بھارت میں بی جے پی اور ایران میں موسوی کی شکست

دنیا کے حالات اور عوام میں شعوری تبدیلی کا پیش خیمہ ہیں
بی جے پی اور موسوی کی شکست کے بعد شروع ہونے والی سیاسی سرگرمی دنیا کے سیاسی افق پر کسی بڑی تبدیلی کی طرف اشارہ کررہی ہے
بھارت میں ”ہندو توا “ اور ایران میں ”اصلاح “ کے نام پر ریا کاری کی شکست اس بات کو ثابت کررہی ہے کہ عوام ظالمانہ سیاست اور غیر مساویانہ ریوں سے بیزار ہوچکے ہیں

ایران میں ہونے والے صدارتی انتخابات کے نتائج سامنے آنے کے بعد اسلام پسندوں اور اسلام مخالفوں میں ٹکراﺅ کی جو صورتحال پیدا ہوئی ہے وہ روز بہ روز نہایت خطرناک صورت اختیار کرتی جارہی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران٬ اسرائیل کے وجود اور امریکی پالیسیوں کا سدا سے مخالف رہا ہے اور اسرائیل کو تمام مسائل کی جڑ اور بدی کا محور قرار دیتا رہا ہے یہی وجہ ہے کہ اسلام پسندوں (محمود احمدی نژاد) کی صدارتی انتخاب میں شاندار کامیابی نے مخالفین کا دن کا چین اور راتوں کی نیند حرام کردی ہے اور اب اسلام کے ازلی دشمنوں نے اسلامی مملکت اور عوامی مینڈیٹ کے خلاف صف آرائی کرلی ہے۔ ایران میں اسرائیلی لابی نے زیر زمین اسلام پسندوں کے خلاف٬ اعتدال پسندوں اور روشن خیالوں کی الگ الگ تحریکیں خاصے عرصہ سے چلا رکھی ہیں جنہیں وہ وقت ضرورت استعمال کرتی رہتی ہے اور اس وقت بھی جو کچھ ایران میں ہورہا ہے وہ سب انہیں تحریکوں کا نتیجہ ہے۔ بہر حال فی الوقت ایران کے سیاسی حالات انتہائی سنگین ہیں آئندہ کیا صورت ہوتی ہے اس پر ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا دوسری جانب ہندوستان کے حالیہ پارلیمانی انتخابات میں بھارتی عوام نے تعصب پرست جماعتوں کی مخالفت میں ووٹ دے کر جس طرح سے بھارت کو ہندو راشٹر میں تبدیل کرنے کی ہندو جنونیت پرستی کو ناکام بنایا ہے اس سے ثابت ہورہا ہے کہ دنیا کے عوام کی نگاہوں میں آہستہ آہستہ سامراجیت کی قلعی کھلتی جارہی ہے اور عوام امن دشمن قوتوں اور پالیسیوں سمیت سامراجیت سے بھی بیزار ہوتے جارہے ہیں یہی وجہ ہے کہ بھارت میں سیکولر دشمن جماعتوں کو شکست وریخت کا جس طرح منہ دیکھنا پڑا ہے وہ نہ صرف ایک دوسرے کو منہ دکھانے کے قابل نہیں سمجھ رہی ہیں بلکہ ان پر پاگل پن کا ایسا دورہ بھی پڑنے لگا ہے کہ اپنے اپنے سر پھوڑ نے پر آمادہ ہیں۔ یہ منظر”سنگھ پر یوار“ کے ہیڈ کوارٹر ناگپور میں بھی دیکھا جاسکتا ہے اور اس کے سیاسی خیمہ” بی جے پی“ میں بھی جہاں ہر شخص و حشت زدہ ہے اور بھگدڑ مچی ہوئی ہے۔

ہندوستان اور ایران کے انتخابی نتائج اور عوامی مینڈیٹ میں جو اشتراک پایا جاتا ہے وہ یہ کہ دونوں ملکوں کے عوام ریا کارانہ سیاست اور ظالمانہ وغیرہ مساویا نہ رویہ سے عاجز آچکے ہیں اور وہ انصاف پر مبنی نظام چاہتے ہیں لیکن دونوں ملکوں کے سیاسی حالات میں ایک نمایاں فرق یہ ہے کہ ہندوستان میں سیکولرازم بنام کمیونلزم (ہندو توا) مقابلہ آرائی ہے ہندوستان ایک ایسا ملک ہے جہاں کثیر اقوام پر مشتمل متعدد مذاہب کے پیروکار بستے ہیں مگر ہندو توا کے علمبردار اپنا من پسند مذہب جس کے ضوابط اونچ٬نیچ٬ چھوت چھات اور ذات برادری پر مبنی ہیں٬ بھارت میں بسنے والی تمام قوموں پر مسلط کر کے بھارت کو ”ہندوراشٹر“ میں بدل دینے کیلئے سرگرم عمل ہیں مگر ہندوستانی عوام نے ان کے نظریہ کو مسترد کر کے سیکولر پارٹی کانگریس کو اقتدار کی زمام کار سپرد کردی تو اقلیت اور بالخصوص مسلمانوں کے دشمن ”سنگھ پریوار“ کے اندر اور باہر طوفان بپا ہے اور وہ آپس میں ہی دست وگریباں ہورہے ہیں۔ عام انتخابات میں بی جے پی کی شرمناک شکست سے بی جے پی ” بھارتیہ جھمیلہ پارٹی“ کا روپ دھار چکی ہے اور اب صورتحال یہ ہے کہ نجانے کب اس کا” انتم سنسکار“ ہوجائے اور بنیاد پرست و جنونی ہندوؤں کے پاس گنگا میں بہانے کے لئے صرف اس کی ” استھیاں “ ہی رہ جائیں۔

پارٹی کے سینئر رہنما اور سابق وزیر خارجہ یشونت سنہا نے پارٹی کے فیصلوں سے ناراض ہو کر مستعفی ہوچکے ہیں اور بی جے پی ان دنوں اپنی سخت گیر ہندو توا آئیڈیا لوجی پر قائم رہنے اور پارٹی کا دائرہ وسیع کرنے کیلئے اپنے نظریہ سے سمجھوتہ کرنے کے مسئلے پر شدید کشمکش کا شکار ہے۔ بی جے پی کا ایک حلقہ اس بات پر مصر ہے کہ اسے ہندو توا کی مربی تنظیم ”راشٹر یہ سویم سیوک سنگھ“ کی ماتحتی میں سخت گیر ہندو آئیڈیا لوجی پر بہر حال قائم رہنا چاہیے کیونکہ اعتدال کا راستہ اختیار کرنے سے وہ سیکولر سمجھی جانے والی کانگریس پارٹی کی ذیلی تنظیم بن کر رہ جائے گی۔ دوسرا حلقہ یہ دلیل پیش کررہا ہے کہ اگر پارٹی کو دوبارہ اقتدار میں آنا ہے تو اسے اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں اور دیگر تمام فرقوں کے احساسات اور جذبات کا بھی خیال رکھنا ہوگا۔ یہ گروپ جرمنی اور دیگر یوروپی ملکوں سے کرسچن ڈیموکریٹ اور ری پبلکن پارٹیوں کا حوالہ دیتا ہے جو اپنے قوم پر ستانہ نظریات پر برقرار رہتے ہوئے دیگر طبقوں کو بھی ساتھ لے کر چلتی ہیں۔

اس وقت بی جے پی کے خیمہ میں مختلف سطحوں پر بحث و مباحثہ اور تبادلہ خیالات کا سلسلہ جاری ہے اور توقع کی جارہی ہے کہ اگست میں منعقد ہونے والی سطحی میٹنگ میں اس کے نتائج سامنے آئیں گے سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق آنے والے دنوں میں یہ پتہ چلے گا کہ بی جے پی میں جیت کس کی ہوگی٬ کیا پارٹی اپنے سخت گیر رویہ ہندو توا کو برقرار رکھے گی یا اقتدار حاصل کرنے کیلئے اپنے اصولوں کو طاق پر رکھ دے گی؟

بہر حال یہ بات پیش نظر رکھنی چاہئے کہ بی جے پی کی شکست کے بعد شروع ہونے والی سیاسی سرگرمی بھارت کے سیاسی افق پر کسی بڑی تبدیلی کی طرف اشارہ کررہی ہے عالمی طورپر بدلتے سیاسی حالات پر نظر رکھنے والوں کے مطابق عوام اب جھوٹے وعدوں اور مکر و فریب کی سیاست سے اوب چکے ہیں۔ وہ بدلاﺅ چاہتے ہیں۔

جمہوری ملکوں میں تو یہ تبدیلی نمایاں ہے لیکن جہاں شہنشاہیت ہے وہاں بھی عوام میں موشگافیاں پائی جارہی ہیں۔ ہندوستان و ایران کے انتخابات کے نتائج اسی تبدیلی کے غماز ہیں۔ دونوں ملکوں کی اپوزیشن جماعتوں کی شکست فاش سے عوامی جذبات و خواہشات کا اندازہ کرلینا کچھ مشکل نہیں رہا اس لئے بھی کہ دونوں ہی ملکوں میں جو لوگ یا جو جماعتیں اپوزیشن کا رول ادا کر رہی ہیں ان کی سانٹھ گانٹھ ان عالمی تنظیموں سے ہے جو اپنے مقاصد کے حصول کیلئے دنیا کے مختلف ملکوں میں سرگرم ہیں۔ ہندوستان میں فاشسٹ تنظیمیں عرصہ دراز سے عالمی یہودی تنظیموں سے سیاسی روابطہ قائم کئے ہوئے ہیں۔ اسی طرح ایران میں بھی احمدی نژاد مخالف سرگرمیوں کے پس پشت وہی یہودی لابی ہے جو علامہ خمینی کی تحریک سے قبل پورے ایران پر چھائی ہوئی تھی کیونکہ ایران میں اسلام بنام یہودیت محاذ آرائی ہے اور یہودی لابی یہ اچھی طرح جانتی اور سمجھتی ہے کہ اگر ایران میں اسلامی حکومت قائم رہتی ہے تو ان کے عالمی کازاور عزائم کو شدید نقصان پہنچے گا اور وہ اپنے مقصد میں کلی طور پر کامیاب نہیں ہوسکے گی اس لیے اس وقت اپنی پوری پروپیگنڈہ مشینری کے ساتھ احمدی نژاد کے خلاف محاذ آراء ہے اور اس کوشش میں بھی ہے کہ از سر نو انتخابات کرا کے نژاد کی جیت کو ہار میں بدل دیا جائے۔

یہی صورت حال ہندوستان کی بھی ہے جہاں فاشسٹوں کو سیکولرازم یا اس کا کردار برداشت نہیں ہورہا اور ہار جانے کے باوجود اپنے اغراض مقاصد کی تکمیل کیلئے آپس میں ہی تکراریں ہورہی ہیں جو بعض لوگوں کے مطابق مستقبل کی حکمت عملی کے تحت ڈنڈ بیٹھک بھی ثابت ہوسکتی ہیں۔
Imran Changezi
About the Author: Imran Changezi Read More Articles by Imran Changezi: 63 Articles with 67522 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.