پاک فوج کے آپریشن کو حکومت اور عوام کی حمایت حاصل ہے۔ یہ ماضی کے مقابلے میں ایک مختلف صورتحال ہے جب فوجی آپریشنوں کو بہت کم حمایت حاصل ہوتی تھی۔ انہوں نے کہا کہ اپوزیشن لیڈر نواز شریف بھی حکومت کی حمایت کر رہے ہیں جو آگے کی طرف ایک اہم قدم ہے۔ امریکہ نے ہمیں اس کام کے لئے 30 کروڑ ڈالر دینے کا اعلان کیا جبکہ باقی دنیا سے صرف 20 کروڑ ڈالر مل سکے ہیں۔ اقبال یہ کہ کر غیرت نام ہے جس کا گئی تیمور کے گھر سے ، تیموری شہزادیوں کی غیرت اور حمیت کا ماتم کیا تھا۔ لیکن دنیا میں ایسی قومیں بھی ابھی زندہ ہیں جنہوں نے اس دور میں قومی غیرت کا مظاہرہ کیا ہے۔ ایران اب بھی ایک غیرت مند قوم کی طرح امریکہ کے مقابل ہے۔ ویت نام نے بھی امریکہ کی بالادستی کو قبول نہیں کیا۔ اور برسہا برس ڈٹ کر اس کا مقابلہ کیا۔

دوسری جنگ عظیم کے بعد ویت نام میں ہوچی منہ کی جنگجو یانہ کارروائیوں نے فرانس کو 1954ء وہاں سے نکلنے پر مجبور کیا۔ اس عرصہ میں جنوبی ویت نام امریکہ اور اتحادیوں کے قبضہ میں جا چکا تھا ہوچی منہ کی زیرقیادت شمالی ویت نام سے جنوبی ویت نام پر حملے شروع ہوئے اس کے جواب میں 1964ء میں امریکی فضائیہ نے شمالی ویت نام پر بمباری شروع کردی اور جنوبی ویت نام میں پانچ لاکھ 43 ہزار فوجی داخل کردیئے۔ امریکی فضائیہ نے مسلسل 14 برس1976ء تک شمالی ویت نام پر اتنی بمباری کی کہ ایک ویت نامی لیڈر کے بقول شمالی ویت نام کے کھیتوں میں اناج کی بجائے ہر طرف لوہے کی فصل آگ آئی تھی۔ خود امریکی ترجمانوں کے مطابق ویت نام کی پوری سرزمین پر کوئی جگہ ایسی نہیں بچی تھی جس پر کارپٹ بمباری نہ کی گئی ہو۔ کارپٹ بمباری یعنی بموں کے قالین بچھا دینے کی اصطلاح انہی دنوں ایجاد ہوئی تھی۔ بالآخر شمالی ویت نام نے کامیابی حاصل کی اور جنوبی ویت نام پر قبضہ کرلیا اور دو جولائی1976ﺀ کو دونوں حصے مل کر ویت نام پھر ایک ملک بن گیا مگر اس کامیابی کے پس منظر میں ہولناک خون فشانی کی تاریخ رقم ہوئی ہے۔ 1945ء سے 1976ء تک کے 32 طویل برسوں میں ویت نام کے مجموعی طور پر 12 لاکھ شہری ہلاک٬ 65 لاکھ گھر بدر ہوگئے جب کہ امریکہ کے58 ہزار سے زائد اور اس کی اتحادی فوجوں کے پانچ ہزار 225 فوجی ہلاک ہوئے۔ لیکن یہ ایک آزاد اور خود مختار قوم کی جنگ تھی۔ جس نے لڑنے کا تہیہ کیا۔ ڈالر نہیں مانگے۔ ویت نام نے لاکھوں افراد کے ہلاک اور 65 لاکھ کے گھر بدر ہونے کے باوجود امریکہ اور فرانس جیسی سپر طاقتوں کی بالادستی قبول نہیں کی۔ اس قوم کی سر زمین کا چپہ چپہ لاکھوں امریکی بموں کے لوہے سے ڈھک گیا جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ امریکہ نے ویت نام میں فولاد کی صنعت کے لیے لاکھوں بموں کا اتنا لوہا دے دیا کہ آئندہ کئی برسوں تک فولاد سازی کے لیے باہر سے لوہا منگوانے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ اس ہولناک تباہی کے باوجود ویت نام نے امریکہ کی غلامی قبول نہیں کی۔ لیکن ہم ہیں کہ ڈالروں کی آس میں بھیک مانگ رہے ہیں۔ اگر یہ ہماری جنگ ہے تو ڈالروں کی دھائی کس لئے ۔
Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 387496 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More